#صبح_کا_ستارا
فرشتے سالارزئی
قسط3اماں تسلی دینے کے چکروں میں اسے مزید اذیت دے رہی تھیں زارا نے اسکا سنجیدہ سپاٹ چہرہ دیکھا۔
"اچھا چھوڑیں اب اس بات کو،، آپی کو وہ بتائیں نا جو مامی کے ساتھ ہوا"
زارا نے موضوع گفتگو بدلنا چاہا ۔
" ارے چھوڑو کسی نے سن لیا تو ہنگامہ مچ جائے گا"اماں نے اسے دھمکایا
"ارے سنتا ہے جو سن لے ہم کونسا کسی سے ڈرتے ہیں"زارا نے بھی ناک سے مکھی اڑائی۔
"عماد بھائی نا تمہاری شادی کے بعد سے گھر نہیں آئے اور کل نا ماموں انھیں لینے انکے ریسٹ ہاوس گئے تھے" وہ اب مزے لے کر تمہید باندھ رہی تھی۔
" مگر انھوں نے صاف انکار کر دیا کہ اگر اس گھر میں میری خوشی کی کسی کو پرواہ نہیں تو میرا جانا بھی ضروری نہیں"
اس نے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر کہا۔
" پھر ماموں اور مامی کا بڑا جھگڑا ہوا،، مامی ماموں کو الزام دیتی رہیں اور سلیم ماموں شائستہ مامی کو تنگ دل اور تنگ ذہن کہتے رہے، خوب تماشہ ہوا پھر شائستہ مامی نے دھمکی دی کہ وہ گھر چھوڑ کر چلی جائیں گے،، ماموں کی بھی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں انھوں نے کہا جاتی ہو تو جاو"زارا باقاعدہ لطف لے رہی تھی مگر سارا نے توجہ نہ دی ۔
" پھر بمشکل امی نے روکا انھیں ماموں نیچے آئے تو دیر تک افسوس کرتے رہے کہ عماد نے انھیں وقت پر نہ بتایا ورنہ وہ سارا کو پرائے گھر رخصت کرنے کی بجائے اپنے گھر رکھتے"
" میں نے سوچا اچھا ہوا اب آرام آئے انکو"
" دفعہ کرو زارا انکی زندگی ہے جیسے چاہے گزاریں" سارا نے بات ہی ختم کر ڈالی، ویسے بھی عماد کے اس احتجاج سے اسے اب کیا فرق پڑتا تھا۔
___________-----______________اسجد کی کال پورے ایک مہینے بعد آئی تھی خالہ، ماموں اور آپی کے بعد اسکی باری بھی آ ہی گئی ۔
مگر یکدم اس نے جانا کہ اسکے پاس کوئی لفظ کوئی سوال نہ تھا، شاید دلوں میں بھی فاصلے آ گئے تھے یا یہ اسکی خودساختہ ناراضگی تھی"آپکی بیوی کیسی ہے؟"
سلام دعا کے بعداس نے پوچھا اسجد متحیر سا ہو گیا
"ہاں،، وہ،، ٹھیک ہے" وہ سارا سے ایسی کسی بات کے امید نہ کر رہے تھے۔
"سارا میں اسکے سامنے تمہارا یا تمہارے سامنے اسکا ذکر نہیں کرنا چاہتا" پھر انھوں نے دوٹوک انداز میں کہا تو سارا مزید کوئی طنز، کوئی گلہ نہ کر سکی۔
دو منٹ بعد کال بند ہو چکی تھی۔
خالہ منظورہ ہر آنے جانے والے کے سامنے دعائیں کرتی نہ تھکتیں تھیں کہ انھوں نے بمشکل اسجد کو اس شادی پہ راضی کیا ہے،، اللہ کرے اب اسکے ہاں اولاد ہو جائے تو انکی کوشش بارآور ہو،
"تو کیا مجھے اس گھر میں لانے کا مقصد صرف اور صرف اولاد کا حصول تھا؟"
یہ سوال اسے ہر رات ڈستا مگر اس نے اس بات کو اپنی کمزوری نہ بنایا تھا،، آپی اکثر مذاق کے نام پہ اسے اسجد کی برطانوی بیوی کا نام لے کر چھیڑیں ہا شاید اسے بہانے بہانے سے اپنی اوقات یاد رکھنے کا اشارہ دیتیں، وہ خاموشی سے سنتی رہتی نہ ہنستی نا غصہ ہوتی..
مگر اس ان دیکھی عورت کے وجود سے اسے ایک نفرت سی محسوس ہوتی تھی۔
کسی نے سچ کہا ہے عورت دو کی بجائے ایک روٹی میں گزارا کر سکتی ہے،، تن ڈھانپنے کو ایک جوڑے میں بھی خوش ہو جاتی ہے مگر اپنے مرد کی شراکت برداشت کرنا اسکے بس کی بات نہیں ۔
اسجد مہینے میں ایک آدھ بار ہی کال کرتے ۔
انھوں نے کبھی اسکی کسی ضرورت کے متعلق استفسار نہیں کیا ۔
شاید انھیں اس سے یا اسکی کسی ضرورت سے کوئی سروکار نہ تھا ، یا شاید جو نوٹوں کی گڈی وہ اسے تھما کر گئے تھے اس نے انھیں ہر فرض سے آزاد کرا دیا تھا۔
روپے پیسے کی اسے ضرورت نہ تھی اور باقی کسی ضرورت کے متعلق خود سے کچھ کہنا اسے گورا نہ تھا ۔
پھر ایک دن اچانک انھوں نے کال کی کہ وہ دو دن بعد پاکستان آ رہے ہیں ۔ناچاہتے ہوئے بھی اسکا دل ایک الگ ہی لے پہ دھڑکنے لگا۔سارا دن وہ پرجوش سی صاف ستھرے گھر کو چمکاتی رہی ماموں شریف آجکل کچھ زیادہ بیمار رہنے لگے تھے ۔
انکی تیمارداری اور گھر کے کاموں کے علاوہ سارا کے پاس کوئی دوسری دلچسپی نہ تھی کتابیں پڑھنے کا شوق بھی ختم ہو چکا تھا۔
جب انسان کی اپنی زندگی ایک معمہ بن جائے تب اسے دوسروں کی زندگیوں کے بارے جاننے کا تجسس نہیں رہتا۔
اسکی زندگی بھی ایک گھمبیر معنوں والی کتاب جیسی تھی جسکے ہر ہر لفظ کے پیچھے کئی کئی حقائق پوشیدہ تھے۔
اسجد آئے اور سب سے مل کر ماموں کے کمرے میں چلے گئے،، بس ایک نگاہ ڈالی تھی انھوں نے اس پر،، وہ بھی نہایت سنجیدگی بھری، کوئی بے چینی کوئی خوشی نہ تھی۔
"شاید اسجد کے متعلق میرے تمام جذبات یک طرفہ ہیں"
اس نے ایک جملے میں خود کو تسلی دی۔