"بولو بیٹا ہم ہمہ تن گوش ہیں؟"
انور نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
"پہلے آپ لوگوں کو وعدہ کرنا ہوگا کہ آپ لوگوں نے جو بھی کرنا ہوگا اور جیسا بھی کرنا ہوگا وہ آپ سب میرے ساتھ کریں گے روز کو کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا"
جزیل سنجیدگی سے بولا تھا۔۔
"پر بیٹا ایسی بھی کیا بات ہے جو تم اتنے سنجیدہ لگ رہے ہو؟؟"
فرحت نے پریشان ہوتے ہوئے کہا تھا
"میں بتا رہا ہوں کہ اگر آپ نے جوتے بھی مارنے ہوں گے تم مجھے ماریں گے کیونکہ روز کی اس میں کوئی غلطی نہیں تھی اور روز کو کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا"
"بیٹا اب بول بھی دو میرے تو دل میں ہول اٹھنے لگے ہیں کہ نہ جانے ایسی کونسی بات ہے جس کے لیے تم اتنی تمہید باندھتے جا رہے ہو۔۔"
کلثوم نے پریشانی سے کہا تھا
"بات دراصل یہ ہے کہ۔۔میرا اور روز کا۔۔۔ نکاح ہو چکا ہے آپ سب اسے تسلیم کریں یا نہ لیکن یہی حقیقت ہے اور میں نے پہلے بھی کہا تھا آپ نے جو کرنا ہے جو کہنا ہے وہ سب مجھے کہیں کیونکہ روز کی اس میں کوئی غلطی نہیں تھی دراصل ہوا یوں کہ۔۔۔" اور ساتھ ہی اس نے سارا واقعہ سچ سچ سب کو بتا دیا تھا۔۔
جزیل مصطفی بھی آخر جزیل مصطفی تھا وہ کسی سے ڈرتا نہ تھا اور بہت مضبوط اوصاف کا مالک تھا اس نے ساری بات بغیر کسی خوف و ڈر کے کہہ دی تھی اس بات کے خوف کے بغیر کوئی اس کے بارے میں کیا سوچتا ہوگا یا اس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے ،وہ اپنے ارادوں کا پکا تھا اور جو سوچ لیتا تھا وہ کر کے ہی دم لیتا تھا۔۔
"یہ تم کیا کہہ رہے ہو!!!"
فرحت نے غم و غصے سے اسے مخاطب کیا تھا۔۔
وہ سب تو جیسے حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے فرحت نے بے یقینی سے شائستہ کو دیکھا اس نے بھی سر اثبات میں ہلا دیا وہ سب لوگ تو جیسے سکتے میں چلے گئے تھے الفاظ تو جیسے منہ سے نکلنے سے انکاری تھے۔۔۔
"تم تو بھئی چھپے رستم نکلے ہاں۔۔۔ ہم لوگ تو یہی سوچ کر آئے تھے کہ آ کر آپ سے صاف صاف بات کریں گے لیکن تم نے۔۔۔ تم نے تو پہلے ہی سارا معاملہ نپٹالیا لیکن اب مجھے ایک افسوس سا ضرور ہے کہ میں اپنی بیٹی کے نکاح میں شامل نہیں ہو سکا"
انور کی خوشی سے بھری ہوئی آواز پر سب نے چونک کر انہیں دیکھا تھا سب سمجھ رہے تھے کہ اب کسی شدید قسم کے رد عمل کا اظہار کیا جائے گا اور جزیل کے منہ پر تین چار تھپڑ تو جھڑ ہی دیے جائیں گے لیکن ان کے اتنے غیرمعمولی جواب پر وہ سب حیران ہوئے تھے۔
"ہاہاہاہا ماموں جان آپ فکر ہی نہیں کریں آپ کے لئے ہم لوگ دوبارہ نکاح کر لیں گے
جزیل نے ان سب کو مطمئن اور خوش دیکھ کر شرارت سے بولا تھا اور اس کی بات پر سب لوگ ہنس دیے تھے۔۔۔
"ہاں ہاں وہ تو اب ہوگا ہیں کیونکہ میری یہ دلی خواہش ہے کہ میں اپنی بیٹی کے نکاح میں ضرور شامل ہوں اور ہم لوگ تو پہلے ہی یہی چاہت اور خواہش لے کر یہاں آئے تھے اور دیکھو اللہ کے کام تم لوگ تو پہلے ہی ایک اس خوبصورت رشتے میں بندھ چکے ہو۔۔"
انور مسکرا کر بولے تھے۔ ان کی بات پر کلثوم بھی مسکرا دی تھی اور فرحت کے ساتھ ساتھ شائستہ کو بھی تسلی حاصل ہوگئی تھی۔۔
"جی جی ضرور مگر ماموں جان آپ جانتے ہیں کہ روز تو اتنی پریشان ہے اس دن کی کہ اس نے مجھے یہاں تک کہہ دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں کہ وہ آپ دونوں کی خوشی اور اجازت کے بغیر میرے ساتھ بھی نہیں رہنا چاہتی۔۔۔"
"مجھے فخر ہے اپنی بیٹی پر مجھے پتا تھا اس کا ایسا ہی کوئی اظہار ہوگا۔۔۔"
انور فخر سے بولے تھے۔۔
"جی ماموں جان بس اب میرے دل سے بھی بوجھ اتر گیا ہے اور آپ نے بھی مطمئن ہوگیا ہوں کہ آپ سب کو اس سے کوئی اعتراض نہیں۔۔ایسا ہی ہے نا؟؟"
"اور کسی کو ہو نہ ہو مجھے تو ضرور ہے ان سب کی نے مل کر حیرانی سے سنی کو دیکھا تھا جو اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کے لیٹا جزیل کو ہی گھوریوں سے نواز رہا تھا۔۔"
سنی کی بات پر سب لوگ حیرت میں مبتلا ہوگئے تھے
"تمہیں کیوں اعتراض ہے؟؟؟ اور ویسے بھی تمہیں اگر ہے بھی تو رہے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا"
جزیل نے شریر مسکراہٹ لئے کہا تھا
"ممی کیا آپ جانتی ہیں جزیل بھائی نے مجھے چپ رہنے کے لیے کہا تھا کہ میں تمہیں بہت جلدی گفٹ دوں گا اور میں آج تک ان کے اس گفٹ کا انتظار کر رہا ہوں اس لئے مجھے تو بہت بڑا اعتراض ہے اور میں اپنے آپی کو اس طرح سے آپ کے ساتھ رخصت نہیں کروں گا جب تک میرا گفٹ نہیں دے دیں گے "
سنی منہ پھولاتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
"چل تیرا گفٹ تو ویسے آچکا ہے دینے کا میرا دل نہیں کر رہا تھا لیکن اگر میرا بھائی ناراض ہے تو پھر دے دیتے ہیں کیوں شائستہ باجی؟؟"
جزیل نے شرارت سے کہا تھا شائستہ نے بھی اسے دیکھ کر مسکرا کے ہاں میں سر ہلا دیا تھا سنی تو بس حیران ہو کر ان دونوں شریر بہن بھائیوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
"جزیل بھائی میرے پیارے بھائی دیں نا مجھے میرا گفٹ دیکھیں مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے میں تو کہتا ہوں آج ہی آپ لوگوں کو رخصت کر دیتے ہیں نا میں پلیز میں رکھیں تو دے دیں۔۔۔"
سنی نے ساتھ ہی پینترا بدلا تھا اس کی اس بات پر سب لوگ ہنس دیے تھے اور شائستہ نے اس کا گفٹ اس کے حوالے کردیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جزیل تم نے مجھے بلایا؟"
آج چاند رات تھی اور آج جزیل نے روز کو میسج کر کے چھت پر بلایا تھا۔۔روز نے آتے ساتھ اس سے پوچھا تھا۔۔وہ بہت پریشان تھی اتنے دن تک ان دونوں کے درمیان طالق والی بات کے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی تھی اور آج جزیل نے بھی اسے اسی طرح سے چھت پہ بلایا تھا جیسے اس نے میسج کیا تھا وہ بہت پریشان تھی کہ کہیں جزیل نے اسے طلاق دینے کے لئے تو نہیں بلایا۔۔۔
"ہاں وہ تمہیں طلاق چاہیے تھی نا؟؟؟"
جزیل نے جان بوجھ کر اتنا جملہ کہا تھا اور روز اس کی تو اسی میں اتنی بری حالت ہوگئی تھی وہ ایک دم سے کانوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر چلائی تھی۔۔ آج اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔
"جزیل پلیز۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔ مجھ پر رحم کھاؤ تم"
روز نے تڑپ کر جزیل کو دیکھا تھا اس کی آنکھوں سے آنسو روانی سے بہہ رہے تھے جزیل کو تو اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی تھی لیکن اسے تھوڑی دیر مزید روز کو تنگ کرنا تھا۔۔۔
"ارے پر میں نے کونسا ظلم کیا ہے تم پر اور تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ تمہیں مجھ سے طلاق۔۔۔"
جزیل نے بس اتنا ہی جملہ بولا تھا کہ روز جلدی سے آگے آئی تھی اور اس کا گریبان پکڑ کر اس کو جھنجوڑ ڈالا تھا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
"تمہیں ترس نہیں آتا مجھ پر؟؟۔۔۔ ہاں؟؟؟ کب سے کب سے تم یوں ہی مجھے تکلیف دیتے جا رہے ہو۔۔۔۔۔ کیا تم مجھ پر ایک احسان کر دو گے؟؟مجھے اتنی بار مارنے سے بہتر ہے کہ تم مجھے ایک ہی دفعہ مار ڈالو۔۔۔۔"
اس نے جزیل کے دونوں ہاتھ اپنی گردن پر رکھ دیے تھے
"جزیل پلیز۔۔۔۔۔ کیوں مجھے تم اتنا تنگ کرتے ہو اتنا تڑپاتےہو؟؟؟؟ تم پر میں مرتی ہوں۔۔۔ تو کیا تم مجھے مار ہی ڈالو گے؟؟؟"
روز ہچکیاں لیتے ہوئے بولی تھی وہ سسکی تھی اس کی تکلیف آج پہلے سے بھی بہت بھر گئی تھی اور اس کے دل کا بوجھ آج ایسے ہی ہلکا ہونا تھا کیونکہ اس کے دل میں جزیل کے دیے گئے زخم بہت زیادہ گہرے ہوچکے تھے۔۔۔
جزیل تو جیسے اس کے اس انداز پر ہی گم ہوگیا تھا اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ روز کبھی اس طرح بھی اس سے ہم کلام ہو گی۔۔۔۔اس کو خاموشی سے اپنی طرف دیکھتا ہوں آپ آکر روز پھر سے روتے ہوئے بولی تھی
"جزیل مصطفی۔۔۔۔۔ میں۔۔۔ روزینہ انور۔۔۔۔۔ تم سے کئی برسوں سے۔۔۔۔ بہت۔۔۔۔ بہت۔۔۔۔ زیادہ بہت۔۔۔۔ شدید۔۔ قسم کی۔۔۔ محبت کرتی ہوں تم کبھی نہیں سمجھ پائے یا شاید تم سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔۔۔۔ مگر آج تم نے مجھے اس قدر بے بس کردیا ہے کہ مجھے خود اپنی زبان سے اقرار کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ تم۔۔۔ تم کتنے بے حس ہو۔۔۔۔ جزیل۔۔۔۔"
