آخری باب؛ چُھپا ہمدم (پارٹ سیکنڈ)

932 75 8
                                    

"دیکھا میں نے کہا تھا آپ مذاق ہی اڑائیں گیں میرا۔۔"
وہ منہ پھولا کر کہتی ہوئی آج جزیل کی طرح شائستہ کو بھی بہت حسین لگی تھی۔ اور لگتی بھی کیوں نہ اس کے بھائی کی بچپن کی پسند تھی۔۔۔
"اچھا سوری"
شائستہ نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
"کتنی بری بات ہے ویسے"
روز نے مزید خفا ہوتے ہوئے کہا تھا شائستہ کو اب تھوڑا سنجیدہ ہونا ہی پڑا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ روز اس سے ناراض ہو کر وہاں سے چلی جائے۔
"تمہیں یہ بات کنفرم ہے میرا مطلب ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم وقتی پسند کو محبت کا نام دے رہی ہو۔۔"
شائستہ نے اسے جانچتے ہوئے پوچھا تھا۔
"آپی یہ کوئی آج کیا کل کی بات نہیں ہے اس بات کو کئی عرصہ بیت چکا ہے۔۔۔پر یقین جانیں۔۔۔میری بچپن کی محبت ہے آپ کا بھائی پر مجھے تو یہ لگتا ہے کہ وہ دنیا کا سب سے زیادہ کھڑوس انسان ہے۔۔۔مطلب آپی یہ کیسے ممکن ہے کہ اسے تب سے لے کر آج تک اس بات کا احساس نہ ہوا ہو۔۔۔ ایک بار بھی نہ ہوا ہو۔۔"
روز نے سچے دل سے کہا تھا۔۔۔
"ھاھاھا چلو اس کو چھوڑو یہ بتاؤ تم نے آج تک کسی اور سے یہ بات شیئر کی ہے؟"
شائستہ نے اس سے یہ پوچھنا ضروری سمجھا تھا۔۔
"آپی اگر سچ کہوں تو وہ پہلی انسان آپ ہی ہیں جس سے میں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا راز شیئر کیا ہے ورنہ تو میں ہمیشہ سے اپنی ساری باتیں اللہ سے ہی شیئر کرتی ہوں۔۔"
"ہاں اور یہ اس کا حق ہے کہ دل کی تمام باتیں اسی سے شئیر کی جائیں۔ جانتی ہو وہ تو چُھپا ہمدم ہے۔۔"
شائستہ نے مسکرا کر کہا تھا۔
"وہ کیسے آپی؟ "
روز الجھ گئی تھی اس کی بات سے۔
"ارے بھئی بہت آسان مطلب ہے اس بات کا۔ اللہ ہمارا چھپا ہمدم ہوتا ہے وہ ہر پل ہمارے ساتھ ہوتا ہے وہ ہمارے جیسے تو نہیں ہے نا کہ جب دل کیا یاد کر لیا جب کوئی ضرورت محسوس ہوئی تو اللہ کو یاد کر لیا وہ تو ہر پل ہمارے ساتھ ہوتا ہے ہر پریشانی اور ہر خوشی میں بھی ہمارا ساتھ دیتا ہے۔۔وہ چھپکے سے تمام معاملات میں ہماری مدد کر دیتا ہے اور ہم اتنے نادان ہیں کہ ہمیں اس بات کا علم تک نہیں ہوتا۔۔۔دراصل بات یہ ہے کہ ہم بہت ناشکرے انسان ہیں۔۔۔"
شائستہ نے مسکرا کر اپنی بات مکمل کی تھی۔۔
"آپی مجھے تو اس بات کا کبھی احساس نہیں ہوا۔۔۔کتنی صحیح اور گہری بات کی ہے آپ نے واقعی ہم لوگ بہت ناشکرے ہیں ہم لوگ تو کبھی اس بارے میں سوچتے ہی نہیں اور ہر وقت اس سے گلے شکوے کیے رہتے ہیں۔۔۔"
روز نے سچ کہا تھا۔۔
"ہاں میں نے بھی کچھ سال پہلے ہی یہ بات بہت گہرائی سے محسوس کی تھی۔۔جانتی ہو کب؟"
شائستہ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"بتائیں آپی کب اور کیسے؟؟"
