Episode 1

115 5 0
                                    

صبح کا ستارہ
فرشتے سالارزئی
قسط1

"بہن میرا اسجد لاکھوں میں ایک ہے،، آپکی بچی بے حد خوش رہے گی ہمارے ہاں بس آپ ہاں کر دیجیے" خالہ  نے اماں کو تذبذب کا شکار دیکھ کر زور دیا
"وہ تو ٹھیک ہے بہن مگر میری بچی ابھی صرف تئیس سال کی ہے جبکہ آپکا بیٹا..." اماں دانستہ چپ ہو رہیں
"دیکھیے بہن لڑکے کی عمر کون دیکھتا ہے،، لڑکے کی تو کمائی دیکھی جاتی ہے اور میرا اسجد ماشاءاللہ برطانیہ میں لاکھوں کماتا ہے لاکھوں" انھوں نے اماں کو بولنے کا موقع بھی نہ دیا تھا دروازے کے دوسری جانب کھڑی سارا کی گرفت اپنے دوپٹے پہ مزید مضبوط ہوئی۔۔
یہ نہ تو پہلا رشتہ تھا نا ہی کوئی مختلف کہانی پچھلے دو سالوں میں لاتعداد رشتے آئے،، چائے کافی اور سموسے پکوڑوں کے سیشن کے بعد جو شرائط کا سلسلہ شروع ہوتا تو اماں کا منہ لٹکا رہ جاتا۔
اکثر کو اسکی زیادہ تعلیم پہ مسئلہ ہوتا،، کسی کو سارا کی بجائے مہرین اور ثمرین پسند آ جاتیں
خصوصاً جب کسی مہمان کو گھر دکھانے کے بہانے اوپر لے جایا جاتا تو واپس نیچے آنے پر بھی انکا دماغ اوپر ہی رہ جاتا۔
یتیم بچیوں کو کس نے لمبا چوڑا جہیز دینا تھا کہ لوگ انکی خوبیاں دیکھتے۔
حسن، خاندانی شرافت کچھ بھی نہ تھیں،، بس ایک ہی چیز اہم تھی،،،اثر ورسوخ اور لمبا چوڑا جہیز ہی سب سے اہم تھا اور جو لڑکی یہ خصوصیات نہ رکھتی تھی اس میں کوئی خوبی نہ تھی
یہی المیہ انکے ساتھ تھا۔
"بس بہن اگلی دفعہ آوں گی تو ہاں ہی سنوں گی" کچھ دیر بعد انھیں خیالوں کے گرداب میں چھوڑ کر وہ آنٹی چلی گئیں
پیچھے وہ سب بیٹھے رہ گئے۔
کسی نے دوسرے سے بات نہ کی
"میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں، کہ تم دونوں کے نصیب کا گلہ کس سے کروں  خود سے؟، تمہارے باپ سے؟،،یا اس رب سے جس نے بھری جوانی میں مجھے بیوہ کر دیا یا وہ ددھیال جنھوں نے بیٹے کے مرتے ہی اسکی بیوہ اور یتیم بچیوں کو گھر سے نکال باہر کیا"
اماں نے بآواز بلند نوحہ کیا
وہ بہت پریشان تھیں
" اماں بس کر دیں نہیں ہوتی شادی تو نہ ہو،، آپ تو ایسے پریشان ہو رہی ہیں جیسے آپی بوڑھی ہو گئی ہیں "
" ایک ہوتی تو بیٹھی رہتی،، اب کیا دونوں کو بٹھا لوں"
اماں نے چڑ کر زارا کو ٹوکا
" شام کو تمہارے ماموں سے مشورہ کروں گی"
وہ خود کلامی کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
اور وہ جو موضوع گفتگو تھی خاموش بیٹھی تھی

