صابر صاحب اطلاع ملتے ہی اپنی بھابھی کے ساتھ تھانے پہنچے تو کومل کو سلاخوں کے پیچھے دیکھ کر تہمینہ بیگم بے قرار ہو گئیں۔
"میری بچی!" انہوں نے سلاخے پکڑ کر روتے ہوئے کہا تو کومل فورن زمین سے اٹھ کر انکے پاس آئی۔
"امی مجھے انہوں نے فضول میں پکڑا ہے۔میری کوئی غلطی نہیں ہے"۔کومل نے کہا تو وہ بولیں۔
"اللہ کی مار پڑے ان پر ۔میری معصوم بچی کو لاکر یہاں بند کر دیا"۔۔۔وہ روتے ہوئے بولیں
"تبھی صابر صاحب نے کہا میں جاکر بات کرتا ہوں۔"تو تہمینہ بیگم سر ہلا دیں۔
انکے وہاں سے جاتے ہی کومل نے آہستہ سے کہا
"ہمارا کیس زری کے شوہر کے ہاتھ میں ہے۔"تو وہ حیرانگی سے بولیں
"مطلب ؟ "تو کومل بولی
"وہ یہاں ہی تعینات ہے" ۔۔۔۔اسکی بات سن کر انہوں نے کہا
"اگر ایسا ہے تو پھر تو وہ ہماری ہی مدد کرے گا۔آخر کو اسکے سسر اسکے پاس جائیں گے" تو کومل بولی
"نہیں وہ بہت سخت ہے۔۔آپ ایک کام کریں۔آپ زری سے ملیں۔ اسے سب بتائیں کہ ہم مشکل میں ہیں۔ہمارا خاندان مشکل میں ہے۔ہماری مدد کرے۔اپنے شوہر کو سمجھائے"۔تو تہمینہ بیگم نے کہا
"کیا وہ ہماری مدد کرے گی" ؟ تو وہ بولی
"میرے خیال سے تو کر لے گی۔"تو تہمینہ بیگم نے سر ہلایا تب ہی صابر صاحب وہاں آئے اور کہا
"یہ لوگ ضمانت کے لئے نہیں مان رہے" اسی وقت کانسٹیبل نے کہا
"ٹائم ختم ہو گیا ہے۔جاو"۔۔۔۔تو انہوں نے کومل کو خداحافظ کہا اور وہاں سے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
"مجھے زرتاشہ سے ملنا ہے"۔وہ اس وقت اسکے گھر سے باہر کھڑے چوکیدار سے سر کھپا رہی تھیں۔
"آپ کون ہے ؟"چوکیدار نے پوچھا تو وہ بولیں
"میں اسکی تائی ہوں۔اسے بولو کہ تہمینہ بیگم آئی ہے"۔تو وہ بولا
"ہمیں صاحب کا حکم ہے کہ انجان لوگوں کو انکی اجازت کے بغیر اندر ناں آنے دیا جائے اسلئے میں آپ کو اندر نہیں بھیج سکتا۔"
اسکی بات سن کر وہ بولیں
"تم جاکر ایک دفعہ زرتاشہ کو بتاو تو سہی۔وہ خود آئے گی۔"
تو وہ بولا
"تم یہی رکو۔میں پہلے چھوٹی بی بی سے پوچھ کر آتا ہوں"۔۔وہ کہہ کر اندر چلا گیا۔
"بی بی باہر کوئی خاتون آیا ہے۔۔وہ کہتا ہے کہ اسے آپ سے ملنا ہے ۔"
اسکی بات سن کر اسکے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھی شائستہ بیگم نے کہا
"نام کیا ہے ؟ "
"تہمینہ ۔اور وہ اپنے آپ کو آپکا تائی بتاتا ہے تو فق چہرے سےوہ اسے سنتی رہ گئی"۔جبکہ اسکی بات سن کر شائستہ بیگم نے زری سے کہا
"کیا واقعی تمھاری تائی کا نام تہمینہ ہے ؟" تو اسنے سر ہلایا۔
"جاو بھیجو انہیں"۔شائستہ بیگم نے چوکیدار سے کہا تو وہ جی اچھا کہتا وہاں سے چلاگیا۔
"جاو" ۔۔باہر جاکر چوکیدار نے اسے اندر آنے کا کہا اور اپنی نگرانی میں انہیں ڈائننگ روم میں بٹھاکر کہا
"آپ بیٹھو۔۔بی بی آتی ہیں۔"وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
"مما مجھے نہیں جانا"۔زری نے روتے ہوئے نفی میں سر ہلایا تو شائستہ بیگم نے کہا
"فورن اٹھو زری۔۔ایسے نہیں کرتے میری جان۔"تو وہ بولی
"آپ کو نہیں پتہ وہ کیسی خاتون ہیں۔اب وہ کوئی اور ڈرامہ سوچ کر آئی ہونگیں۔"اسکی بات سن کر انہوں نے کہا
"اگر جاو گی نہیں تو علم کیسے ہو گا کہ وہ کیوں آئی ہے۔۔جاو میرا بچہ ۔۔بات سن لو۔"انہوں نے اسکے گال پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"آپ بھی چلیں ناں میرے ساتھ۔"اسنے جاتے جاتے مڑ کر کہا تو وہ بولیں
"ہاں میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔تم چلو"۔۔تو وہ ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئی تو جوس پیتی تہمینہ بیگم اسے دیکھ کر فورن اٹھ کھڑی ہوئیں اور دونوں بازو پھیلا کر اسکی طرف بڑھیں۔
"زری میری جان "۔۔۔۔تو وہ انکے ہاتھوں کو نظر انداز کرتی صوفے پر جاکر بیٹھ گئی اور بغیر کسی تاثر کے پوچھا
"جی بولیں ؟ کیوں ملنا ہے آپ کو مجھ سے ؟" تو وہ اسکے بیگانے رویے کو دیکھ کر تھوڑی سی حیران ہوئیں اور پھر کہا
"مجھے پتہ ہے تم ہم سے ناراض ہو ۔لیکن میری جان وہ حالات ہی ایسے تھے کہ"۔۔۔۔۔وہ ابھی بول ہی رہی تھیں کہ زری نے انکی بات کاٹی اور کہا
"آپ کس کام کے لئے آئیں ہیں ؟ "تو وہ بولیں
"دیکھو زری تمھاری بہن ابھی بہت مشکل میں ہے وہ تھانے میں ہے۔اور ہمارے خاندان کی عزت اب تمھارے ہاتھ میں ہے ۔تمھارا شوہر اسکی ضمانت تک نہیں کر رہا ہے۔اسکو سمجھاو۔۔تم ہماری مدد کرو تاکہ کومل تھانے سے نکل سکے اور پھر ہم لوگ مل کر تمہیں اس آفیسر کے چنگل سے نکال لیں گے۔ہمیں علم ہے کہ تم اسکے ساتھ ناخوش ہو۔"
دروازے سے اندر آتے زریاب نے انکی بات سنی ۔اسے علم تھا کہ زری انکی باتوں میں آجائے گی اسلئے جیسے ہی وہ جواب دینے کے لئے آگے بڑھا تب ہی اسے زری کی آواز آئی
"پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کو کس نے کہا کہ میں انکے ساتھ ناخوش ہوں ؟ میں الحمدللہ اپنے شوہر کے ساتھ بے حدخوش ہوں۔اور دوسری بات یہ ہے کہ میں ان سے کوئی طلاق ولاق نہیں لینا چاہتی اور تیسری بات یہ ہے کہ انہوں نے جو بھی کیا ہے صحیح کیا ہوگا۔وہ آفس کے مسئلوں کو گھر تک نہیں لاتے۔
اور سب سے بڑی بات یہ ہے تائی امی کہ کومل کی صحبت غلط تھی۔آپ میرے پیچھے پڑی رہی ۔۔کبھی آپ اگر اپنی بیٹی پر توجہ دیتی تو آج یہ سب ناں ہوتا"۔
اسکی بات سن کر اندر آتا زریاب وہی سے مڑ گیا۔
"جبکہ وہ اب بھی بول رہی تھی کہ میرے ساتھ جو بھی ہوا وہ میرے نصیب میں تھا اور میں اپنے نصیب سے خوش ہوں۔مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں۔آپ جائیں"۔آخر میں اسکی آواز بھرا گئی تو وہ بولیں
"زری"۔۔۔۔ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ وہ دوبارہ بول پڑی