"روز تمہیں پتا ہے جب میرے شوہر کا انتقال ہوا تھا تب میں نے خود کو بہت اکیلا اور بہت تنہا محسوس کیا تھا۔۔۔ اس کی جدائی نے مجھے میری رب کے بہت قریب کر دیا تھا۔ تب میں نے یہ حقیقت جانی کہ وہ اللہ ہی کی ذات ہے جو ہر پل ہر دم ہمارے ساتھ ہوتی ہے۔۔بے شک وہ چھپا ہمدم ہے۔۔۔۔وہ ہر معاملے میں ہمارا بھرپور ساتھ دیتا ہے۔۔۔ ہاں یہ لازم ہے کہ وہ معاملہ بھلائی کا ہو۔۔۔پتا ہے وہ تو چھپ کر ہر معاملے میں ہماری یوں مدد کرتا ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔۔۔"
"کیا سچ میں آپی؟"
روز نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا تھا اسے یقین نہیں آیا تھا کہ آج تک اسے اس بات کا احساس کیوں نہیں ہوا تھا۔
"جی ہاں اور تم نے خود بھی فیل نہیں کیا ؟؟ تمہارے معاملے میں بھی تو ایسے ہی ہے بلکہ اللہ تو ہر ایک کی زندگی میں ایک چھپے ہمدم کی طرح موجود ہے۔۔جو ہر کسی کی ہر طرح سے مدد کرتا ہے اور مدد کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتا کہ وہ بندہ اس کا کتنا گناہگار ہے وہ تو بس یہ دیکھتا ہے کہ وہ بندہ اس کا اپنا بندہ ہے جسے وہ ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔۔۔"
شائستہ اسے بتایا تھا۔۔
"میرے معاملے میں کیسے؟"
روز نے مزید حیران ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
"دیکھو تم محبت کرتی ہو نا جزیل سے اور کتنے عرصے سے یہ تمہارے علاوہ تمہارا رب جانتا تھا نہ اور تمہارے رب نے دیکھو تمہاری دعائیں تمہارے فریادیں کس طرح قبول کرلیں اور کس طرح ایسا راستہ بنا دیا کہ جو کسی کی سوچ میں بھی نہیں آسکتا تھا۔۔۔اب ہر کسی کے نکاح یہ تھانے میں تو ہوتے نہیں ہیں اور تم دیکھو تمہارا تمہارے رب سے رابطہ تعلق کتنا قریبی ہے نا کہ اس نے تمہاری تمام دعاؤں پر کن کہہ دیا۔۔۔
وہ تمہاری زندگی میں بھی تمام انسانوں کی زندگی کی طرح ایک چھپے ہمدم کے روپ میں موجود ہے۔۔ مگر اس بات کو محسوس کرنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔۔اب سمجھ آئی تمھیں میری بات ہاں؟؟"
روز کو تو سب سمجھ آ گیا تھا اس نے تو سوچ لیا تھا کہ وہ یہاں سے جا کر پہلی فرصت میں اپنے پیارے اللہ تعالی کا شکر ادا کرے گی۔۔
"جی آپی میں سمجھ گئی۔۔۔"
"ہاں شاباش اور تم اس معاملے میں بھی فکر مند ہونا چھوڑ دو میں نے اکثر دیکھا ہے تم بہت پریشان ہوتی ہو اب یہ سارا معاملہ اپنے چھپے ہمدم پہ ہی چھوڑ دو۔۔۔"
شائستہ نے مسکرا کر کہا تھا وہ روز کو بھی خوش دیکھ کر مطعین ہوگئی تھی۔۔
"اوکے آپی میری ذرا عشاء کی نماز رہتی میں وہ پڑھ لوں"
روز نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا
"ہاں جاؤ اور میری باتوں کا دھیان رکھنا"
