رات کھانا کھانے کے بعد جب قریشی صاحب اسٹڈی روم میں گئے تو زریاب شائستہ بیگم سے بات کرنے انکے کمرے میں گیا۔۔
"مما میں آجاو "۔۔۔۔اسنے دروازہ ناک کر کے کہا تو شائستک بیگم نے کہا
"آجاو زریاب"تو وہ دروازہ کھول کر کمرے میں چلا گیا۔
جہاں شائستہ بیگم اپنی وارڈروب ٹھیک کر رہی تھیں۔
اسے دیکھا تو کہا
"کیا ہوا ؟ "انکے پوچھنے پر وہ بولا
"مما ! مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے" ۔اسکے کہنے پر انہوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر کہا
ہاں بولو تو وہ نظریں نیچے کئے کئے ہی بولا
"آپ اسکو کسی اور روم میں بھیج دیں۔مجھے اپنے کمرے کے بغیر نیند نہیں آتی۔"
تب ہی قریشی صاحب دروازہ کھول کر کمرے میں چلے آئے ۔وہ اسکی آدھی بات سن چکے تھے تب ہی بولے
"تو بیٹا آپ اپنے کمرے میں ہی سوئیں۔کون آپ کو آپ کے کمرے سے نکال رہا ہے "؟تو شائستہ بیگم بولیں۔
"آپکا بیٹا کہہ رہا ہےزرتاشہ کو اسکے کمرے میں ناں رہنے دیا جائے "۔۔انکی بات سن کر وہ زریاب کی طرف مڑے اور کہا
"بیٹا اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔وہ تمھاری بیوی ہے جس سے تم نے خود نکاح کیا ہے بغیر کسی زور زبردستی کے ۔تو اب تمہیں یہ سب باتیں کرنا زیب نہیں دیتیں۔اور جہاں تک ہم دونوں یعنی تمھاری ماں اور میری بات ہے تو ہم لوگ کبھی بھی اسے یہ بات نہیں بولیں گے۔باقی اگر تم خود اسکو یہ بات کہو تو ہم تم میاں بیوی کے معاملے میں نہیں بولیں گے"۔۔انکے کہنے ہر زریاب نے انہیں دیکھا اور پھر کہا
"ٹھیک ہے میں جاکر اسے بول دیتا ہونکہ میرے کمرے سے نکل جائے۔"تو شائستہ بیگم نے کہا
"اگر زریاب تم نے اس سے یہ سب کہا تو میں تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشونگی۔وہ پہلے ہی دکھی ہے۔"انکے کہنے پر وہ کچھ لمحے انہیں دیکھتا رہا اور پھر کمرے سے نکل گیا۔
اسکے جانے کے بعد شائستہ بیگم نے قریشی صاحب سے پریشانی سے کہا
"اب کیا ہوگا؟ یہ تو نکاح کے بعد اب خود کو اس بندھن سے آزاد کرنا چاہتا ہے۔"تو انہوں نے کہا
"یہ زمہ داری سے بھاگ رہا ہے۔لیکن اب میرے خیال سے اسکو اپنے رشتہ کا خیال کرنا چاہیے۔"انکی بات سن کر شائستہ بیگم نے کہا
"آپ کیا سوچ رہے ہیں ؟ "تو وہ مسکرائے اور کہا
"میں اسکا باپ ہوں یہ میرا باپ نہیں ہے"۔تو شائستہ بیگم نے حیرانگی سے انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ انکی نظروں کا سوال پڑھ کر بولے
"میں جلد سے جلد انکا ولیمہ کراونگا"۔انہوں نے پر سوچ انداز میں بولا تو شائستہ بیگم نے کہا
"یہ مانے گا ؟"تو وہ بولے
"کیوں نہیں مانے گا؟اسے ماننا ہوگا"۔ تو وہ خاموشی سے انہیں دیکھے گئیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ایک تو مما پاپا کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے۔چھوٹی سی بات بولی تھی کہ اسے دوسرے روم میں شفٹ کر دیں اور انہوں نے الٹا مجھے سنادی۔"وہ لان میں ٹہلتے ہوئے سوچے گیا۔۔
