Episode 5

251 27 41
                                    

جب گاڑیاں پولیس اسٹیشن کے سامنے رکیں تو وہ گاڑی سے اترا۔۔
اور لیڈی کانسٹیبلوں کو حکم دیا کہ ان خواتین کو جیل میں لے جاکر بند کریں۔
تب ہی وہی لیڈی کانسٹیبل اسکے قریب آئی اور اس سے پوچھا
سر ! وہ جو لڑکی بے ہوشی کی حالت میں پارلر سے ملی ہے اسکا کیا کریں ؟ اسے بھی تھانے میں لے جائیں ؟اور اسکے گھر والوں کو بلوائیں ؟
اسکے پوچھنے پر وہ سوچتے ہوئے بولا
اسکے پاس سے کوئی موبائل آپ کو ملا؟تو لیڈی کانسٹیبل نے نفی میں سر ہلایا۔
ہمیں اسکے گھر کا ایڈریس ،فون نمبر کچھ معلوم نہیں تو ہم کیسے اسکے گھر والوں کو اطلاع دے سکتے ہیں؟ ہم صرف اسکے ہوش میں آنے کا انتظار کر سکتے ہیں تب ہی کچھ اسکے گھر کا علم ہو سکتا ہے۔زریاب نے کہا تو اسکے جواب میں لیڈی کانسٹیبل نے پوچھا
تو سر پھر ہم اسے بھی تھانے لے جائیں ؟وہ کچھ پل سوچتا رہا اور پھر نفی میں سر ہلا گیا۔
نہیں!آپ اس کو سر توثیق کے گھر لے جائیں۔اور جب تک یہ ہوش میں نہیں آتی تب تک اسکے ساتھ وہی رہیں۔اورہاں بھابھی سے کہیئے گا کہ میں نے اسکو بھیجا ہے۔تو وہ سر ہلا دی۔۔
تب ہی زریاب نے گلشن خان کو آواز دی۔
وہ پہلی ہی پکار پر بھاگتا چلا آیا
جی صاحب جی ؟
جاو انکو اور اس لڑکی کو توثیق صاحب کے گھر چھوڑ آو تو اسنے اثبات میں سر ہلایا اور کہا ۔
جوحکم سرکار۔۔تو زریاب نے ان سب کو جانے کا اشارہ کیا تو وہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔
انکے جانے کے بعد اسنے توثیق کو فون ملایا اور اسے پوری صورتحال بتانے کے بعد کہا کہ لڑکی کو اسکے گھر بھجوا دیا ہے۔اسکی بات سن کر توثیق نے کہا
یار دماغ ٹھیک ہے تمہارا ؟ رات پولیس اسٹیشن میں ہی گزارنے دیتے اور پھر صبح اسکو اسکے گھر بھیج دیتے۔توثیق کی بات سن کر زریاب نے کہا
نہیں یار! وہ شادی کے لباس میں تھی شاید اپنی شادی کے لئے تیار ہونے وہاں آئی تھی اور پھر اگر وہ رات یہاں تھانے میں گزارتی تو کیا پتہ اسکی بارات واپس چلی جاتی۔اسکی بات سن کر توثیق نے کہا
تو تمہیں کیا لگتا ہے کہ اب کیا بارات واپس نہیں گئی ہو گئی ؟تو وہ کچھ سیکنڈز کےلیے خاموش ہو گیا اور پھر کہا
شاید!لیکن ہم اسکے گھر والوں کو اس بات کی گارنٹی دے سکتے ہیں کہ اسنے رات تھانے میں نہیں گزاری تھی۔زریاب کی بات سن کر توثیق نے کہا
چلو دیکھتے ہیں۔لیکن تم ایک کام کرنا۔
جاکر میری بیوی کو تسلی دے آنا کہ یہ لڑکی تم نے بھیجی ہے۔اسکی بات سن کر وہ مسکرایا اور پھر کہا
میں صبح خود جاکر بھابھی سے بات کرونگا۔تو توثیق نے کہا
"ہاں پلیز یار۔یہ ناں ہو کہ نئی لڑائی ہو جائے میری اور تمھاری بھابھی کی"
تو وہ اسکی بات سن کر ہنسا اور پھر کہا
کتناڈرتے ہو تم بھابھی سے۔۔تو توثیق نے کہا
بھائی بھلے کوئی پولیس آفیسر ہو یا آرمی آفیسر سب اپنی بیویوں سے ڈرتے ہیں۔تمہیں اس بات کا اندازہ شادی کے بعد ہو گا۔توثیق کے کہنے پر زریاب نے کہا