شائستہ نے مسکرا کر کہا تھا روز بھی کمرے سے باہر جانے کے لئے نکلی اور وہاں پہلے سے موجود کھڑے جزیل کو دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو اور یوں دروازے سے کان لگا کر کیوں کھڑے تھے ہاں؟؟"
روز نے شدید حیرت سے جزیل کو دیکھا تھا جو معصوم بننے کی ناکام کوشش کر رہا تھا اور تب سے شائستہ کے کمرے میں ہونے والی روز اور شائستہ کی تمام باتیں سن چکا تھا۔۔۔وہ تو پہلے سے ہی جانتا تھا کہ روز اسے کتنی گہری محبت کرتی ہے پر اس نے روز پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ اسے اس کی محبت کے بارے میں معلوم ہے۔۔اور اب بھی سوچ رہا تھا کہ کیا عذر پیش کرے اور روز کا شک دور کرے۔۔
"نظر نہیں آرہا کیا یہاں سے گزر رہا تھا بس اور تم تو ایسے شک کر رہی ہو جیسے میں نے پتا نہیں کیا کر دیا ہو"
جزیل اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا۔۔اور اس نے بالکل ایسے ظاہر کیا تھا جیسے واقعی اس نے شائستہ اور روز کے درمیان ہونے والی باتیں سنی ہی نہ ہوں ۔۔اور ہماری پیاری سی معصوم سی روزینہ اسے واقعی ہی اندازہ نہیں ہوا۔۔۔
"ہاں ٹھیک ہے۔۔"
روز کہہ کر وہاں سے جانے لگی تھی جزیل نے بھی ایک لمحے میں شکر ادا کیا تھا کہ روز بغیر کسی تفتیش کے وہاں سے جانے لگی تھی لیکن وہ اگلے ہی لمحے مڑی تھی اور مڑ کر دوبارہ جزیل سے مخاطب ہوئی۔۔
"وہ جزیل مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے۔۔"
"ہاں بولو۔۔۔"
"چلو رہنے دو میں شائستہ آپی سے کر لوں گی اوکے بائے"
روز اسے اپنی طرف توجہ سے دیکھتا ہوا پا کر وہاں سے شرارت سے بھاگ گئی تھی اور جزیل وہ اس کی اس شرارت پہ ہنس دیا تھا کیونکہ روز جانتی تھی کہ جزیل کو بہت غصہ آتا تھا جب کسی بات کا ذکر یوں سسپینس میں کر کے پھر بعد میں بتائی نہ جاتی تھی۔۔۔۔جزیل بس مسکرا کر اسے جاتا ہوا دیکھ کر رہ گیا تھا۔۔عجیب بات تھی کہ اسے روز کی ہر شرارت عزیز تھی اور اسے کبھی روز پر غصہ نہیں آسکتا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یا اللہ میں تیرا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ تو بہت کم ہے یا اللہ مجھے تو آج شائستہ آپی کی باتوں سے احساس ہوا ہے کہ میں کتنی ناشکری ہوں میں نے تو اس بات کا شکریہ ادا نہیں کیا۔۔۔آپ نے میری برسوں پرانی محبت کو میرا محرم بنا دیا۔۔۔ یااللہ میں تیری شکرگزار بندی ہوں اور میں ہمیشہ تجھ سے ہی اپنی تمام تر آرزوئیں اور خواہشات کی تکمیل چاہوں گی۔ اور اگر کسی معاملے میں ایسا نہ بھی ہوا تو بھی میں تیرا ہمیشہ شکر ادا کرتی رہوں گی کیونکہ میں یہ جانتی ہوں کہ میرے رب کے فیصلے کمال ہیں ان میں کوئی زوال نہیں۔۔"
وہ جائے نماز پر بیٹھ کر اپنے اللہ سے باتیں کر رہی تھی کہ اسے اپنے موبائل کی آواز آنے لگی موبائل پر اس کی ممی کی کال آرہی تھی اس نے اٹھ کر جائے نماز رکھا اور ممی کو کال کی جن کا فون اب بج بج کر بند ہوچکا تھا۔۔