"اب کیا کرو ؟ اسے بول بھی نہیں سکتا کہ دوسرے روم میں شفٹ ہو۔ایک تو مما کی بات نے مجھے باندھ دیا ہے"۔وہ جھنجھلا کر کرسی پر بیٹھ گیا اور سگریٹ سلگایا۔۔
"مجھے اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔"اسنے سوچتے ہوئے کش لیا۔
کچھ دیر وہ وہی بیٹھا سگریٹ پھونکتا رہا اور پھر اندر جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔
"مما پاپا نے بھی پتہ نہیں کہاں پھسا دیا ہے"۔اسنے دل میں کہا اور اندر کی طرف بڑھا۔
جبکہ دوسری طرف زری کچھ دیر بیڈ پر خاموش بیٹھی رہی اورپھر اٹھ کرکمرہ لاک کر دیا۔۔
"ہاں مجھے ان سے بات کرنی چاہیے کہ میں کچھ دن کے لئے یہاں ہوں۔جب میرے ابو مان جائیں گے تو میں واپس چلی جاونگی۔"اسنے دل میں کہا لیکن پھر پھر اپنے دماغ کی آواز پر چونکی۔
"اگر انکو مجھ پر یقین ہوتا تو وہ میرا ایسے انکے ساتھ نکاح ناں پڑھواتے "۔۔
"تب وہ غصہ میں تھے ناں۔اب میں ان سے بات کرونگی۔انہیں سب بتاونگی تو مان جائیں گے"۔۔اسنے خود کو تسلی دیتے ہوئے خود کلامی کی ۔
تب ہی دروازہ بجا تو وہ اپنے خیالات سے باہر نکلی۔
اسنے سر اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا ۔ اسی وقت دروازہ دوبارہ بجا۔
"میں کیا کرو؟ "وہ شش و پنج میں بیٹھی سوچتی رہی تب ہی دروازہ تیسری دفعہ بجا۔
"کون ؟" اسنے دروازے کے قریب جاکر کہا تو زریاب نے کہا
"میں ہوں۔دروازہ کھولو"۔۔اسکے بولنے پر وہ کچھ لمحے خاموش رہی اور پھر دل میں فیصلہ کرتے ہوئے تمام شرم و حیا شرمندگی ایک سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا
"آپ کسی اور روم میں چلے جائیں۔یہاں میں نے سونا ہے"۔اسکی بات پر دوسری طرف کھڑے زریاب نے ایک نظر دروازے کو دیکھا اور پھر کہا
"بی بی میں بھی سونے کے لئے نہیں آرہا ہوں اندر۔بات کرنی ہے۔اور اپنی ضروری چیزیں لینی ہیں"۔اسکی بات سن کر زری نے کہا
"آپ پہلے لے لیتے۔۔اب کل لے لیجئے گا۔میں دروازہ نہیں کھولونگی۔"
اسکی بات سن کر کچھ لمحے تو وہ وہاں کھڑا اپناغصہ ضبط کرتا رہا اور پھر دریا ب کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
جب وہ دریاب کے کمرے میں داخل ہوا تو دریاب نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھرحیرانگی سے کہا
"آپ اس وقت ادھر کیا کر رہے ہیں ؟ آپ تو اب تک اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں"۔اسکی بات سن کر زریاب نے کہا
"میرا کمرہ کسی اور کے قبضے میں ہے۔اسلئے میں یہاں بھٹک رہا ہوں۔"اسکی بات سن کر دریاب ہنسا اور پھر کہا
"کہیں یہی سونے کا ارادہ تو نہیں ؟" تو زریاب نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا
"میں وہاں اپنی ضروری چیزیں لینے گیا تھا لیکن اسنے دروازہ ہی نہیں کھولا"۔اسکی بات سن کر دریاب ہنستا چلا گیا۔
