Episode 11

502 40 45
                                    

پورا رستہ وہ روتی رہی۔زریاب نے بھی اسے چھیڑنا گوارہ ناں کیا۔جب گاڑی اسکے گھر کی گلی کے سامنے رکی تو وہ بغیر کچھ کہے اتر گئی۔اور سیدھی چلتی اپنے گھر کے دروازے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
اور پھر آنسو صاف کرکے ڈور بیل پر انگلی رکھ دی۔تب تک زریاب بھی اسکے پاس آکھڑا ہوا تھا۔
کچھ ہی دیر کے بعد دروازہ کھلا اور تہمینہ بیگم نے زری کو سامنے کھڑے دیکھا تو پہلے تو حیران ہوئیں اور پھر اسے اندر آنے کا کہا
وہ بھی سلام کرتی اندر بڑھ گئی تو زریاب بھی اسکے پیچھے گھر میں داخل ہوا۔
"آئیں آئیں "۔۔وہ انہیں لئے ڈرائنگ روم کی طرف جانے لگیں اسی وقت جہاں آرا بیگم اپنے کمرےسے باہر نکلیں۔
اسے دیکھا تو فورن اسکی طرف بڑھیں اور گلے سے لگا کر روتے ہوئے کہا
"زری ہم بدبختوں کو معاف کر دو"وہ روتے ہوئے مسلسل اس سے معافی مانگ رہی تھیں۔
تب ہی چھت پر بیٹھے صابر صاحب کو نیچے شور کی آواز آئی تو وہ سیڑھیوں سے نیچے اترے ۔سامنے ہی صحن میں انہیں زری کھڑی دکھائی دی۔تو وہ اسکی طرف بڑھے۔
"کیسی ہو زری؟" کہتے ہوئے وہ اسکے پاس جا کھڑے ہوئے تو وہ بولی
"ٹھیک ہوں"۔لیکن جواب دیتے دیتے اسکی آواز بھرا گئی۔۔وہ سمجھ رہی تھی کہ اسکا دل سخت ہو چکا ہے لیکن انکی پہلی بات پر ہی اسکا دل پسیج گیا تھا۔۔
زریاب نے اسکی بھرائی ہوئی آواز سنی تو خاموشی سے اسکی طرف دیکھے گیا۔
تب ہی صابر صاحب دو قدم اور آگے بڑھے اور بلکل زری کے مد مقابل جا کھڑے ہوئے۔وہ پہلے توحیران ہوتی نگاہوں سے انہیں دیکھتی رہی ۔اچانک انہوں نے اسکے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا
"مجھے معاف کردو زری۔میں وہ بد بخت باپ ہو جو اپنی بیٹی کے شفاف کردار کو پہچان ناں پایا"۔۔تو وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے انکے ہاتھ روتے ہوئے کھول گئی۔
تو انہوں نےبے ساختہ اسے اپنے سینے سے لگایا ۔جیسے بچپن میں لگایا کرتے تھے۔۔
کافی دیر وہ اسے ایسے ہی ساتھ لگائے روتے رہے۔آخر جہاں آرا بیگم نے کہا
"صابر بس کرو۔۔بچی کو بھی رلا رہے ہو"تو انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیر کر خود سے الگ کیا۔
تب ہی انکی نظر زریاب پر پڑی۔
"آپکا بے حد شکریہ"۔تو وہ خاموشی سے مسکرا دیا۔اور پھر زری کو دیکھا
"جو انکو معاف کرنے پر بلکل بھی راضی نہیں تھی اور باپ کی پہلی اواز پر ہی پسیج کر رہ گئی تھی۔"
اسکے دیکھنے پر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگ گئی۔تب ہی تہمینہ بیگم نے کہا
"چلیں سب ڈرائنگ روم میں چل کر بیٹھیں"۔تو وہ سب لوگ ڈرائنگ روم میں جاکر بیٹھ گئے۔
تائی انکو بٹھا کر انکی خاطر مدارت کا انتظام کرنے کچن میں گئیں تو کچھ دیر ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کے بعد وہ بھی انکی مدد کرنے کچن میں آگئی۔