ماموں کی نیت پہ انھیں کبھی بھی شکوک نہ تھے
" حسنہ میں تو یہی کہوں گا کہ تمہیں اتنی جلدی کرنے کی ضرورت نہیں،، لیکن پھر بھی اگر تم جلدی کرنا چاہتی ہو تو جیسا تمہارا دل مانے ویسا کرو میں تمہارا ہر فیصلہ قبول کروں گا" ماموں نے ہمیشہ کی طرح بہن کا مان بڑھایا وہ بھانجیوں اور بہن کا ہر ممکن خیال رکھتے تھے اب بھی انھوں نے ایسا ہی کیا مگر اماں بھائی پہ کوئی بوجھ نہ ڈالنا چاہتی تھیں۔
اور نہ ہی ماموں کی غیرت کبھی  یہ گوارا کرتی تھی کہ بہن یا بھانجی کوئی ملازمت کریں اور اماں نے ہمیشہ کی طرح بھائی کا مان رکھاتھا
اصل مسئلہ اس وقت ہوا جب عماد ویک اینڈ پہ گھر آیا اور مہرین نے مزے لے لے کر اسے سارا کے نئے رشتے کے قصے کے بارے میں بتایا
"آپکو پتہ ہے بھائی وہ لڑکا،، خیر لڑکا تو نہیں کہہ سکتے پینتیس سال کا تو انکی ماں کہہ رہی تھیں اصل میں تو زیادہ ہی ہو گا،،، اور انکی اماں تعریفیں کر کر کے نہ تھک رہی تھی"
مہرین نئے سرے سے مزے لے کر دہرا رہی تھی عماد کے ماتھے پہ ناگواری کے بل پڑے
"امی آپ پاپا کو صاف صاف کیوں نہیں کہتیں کہ پھپھو کو اس سب سے منع کریں "وہ ناراض ہو گیا تھا وہ ہمیشہ اس سب کا برا مناتا تھا اب تو کچھ عرصے سے اس ناگواری کا اظہار بھی کرنے لگا تھا۔
"ٹینشن نہیں لو اس دفعہ یہ آخری دفعہ ہو گی،، تمہاری پھپھی جان اس دفعہ ہاں کرنے کا سوچ رہی ہیں "
امی نے سکون کا سانس لیا گویا خس کم جہاں پاک
وہ تو ہمیشہ سے نند اور اسکی بیٹیوں سے نالاں تھیں۔
"کیا مطلب ہاں کرنے کا سوچ رہی ہیں،، اس رشتے میں کیا خوبی نظر آ گئی انھیں کہ سارا کو قربان کرنے کا سوچ رہی ہیں "پہلی دفعہ اس نے نام لے کر سارا کا دفاع کیا تھا۔
" ارے کیا کہہ رہے ہو تم لڑکا اچھا بھلا کھاتا کماتا یے پھر کوئی ڈیمانڈ بھی نہیں ان لوگوں کی،، دوسرا پچھلے محلے میں رہتے ہیں جاننے والے لوگ ہیں اور کیا چاہیے ہے تمہاری پھپھی جان کو "امی نے تڑپ کر لڑکے کی خوبیاں گنوائیں مگر عماد بڑبڑاتے ہوئے کمرے سے نکلا مہرین نے بلا وجہ کا قہقہہ لگایا
" اسکو تمیز سکھائیے " ماں کو جتا کر کہتا وہ مڑا
پھر غصے میں تن فن کرتا نیچے چلا گیا۔
مگر پھپھو نے اسکی بات کو سنجیدہ نہ لیا تھا سارا نے بھی ہمیشہ کی طرح بات اپنے پر نہ لی
"سارا تم اپنے ساتھ یہ زیادتی ہوتی کیسے دیکھ سکتی ہو" کچن کے دروازے پہ کھڑے وہ ملال سے بولے سارا نے مڑ کر ایک نظر دیکھا کر سر جھٹکا
(جس گاوں جانا نہیں اسکے راستے کی تفصیل کیوں پوچھی جائے)
وہ صرف سوچ سکی۔
"امی اور ماموں جو بھی فیصلہ کریں گے وہی میری خوشی ہو گی" اسکا ایک ہی لائن کا جواب تھا
اور عماد بے بس ہو گیا۔
واقعی وہ کس بنیاد پہ اسے اکسا رہا تھا جب سب یہی فیصلہ کر چکے تھے تو وہ کس بنیاد پہ اور کیونکر بغاوت کرتی۔

Subha Ka Sitara By Farishty SalarzaiWhere stories live. Discover now