اس نے جزیل کے سینے پر مکا مارا تھا۔۔۔۔
"تم نے۔۔۔۔۔ تم نے تو مجھے اتنی تکلیف دی ہے۔۔۔۔ کہ کوئی بھی نہیں دیتا۔۔۔مگر اس سب کے باوجود میں تمہاری دی ہوئی ہر تکلیف کو مسکرا کر سہ لیتی ہوں۔۔۔۔ نہ جانے کیوں۔۔۔۔۔ میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔ لیکن پھر بھی تم اس بات کو آج تک نہیں سمجھ پائے۔۔۔۔۔۔ میں تم سے۔۔۔۔ اور صرف تم سے بہت زیادہ۔۔۔۔۔ بہت زیادہ۔۔۔۔ محبت کرتی ہوں پلیز جزیل اب بس کرو۔۔۔۔ مجھے نہیں چاہیے تم سے طلاق۔۔۔۔ تم مجھے کبھی تنہا مت کرنا۔۔۔۔اگر تم نے کیا تو میں۔۔۔۔ میں۔۔۔ مر جاؤں گی۔۔۔"
وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔ اس کے آنسو جزیل کے ہاتھ پر گر رہے تھے جو اس نے تب کا تھاما ہوا تھا جب روز نے اس کے سینے پر مکا مارا تھا۔
"ہم اپنے درد کا شکوہ تم سے کریں کیسے۔۔
محبت تو ہم نے کی ہے۔۔ تم تو بے قصور ہو۔۔"
روز سسکتے ہوئے بولی تھی آج اس کی ہمت جواب دے گئی تھی اور وہ مجبوری میں سب کچھ بول گئی تھی جو شاید وہ کبھی نہ بولتی اور جزیل اس کی تو مانو جیسے دنیا ہی بدل گئی ہو اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ روز یوں کبھی اس کے اتنے قریب ہوکر اس سے اپنی محبت کا اظہار کر رہی ہوگی بس اب اس نے بھی سوچ لیا تھا کہ اب مزید وہ روز کو پریشان نہیں کرے گا۔۔
"روزینہ انور کیا یہ آپ کا آخری فیصلہ ہے؟ "
جزیل نے مسکراتے ہوئے روز کو دیکھا تھا روز نے حیرت سے جزیل کا یہ مسکراتا ہوا جملہ سنا تھا۔۔۔
"روز میری جان تم مجھ سے تو شکوہ کر رہی ہو کہ میں کبھی نہیں سمجھ سکا مگر تم خود۔۔۔۔ تم خود بھی تو نہیں سمجھا سکی نہ؟؟؟"
جزیل نے اس کو الجھن میں ڈال دیا تھا اور پھر خود ہی اس کی الجھن دور کرنے لگا تھا۔۔۔
"روز میں کبھی نہ بتاتا لیکن آج تمہیں ایسے تڑپ کر روتا دیکھتے ہوئے میں نے بھی اپنا ارادہ بدل دیا ہے تم جانتی ہو جب میں تم سے پاکستان دوبارہ آنے پر پہلی دفعہ ملا تھا میں تو تب سے ہی تم سے محبت کرنے لگا ہوں۔۔۔۔ بہت زیادہ۔۔۔۔ بہت شدید۔۔۔۔ میں تب یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ محبت کس بلا کا نام ہے۔۔۔۔ لیکن مجھے اس بلا نے بہت بری طرح اپنی قید میں جکڑ لیا تھا اور جانتی ہو۔۔۔ مجھے بھی اس کی قید سے چڑ نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی میں اس کی قید سے تنگ پڑتا تھا۔۔۔۔ مجھے تو وہ قید بھی کتنی حسین لگتی تھی۔۔۔۔اور مجھے اس قید سے ہی عشق ہو گیا۔۔۔ کہ میں آج تک اس قید سے خود کو نکال نہ سکا۔۔۔اور تم سے میری محبت شدید سے شدید تر ہوتی گئی۔۔۔۔ اور دیکھو آج وہی محبت عشق کے رتبے پر فائز ہو گئی ہے۔۔۔۔"