"مطلب آپ کو کمرہ بدر کیا گیا ہے ؟" تو اسنے افسردگی سے سر ہلایا تو دریاب نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا
"کوئی نہیں بھائی ہوتا ہے ایسا ۔ویسے میں یہ سوچ رہا ہونکہ جو چور ڈاکو کے گروہ آپ کے نام سے ڈرتے ہیں انکو اگر علم ہو جائے کہ آپ کو آپ کی وائف نے پہلی باری میں ہی آوٹ کلاس کیا ہے تو انکا دل کتنا خوش ہو گا"۔۔اپنی بات کہہ کر دریاب زور سے ہنسا جبکہ زریاب اسے گھورے گیا۔۔
جب اسکا ہنسنا ختم ہوا تو زریاب نے کہا
"ہو گیا تمھارا مذاق؟ اب میں سوجاو ؟"تو دریاب نے چڑاتی ہوئی مسکراہٹ سے اسے دیکھ کر سر ہلایا تو وہ اسکے برابر میں لیٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
صبح جب اسکی آنکھ کھلی تو پہلے کچھ لمحے تو اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے۔۔
پھر جب زہن بیدارہوا تو آہستہ آہستہ سب یاد آنے لگا۔۔وہ اٹھ کر بیٹھی اور پھر نظر اٹھا کر ٹائم دیکھا
جہاں صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔۔
"نماز بھی قضا ہو گئی ؟" وہ کچھ دیر افسردگی سے بیٹھی رہی اور پھراپنے کپڑے لیکر وا ش روم کی طرف بڑھی۔
جب نہاکر باہر نکلی تو اسکے کمرے کا دروازہ بج رہا تھا۔
"کون ؟"اسنے دروازے کے قریب جاکر پوچھا تو زریاب نے دانت پیستے ہوئے کہا
"محترمہ زرتاشہ صاحبہ !دروازہ کھولیں۔مجھے آفس کے لئے تیار ہونا ہے اور یونیفارم اندر ہے"۔تو وہ کچھ دیر وہی کھڑی رہی اور پھر بال لپیٹ کر دروازہ کھول دیا۔
دروازہ کھلنے پر وہ اندر داخل ہوا اور سب سے پہلے اسے گھورتے ہوئے کہا
"اگر آپ رات میں مجھے یونیفارم لینے دیتی تو ابھی میں آپ کو ڈسٹرب ناں کرتا"۔۔
زری نے اسکی بات سنی اور پھر کمرے سے نکل گئی۔
اسکے جاتے ہی وہ سر جھٹک کر وارڈروب کی طرف بڑھا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"ارے زرتاشہ تم! آو آو " ! شائستہ بیگم جو لاونج میں بیٹھی ہوئی تھیں اسے آتے دیکھا تو انہوں خوشدلی سے کہا تو وہ مسکراتی ہوئی انکے پاس جا بیٹھی۔
"اور ٹھیک سے سوئی تم ؟ "انہوں نے اس سے پوچھا تو اسنے سراثبات میں ہلایا۔
"اچھا آو چلو ناشتہ کرتے ہیں۔"وہ اسے لئے ڈائننگ ٹیبل کی طرف گئیں اور ملازمہ سے ناشتہ لانے کا کہا
ابھی ملازمہ نے ناشتہ لاکر رکھا ہی تھا کہ انہیں زریاب سیڑھیوں سے آتا دکھائی دیا تو انہوں نے اسے آواز دی۔۔
وہ انکی پکار پر انکے پاس آکھڑا ہوا تو انہوں نے ایک نظر نک سک سے تیار یونیفارم میں ملبوس زریاب کو دیکھا اور پھر کہا
"ناشتہ کر لو"۔۔انکی بات کی جواب میں زریاب نے کہا
"پہلے ہی لیٹ ہو چکا ہوں۔آفس میں جا کر کر لونگا"۔وہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا جبکہ وہ خاموشی سے اسے جاتا دیکھتی رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔
"سنیں ؟"شائستہ بیگم نے فائل میں مصروف قریشی صاحب کو مخاطب کیا تو انہوں نے خاموشی سے انہیں دیکھا۔
"میں ایک بات سوچ رہی ہوں۔"شائستہ بیگم نے کہا
"کیا بات ؟ "قریشی صاحب نے پوچھا
"یہی کہ زریاب اور زرتاشہ کا ولیمہ اب ہو جانا چاہیے۔دو دن ہو چکے ہیں۔اور میرے خیال سے زرتاشہ اب اپنے آپ کو سنبھال چکی ہے"۔تو انہوں نے سر ہلایا اور پھر کہا
"ہاں توٹھیک ہے ۔کوئی بھی دن رکھ لو تم فنکشن کا۔اور سب قریبی رشتہ داروں کو جمع کر لو۔"
انکے کہنے پر شائستہ بیگم نے سر ہلایا اور پھر کہا
"آپ زریاب سے بات کر یں اس معاملے میں کہ ہم اب ان دونوں کا باقاعدہ فنکشن کر کے لوگوں کو اسکی شادی کا بتانا چاہتے ہیں "تو انہوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا
"جاو جاکر زریاب کو بلا کر لاو۔"
وہ جیسے ہی جانے کے لئے کھڑی ہوئیں تو قریشی صاحب نے کہا
"تم جاکر زرتاشہ کو بھی بتا دوتو وہ سرہلاتی کمرے سے نکل گئیں۔"
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"دریاب تم نے زریاب کو کہیں دیکھا ہے ؟" انہوں نے لاونج میں لیٹے دریاب سے پوچھا
"جی مما۔۔وہ لان میں ہیں"۔دریاب نے جواب دیا تو انہوں نے اسے کہا
ج"او زریاب سے کہو کہ تمھارے پاپا اس سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں "تو وہ سر ہلاتا زریاب کو بلانے چلا گیا۔۔اور وہ خود زرتاشہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔
دوسری طرف دریاب نے جاکر اسے قریشی صاحب کا پیغام دیا تو وہ کچھ لمحے وہاں بیٹھا رہا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔
"پاپا میں آجاو؟"اسنے دروازہ ناک کر کے پوچھا تو انہو ں نے کہا "ہاں ہاں آجاو"۔۔وہ کمرے میں داخل ہوا تو قریشی صاحب نے اسے دیکھا اور پھر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔
اسکے بیڈ پر بیٹھنے کے بعد انہوں نے بھی فائل بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور اس پھر اسکی طرف دیکھا جو انہی کو دیکھ رہا تھا۔۔
"آفس کیسا جارہا ہے تمھارا ؟" انہوں نے بات کاآغاز کرتے ہوئے کہا
"جی اچھا جارہا ہے"۔۔اسنے جواب دیا تو انہوں نے پھر اسے دیکھتے ہوئے کہا
"میں اور تمھاری ماں سوچ رہے ہیں کہ تمھارا اور زرتاشہ کے ولیمہ کی تقریب ہو جائے تاکہ لوگوں کو بھی علم ہو جائے تمھاری شادی شدہ ہونے کا"۔۔
انکی بات سن کر اسنے خاموشی سے انہیں دیکھا لیکن کچھ بولنے سے پرہیز ہی کیا۔۔تو انہوں نے اسے تکتے ہوئے کہا
"تمھارا کیا خیال ہے اس بارے میں ؟ "
"جو آپ کو ٹھیک لگے"۔اسنے جواب دیا تو وہ خاموش رہ گئے۔
"ہممم۔چلو ٹھیک ہے پھر"۔انہوں نے کہہ کر فائل دوبارہ اٹھا لی تو اسنے کہا
"پاپا میں جاو ؟ "
"ہاں جاو"۔۔تو وہ اٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
وہ دروازہ ناک کر کے جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئیں تو سامنے ہی انہیں زرتاشہ بیٹھی دکھائی دی جو انہیں دیکھ کر اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔۔
"ارے بیٹھو بیٹھو! " انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا اور خود بھی جاکر اسکے پاس بیٹھ گئیں۔
"میں نے تمہیں ڈسطرب تو نہیں کیا؟ " شائستہ بیگم نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو اسنےنفی میں سر ہلایا تو وہ نرمی سے مسکرائیں اور پھر کہا
"ادھر یہاں اس گھر میں تمہیں کوئ بھی مسئلہ ہو تو بلا جھجھک مجھے آکر بتانا۔"
انکی بات سن کر اسنے اثبات میں سر ہلایا۔ تو وہ اصل بات کی طرف آئیں۔
"میں اور تمھارے پاپا چاہتے ہیں کہ تم دونوں کا ولیمہ کر دیا جائے تاکہ خاندان والے گلہ ناں کریں کہ بہو بھی لے آئیں اور کسی کو بتایا بھی نہیں۔" وہ انکی بات سن کر ششد سی انکا چہرہ دیکھتی رہ گئی تو انہوں نے اسکے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا
"کیا ہوا ؟ "
"نہیں آنٹی کچھ بھی تو نہیں "۔اسنے جواب دیا تو وہ اٹھ کر چلی گئیں۔
انکے جانے کے بعد وہ کچھ دیر وہی بیٹھی سوچتی رہی اور پھر دل میں فیصلہ کر کے ایک دم اٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔
وہ زریاب کو ڈھونڈتی ہوئی لان میں گئی جہاں وہ لان چئیر پر بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔
"مجھے آپ سے بات کرنی ہے" ۔۔اسکی آواز پر وہ اپنے خیالات سے باہر آتے ہوئے چونک کر اسے دیکھا اور پھر ہاتھ میں پکڑا سگریٹ زمین پر پھینک کر چپل سے مسل دیا۔
"جی بولئے"۔۔زریاب نے اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا
"وہ ۔۔۔ابھی آنٹی نے آکر بتایا ہے مجھے کہ انکل اور آنٹی چاہتے ہیں کہ ہم لوگوں کا ولیمہ کیا جائے" ۔۔وہ اپنی بات کہہ کر رکی تو زریاب نے کہا
"تو ؟ " اسکی بات پر زری نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھرکہا
"جہاں تک میرا اندازہ ہے تو وہ یہ ہے کہ ناں آپ مجھ سے شادی کرنے پر رضامند تھے اور ناں میں"۔وہ اپنی بات کہہ کر دوبارہ رکی تو زریاب نے اسکی بات کاٹی
"لیکن اب نکاح ہو گیا ہے تو ا ب ان سب باتوں کو کر نے کا فائدہ نہیں"۔اسکی بات سن کروہ بولی
"اگر آپ کچھ لمحے خاموشی سے مجھے سن لیں گے تو آپکی بہت مہربانی ہو گی"۔تو وہ بولا
"اچھا بولو!"تو زری نے دوبارہ بات شروع کی
"مجھے علم ہے کہ آپ نے بھی اس رشتہ کو قبول نہیں کیا اور میں نے بھی۔اسلئے میں چاہتی ہونکہ آپ مجھے میرے ابو سے ملوادیں۔وہ اب میری بات سمجھ لیں گے ۔اور پھر آپ مجھے چھوڑ کر کسی اور سے شادی کر لیجئے گا۔"
اسکی بات سن کر کچھ لمحے کھڑا وہ اپناغصہ کنٹرول کرتا رہا اور پھر کہا
"تمہیں علم ہے کہ تم کہہ کیا رہی ہو؟" اسکے غصہ سے پوچھنے پر زری نے اثبات میں سر ہلایا تو اسنے خاموشی سے اسے دیکھا اور پھر کہا
"نکاح کرلینا جتنا آسان ہوتا ہے طلاق دینا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے ۔۔اور پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ تمھارے ابو تمہاری بات کو اب سمجھ لیں گے؟"زریاب نے اسے گھورتے ہوئے کہا تو وہ بولی
"مجھے پتہ ہے وہ اب میری بات مان جائیں گے۔۔اور آپ اپنا فائدہ سوچیں ناں ۔آپ کی مجھ سے جان چھوٹ جائے گی اور میری آپ سے"۔اسنے آخری جملہ آہستگی سے کہا جسے زریاب نے بمشکل سنا اور پھر اپنے غصے کو دباتے ہوئے کہا
"اور اگر وہ ناں مانے پھر ؟" اسکی بات سن کر زری نے کہا
"تو تب بھی میں اپنی بات سے نہیں پھرونگی ۔آپ مجھے طلاق دیکر خود کسی اور سے شادی کر لیجئے گا"۔اسکی بات سن کر زریاب نے اسے گھورا پھر پوچھا
"اور تم کہاں جاوگی" ؟تو اسنے کہا
"میں کہیں بھی چلی جاونگی"۔تو زریاب نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا
"لیکن میں ناں ہی تمہیں آسانی سے طلاق دے سکتا ہوں اور ناں دونگا۔کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے خاندان میں طلاق نہیں دی جاتی اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر میں ایسا کرونگا تو مما پاپا مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔جو کہ میں کبھی زندگی میں نہیں چاہتا"۔تو وہ اسکی بات سن کر بولی
"لیکن آپ میری بات سمجھے ناں" ۔زری نے افسردگی سے کہا تو زریاب نے اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا
"چلو ٹھیک ہے ۔میں کل تمہیں تمہارے ابو کے پاس لے جاونگا۔۔لیکن طلاق کی بات دماغ سے نکال دو"۔۔وہ اپنی بات کہہ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔
جبکہ وہ وہی پاوں پٹخ کر رہ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
"تم تیار ہو جاو زرتاشہ!میں انکل کے پاس لے چلتا ہوں"۔زریاب نے آفس سے آکر لاونج میں بیٹھی زرتاشہ سے کہا تو اسنے پوچھا
"ابھی جائیں گے ہم ؟ "تو سیڑھیوں کی طرف جاتے زریاب نے ہاں کہا اور دریاب کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔
اسکے جانے کے بعد وہ بھی اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلدی۔
اور کمرے میں جاکر الماری سے اپنی چادر نکالی اور اوڑھ کر لاونج میں جاکر بیٹھ گئی۔
آدھ گھنٹے بعد زریاب وہاں آیا اور اس سے کہا
"مما کو بتادیا ؟" تو زری نے کہا
"آنٹی انکل کے ساتھ نعمان انکل کی عیادت کرنے گئی ہیں"۔تو زریاب نے اسکی بات سن کر سر ہلایا اور پھر کہا
"اچھا "۔اور پھر کچن کی طرف مڑ کر خانساں ماں کو آواز دی تو وہ بھاگتا وہاں آیا اور کہا
"جی صاحب ؟ "توزریاب نے کہا
"گھر کا خیال رکھنا اور مما پاپا آئیں تو انکو بتا دینا کہ ہم دونوں ضروری کام سے گئے ہیں "۔اسکی بات سن کر خانساں ماں نے سر ہلایا تو زریا ب نے اسے جانے کا اشارہ کیا اور پھر زرتاشہ کی طرف مڑا ۔