"آپ کو علم ہے جو آپ نے میرے ساتھ کیا وہی کچھ آپکی بیٹی کے ساتھ بھی ہوا ہے فرق صرف یہ ہے کہ میرے ساتھ کوئی بھی کھڑا نہیں تھا حتی کہ میرا باپ بھی نہیں اور کومل کے ساتھ سب کھڑے ہیں۔۔میرا عزت دار باپ بھی۔
جبکہ میرے ساتھ وہ انسان کھڑا تھا جسکا آپ کہہ رہی ہیں کہ میں اس سے ناخوش ہوں۔"وہ سانس لینے کے لئے رکی
"آپ بیٹھ کر سوچئے گا کہ کہ کومل کہ ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟ آپ کو پتہ ہے یہ سب آپ کے کالے کرتوت ہیں جنکی سزا آپکی بیٹی کو ملی ہے۔
آپ نے اپنی بہن کے گھر کو بنانے کے لئے میرے باپ کے دل میں میرے خلاف شک پیدا کیا۔میری ماں کی زندگی کو اتنا اجیرن کر دیا کہ وہ موت مانگنے لگ گئی ۔تو اب اللہ آپ کو آپکے کئے کی سزا دے رہا ہے۔"وہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی تو وہ بھی تھکے تھکے قدموں سے چلتی اسکے گھر سے باہر نکل گئیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
"ہا ں ٹھیک کہہ رہی ہے ۔میں نے جو بھی کیا ہے اس سب کی سزا اب میری کومل کو ملی ہے۔"
"اسکی تربیت میں کوتاہی میں نے کی ہے"۔۔وہ سڑک کے کنارے چلتے چلتے سوچے گئیں۔
"یااللہ میں تیری گناہ گار ہوں لیکن میری کومل کو بخش دے۔میرے کئے کی سزا اسے ناں دے۔وہ بہت کمزور ہے"۔ ۔انہوں نے آہستہ سے خود کلامی کی۔تبھی ایک پتھر سے انکو ٹھوکر لگی تو وہ منہ کے بل گریں۔
"یااللہ معاف کر دے مجھے ۔۔میری کومل کو اس سزا سے نکال دے۔"وہ وہی بیٹھ کر رونے لگ گئیں۔
لوگ انکے آس پاس سے گزر رہے تھے۔۔کوئی کچھ دیر ٹہر کر انہیں دیکھتا اور پھر چل پڑتا۔
وہ سب سے بے نیاز وہی گری روتی رہیں اور پھر کچھ دیر بعد وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔اور رکشے کو روک کر اس میں بیٹھ گئیں۔
گھر کے دروازے پر اتر کر پرس میں سے ہزار کا نوٹ نکال رکشے والے کو دیا اور پھر اپنے ہی دھیان میں اپنے گھر کی گلی کی طرف بڑھیں۔
پیچھے رکشے والا انہیں پیسے واپس لینے کے لئے آوازیں دیتا رہ گیا لیکن جب وہ پیچھے ناں مڑیں تو وہ وہاں سے چلا گیا۔
وہ اسی طرح لٹی پٹی حالت میں گھر میں داخل ہوئیں اور چارپائی پر جاکر بیٹھ گئیں۔
"کیا ہوا تہمینہ ؟ گئی تھی تم زری سے بات کرنے ؟"انکی ساس انکے پاس بیٹھتے ہوئے بولیں لیکن وہ ٹس سے مس ناں ہوئیں۔
"کیا ہوا ہے تہمینہ ؟" انہوں نے انکو پھر ہلایا تو وہ انکی طرف مڑیں اور کہا
"ہم سب کو سزا مل رہی ہے ۔کومل کو بھی سزا مل رہی ہے۔جو میں نے کیا ہے اس سب کا خمیازہ اب بھگتنا پڑ رہا ہے۔"انکی بات سن کر انہوں نے حیرت سے تہمینہ بیگم کو دیکھا اور پھر کہا
"کیا اول فول بول رہی ہو ؟"تو وہ بولیں
"ہم سب نے زری کے خلاف اتنا زہر صابر کے دل میں بھر دیا کہ وہ بھی اس پر شک کرنے لگ گیا۔"
"آپ کو علم تھا کہ شہزاد اسکے قابل نہیں لیکن پھر بھی آپ اسے اس گھر سے نکالنے کے درپے تھیں۔قصور صرف زری کا یہ تھا کہ وہ لڑکی پیدا ہو گئی۔اور پھر آپ نے اسکی زندگی کو بد تر سے بد تر کر دیا۔
