#صبح_کا_ستارا
قسط8
فرشتے سالارزئی
" بٹ میں وہ دیکھنا چاہتی ہوں.. فیمس فوڈ سٹریٹ اور وہ سب کچھ لاہور لائٹس کا سٹی ہے میں وہ سب دیکھنا چاہتی ہوں "
" ٹھیک ہے اگلی دفعہ چلی جانا.. میں کوشش کروں گا اگر کسی اچھی جگہ گھر وغیرہ مل جائے تو تمہیں بلا لوں گا"اس نے بمشکل کیٹ کو راضی کیا۔
اور وہ سفید چمڑی والی عورت پاکستانی کے جھوٹے وعدوں میں آ گئی تھی۔
________________&__________________" میں بابا کے ساتھ انکے گھر چلا جاوں گا"وہ ماں کے ساتھ خفا ہو کر اب دھمکیاں دے رہا تھا۔
" اہل برطانیہ سرخ قالین بچھائے بیٹھے ہیں" سارا طنز سے بولی۔
"تو تم میرے بیٹے کو تنگ مت کیا کرو نا"
اسجد نے مصعب کا ساتھ دیا۔
"سب کو میں ہی تنگ کرتی ہوں مجھے تو کوئی بھی تنگ نہیں کرتا آپ دونوں میں سے"
" میں ماما سے نہیں بولتا" وہ اپنی ناراضگی کو سنگین ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
" ماما بھی سونے لگی ہیں" سارا نے پرواہ نہیں کی اور واقعتاً کچھ دیر بعد مصعب نے اسکی بے توجہی پہ رونا شروع کر دیا تھا اسجد اسے چپ کرانے میں ناکام تھا۔
" کیا ہوا ہے؟ "
وہ جو سو ہی چکی تھی کچھ بے زار ہوئی۔
"میں رو رہا ہوں" اس نے منہ بنا کر ماں کو اطلاع دی تو اسجد کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔جسے مصعب نے زیادہ پسند نہیں کیا۔
"دیکھو بھئی کب سے وہ تمہیں بتا رہا تھا کہ وہ تم سے ناراض ہے اور تم بجائے معافی تلافی کرنے کے مزے سے سو ہی گئیں"
"تو آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ آپکو مجھ سے بات نہیں کرنی اسی لیے میں سو گئی،، اگر مجھے پتہ ہوتا ہے کہ بات نہ کرنے کی تڑی اس لیے لگائی جا رہی ہے کہ میں معافی مانگوں تو شاید میں نہ سوتی۔"
" میں روتا ہوں "وہ اب بھی اپنے رونے کو کیش کرانا چاہتا تھا،، شاید اسکے خیال میں یہ بڑی بات تھی کہ وہ رو رہا تھا۔
" چلو بھئی سارا فورا میرے بیٹے کو اپنی گود میں لے کو یہ رو رہا ہے"
اسجد نے مصنوعی خفگی سے سارا کو ڈانٹا۔
" ٹھیک ہے اگر رونے والا لڑکا چپ ہو کر میرے پاس آ جائے تو میں اس سے بات کر لوں گی"
سارا نے کن انکھیوں سے مصعب کا خفا چہرہ دیکھا۔پھر مصعب چند لمحوں بعد اسکی گود میں آ گیا تھا۔
" اب اگر آپ مجھ سے ناراض ہوں گے تو میں گود میں نہیں لوں گی" سارا نے اسے سینے سے لگایا معصوم سے نخرے تھے اس بچے کے ۔
" یہ سب آپکی اور اماں کی وجہ سے ہے اب وہ اپنے رونے کو کیش کراتا ہے ۔ضد منوانے کے لیے روتا ہے" سارا اس بات سے ناخوش تھیں ۔
"تو تم نہ رلایا کرو نا اسے"
" اسجد صاحب میں نہیں رلاتی،،، یہ موصوف خود روتے ہیں"
(درحقیقت یہ اپنے باپ پہ گیا ہے جذباتی حربے استعمال کرکے اپنا کام نکلواتا ہے)
وہ صرف سوچ ہی سکی۔
" ہیلو" انکا. فون بجا کوئی انجان نمبرتھا۔
" ہیلو ایسجد میں کیٹ"
واٹ؟ "انھوں نے سکرین سامنے کی جہاں پاکستانی نمبر تھا۔
"میں پاکستان میں ہوں ادھر تمہارے محلے کے باہر کھڑی ہوں گلی میں اندھیرا ہے اور مجھے گھر کا نہیں پتہ"وہ پریشان تھی اسجد کے اٹھائیس طبق پرنور ہوئے۔
وہ ہڑبڑا کر اٹھے چھت سے جا کر دیکھا گلی کے کونے پہ واقعی ٹیکسی کھڑی تھی۔
"کیا ہوا؟" سارا بھی پیچھے پیچھے باہر آ گئی تھی۔
" کیٹی پاکستان آ گئی ہے اور باہر گلی کے کونے میں کھڑی ہے "
انکا رنگ اڑ چکا تھا وہیں سارا کے لیے بھی یہ شدید ترین جھٹکا تھا۔
اور اسجد کی حالت کوئی ایسا مرد ہی سمجھ سکتا تھا جس نے پہلی بیوی سے چھپ کر دوسری شادی کر رکھی ہو اور ایک دن اچانک پہلی بیوی دوسری بیوی کے گھر کے دروازے پہ کھڑی ہو"
"اگلے پانچ منٹ میں وہ سب ہونق بنے بیٹھے تھے۔
"آپ لے کر تو آئیں فلحال ڈرائینگ روم میں ٹھہرا دیتے ہیں پھر کل دیکھیں گے" ثمر نے کہا ۔اسجد نے مجرمانہ انداز میں سارا کو دیکھا جو متحیر تھی ۔