روز تو حیرت سے جزیل کے یہ اظہار دیکھ رہی تھی اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ جزیل بھی اس سے محبت کرتا ہوگا اور اتنی شدید کرتا ہوگا وہ تو بس سکتے میں چلی گئی تھی اور حیرت سے اس کی باتیں سن رہی تھی
"ہاں روز اتنی حیران مت ہو۔۔۔سچ میں۔۔۔ میں بھی تم سے اتنی ہی شدید اور اتنی گہری محبت کرتا ہوں جتنی تم کرتی ہو۔۔۔"
روز اس کی تمام تفصیلی بات پر بس مسکرا دی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کس قسم کا اظہار کرے اس کے چھپے ہمدم نے کس طرح سے اور کیسے کیسے اس کی تمام مشکلات کو دور کر دیا تھا اور اس کے دل کے تمام ارمان بھی پورے کر دیے تھے۔۔۔اس کا دل رب کے حضور سجدہ ریز ہو گیا تھا۔
"کیا ہوا اب تم بھی تو کچھ بولو؟؟"
جزیل اس کا حسین مکھرا دیکھتے ہوئے مسکرایا تھا۔
"تم تو چُھپے رستم ہو۔۔۔۔ مجھے ایک پل کو بھی تم پر شک نہیں ہوا۔۔۔"
روز نے دل کی بات زبان سے ادا کی تھی۔ آنسو ابھی بھی آنکھوں سے رواں تھے۔۔۔۔
"میں تو تمہارا چُھپا ہمدم ہوں۔۔۔"
جزیل بڑی خوبصورت مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے بولا تھا۔۔۔
"نہیں چُھپا ہمدم تو کوئی اور ہوتا ہے۔۔"
روز نے فوراً اس کی بات کی تردید کی تھی۔
"کون بھلا؟"
جزیل کی مسکراہٹ ایک پل میں سمٹی تھی۔
"اللہ تعالیٰ۔۔۔وہ ہیں چُھپے ہمدم۔۔۔وہ ہمارا ہر معاملا اتنی آسانی سے سنوار دیتے ہیں کہ ہمیں خبر تک نہیں ہوتی۔۔۔لیکن ہم پھر بھی شکر ادا نہیں کرتے۔۔۔اس سے بڑھ کر کون ہے جو انسان سے اتنی محبت کر سکے۔۔۔"
روز گہری مسکراہٹ ہونٹوں پہ لیے بولی تھی۔
"بلکل"
جزیل بھی مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھ رہا تھا۔
"سنو؟"
روز نے اسے مخاتب کیا تھا۔۔۔
"ہاں؟ "
جزیل نے اس کے دونوں ہاتھ تھامے تھے۔
"ممی اور بابا جان کو تم راضی تو کر لو گے نا؟"
روز نے اس پر اپنی پریشانی واضح کی۔۔
"کیوں وہ ناراض ہیں؟"
جزیل کو ناجانے کیوں اس معصوم کو تنگ کرنے میں بہت مزا آتا تھا۔
"نہیں ممی میرا حذیفہ سے۔۔۔۔"
اس نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔
"روز خبر دار تم نے میرے سامنے کسی اور کا نام لیا تو"
جزیل ناراض ہوتے ہوئے بولا۔
"اور جب تم لیتے تھے تب؟"
روز کو بھی اس کی پچھلی باتیں یاد آئیں۔۔
"وہ تو میں چیک کرتا تھا نا۔۔"
جزیل نے بہانہ سوچا۔۔
"کیا؟"
روز نے آنکھیں پھار کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
"یہی کے میری جانم میرے سوا کسی اور سے تو نہیں۔۔۔"
جزیل نے آخر سچ ہی بتا دیا۔۔
"ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔ میری زندگی میں آنے والے پہلے اور آخری شخص تم ہی ہو جزیل۔۔۔ تم نہیں تو کوئی بھی ہو مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔ویسے بھی کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔جانتے ہو کیوں؟"
روز نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔
"کیوں؟"
"کیوں کے تم سے بچھڑ جانے کے غم نے روز کو مار دینا تھا۔۔پھر کسی اور کے آنے کی نوبت ہی نہیں آنی تھی۔۔"
اس کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی صورت ٹوٹ کر نکلے تھے۔۔ جزیل نے تڑپ کر اسے دیکھا تھا۔۔وہ جو کہتا تھا کے روز سے اسے عشق ہے۔۔۔ وہ تو صحیح کہتا تھا مگر جو روز کو اس سے تھا۔۔۔وہ تو شاید عشق کی دہلیز بھی پار کر چکا تھا۔۔۔
"روز۔۔۔"
اس نے روز کے آنسو پہلی بار خود صاف کے تھے۔۔اور نکاح کے بعد آج پہلی دفع روز کے محرم نے اسے چھوا تھا۔۔
"تم اپنے ایسے خیالات کو سائیڈ پر کرو۔۔۔بس تم اپنا حال دیکھو۔۔۔تم میرے ساتھ جزیل مصطفیٰ کے ساتھ کھڑی ہو۔۔۔اور مستقبل ہم دیکھ تو نہیں سکتے مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کے۔۔مستقبل میں بھی تم ہی میرے ساتھ ہو گی میری ہمدم۔۔ میری ہمسفر۔۔"
جزیل نے اسے سچے دل سے کہا تھا۔
روز اس کی بات پر مسکرا دی تھی۔ جزیل بھی اسے مسکراتا ہوا دیکھ کر مسکرا دیا تھا۔۔
"ویسے تمہارے ممی اور بابا جان کو میں آلریڈی منا چکا ہوں"
جزیل نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا۔
"سچی؟؟؟"
"مچی اور یہ لو تمہاری چوڑیاں"
جزیل نے مسکرا کر خوبصورت سی چوڑیاں اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔
"تمہیں کیسے پتا چلا کہ میرے عید ڈریس کے ساتھ چوڑیاں نہیں آئیں؟ "
"تمہاری ہر چیز کا خود سے زیادہ دھیان رکھتا ہوں۔۔۔"
وہ مسکرا کر بولا تھا۔ روز چوڑیوں کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اور جزیل اس کو۔۔۔اب وہ روز کو یہ تو بتانے سے رہا کے وہ شائستہ اور روز کی تمام بتیں سن چکا تھا جو کل ہوئیں تھیں۔۔ اس دوران روز نے شائستہ کو اپنے ساتھ بازار چل کے چوڑیاں لانے کا کہا تھا۔ بس پھر جزیل نے شائستہ سے مزید معلومات لیں اور اپنی پسند کے لیے اپنی پسند کی چوڑیاں لے آیا۔۔۔
"ہمیشہ یوں ہی مجھ سے محبت کرتی رہنا۔۔"
جزیل نے مسکرا کر اس کے سر سے اپنا سر ٹکایا تھا۔
"تم بھی ایسے ہی رہنا۔۔۔"
روز نے بھی مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔آج اس کے چُھپے ہمدم نے اسے بہت سی خوشیاں عطا کی تھیں۔۔۔
"مجھے تب بھی محبت تھی۔۔۔
مجھے اب بھی محبت ہے۔۔
تیرے قدموں کی آہٹ سے۔۔۔
تیری ہر مسکراہٹ سے۔۔۔
تیری باتوں کی خوشبو سے۔۔۔
تیری آنکھوں کے جادو سے۔۔۔
تیری دلکش اداؤں سے۔۔۔
تیری قاتل جفاؤں سے۔۔۔
مجھے تب بھی محبت تھی۔۔۔