انہوں نے اسے دیکھا تو کہا
"تم جاو۔میں کر لونگی۔"تو وہ نرمی سے مسکرائی۔
"میں ہیلپ کراتی ہوں" تو وہ مسکرانے کی کوشش میں رونے لگ گئیں۔
"میں نے تمھارے ساتھ بہت زیادتیاں کی ہیں زری۔مجھے معاف کردو"۔تو اسنے نرمی سے انکے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے اور کہا
"چھوڑیں جو گزر گیا سو گزر گیا۔بھول جائیں۔میں بہت خوش ہوں اب"۔تو انہوں نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
"اللہ اور خوش رکھے۔"تو وہ مسکرا دی۔
تو انہوں نے چائے کا پانی رکھتے ہوئے اسے کہا
"زریاب چائے پیتا ہے یا کافی بناو ؟" تو اسنے کہا
"وہ پی لیتے ہیں چائے"۔تو انہوں نے سر ہلایا۔
کافی سارا اچھا وقت گزارنے کے بعد جب وہ لوگ جانے کے لئے کھڑے ہوئے تو صابر صاحب نے زریاب سے کہا
"اگر تم ناراض ناں ہو تو کچھ دن یہ یہاں ہمارے گھر رہ لے؟" تو اسنے ایک نظر زری پر ڈالی جو سر جھکائے ہوئے تھی۔تو اسنے کہا
"اگر یہ رکنا چاہتی ہے تو بے شک رکے"۔اسکی بات سن کر زری نے دل میں کہا
"ہا ں آپ تو مجھ سے ویسے بھی تنگ ہیں۔اپنی اس محبوبہ سے باتیں جو کرنی ہونگی تب ہی ایسے بول رہے۔"
تبہی اسے زریاب کی آواز آئی۔
"زرتاشہ چلنا ہے ؟ "تو وہ بولی
"مجھے رکنا ہے"۔تو وہ اسے خاموشی سے دیکھے گیا اور پھر سب سے گلے مل کر باہر کی طرف بڑھا۔
وہ گھر جانے سے پہلے اس سے بات کر نا چاہتا تھا لیکن جہاں آرا بیگم ان دونوں کے ساتھ دروازے تک گئیں تو وہ اپنی خواہش کو دل ہی میں دبا کر وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو اسے شائستہ بیگم صوفے پر بیٹھی دکھائی دیں۔
سوئے اتفاق وہ بھی اسے دیکھ چکی تھیں۔ اسے اکیلا دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور اسکے قریب آتے ہوئے بولیں
"زری کدھر ہے ؟ تم اکیلے کیوں آئے ہو ؟" تو وہ بولا
"صابر صاحب چاہتے تھے کہ وہ کچھ دن انکے یہاں رکے تب ہی میں اسکی رضامندی اسے وہاں چھوڑ آیا۔"
وہ بتاکرسیڑھیوں کی طرف بڑھا تو وہ بولیں
"کھانا کھاوگے؟ "تو اسنے نفی میں سر ہلایا اور پھر کہا
"نہیں موڈ نہیں۔"کہہ کر دو دو سیڑھیاں پھلانگتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا تو پہلی نظر اسکی صوفے پر پڑی۔وہ خاموشی سے جاکر بیڈ پر لیٹ گیا۔۔
"اگر میرے ساتھ آجاتی تو کیا برا تھا؟ "اسنے تصور کی آنکھ سے اسے دیکھتے ہوئے شکوہ کیا اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔
دوسری طرف زری کی پوری رات اپنے ہی بیڈ روم میں ادھر سے ادھر کروٹیں بدلتے گزری۔
وہ اب واقعی میں زریاب کے کمرے کی عادی ہو چکی تھی۔صبح آزانوں کے قریب اسکی آنکھ لگی تو وہ سوئی۔
۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
کسی کے دروازہ بجانے پر اسکی آنکھ کھلی تو اسنے آنکھیں کھول کر دروازے کی طرف دیکھا اور پھر موبائل اٹھاکر وقت دیکھا جہاں صبح کے دس بج رہے تھے۔