"میں تو نہیں ڈرونگا"تو جوابن توثیق نے قہقہہ لگایا اور پھر کہا
دیکھیں گے۔۔یہ دن بھی اب زیادہ دور نہیں جس حساب سے شائستہ آنٹی لڑکیاں تمھارے لئے دیکھ رہی ہیں ۔
اسکی بات سن کر زریاب نے قہقہہ لگایا اور پھر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد فون بند کردیا
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
وہ جب ہوش میں آئی تو اسنے خود کو ایک کمرے میں پایا۔۔کچھ
لمحوں کے لئے تو اسکا دماغ بلکل خالی رہا ۔پھر اسنے پورے میں کمرے پر نظر گھمائی۔
یہ میں کہاں ہوں۔اسے وہ کمرہ انجان لگا تو فورن اٹھ کر بیٹھ گئی ۔اسکی سوئی ہوئی حساسیات جاگنے لگی تھیں۔ لیکن سر ابھی بھی چکرا رہا تھا۔
تب ہی ایک خاتون کمرے میں داخل ہوئیں۔
اس نے انہیں دیکھا تو پوچھا
آپ کون ہیں اور میں یہاں کیسے آئی ؟ تب ہی دروازہ دوبارہ کھلا ۔اور زریاب اندر آیا۔
اسے دیکھ کر اس خاتون نے کہا
سر یہ ہوش میں آگئی ہیں۔تو وہ سر ہلا گیا اور انکوباہر جانے کااشارہ کیا تو وہ وہاں سے چلی گئیں۔
انکے جانے کے بعد وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا اور بات شروع کی۔۔۔
کیسی ہے تمھاری طبیعت؟ زریاب نے پوچھا۔۔تو زری نے اسکی طرف دیکھا اور کہا
میں یہاں کیسے آئی ؟ اسکے پوچھنے پر وہ کچھ لمحے خاموش رہا اور پھر اسے تمام روداد کہہ سنائی۔۔وہ خاموش بیٹھی اسے سنتی رہی۔
جب وہ خاموش ہوا تو زری نے کہا
آپ کو اللہ کا واسطہ ہے مجھے میرے گھر چھوڑ آئیں۔میں اگرآٹھ بجے تک وہاں ناں پہنچی تو میرےابو کی بدنامی ہو گی۔کہتے ہوئے اسنے سامنے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھا جہاں سات بج رہے تھے۔
اسکی بات سن کر وہ کچھ پریشان ہوا اور پھر کہا
اس وقت ؟ اب تو دیر ہو گئی ہے۔۔اسکے کہنے پر زری نے کہا
ابھی ایک گھنٹہ رہتا ہے۔اسکی بات سن کر وہ کچھ پل کے لئے اسے دیکھتا رہا اور پھر کہا
چلوآو!۔۔۔وہ کہتا کھڑا ہوا تو وہ بھی کھڑی ہو گئی۔
جب وہ گاڑی کے پاس پہنچے تو زری نےآسمان کی طرف دیکھا اور پھرشاکڈ کے عالم میں کہا
یہ تو صبح کا وقت ہے۔۔اسکی بات سن کرآگے چلتا زریاب پیچھے مڑا اور کہا
ہاں! اسکی بات سن کر زری کو لگا کہ اسکی ٹانگیں اسکا ساتھ چھوڑ رہی ہیں تو وہ وہی بیٹھ گئی۔۔
زریاب نے اسے ایسے حال سے بے حال دیکھا تو کچھ سیکنڈز اسکے پاس کھڑا رہا اور پھر اسکے پاس ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔
دیکھو! میں ساتھ جا رہا ہوں ۔میں انہیں بتاونگا کہ اس میں تمھاری کوئی غلطی نہیں ۔۔اسنے اسکی بات سن کر چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر کہا
میرے دامن پر بد کرداری کاداغ لگ گیا ہے وہ یقین نہیں کریں گے۔میں نے رات گھر سے باہر گزاری ہے اور پھر کل تو تھی بھی میری شادی کی بارات۔میرے باپ کو لوگوں نے کیا کچھ ناں کہا ہوگا۔اس نے روتے ہوئے کہا تو زریاب نے کہا