ہم سب پر عزاب نازل ہو رہا ہے۔جس جھوٹی عزت کا راگ اپال کر ہم نے زری کو بے عزت کر کے یہاں سے نکالا تھا وہی عزت اب تھانے میں رل رہی ہے"۔۔انہوں نے روتے ہوئے کہا
اندر داخل ہوتے صابر صاحب نے انکی تمام باتیں سنیں ۔اور پھر اپنی ماں کا چہرہ دیکھا۔
"دکھ ،تکلیف،غم کیا نہیں تھا انکی آنکھوں میں"۔وہ آہستہ آہستہ چلتے انکے پاس گئے اور پھر اپنی ماں سے کہا
"آپ کو اگر زری کا پیدا ہونا پسند نہیں تھا تو آپ مجھے اسکے پچپن میں ہی اسکو قتل کرنے کا بول دیتیں اماں لیکن یوں اسکی کردار کشی ناں کرتیں۔
آپ کی اس حرکت نے مجھے توڑ دیا ہے۔"وہ کہہ کر چھت پر چلے گئے۔جبکہ وہ لوگ وہی بیٹھے اپنی زندگی کے خسارے گنتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
وہ جب کمرے میں داخل ہوئی تو زریاب بیڈ پر لیٹا نیوز سن رہا تھا۔۔
وہ اندر آئی اور ادھر دیکھے بغیر واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
کافی دیر روتے رہنے کے بعد جب وہ منہ دھو کر باہر نکلی تو زریاب تب بھی بیڈ پر لیٹا ہوا تھا ۔
وہ خاموشی سے صوفے کی طرف بڑھی تب ہی صوفے پر پڑا زریاب کا موبائل بجا۔۔
زری جو کہ صوفے کے قریب پہنچ چکی تھی اسنے ایک نظر موبائل کو دیکھا جس پر نمبر کے ساتھ ساتھ لڑکی کی تصویر بھی آرہی تھی۔
اسکے قدم ایک لمحے کے لئے ٹھٹھکے اور پھر موبائل اٹھا کر اسے دے کر خود اپنے صوفے پر بیٹھ گئی۔
جبکہ زریاب اب کال پر بات کر رہا تھا۔۔اچانک وہ اٹھا اور آہستہ سے کہا
"نہیں یار آج کل نہیں آسکتا "۔کہتا ہوا ٹیرس کی طرف بڑھ گیا۔
پیچھے وہ اسکی پیٹھ کو گھورتی رہ گئی۔
"یہ کسی سے پیار کرتے ہیں ؟"اسنے دل میں کہا اورصوفے پر لیٹ گئی۔
کافی دیرکے بعد وہ اندر کمرے میں آیا ۔زری نے اسکو دیکھتے ہی آنکھیں بند کر لیں۔
آنسو ٹوٹ کر اسکی آنکھوں سے نکلے تو اسنے اپنا بازو آنکھوں پر رکھ لیا۔۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اسے روتا ہوا دیکھے۔
"مجھے کیوں برا لگ رہا ہے ۔یہ جسکے پاس جانا چاہتے ہیں جائیں۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے" ۔وہ اپنے ہی دل سے دل ہی دل میں لڑ رہی تھی لیکن اپنے آنسووں پر اسے کوئی قابو نہیں تھا۔
وہ جانے سے پہلے ایک سیکنڈ کے لئے اسکے پاس رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔
دروازہ بند ہونے کی آواز سن کر اسنے آنکھیں کھولیں۔
اسے بےحدگھٹن محسوس ہو رہی تھی تب ہی وہ اٹھ کر ٹیرس پر گئی ۔ابھی اسے وہاں کھڑے مشکل سے تین منٹ ہوئے ہونگے کہ اسے زریاب گاڑی کی طرف جاتا دکھائی دیا۔۔وہ خاموشی سے اسے دیکھے گئی۔
اب وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔اچانک کسی کی نظروں کی تپش ہونے کا احساس ہونے پر اسنے سر اٹھا کر بے دھیانی میں ٹیرس کی طرف دیکھا جہاں اسے کسی کے ہونے کا گمان ہوا تھا۔لیکن اب وہاں کوئی نہیں تھا۔
وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گیا۔اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
دوسری طرف زری بیڈ پر بیٹھی زارو قطار رو رہی تھی۔
اور ساتھ ہی خود کلامی کی
"جائیں جائیں۔جسکے پاس جانا ہے جائیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
وہ سب رات کا کھانا کھا رہے تھے جب زری نے کہا
"پپا میں جاب کرنا چاہتی ہوں"۔اسکی بات سن کر منہ میں لقمہ ڈالتے زریاب کا ہاتھ ایک سیکنڈ کے لئے وہی رک گیا۔
"کیوں بیٹا کیوں جاب کرنی ہے آپ نے "؟ قریشی صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا
"میں گھر میں بور ہو گئی ہوں تو میں اور دریاب ساتھ ہی آفس جائیں گے ساتھ ہی آجائیں گے۔"اسنے وجہ بتانے کے ساتھ ساتھ آگے کی پلاننگ بھی بتائی۔تو پانی پیتے دریاب کو پھندا لگ گیا۔
"ہر جگہ مجھے ہی آپ کیوں گھسیٹتی ہیں"۔دریاب نے کہا
"وہ اسلئے کیونکہ تم میرے پیارے سے بھائی ہو۔اور بہنوں کا کام بھائی ہی کرتے ہیں"۔زری نے مسکراتے ہوئے کہا
"یہ آپ کے چھ فٹ لمبے شوہر بیٹھے ہیں ان سے کام کروائیں"۔
"میری توبہ ۔۔شاپنگ پر جانا ہو تو میں پیارا ہو جاتا ہوں اور اگر انکا ڈرامہ لگا ہو اور چینل تبدیل کر دو تو مما سے زیادہ چھترول یہ کرتی ہیں"۔دریاب نے اپنا دکھڑا رویا ۔جسے نظر انداز کرتے ہوئے زری نے پھروہی بات کی۔
"پپا میں کر لوں ناں جاب "؟اسکی بات پر وہ زریاب کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر بولے
"اگر زریاب ہاں کرتا ہے تو کر لو جاب۔میری طرف سے اجازت ہی اجازت ہے۔"تو زریاب نے اسکی طرف رخ کرتے ہوئے کہا
"نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے ۔مجھے نہیں پسند"۔کہہ کر وہ اپنا کھانا کھانے لگا تو زری نے آہستگی سے کہا
"آپ کو تو میں بھی نہیں پسند"۔اسکی دھیمی سی بات کو بمشکل اسنے سنا اور کچھ کہنے کے بجائے کھیر کے ڈونگے کو اٹھایا تو وہ لب بھینچ کر رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آپ کو پپا کے سامنے ناں کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟" وہ لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا جب وہ اندر آئی اور آتے ساتھ ہی غصے میں اسکے لیپ ٹاپ کو بند کیا۔
زریاب نے ایک نظر اسکے لال چہرے کو دیکھا اور پھر کہا
"میں نہیں چاہتا تم جاب کرو۔"اسنے کہہ کر دوبارہ لیپ ٹیپ کھولا تو زری نے دوبارہ بند کر دیا
"لیکن مجھے پسند ہے جاب کرنا۔"تو وہ بولا
"مجھے نہیں پسند۔"اسکے یہ بولتے ہی زری نے کہا
"تو میں کیا کرواگر آپ کو نہیں پسند۔اور پھر کل کو آپ مجھے طلاق دیں گے تو کم از کم مجھے ابھی سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا، چاہیے۔"اور پھر میں گھر میں فارغ ہی رہتی ہوں۔اسکی اتنی لمبی تقریر کے جواب میں وہ فقط اتنا بولا