دیر سے سونے کی وجہ سے اسکی آنکھیں لال انگارہ ہو رہی تھیں۔اور سر میں الگ درد ہو رہا تھا۔
دستک کی آواز کو سنتے ہوئے اسنے سائیڈ پر پڑا ڈوپٹہ اٹھایا اور جاکر دروازہ کھولا۔
سامنے ہی تہمینہ بیگم کھڑی تھیں۔
"میں نے تمہیں ڈسٹرب تو نہیں کیا ؟ "انہوں نے پوچھا تووہ نفی میں سر ہلا دی۔اور پھر کہا
"آپ نے بلکل ٹھیک کیا ہے تائی امی۔ورنہ میں نجانے کب تک سوئی رہتی" تو وہ ہنس دیں اور پھر کہا
"اچھا جاو شاور لیکر ناشتہ کے لئے آجاو۔"تو اسنے اثبات میں سر ہلایا تب ہی وہ جاتے جاتے کسی خیال کے تحت پیچھے مڑیں اور اسے کہا
"بلکہ ایسا کرو کومل کے روم میں سے کوئی بھی اسکا سوٹ نکل کر پہن لو۔تمہیں تو زریاب ہم سے ملوانے لایا تھا اور ہم نے تمہیں روک لیا۔"
انکی بات سن کر وہ بمشکل مسکرائی اور پھر کہا
"جی تائی امی" تو وہ ناشتہ بنانے چلی گئیں۔
وہ کچھ دیر وہی کھڑی رہی اور پھر کپڑے لینے کومل کے روم کی سمت بڑ ھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
اسے گئے آج پانچوا ں دن تھا۔ان پانچ دنوں میں نہ زریاب نے اسے کال کی تھی ناں ہی زری نے اسکو۔لیکن دریاب اور شائستہ بیگم سے تو تقریبا روز ہی وہ بات کرتی تھی۔
ابھی وہ آکر صو فے پر بیٹھا ہی تھا کہ دریاب نے زریاب سے پوچھا
"بھائی بھابھی کب آئیں گی؟"تو اسنے دریاب کے ساتھ بیٹھی شائستہ بیگم کو دیکھا جو اسے خفا خفا نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
"ہاں آجائے گی دو تین دن تک"۔زریاب نے جواب دیکر ٹی وی کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہی تو دریاب نے پھر کہا
"ہم لوگ آج خود جاکر لے آئیں انہیں؟ قسم سےبلکل بھی مزہ نہیں آتا آج کل۔انکو تنگ کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے"۔۔وہ اپنی ہی دھن میں کہہ رہا تھا کہ جب شائستہ بیگم نے کہا
"لیکن اسکے جانے سے یہاں ایک انسان بے حد خوش ہے"۔۔طنزیہ انداز میں کہہ کر وہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
جبکہ دریاب انکی بات کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اسکا موبائل بجا تو وہ فون سننے چلا گیا۔
دریاب کے جانے کے بعد زریاب نے ایک نظر اپنی والدہ کو دیکھا اور پھر کہا
"مما۔۔آپ جو سمجھ رہی ہیں ویسا کچھ نہیں ہے"۔اسکی بات سن کر انہوں نے ٹی وی پر سے نظریں ہٹائیں اور اسے کہا
"اچھا تو پھر تم وجہ بتا دو کہ تم کیوں نہیں لا رہے اسے ؟" تو وہ بولا
"اگر وہ رہنا چاہتی ہے تو کچھ دن وہاں رہنے دیں۔تمام زندگی تو یہیں گزارنی ہے "۔اسکے کہنے پر انہوں نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر کہا
"لیکن وہ دوبارہ بھی وہاں جا سکتی ہے۔۔اور ویسے بھی وہ خود ہم سب کو مس کر رہی ہے ۔تو تم اسے لے آو"۔انکے بتانے پر وہ بولا
"لیکن آپکی بہو نے مجھے کال کر کے لانے کا نہیں کہا مما۔۔تو اسلئے میں نہیں جاونگا"۔۔