مجھے اب بھی محبت ہے۔۔۔
تیری راہوں میں رکنے سے۔۔
تیری پلکوں کے جھکنے سے۔۔۔
تیری بے جا شکایت سے۔۔۔
تیری ہر اک عادت سے۔۔۔
مجھے تب بھی محبت تھی۔۔۔
مجھے اب بھی محبت ہے۔۔۔۔"
جزیل نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے خمار لہجے میں غزل پڑھی تھی۔۔۔روز کی تو حیا سے آنکھیں ہی جھک گئیں تھیں۔۔۔
"تم سے بچھڑ گیا تو میں بھی زندہ نہیں رہ پاؤں گا"
جزیل نے اس کو دیکھا تھا۔ اور پھر اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے اس کے دونوں ہاتھ عقیدت و محبت سے چومے تھے۔۔۔
"تم میری متاعِ جان ہو"
اب اس نے روز کا ماتھا چوما تھا۔۔۔
"تم ہو تو میں ہوں"
اس نے دوبارہ روز کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے تھے۔
"ہمیشہ یونہی رہنا۔۔"
وہ پھر سے اس کے ہاتھ تھام کر اس کے سر سے سر ٹکاتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
"تم بھی ہمیشہ یونہی چاہت دل میں بسائے رکھنا۔۔۔"
روز نے ہمت کر کے کہا تھا۔۔۔ اور پھر نظریں جھکا لیں تھیں۔۔۔یہی اس کی ادا تو جزیل مصطفیٰ کو شرارت کرنے پر اکسا رہی تھی۔۔۔مگر وہ رخصتی کا انتظار کر رہا تھا جو عید کے دوسرے دن رکھی گئی تھی۔۔۔
"چلو اب جانے دو مجھے"
روز نے وہاں سے جانا چاہا تھا۔۔۔ اسے اس قدر محبت کے اظہار پر گبھراہٹ سی ہونے لگی تھی۔۔۔
"جانے تو کبھی نہیں دوں گا ہاں ساتھ ضرور چلوں گا تمہارے ساتھ پوری زندگی۔۔"
جزیل نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
روز اس کی اتنی شدت کی محبت پر کبھی حیران ہو رہی تھی اور کبھی واری جا رہی تھی۔ پھر وہ دونوں ساتھ یونہی ہاتھوں میں ہاتھ تھامے نیچے کی طرف چل دیے۔۔۔آج دونوں نے ہی اپنی پوشیدہ محبت کا اظہار کر دیا تھا۔۔اور دونوں کو ان کے چُھپے ہمدم نے کس طرح سے انہیں ملا دیا تھا وہ دونوں جتنا بھی شکر ادا کر رہے تھے وہ کم محسوس کرتے تھے۔۔۔ صرف جزیل اور روز کا نہیں بلکہ وہ ہم سب کی زندگیوں کا چُھپا ہوا ہمدم ہے۔۔۔جو چپ کر کے سارے معاملات سمبھال لیتا ہے اور ہم انجان رہتے ہیں۔۔۔اللہ کا شکر ضرور ادا کیا کریں۔۔۔کیوں کہ آپ کے پاس وہ تمام نعمتیں ہیں جن کے لیے کئی لوگ حسرت کرتے سو جاتے ہیں۔۔۔الحمدللہ کہنے کو اپنی عادت بنائیں۔۔۔
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔۔۔ آمین
مجھے اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔۔۔ اور یونہی میرا ساتھ دیتے رہیں۔۔۔
Facebook @zohaasifnovels
Instagram @zoha_asif_noves
Wattpad @zohaasif_novels
Keep Supporting🌸💕
ŞİMDİ OKUDUĞUN
چُھپا ہمدم (COMPLETED)
Romantizmایک ننھی منی سی رمضان اسپیشل کہانی۔ پڑھیں اور اپنی راۓ دے کر لکھاری کی حوصلہ افزائی کریں۔