"السلام علیکم ممی کیسی ہیں آپ اور بابا کیسے ہیں آپ لوگوں کا کیا پلان ہے آنے کا۔۔؟"
"وعلیکم اسلام میری جان ایک ساتھ ہی اتنے سوال کر دیتی ہو تم بھی۔۔۔ ہم دونوں ٹھیک ہیں اور انشاءاللہ چاند رات سے ایک دو دن پہلے تمہارے پاس ہوں گے تمہارے بابا جان نے ابھی ٹکٹس نہیں کروائیں مگر پروگرام تو یہی ہے۔۔"
"ارے واہ ممی یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔۔۔"
روز خوشی سے چہک کر بولی تھی وہ بھی اپنی ممی اور بابا جان سے بہت اداس ہو گئی تھی۔۔
"ہاں بیٹا اور ویسے بھی پھر عید کے بعد ہم لوگ واپس چلے جائیں گے تم دونوں کو لے کر اور پھر تمہارا نکاح بھی تو ہے۔۔۔"
انہیں شاید یہ لگا تھا کہ روز حذیفہ کے ساتھ نکاح کی بات بھول چکی ہوگی اس لئے انہوں نے دوبارہ ذکر کرنا ضروری سمجھا تھا۔۔
"جی ممی اوکے میں ذرا سونے لگی تھی نیند بہت آرہی ہے آپ سے کل بات ہوگی۔۔"
روز نے بہانہ بناتے ہوئے کہا تھا حذیفہ کے ساتھ نکاح کا دوبارہ سے سُن کر اسے پھر سے بے چینی ہونے لگی تھی۔۔
ایک دو اور باتیں کرکے اپنی ممی کو اللہ حافظ کہہ کر وہ سونے کے لئے لیٹ گئی تھی اور اس نے نیند کی آغوش میں جانے سے پہلے صرف ایک بات کہی تھی
یا اللہ میں اپنے تمام معاملات کو تیرے سپرد کرتی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میرے تمام معاملات مجھ سے بہتر آپ ہی سنبھال سکتے ہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جزیل بھائی سنیں تو"
سنی نے جزیل کو لاؤنج سے راہداری میں جاتے ہوئے دیکھا تو فوراً سے آواز لگائی۔۔
"ہاں بول پر یہ سن لے کہ موٹے میں تیرے لیے کچھ بھی نہیں لاؤنگا باہر سے۔۔"
جزیل نے وہاں سے واپس آتے ہوئے کہا تھا اور اس کے ساتھ صوفے پر براجمان ہوگیا تھا سنی اس کو شرارت سے تکی جا رہا تھا اور جزیل اس بات کو محسوس تو کر چکا تھا مگر اس نے ہمیشہ کی طرح اس پر ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔۔
"ہاں بول بھی کیا کہنا تھا؟"
جزیل اس کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔
بھائی آپ ذرہ میرے ساتھ تمیز سے مخاطب ہوں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس بدتمیزی کی وجہ سے آپ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے"
سنی نے اس کو دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا تھا جزیل اس کی بات سمجھ نہ پایا اس لیے اس کے کان پکڑ کر بولا۔۔
"بیٹا یہ جو تری بدتمیزی ہے نا میں بھی بدتمیزی کر کے نکالوں گا"
جزیل بھی شرارت سے بولا تھا کیونکہ وہ شاید کچھ کچھ سمجھ چکا تھا۔۔
"کیا بھاری نقصان ہوگا ہاں بتا تو ذرا؟؟"
جزیل نے اس سے بات اگلوانے کا فارمولا نمبر ون اپلائی کیا تھا۔۔
"وہ تو آپ کو بعد میں پتا چلے گا خیر جزیل بھائی ایک بات بولوں"