"اور اگر اتنا ہی سب کو مس کر رہی ہے تو خود آجائے"۔اسکی بات پر وہ غصے سے اسکی طرف دیکھتی رہیں اور پھر کہا
"خود کیوں آئے ؟ لے جانے والے بھی تم تھے تو لیکر بھی تم آو گے"۔اور ہاں تم یہ بتاو
"اگراسنے تمہیں کال نہیں کی تو تم نے کونسا کر لی ہے"؟انکے ڈانٹنے پر وہ نظریں جھکائے جھکائے بولا
"میں نہیں جاونگا۔آپ اسے کہیں خود آجائے۔یا پھر دریاب کو بھیج دیں ۔رکنے کا فیصلہ بھی اسکا خود کا تھا تو آئے بھی خود ہی"۔۔وہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"بڑا مس کیا قسم سے یار بھابھی۔"دریاب نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کہا تو وہ جوابن بولی
"میں نے تو نہیں کیا تمہیں یاد۔بلکہ شکر ادا کیا کہ تم سے جان چھوٹی۔"وہ ہنستے ہوئے بولی تو دریاب نے کہا
"اب آپ اپنے بھائی کی تعریف نہیں کرنا چاہتیں تو خیر ہے۔"اسنے کہتے ہوئے گاڑی گھر کے اندر داخل کی تو وہ ہنستی چلی گئی ۔
"چلو اندر۔بعد میں شوخیاں مارنا"۔۔کہہ کر وہ دروازہ کھولنے لگی تو دریاب نے اچانک یاد آنے پر کہا
"او ہاں بھابھی ایک بات بتانی تھی۔مما اپنی فرینڈ کے گھر گئی ہوئی ہیں "تو اسنے سر ہلایا اور دروازہ کھول کر اندر لاونج میں جاکر بیٹھ گئی۔
"چھوٹی بی بی پانی"۔ملازمہ نے اس کو پانی لاکر دیا تو وہ مسکرا کر پانی پینے لگ گئی۔جب پانی پی چکی تو دریاب سے پوچھا
"کچھ پتہ ہے کہ مما کب تک آئیں گیں؟"تو وہ بولا
"رحمانہ آنٹی خیر سے مما کو جلد نہیں آنے دیتییں۔آپ جائیں آرام کر لیں "تو وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
۔،۔۔۔*۔۔۔۔۔
وہ جیسے ہی اپنے بیڈ پر لیٹی تو سکون کی ایک لہر اسکے رگ و پے میں ڈور گئی۔
یہ سکون ہی تو وہ اتنے دنوں سے مس کر رہی تھی۔
آہستہ آہستہ اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں۔اور وہ سکون کو محسوس کرتے ہوئے نیند میں کھو گئی۔
وہ گہری نیند میں سو رہی تھی جب اسے دور دور سے کسی کی آواز آتی سنائی دی۔۔
زری نے مندی مندی آنکھیں کھول کے دیکھا تو سامنے ہی اسے شائستہ بیگم کھڑی نظر آئیں ۔وہ فورن اٹھ کر ان سے گلے ملی۔
حال احوال پوچھنے کے بعد شائستہ بیگم نے کہا
رات ہو رہی تھی تو میں نے سوچا
"اب اٹھا لو تمہیں۔کھانا بھی تو کھانا ہے ناں"۔تو زری نے انکی طرف دیکھا اور پھر وال کلال کی طرف دیکھا۔رات کے دس بج رہے تھے۔مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں اتنی دیر سوتی رہی۔زری بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا تو شائستہ بیگم بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"منہ دھو کہ نیچے آجاو۔تمھارے پاپا بھی چار دفعہ مجھ سے پوچھ چکے ہیں"۔تو زری نے کہا
"ہیں واقعی ؟" تو شائستہ بیگم ہنسیں اور پھر کہا
"اور نہیں تو کیا۔۔" تو زری چٹکی بجاتے ہوئے بولی