میں انہیں یقین دلاونگا کہ غلطی تمھاری نہیں تھی۔اسکے حوصلہ دلانے پر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور جاکر گاڑی میں بیٹھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی گاڑی اسکے محلہ میں داخل ہوئی تو اسکے چہرے کا رنگ پیلا پڑنے لگا تھا۔۔زریاب نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر پوچھا
کہاں ہے گھر ؟اسکے پوچھنے پر اسنے ایک گلی کی طرف اشارہ کیا تو زریاب نے کہا
یہاں تو گاڑی نہیں جا سکتی۔۔یہ کہہ کر وہ گاڑی سے اترا تو وہ بھی گاڑی سے اتر گئی۔
اور اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔وہ ابھی تک دلہن کے ہی لباس میں تھی۔۔
راستے میں سے گزرتی کچھ خواتین جو اپنے بچے اسکول چھوڑنے جا رہی تھیں انہوں نے اسے لڑکے کے ساتھ جاتے دیکھا اور پھر کانوں کو ہاتھ لگاتی آگے بڑھ گئیں۔یہ خواتین اسکی تائی کی جاننے والی تھیں۔
اسی طرح چلتی وہ گھر کے دروازے پر پہنچی۔اور ادھ کھلے دروازے کو کھول کر گھر میں داخل ہو گئی۔اسکے پیچھے ہی وہ بھی گھر میں داخل ہو گیا۔
ابھی وہ صحن میں ہی پہنچی تھی کہ اسکی دادی کی آواز آئی۔
آگئی تو منہ کالا کر کے۔۔انکی آواز پر اسنے آواز کی سمت دیکھا تو اسے دادی کے ساتھ تائی بھی کھڑی نظر آئیں جو حقارت بھری نظروں سے اسےہی دیکھ رہی تھی۔
تب ہی اسکے ابو کمرے سے باہر نکلے ۔۔اور اسے دیکھا تو مارنے کے لئے اسکی طرف بڑھے۔۔
آگئی تو میری عزت کو داغدار کر کے۔کہتے ہوئے انہوں نے اسے دھکا دیا تو وہ ایک طرف گر گرگئی۔اسنے وہی گرے گرے ان سے کہا
ابو میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔اسکی بات سن کر وہ اسے پے درپے مارنے لگے۔۔
وہ مار کھائی جا رہی تھی اور بولتی جارہی تھی کہ اسکی کوئی غلطی نہیں۔
اس دن کے لئے تمہیں پڑھایا لکھایا تھا۔ وہ کہتے ہوئے اسکے منہ پر لاتیں مار نے لگے ۔
جب کوئی اسے بچانے کے لئے آگے ناں بڑھا تو زریاب نے آگے بڑھ کر انہیں کھینچتے ہوئے کہا
بس کر دیں۔انکی کوئی غلطی نہیں۔ تو تماشہ دیکھتی اسکی تائی نے کہا
اچھا اب یار بھی اسکا بولنے لگا۔وہ بات سن کر ہی تلملا گیا ۔۔۔اور کہا
آپ اپنی زبان سنبھال کر بات کر یں۔کہتے ہوئے دوبارہ صابر صاحب کو اس سے پکڑ کر دور کیا تو انہوں نے اسکا ہاتھ جھٹکا۔
اور زری سے کہا
دفعہ ہو جاو یہاں سے۔۔میرے گھر میں تمھاری کوئی جگہ نہیں۔
انکی بات سن کر زریاب نے کہا
آپ ایک دفعہ بیٹھ کر بات سن لیں۔اسکا یہ کہنا تھا کہ اسکی دادی نے ہاتھ نچاکر کہا
یہ گندگی ہم یہاں نہیں ہونے دیں گے۔فورن اسے لیکر نکل جاو ہمارے گھر سے۔
انکی بات سن کر وہ ایک دم اٹھی اور دادی کے قدموں میں جاکر بیٹھ گئی۔
مجھے گھر سے ناں نکالیں۔میں کدھر جاونگی۔ انہوں نے اسکی بات پر اسے زور سے ٹھوکر ماری اور کہا
اسی کے ساتھ جاو جس کے ساتھ منہ کالا کیا ہے۔ان کی بات سن کر زریاب چارپائی پر بیٹھے صا بر صاحب اور انکے پاس بیٹھے زری کے منگیتر شہزاد کے پاس گیا۔اور کہا
آپ ایک دفعہ میری بات سن لیں۔میں پولیس آفیسر ہوں ۔