"جب تک میرے نکاح میں ہو تب تک تم جاب نہیں کرو گی۔"تو زری نے غصہ سے کہا
" پھر آپ بھی کان کھول کر سن لیں جب تک آپ میرے شوہر ہیں تب تک آپ کسی اور لڑکی کے پاس نہیں جائیں گے۔"اسکی بات سن کر پہلے تو وہ حیران ہوا اور پھر دماغ میں کل رات کا منظر کلک ہوا تو فورن مسکرایا لیکن پھر اپنی مسکراہٹ ظبط کرتے ہوئے کہا
"لیکن آپ مجھ پر ایسی کوئی بھی پابندی نہیں لگا سکتیں۔کیونکہ یہ پہلے ہی طے ہو چکا ہے کہ جب تک آپکے ابو نہیں مانتے اس عرصے میں میں کسی بھی لڑکی کو پسند کر سکتا ہوں۔تاکہ میں اپنے والدین کو طلاق دینے کی وجہ بتا سکو۔اور طلاق کی بھی خواہش مند آپ ہیں ناں۔"اسکی بات سن کر وہ وہی کھڑی اپناغصہ ضبط کرتی رہی ۔تب تک وہ دوبارہ لیپ ٹاپ کھول چکا تھا۔
تب ہی زریاب کے موبائل پراسی لڑکی کی دوبارہ کال آئی ۔جسے پاس کھڑی زری نے دوبارہ دیکھا اور پھر کہا
"میں کرونگی جاب۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں ناں کرو جاب تو آپ اس سے بات کرنا بند کریں ورنہ میں"۔۔۔۔۔ابھی بات اسکے منہ میں ہی تھی کہ زریاب نے اسکی بات کاٹی
"ورنہ کیا کرو گی ؟ ہاں کیا کروگی "؟ تو وہ بولی
"میں جاکر مما پپا کو بتا دونگیں کہ اپ کسی لچھو باندری سے بات کرتے ہیں۔"اسکو جواب دیکر اسنے زریاب کے مسلسل بجتے فون کو اٹھا یا اور کال ریسیو کر کے کہا
"فرمائیں "؟تو آگےسے وہ بولی
"آپ کون "؟اسکا سوال سن کر وہ مزید تپ گئی۔اور پھر ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا
"میں مسز زریاب قریشی بات کر رہی ہوں ۔کوئی کام آپ کو ؟"اسکی بات سن کر اسکی طرف زریاب نے دیکھا اور اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے لیپ ٹاپ پر مصروف ہو گیا۔
"وہ زریاب سے بات ہو سکتی ہے ؟" اسنے پوچھا تو زری بولی۔
"بلکل بھی نہیں"۔اور کہہ کر کھٹاک سے فون بند کر کے بیڈ پر پھینکا۔
تبہی زریاب نے اٹھ کر اسکے دونوں بازو مضبوطی سے پکڑ کر کہا
"چاہتی کیا ہو تم ؟ مجھے اپنی زندگی میں آگے بڑھنا ہے ۔تم کیا چاہتی ہو کہ تم طلاق لے لو اور میں کسی کو پسند بھی ناں کرو"۔تو وہ بولی
"مجھے طلاق دینے کے بعد جسکے پاس جانا ہے جائیں "تو وہ اسکی بات سن کر غصے میں آگیا اور پھر کہا
"بہت جلد ہم دونوں کے مسئلے حل ہو جائیں گے تو تمھاری یہ خواہش پوری کر دونگا۔لیکن تب تک میری زاتیات میں ناں پڑو"۔کہہ کر اسے بیڈ پر دھکا دیا۔اور موبائل اٹھا کر خود کمرے سے نکل گیا۔
جبکہ وہ وہی پڑی سسکتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
KAMU SEDANG MEMBACA
عجب پیار (Complete)
Romansaیہ کہانی ہے احساس کی،زمہ داری کی،اعتبار کی،محبت کی۔یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو اپنے ہو کر بھی اسکا اعتبار توڑدیتے ہیں۔