"بس ابھی آئی میں"۔۔ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ ملازمہ دروازہ کھٹکھٹا کر وہاں آئی اور شائستہ بیگم سے کہا کہ قریشی صاحب انکو بلا رہے ہیں۔
اسکی بات سن کر شائستہ بیگم نے سر ہلایا اور پھر زری سے جلد آنے کا کہہ کر خود ملازمہ کے ساتھ وہاں سے چلی گئیں۔
انکے جانے کے بعد وہ بھی منہ دھونے واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔ ۔۔۔
"اوہو آگیا میرا بچہ " قریشی صاحب نے اسے دیکھتے ہی کہا تو اسنے بھی ہنستے ہوئے انہیں سلام کیا اور پھر کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔
"بہت دن لگا دئیے تھے بیٹا"۔۔وہ بولے تو زری نے مسکراتی آنکھوں سے انہیں دیکھا اور پھر کہا
"میں تو کب سے آنا چاہ رہی تھی ۔یہ دریاب کا بچہ ہی مجھے لینے نہیں آرہا تھا"۔۔اسکی بات سن کر پاس بیٹھے دریاب نے کہا
"میں سوچ رہا تھا کہ کچھ دن اور میں سکون سے رہ لو۔لیکن ظالم لوگوں سے میرا سکون برداشت ناں ہوا"۔۔اسنے کہہ کر جھوٹی آہ بھری۔
تب ہی قریشی صاحب نے شائستہ بیگم سے پوچھا
"زریاب کہاں ہے ؟ "تو وہ بولیں
"وہ صبح سے گیا ابھی تک گھر نہیں آیا۔میں نے کال کی تھی ۔لیکن کہہ رہا تھا کہ مصروف ہوں ۔شاید رات میں بھی ناں آو"۔تو قریشی صاحب بولے
"اچھا خاصا کاروبار ہے ۔لیکن اسے پتہ نہیں کیوں جاب کا شوق ہے"۔تو شائستہ بیگم نے انکی توجہ کھانے کی طرف کراتے ہوئے کہا
"اچھا چھوڑیں۔آپ کھانا کھائیں"۔ تو وہ بھی کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"بھابھی اگر آپکے ہاتھوں کی گرین ٹی ہو جائے تو کیا ہی بات ہے" ۔دریاب نے کھانے کے بعد اس سے فرمائش کی تو وہ کشن اسکی طرف اچھال کر کھڑی ہو گئی۔
گرین ٹی پینے کے بعدجب سب اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لئے چلے گئے تو وہ بھی تمام کپ اٹھا کر کچن کی طرف بڑھی۔
ارادہ تو اسکا یہی تھا کہ وہ سنک میں کپ رکھ کر چلی جائے گی لیکن جب صاف ستھرے سنک کو دیکھا تو اسنے اپنا ارادہ ترک کرکے کپوں کو دھوناشروع کر دیا۔
وہ آخری کپ دھو رہی تھی جب اسے اپنے پیچھے کسی کے ہونے کا احساس ہوا ۔
وہ پیچھے مڑی تو سامنے ہی زریاب کھڑا تھا۔۔
زری نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر دوبارہ کپ کی طرف متوجہ ہو گئی تو زریاب نے کہا
"کب تک بیچارے کپ کو دھوتی رہو گی۔جان بخش دو اسکی"۔زری نے اسکی بات سنی اور پھر تڑخ کر کہا
"آپ کو تو کچھ نہیں کہہ رہی ناں۔تو آپکو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔"اس نے کپ کو زور سے سنک میں پٹختے ہوئے کہا تو زریاب نے اسے مزید چھیڑتے ہوئے کہا
"اوئے ہوئے اتنا غصہ ۔۔۔ویسے اگر غصہ مجھ پر ہے تو مجھ پر نکالو۔۔بیچارے کپ کی کیا غلطی۔"تو وہ بولی
"مجھے کسی پر بھی غصہ نہیں ہے۔"کہہ کر وہ اسکی سائیڈ سے ہو کر جانے لگی تو وہ دوبارہ اسکے سامنے آکھڑا ہوا۔
"مطلب مجھ سے اب کوئی بھی ناراضگی نہیں ہے ؟" تو زری نے کچھ کہنے کے لئے اسکی طرف دیکھا اور پھر جیسے ہی نظر اسکی چمکتی کالی آنکھوں پر پڑی تو خاموش ہو کر دوبارہ سے اسکی سائیڈ سے ہو کر جانے لگی مگر وہ اسکےراستے میں آکھڑا ہوا تو وہ جھنجھلاتے ہوئے بولی
"آپ بار بار میرے راستے میں کیوں آرہے ہیں ؟"تو وہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولا
"کیونکہ تمھارے سارے راستے مجھ تک ہی آتے ہیں"۔تو وہ تڑختے ہوئے بولی
"اور وہ جو روز کالیں کرتی ہے اور جس سے ملنے جاتے ہیں اسکے بھی تمام راستے آپ تک آتے ہیں۔ہیں ناں"۔۔اسکے بولتے ہی وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔اور پھر کہا
"تم ابھی تک اس بات کو دل میں لئے بیٹھی ہو ؟" تو وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی
"مجھے جانے دیں۔"تو زریاب بولا
"ایسے کیسے جانے دو۔اب بات تو کلئیر کرونگا ناں"۔تو زری نے کہا
"مجھے کوئی بات نہیں کلئیر کرنی"۔کہہ کر وہ جانے کے لئے مڑی تو زریاب نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا
"کہہ دینے سے مسئلے حل ہو جاتے ہیں زری۔ہر دفعہ کی خاموشی ٹھیک نہیں ہوتی"۔تو اسنے بھرائی ہوئی آواز میں کہا
"یہی فارمولا آپ پر بھی اپلائی ہوتا ہے۔"تو زریاب نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور پھر کہا
"لیکن دل کی بات تو تم ہمیشہ چھپاتی رہی ہو۔میرے پیچھے مما کو اپنی تائی کو میرے ساتھ رہنے کا بولتی رہی ہو اور مجھے ہمیشہ تم یہی بولتی رہی کہہ تمہیں طلاق چاہیے "۔تو زری نے چونک کر اسکا چہرہ دیکھا اورپھر کہا
"آپ بھی تو اور لڑکیوں کے ساتھ باتیں کرتے تھے۔اور آپنے کب کہا کہ میں آپ کو پسند ہوں۔"زری ابھی بول ہی رہی تھی کہ زریاب نے اسکی بات کاٹی
"لڑکیاں نہیں لڑکی۔زائرہ ہے وہ ۔میرے دوست کی منگیتر ہے۔اسکی اور اسکے فیانسی کی کچھ مس انڈرسٹینڈنگ ہو گئی تھی تب ہی وہ مجھے کالز کر رہی تھی کہ میں انکا مسئلہ حل کراوں۔اور تمہیں کس نے کہا تھا کہ تم مجھے ناپسند ہو ؟" زریاب نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا
"مجھے لگا تھا۔۔آپ نے خود بھی تو کبھی نہیں کہا کہ آپ مجھے پسند کرتے ہیں۔اور پھر ابھی جب میں میکے نہیں جانا چاہتی تھی لیکن آپ زبردستی لیکر گئے تھے اور پھر آپ نے مجھے رکنے سے منع بھی نہیں کیا اور پھر کوئی کال بھی نہیں کی۔اور ناں خود لینے آئے" ۔آخر میں بولتے بولتے وہ تقریبا رونے والی ہو گئی۔تو زریاب نے کہا
"یار لے جانا ضروری تھا ناں تب ہی لیکر گیا تھا۔۔انکل اتنا رو رہے تھے تو مجھے برا لگا تھا۔اگر کل کو میری بیٹی ایسے مجھ سے بدگمان ہو گئی تو میں کیا کرونگا۔اسلئے زبردستی لے گیا۔۔کیونکہ ہر انسان کو وہی ملتا ہے جو کرتا ہے۔اور پھر شاید تب بھی کوئی ایسے ہی میری بیٹی کو مجھ سے بدگمان نہ ہونے دے۔تو بس اسلئے"۔۔۔
پھر وہ آگے بات بدلتے ہوئے بولا
"میں سمجھا تم کہہ دو گی کہ آج نہیں رکو گی۔لیکن تم تو تیار بیٹھی تھی وہاں رکنے کے لئے۔اور پھر بس بعد میں مجھے غصہ آگیا تھا تمھارے وہاں رکنے پر تب ہی نہیں لینے آیا۔"
وہ پوری بات صاف گوئی سے بتا گیا تو زری نے کہا
"اپنی غلطی تو آپ کو نظر ہی نہیں آتی" ۔۔تو زریاب نے ایک نظر اسکی نم آنکھوں کو دیکھا اور پھر گھٹنوں کے بل اسکے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا
"چلو میری غلطی ہے ۔مجھے معاف کر دو"۔ تب ہی انہیں شائستہ بیگم کی آواز آئی
"زری کچن میں تم ہو ؟" انکی آواز سن کر زری نے ایک نظر سامنے بیٹھے زریاب کو دیکھا اور پھر آواز کی سمت دیکھ کرگھبراتے ہوئے کہا
"مما آرہی ہیں۔اٹھیں"۔ تو زریا ب نے کہا
"پہلے بتاو معاف کیا کہ نہیں ؟" اسی وقت دوبارہ شائستہ بیگم کی آواز آئی تو زری نے اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا
"اٹھیں۔"تو وہ ہنستے ہوئے بولا
"پہلے میرے سوال کا جواب دو"۔تو وہ بولی
"جی جی ۔۔اب اٹھیں"۔تو وہ ہنستا ہوا بولا
"اب تو طلاق نہیں مانگو گی ناں ؟" تب ہی شائستہ بیگم اسے کچھ کہتے ہوئے کچن میں آئیں۔
"زری وہ میں" ۔۔۔۔
جملہ انکے منہ ہی میں تھا کہ انہوں نے زریاب کو زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھے دیکھا جو انہیں دیکھ کر اب کھڑا ہو گیا تھا۔
وہ اسے گھٹنوں کے بل بیٹھا دیکھ تو چکی تھیں لیکن اسے نظر انداز کر کے انہوں نے زری سے کہا
"میں نے تمھارے پپا کی میڈیسنز کہاں رکھی تھیں ؟تمہیں کچھ یاد ہے تو بتاو"انکے پوچھنے پر وہ بولی
"مما لاونج کے سینٹرل ٹیبل پر آپ نے دریاب سے شاپر لیکر رکھا تھا"۔تو وہ ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولیں
"ارے ہاں میں نے وہاں رکھا تھا شاپر۔شکر ہے کہ یاد آگیا" کہتی وہاں سے چلی گئیں۔
انکے جانے کے بعد اسنے زریاب کی طرف دیکھا اور پھر ناراضگی سے بولی
"کتنی بری بات ہے۔مما اب ناجا نے کیا سوچیں گیں کہ میں نے آپ کو گھٹنوں کے بل بیٹھنے کو بولا تھا "تو وہ مسکراتے ہوئے بولا
"مما پپا ایسا کچھ نہیں سوچتے اور تم فضول باتیں سوچنے کے بجائے مجھے سوچا کرو۔"تو زری نے اسے گھورا
جبکہ وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر کچن سے باہر لے جاتے ہوئے بولا
"باقی کے مزاکرات کمرے میں کر لیں گے"۔۔تو وہ کھکھلا کر ہنس دی۔۔
جبکہ وہ اسے ہنستا دیکھ کر خود بھی ہنس دیا اور دل میں پکا عہد کیا کہ آئندہ کبھی اسکی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دیگا"۔۔
"جبکہ اسکے ساتھ چلتی زری کو یقین تھا کہ اگر پوری دنیا بھی اسکے خلاف ہو جائے لیکن تب بھی زریاب اسکے خلاف نہیں ہوگا"۔۔اسنے اپنے آگے چلتے ہوئے زریاب کی پیٹھ کو دیکھا اور مسکرا دی۔اسے یقین تھا کہ زریاب قریشی کے ساتھ زندگی بہت حسین گزرنے والی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
The end

عجب پیار  (Complete)حيث تعيش القصص. اكتشف الآن