کہتے ہوئے اسنے اپنا کارڈ انکو دکھایا تو وہ خاموشی سے اسکی بات سننے لگے۔
جب وہ بات پوری کر چکا تو شہزاد نے کہا
غلطی کسی کی بھی ہو۔میں اسے اب اپنے گھر کی عزت نہیں بنا سکتا۔اسکی بات سن کر زریاب نے شہزاد کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا
اس سب میں اسکا کوئی قصور نہیں۔وہ معصوم ہے۔اسکی بات سن کر شہزاد نے طنزیہ کہا
اگر اتنی ہی معصوم ہے تو تم خود کر لو اس سے شادی۔اسکی بات سن کر وہ ایک لمحہ کے لئے سن ہوا اور پھر اسکے والد کی طرف دیکھنے لگا تو انہوں نے کہا
یہ صحیح کہہ رہا ہے۔گھر سے ایک رات باہر رہی لڑ کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔یا تو تم اس سے شادی کر لو یا پھر اسے کسی دارالامان میں چھوڑ آو۔میرے لئے یہ مر گئی ہے۔وہ کہہ کر وہاں سے جانے کے لئے مڑے تو اسنے ایک ہی پل میں فیصلہ کرتے ہوئے کہا
مجھے منظور ہے۔اسکی آواز پر وہ اسکی سمت مڑے تو اسنے کہا
بس میری ایک شرط ہے کہ اسے اپنے گھر سے مجھ سے نکاح کرا کہ بھیجیں تو وہ سر ہلا گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
آدھے بعد نکاح کی کاروائی پوری ہو چکی تھی۔اور نکاح ہوتے ہی وہ اسے لیکر وہاں سے نکل گیا تھا۔
اب وہ اسکی گاڑی میں بیٹھی مسلسل رو رہی تھی اور وہ خاموش گاڑی چلا رہا تھا۔
وہ اسے لیکر گھر پہنچا اور اپنے ساتھ لئے لاونج میں داخل ہوا۔
شائستہ بیگم اس وقت وہاں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں جب انہوں نے اسے ایک لڑکی کے ساتھ اندر آتے دیکھا تو وہ یک دم کھڑی ہوئیں۔
وہ انکے پاس آیا تو انہوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا اور پھر روئی روئی سی زری کو دیکھا تو انہوں نے حیران ہوتے ہوئے کہا
بیٹا ۔۔۔یہ کون ہے ؟اور تم اسے گھر کیوں لے آئے ہو؟کیا یہ تمھاری کوئی دوست ہے ؟انکی بات سن کر وہ ایک لمحے کے لئے جھچکا اور پھر کہا
مما یہ میری بیوی ہے۔میں نے اس سے نکاح کر لیا ہے۔اسکی بات سن کر وہ کچھ لمحوں کے لئے شاکڈ رہ گئیں۔وہ انہیں دیکھتا رہا ۔تب ہی انکی ملازمہ شہناز وہاں آئی توزریاب نے ہی انکو کہا
آپ انہیں کمرے میں لے جائیں یہ کافی تھک گئیں ہیں۔اسکی بات سن کر وہ سر ہلاتی اسے وہاں سے لے گئیں۔
اسکے وہاں سے چلے جانے کے بعد زریاب نے اپنی والدہ کو دیکھا جو یک ٹک اسے دیکھ رہی تھیں۔
اسے علم تھا کہ انہیں شاکڈ پہنچا ہے۔انکے دل میں بھی ارمان تھا کہ وہ اس کو شادی شدہ دیکھیں۔لیکن اسطرح کی شادی کا انہوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔۔۔وہ انکے چہرے کے تاثرات دیکھتا ہوا انکے پاس گیا اور انکے کندھے پر اپنا ہاتھ لپیٹ کر صوفے کی طرف بڑھ گیا۔
آئی ایم سوری مما ! میں ایسے شادی کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔وہ بتاتے ہوئے انکے شانے پر سر ٹکا گیا تو انہوں نے کہا
لیکن زریاب ایسی بھی کیا مجبوری تھی کہ تم یہ ایسے کر بیٹھے۔پھر اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا
بھگاکر نکاح کیا ہے ؟ انکی بات سن کر اسنے سر انکے شانے سے اٹھایا اور پھر کہا
نہیں مما!آپکو علم ہے میں سب کر سکتا ہوں لیکن بس یہ نہیں کر سکتا ۔۔تو شائستہ بیگم نے کہا
تو پھر کیا وجہ تھی کہ تمہیں اس طریقے سے شادی کرنی پڑگئی؟
انکی بات سن ک کر زریاب نے انکو تمام روداد کہہ سنائی۔۔تو کچھ لمحے تو وہ افسردہ بیٹھی رہیں اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔انکے اٹھنے پر اس نے انکو حیرت سے دیکھا ۔
اسکا خیال تھا کہ وہ بات سن کر اسکی صورتحال کو سمجھ جائیں گیں۔لیکن یہاں تو ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے صوفے پر حیران بیٹھے اپنے بیٹے کو ایک نظر دیکھا اور پھر کہا
اپنی بہو کے پاس جا رہی ہو۔اسے میری ضرورت ہو گی۔۔۔وہ کہہ کر وہاں سے چلی گئیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملازمہ اسے وہاں چھوڑ کر جا چکی تھی۔
وہ کمرے میں رکھے صوفے پر بیٹھ گئی اور پھر رونے لگ گئی۔
اسنے ناں ہی کمرے کاجائزہ لیا ناں کچھ اور۔۔
اسے اپنا غم منانے سے ہی فرصت نہیں تھی۔
تب ہی دروازہ کلک کی آواز سے کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا تو اسنے سر اٹھا کر آنے والے کو دیکھا۔
جب سامنے زریاب کی والدہ کو کھڑا دیکھا تو خوفزدہ ہو کر کھڑی ہو گئی کہ اب جانے یہ کیا بولیں گیں۔
انہوں نے اسے ڈرے ہوئے دیکھا تو اسکے قریب آئیں اور ہاتھ سے پکڑ کر صوفے پر بٹھا دیا۔۔
مجھے زریاب نے سب بتایا ہے۔انہوں نے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تو اسنے چونک کر انہیں دیکھا تو وہ مسکرائیں اور اسکے ماتھے سے بال پیچھے کرتے ہوئے بولیں کہ
چاہے جیسے بھی حالات ہو انسان کو کبھی بھی ہمت نہیں کرنی چاہیے ۔۔وہ انکی بات پر خاموشی سے انہیں دیکھے گئی تو انہوں نے اپنی بات کو مزید جاری رکھتے ہوئے کہا
اللہ جو کرتا ہے بہترین کرتا ہے۔بظاہر ہمیں جو چیز شر لگ رہی ہو تی ہے وہ اصل میں ہمارے لئے خیر ہوتی ہے۔اب خود دیکھو زریاب کو تم سے خود شادی کرنا پڑ ہی گئی ورنہ مجھے تو ہر دفعہ اپنی دلیلوں سے یہ چپ کرا دیتا تھا۔ انکی بات سن کر وہ سر جھکا گئی تو انہوں نے کہا
میری کوئی بیٹی تو ہے ہی نہیں اسلئے اب سے تم میری بہو نہیں بلکہ بیٹی ہو۔۔انکی بات سن کر اسکی آنکھیں ایک دم سے نم ہوئیں تو انہوں نے اسکے ماتھا چوما اور پھر جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور اسے کہا
میں اپنے کپڑے بھجواتی ہوں۔تم نہاکر فریش ہو جاو۔ویسے میرے کپڑے تم پر ڈھیلے ہونگے لیکن ابھی ان پر ہی گزارا کر لو۔شام میں بوتیک چلیں گے دونوں۔۔ٹھیک ہے ؟  انکی بات پر اسنے خاموشی سے سر ہلا دیا۔
کچھ دیر کے بعد ملازمہ اسے انکے کپڑے دے گئی تو وہ نہانے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عجب پیار  (Complete)Où les histoires vivent. Découvrez maintenant