سنی شرارت سے اس کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔
"ہاں بول اب کیا تجھے لکھ کے اجازت دیا کروں بولنے سے پہلے؟؟"
جزیل اس کے ڈراموں سے تنگ آ گیا تھا اور شاید یہی وہ موقع تھا جب وہ سمجھتا یا اس بارے میں سوچتا کہ جب وہ اتنے ڈرامے بلکہ ڈراموں سے آگے حد تک کی بات تھی اس کی تو۔۔۔ تو دوسروں پر کیا بیتتی ہو گی پر وہ بھی جزیل مصطفی تھا اسے کسی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔۔
"آپ نے تو بڑا لمبا ہاتھ مارا ہے"
سنی نے لمبا کو لمبا کرتے ہوئے اس کو شرارت سے دیکھتے ہوئے بولا تھا
"کیا مطلب ہے تیرا لمبا ہاتھ ہے تمیز سے بتا دے مجھے ؟"
جزیل نے حیرت سے اس کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
"یہی کہ بھائی آپ نے تو میری آپی ہی پٹا لی"
سنی شرارت سے بولا تھا۔ اس کی اس شرارت کے جواب میں جزیل نے اس کا منہ بہت زور سے بند کیا تھا۔
"کیا بکواس کر رہا ہے تو ہیں؟؟ اور تجھے شرم نہیں آتی اپنے ہی بہن کے بارے میں ایسے باتیں کر رہا ہے؟"
جزیل تھوڑا سخت لہجے میں بولا تھا کیونکہ سنی سے کوئی بعید نہیں تھی کہ وہ ابھی انور کو فون کرکے سب کچھ بتا دیتا۔۔
"اوہ یہ تو میری غیرت کا معاملہ ہے ہاں بھائی آپ کو شرم نہیں آئی میری بہن کے ساتھ فرار ہوئے تھے آپ؟"
وہ اس کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے ہٹاتے ہوئے بولا تھا لیکن جزیل کو اپنی طرف گھورتا ہوا دیکھ کر تھوڑا آہستہ آواز میں بولا تھا یوں جیسے وہ سرگوشی کر رہا ہو۔۔
"شرم کر سنی میں فرار نہیں ہوا اس کے ساتھ۔۔ اور تجھے کیا پتا ہے جتنا شوخا بنا ہوا ہے تو ؟؟"
جزیل اس کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
"بس یہی کہ آپ دونوں کا انتہائی ذلالت کے رویے برداشت کرنے کے بعد تھانے میں ہی نکاح کردیا گیا اور پھر گھر آئے تو شائستہ آپی نے بھی اچھی خاصی واٹ لگائی۔۔"
سنی ہنستے ہوئے بولا تھا اور وہ ہنستے ہوئے اتنا پیارا اور معصوم لگ رہا تھا کہ اس کے انداز بیان پر جزیل کی بھی ہنسی نکل گئی اور وہ دونوں ہنسنا شروع ہو گئے۔
"چل اب کسی اور کو مت بتائیں ٹھیک ہے۔۔"
جزیل نے اس کے بال خراب کرتے ہوئے کہا تھا۔۔
"کسی کو نہ بتانے کا مجھے کیا ملے گا؟؟"
سنی نے اس کو گھورتے ہوئے کہا تھا۔۔
"تجھے تو میں ایسا جھاپر دوں گا نہ کہ یاد رکھے گا۔۔"
وہ بس دل میں ہی کہہ پایا تھا کیونکہ اگر زبان سے کہہ دیتا تو سنی ابھی جا کر پورے خاندان میں ڈھنڈورا پیٹ کے آ جاتا۔۔
"تجھے بہت جلد تیرا گفٹ مل جائے گا ٹھیک ہے چل میں جارہا ہوں بائے"
وہ جاتے جاتے اس کے بال خراب کرنا نہ بھولا تھا اسے سنی نے غصے سے گھورا تھا جو پلک جھپکتے ہی وہاں سے غائب ہوگیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چُھپا ہمدم (COMPLETED)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora