#صبح_کا_ستارا
فرشتے سالارزئی
قسط2صبح چھوٹے سے ولیمہ کا فنکش تھا، ولیمہ کی تقریب کے بعد اماں رسم کے مطابق اسے اپنے ساتھ ہی لے آئیں کسی نے بھی اعتراض نہ کیا تھا۔
اماں شکر گزار تھیں کہ ایک بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہو چکیں اب بس ایک ہی رہ گئی تھی۔"سارا تم مطمئن ہو؟"
رات کو سونے سے پہلے انھوں نے سارا سے پوچھا تھا
"جی امی" بہت توقف کے بعد سارا کی آواز سنائی دی، جس میں اطمینان تھا۔
"میری بیٹی بس اب صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا،، گھر بنانے کی ساری ذمہ داری بیوی کی ہوتی ہے مرد تو آزاد پنچھی ہوتا ہے،، جدھر دانہ ملا وہیں اتر جاتا ہے" اماں نے بیٹی کو سمجھایا۔
"ایک بات یاد رکھنا سارا اگر تم اپنے گھر میں خوش اور مطمئن ہوئیں تو لوگ تمہاری ہی نہیں میری تربیت کی بھی تعریف کریں گے اور اگر تم اس گھر میں مطمئن نہ ہوئی تولوگ تمہارے ساتھ ساتھ میری تربیت پہ بھی انگلیاں اٹھائیں گے"انھوں نے معاشرے کی تلخ حقیقت پر سے پردہ اٹھایا ۔
" جی امی"
" بس اب خیال رکھنا تمہاری بوڑھی بیوہ ماں پہ ایک اور بچی کا بھی بوجھ ہے،، جسے تم نے ہی بٹانا ہے "
انکے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر سارا اپنا گھر بنا پاتی تو لوگ انکی دوسری یتیم بچی کو بھی بنا کسی جہیز کی ڈیمانڈ کے قبول کر لیتے، یہ وہ معاشرہ ہے جہاں خاندان کے ایک فرد کی کسی بھول یا غلطی کی سزا پورا خاندان بھگتتا ہے۔
جہاں اگر ایک بہن کو طلاق ہو جائے تو باقی ساری ویسے ہی کنواری بیٹھی رہ جاتی ہیں ۔
"امی میں پوری کوشش کروں گی" اس نے عزم سے کہا۔
اگلے روز وہ واپس آ گئی،
اسجد پہلی شب کی طرح ہی کم گو اور سنجیدہ مزاج تھے، انکے گھر میں صرف اسجد، انکے اماں ابا اور ایک شادی شدہ بہن ثمر آپی رہتی تھیں بعد میں خالہ منظورہ ہی کے توسط سے اسے پتہ چلا کہ اسجد انکا سگا بیٹا نہیں بلکہ شریف ماموں پہلے انکی بڑی بہن کے شوہر تھے اور اسجد انکی بڑی بہن کا اکلوتا بیٹا تھا بعد میں انکی بہن کی وفات کے بعد منظورہ خالہ کی انکے ساتھ شادی ہو گئی اور اس شادی سے شریف ماموں کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی اسجد سمیت تینوں بیٹے بیرون ملک مقیم تھے۔
اسی لیے انکی بیٹی شادی شدہ ہونے کے باوجود انکے ساتھ رہتی تھی۔
جسکے بارے میں یہی کہا گیا کہ اب اسجد کی شادی کے بعد وہ اپنے سسرال چلی جائے گی یہ الگ بات کہ ایسا کچھ نہ ہوا۔اسجد کی رفاقت میں وہ بہت خوش تھی،، وہ سارا دن تقریباً گھر ہی ہوتے تھے بیشتر وقت وہ باہر والے ڈرائینگ روم میں اپنے ابا کے ساتھ بیٹھے رہتے شام کے وقت کہیں باہر نکل جاتے۔ اور رات کو کمرے میں آتے تو بھی یا کوئی کتاب لے کر بیٹھ جاتے یا پھر جلدی سونے کی کوشش کرتے کچھ کچھ وہ نمازیں بھی ادا کر رہے تھے، سارا کو حیرت ہوئی شادی کے پہلے دو تین دن انھوں نے نماز ادا نہ کی اسکے بعد کرنے لگے تھے۔
البتہ سارا انکے ساتھ خوش ہونے کے باوجود بے تکلف نہ ہو سکی،، وجہ اسکی ذاتی شرم و حیا اور جھجھک کے ساتھ ساتھ اسفر کی بےپایاں سنجیدگی بھی تھی۔
(شاید یہ اسی لیے کہہ رہے تھے کہ مجھے ان سے زیادہ امیدیں نہیں لگانی چاہییں) وہ کسی کتاب میں مگن تھے۔