"چلو آو"۔۔تو وہ اسکے پیچھے پیچھے چلتی لاونج سے نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
جیسے جیسے اسکا گھر قریب آتا جارہا تھا ویسے ویسے اسکا چہرہ سفید ہوتا جارہا تھا۔۔
اچانک گاڑی رکی تو زری نے سر اٹھا کر کھڑکی سے باہر دیکھا تو سامنے اسے اپنے گھر کی گلی نظر آئی۔
زری نے ایک نظر اس طرف دیکھ کر زریاب کو دیکھا جوپہلے ہی اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔
"چلو آو"۔۔۔۔وہ کہتا گاڑہ سے باہر نکلا تو وہ بھی اپنی ٹانگوں کو گھسیٹتی گاڑی سے باہر نکلی اور زریاب کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔
اسکا دماغ اس وقت بلکل ماوف ہو رہا تھا۔
"یہ ہے نا ں تمھارا گھر ؟" زریاب نے کنفرم کرنے کے لئے اپنے پیچھے چلتی زری سے پوچھا تو اسنے اثبات میں سر ہلایا تب ہی انہیں آواز آئی
"یہاں کیا کر رہے ہو تم لوگ ؟ "زری نے چونک کر پیچھے دیکھاتو کچھ فاصلے سے اسکے ابو چلتے آرہے تھے۔
وہ فورن انکی طرف بڑھی۔۔
"ابو میری بات سنیں"۔تو انہوں نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر زریاب کے قریب پہنچ کر کہا
"تم ہے میں نے کہا تھا کہ اس گند کو اب میرے گھر مت لیکر آنا "۔۔اور پھر زری کی طرف مڑے
"آئندہ کے بعد اپنی یہ منحوس شکل مجھے مت دکھانا۔۔تم میرے لئے مر چکی ہو اور مرے ہوئے لوگ زندہ نہیں ہوتے"۔۔کہہ کر وہ دوبارہ زریاب کی طرف مڑے اور پھر کہا
"اگر آئندہ کے بعد یہ یہاں آئی تو میرے ہاتھوں سے ماری جائے گی۔اسلئے آئندہ دھیان رکھنا"۔۔
کہہ کر وہ اپنے گھر کے دروازے کی طرف بڑھے تو زری پھر انکی طرف لپکی
"آپ ایک دفعہ میری بات سن لیں"۔اسنے انکا بازو پکڑتے ہوئے کہا تو انہوں نے اپنا بازو جھٹکا اور پھر زریاب سے کہا
"لے جاو اسے۔۔میں اسکے گندے خون سے اپنے ہاتھ نہیں رنگنا چاہتا"۔۔کہہ کر وہ گھر میں داخل ہو گئے۔
پیچھے وہ دوبارہ دروازے کی طرف بڑھی لیکن زریاب نے اسکو بازو سے پکڑ کر تقریبا کھینچتے ہوئے گاڑی کے پاس لے آیا۔
"مجھے جانے دیں اندر۔۔۔میں انکو منا لونگی"۔۔۔۔وہ روتی ہوئی کہتی جا رہی تھی جبکہ زریاب نے اسکی بات پر کان ناں دھرتے ہوئے اسے گاڑی میں ڈالا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا۔
باقی کا پورا راستہ وہ خاموشی سے آنسو بہاتی رہی۔
جیسے ہی گاڑی گھر کے سامنے رکی تو وہ بغیر گیٹ کھلنے کاانتظار کئے گاڑی سے اتری اور بغیر ادھر ادھر دیکھے چھوٹے دروازے سے اندر چلی گئی۔
وہ خاموشی سے اسے جاتا دیکھتا رہا۔تب تک چوکیدار نے مین گیٹ کھول دیا تھا تو وہ گاڑی اندر لے گیا۔۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔
BẠN ĐANG ĐỌC
عجب پیار (Complete)
Lãng mạnیہ کہانی ہے احساس کی،زمہ داری کی،اعتبار کی،محبت کی۔یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو اپنے ہو کر بھی اسکا اعتبار توڑدیتے ہیں۔