پورا راستہ وہ یہی سب کچھ سوچتی رہی تھی۔اور اب اسے لگ رہا تھا کہ اسکا سر پھٹ رہا ہے۔
وہ جیسے تیسے اپنے کیبن میں پہنچی اور اپنی کرسی پر جا بیٹھی۔زہرہ آج بھی نہیں آئی تھی۔وہ سراپنے ہاتھوں پر گرا کر بیٹھ گئی۔۔
کل سے اسکا دماغ سن سا ہو رہا تھا۔وہ اپنے ابو کو انکار کر سکتی تھی لیکن صرف اسلئے کہ کوئی اسکے کردار کو داغ دار ناں کرے وہ شہزاد کے رشتہ پر ہاں کر بیٹھی تھی۔ایسا نہیں تھا کہ اسے کوئی پسند تھا لیکن وہ شہزاد سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اسکی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی ماں جیسی زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی۔جیسے اسکی ماں صرف اسکے باپ کی پسند تھی ویسے ہی وہ بھی صرف شہزاد کی پسند ہوتی۔اور اس طرح کی پسند انسان کو مار دیتی ہے۔جیسے اسکی ماں گھٹ گھٹ کر مر گئی تھی۔وہ صاف ستھری زندگی گزارنا چاہتی تھی۔
اسے علم تھا کہ دادی اور تائی نے اسکےباپ کے اتنے کان بھرے تھے کہ انکے دل میں بھی یہی ڈر بیٹھ گیا تھا کہ کہی کسی لڑکے کے ساتھ چکر ناں ہو۔۔اسی ڈر کی وجہ سے وہ اسکی شادی جلد از جلد کر دینا چاہتے تھے تاکہ انکی رسوائی ناں ہو۔
اسلئے اگر وہ ناں کرتی تو یقینن انہیں لگتا کہ انکی ماں اور بھابھی سچ بول رہی ہیں اور وہ کسی بھی حالت میں اپنے کردار پر انگلیاں نہیں اٹھوانا چاہتی تھی۔
وہ وہاں بیٹھے سوچی گئی۔تب ہی چپراسی اسکے کیبن میں آیا۔۔اسنے زری کو ایسے سر ہاتھوں پر گرائے دیکھا تو آواز دی۔اپنا نام سن کر زری نے سراٹھایا تو چپراسی نے اسکی طبیعت پوچھی تو وہ مسکرائی اور کہا
ہاں میں ٹھیک ہو!بس سر درد ہے۔آپ چائے لا دیں "تو وہ سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا۔پیچھے وہ دوبارہ سے چئیر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔اور اپنی زندگی کو سوچنے لگی۔کچھ دیر کے بعد چپراسی چائے لیکر آیا تو اسنے چائے پیتے ہوئے فائل اٹھا کر کیس کو اسٹڈی کرناشروع کر دیا۔یہ سب تو ایسے ہی چلتے رہنا تھا۔۔وہ لوگوں کے سامنے اپنا تماشہ نہیں بنوا سکتی تھی۔اسلئے نارمل بی ہیو کر نے لگی ۔۔۔۔۔،۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
وہ حیات صاحب سے کیس کے معاملے میں کچھ اہم باتیں پوچھنے گئی تو انہوں نے اسے چیدہ چیدہ باتیں بتائیں اورپھر مزید معلومات کے لئے اسے ایک پولیس آفیسر زریاب قریشی کا نام اور نمبر لکھ کہ دیا کہ یہ بندہ مزید تمہیں گائیڈ کر سکتا ہے۔
وہ نمبر اور پتہ لیکر اپنے آفس میں آبیٹھی اور کچھ سوچتے ہوئے دئیے ہوئے نمبر پر کال کرنے لگی۔
کافی دیر بیلیں ہو تی رہیں لیکن کسی نے بھی کال ریسیو نہیں کی۔زری نے جھنجھلاتے ہوئے دوبارہ کال ملائی۔۔
اب کی بار دوسری بیل پر ہی کسی نے کال اٹھالی۔
ہیلو۔۔ایک گمبھیر آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی تو وہ ایک سیکنڈ کے لئے خاموش ہوئی ۔اور پھر ہیلو کہا
جی کون ؟ زریاب نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا
سر میں زرتاشہ قیصر بات کر رہی ہو۔۔۔سر حیات صاحب نے مجھے ایک کیس کے معاملے میں آپ سے مدد لینے کا کہا ہے تو اگر آپ برا ناں مانیں تو آپ مجھ سے کہیں مل سکتے ہیں تاکہ میں آپ سے کیس ڈسکس کر سکو ؟
اسکی بات سن کر زریاب نے کہا
محترمہ ! میرے پاس وقت کی بہت کمی ہے اسلئے نہیں مل سکتا۔لاونج میں آتے دریاب نے زریاب کی بات سنی اور اسکے پاس ہی آکر بیٹھ گیا اور مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔۔
دریاب کے مسکرانے پرزریاب نے اسے گھورا لیکن وہ دریاب ہی کیا جو اسکی ٹانگ ناں کھینچے۔اسکے بار بار مسکرانے پر زریاب اٹھ کر دور جاکر بات کرنے لگا۔
دوسری طرف زری نے زریاب کو کہا
سر یہ کیس بہت ضروری ہے۔مجھے سر حیات نے یہ کیس ہینڈ اور کیا ہے ۔کائینڈلی آپ مجھ سے کاپریٹ کریں۔ اسکی بات سن کر وہ کچھ پل کے لئے خاموش ہوا اور پھرسوچتے ہوئے بولا
ہممم۔۔۔۔تو آپ حیات انکل کے ریفرینس سے آئیں ہیں تو آپ کو ناں تو نہیں کیا جا سکتا لیکن آج کل میں بہت مصروف ہوں اسلئے میں آپ کو کہی باہر نہیں مل سکتا لیکن اگر آپ چاہیں تو کال پر آپ مجھ سے کیس سے متعلق جو ضروری معلومات لینا چاہیں آپ لے سکتی ہیں۔اسکی بات سن کر وہ سوچ میں پر گئی۔
اور پھر کہا ٹھیک ہے تو آپ مجھے یہ بتائیں کہ مقتولہ جمیلہ اور اسکی ناموکود بیٹی کو اسکے شوہر نے کیوں قتل کیا تھا ؟زری کے پوچھنے پر زریاب نے کہا
"مقتولہ جمیلہ کو اسکے شوہر اور ساس نے بیٹی ہونے کے جرم میں آگ لگا دی تھی۔اسکی بات سن کر وہ ایک لمحے کے لئے دہل گئی اور پھر کہا
پولیس نےاب تک مجرموں کو پکڑا کیوں نہیں ؟ "اسکے سوال پر زریاب نے کہا
ابھی پولیس کیس کی جال پڑتال کر رہی ہے۔اسکی بات سن کر زری نے اگلا سوال کیا
لیکن آپ لوگوں نے اسکی ساس کو بھی ضمانت پر چھوڑ دیا ہے۔اسکی وجہ ؟اس دفعہ زری نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا
کیونکہ اسکے شوہر میاں عابد نے خود یہ گوائی دی ہے کہ مقتولہ جمیلہ کا قتل اسنے کیا ہے۔اسکی ماں نے نہیں۔اسکی بات سن کر زری نے ناگواری سے کہا
اسکے کہنے کامطلب یہ تھوڑی ہے کہ وہ سچ ہی کہہ رہا ہوگا تو زریاب نے اب کی بار تھوڑا تنگ ہوتے ہوئے کہا
بی بی ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔آپ اپنے کام پر دھیان دیں۔اسکی بات سن زری نے کہا
میں اپنا ہی کام کر رہی ہو۔یہ کہہ کر وہ اپنے اگلے سوال کی طرف بڑھی
تو پھر مقتولہ جمیلہ کے لواحقین کا یہ کہنا کیوں ہے کہ پولیس ملزم کو رہا کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟اب کی بار زریاب نے بیزاری سے کہا
یہ صرف اور صرف افوا ہے۔جب ہم واردات کی جگہ پر پہنچے تھے تو مقتولہ کے لواحقین گنز کے ساتھ اسکے گھر سے باہر کھڑے تھے کہ ملزم باہر نکلے اور وہ اسے مار دیں۔۔تو ہم نے موقعہ واردات پر پہنچکر سب سے پہلے تو ان سب لوگوں سے گنز لیں۔تا کہ یہ لوگ قانون کو ہاتھ میں ناں لے سکیں۔اور اسکے بعد جو ہمیں ضروری لگا ہم نے کیا۔وہ پوری بات بتاکر خاموش ہوا تو زری نے کہا
ESTÁS LEYENDO
عجب پیار (Complete)
Romanceیہ کہانی ہے احساس کی،زمہ داری کی،اعتبار کی،محبت کی۔یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو اپنے ہو کر بھی اسکا اعتبار توڑدیتے ہیں۔