شاید From Darkness to Light نام کی کتاب تھی جو انگریزی زبان میں تھی اور کسی تبلیغی جماعت کے مولف کی تھی۔
سیاہ رنگ کے کتاب کور پر ایک موم بتی کا شعلہ روشی کی کرن بنا ہوا تھا دن میں وہ بھی اکثر اس کتاب کو کھنگالتی رہتی۔
یکدم انکا فون بجا جو کہ اس وقت کم ہی بجتا تھا۔
ایک نظر فون کو دوسری سارا کو دیکھا اور کمرے سے نکل گئے،، وہ اچنبھے کا شکار ہوئی۔
کچھ دیر بعد باہر سے انکے جھنجھلانے کی آوازیں آ رہی تھیں مگر سارا نے پیچھے جانا نا مناسب خیال کیا۔
کچھ دیر بعد وہ واپس آئے تو کافی ناگوار تاثرات چہرے پہ رقم تھے،، وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔
"کیا ہوا؟"
اسکے پوچھنے پہ اسجد چونکے اسے دیکھا پھر سر نفی میں ہلایا۔
"شاید مجھے کل واپس جانا پڑے" وہ اب کسی کو کال ملا رہے تھے۔
"لیکن آپ تو پانچ دن بعد جانے والے تھے" سارا کی آواز میں حیرت اور صدمہ تھا ابھی شادی کو ایک ہفتہ بھی نہ ہوا تھا۔
"ہاں لیکن جانا پڑے گا"وہ اس بات پہ ناخوش معلوم ہوتے تھے پھر وہ کسی سے بات کرتے باہر نکل گئے ۔
کچھ دیر بعد واپس آئے اور اپنا سامان پیک کرنے لگے۔
سارا حیرت سے کھڑی انھیں دیکھتی رہ گئی ۔ مگر کچھ بھی نہ کہہ سکی، اسجد سامان رکھ کر واپس بستر پہ آنے سے پہلے بتی بجھا آئے تھے۔
رات خاموشی سے بیت گئی، صبح تک وہ خود کو سنبھال چکی تھی۔
"اسجد میرے پاس موبائل فون نہیں ہے"
اس نے رابطے کے خیال سے کہا۔
اسجد نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا پھر بنا کوئی جواب دئیے اپنے کام میں مگن ہو گئے ۔
پھر سارا کو حیرت ہوئی جب شام کو ائیر پورٹ کے لیے نکلنے سے قبل وہ کمرے میں آئے،، سارا فطری طور پر اداس بیٹھی تھی اسجد نے دروازہ بھیڑ دیا۔
" آپکو اس طرح اداس نہیں ہونا چاہیے، جبکہ آپ جانتی ہیں کہ مجھے واپس جانا ہی تھا"
یہ صبح سے پہلی براہ راست بات چیت تھی سارا نے اپنے اشک چھپائے۔
"میں اسی لیے کسی میچیور عورت سے شادی کرنے کے حق میں تھا،، بلکہ شاید مجھے یہاں شادی کرنی ہی نہیں چاہیے تھی"
اسجد کو افسوس ہوا۔
" آپ واپس کب آییں گے؟ "
"یہ کچھ پیسے ہیں،، میں آپکو یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ واپس کب آوں گا،،، یا آوں گا بھی یا نہیں لیکن میں پھر یہی کہوں گا آپکو مجھ سے زیادہ امیدیں نہیں لگانی چاہییں"نوٹوں کی ایک گڈی اسکی جانب بڑھاتے ہوئے انھوں نے کہا ۔
اور اللہ حافظ کہتے باہر نکل گئے.. سارا کو گمان تھا وہ اسے گلے سے لگا کر تسلی دیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا،، البتہ انکی آنکھوں میں ایک جدائی کا ملال سارا نے بھی دیکھا تھا ۔یا شاید یہ اسکی نظر کا دھوکا تھا۔
وہ رخصت ہوئے تو سارا کی زندگی معمول پر آنے لگی پھر وہی عورت کی گھر بنانے والی کٹھن ڈیوٹی، جو سارا نے بھی اپنے سر لے لی تھی، کام کاج سے چھپنے والی وہ نہ تھی اب تو ویسے بھی احتیاط کرتی چھوٹے سے گھر میں چار لوگوں کا کام ہی کیا ہوتا تھا کہ وہ بہانے گھڑتی ۔
اسجد البتہ وہاں جا کر بھول گئے تھے،، یا شاید وہ بہت مصروف ہو گئے تھے اپنے پہنچنے کی اطلاع کے بعد انھوں نے کال نہیں کی۔
وہ دن بھر انکی کال کا انتظار کرتی رہتی اور شام کو مایوس ہو کر سو جاتی ۔