#صبح_کا_ستارا
فرشتے سالارزئی
قسط 5بعد میں انھیں پتہ چلا کہ اس لڑکی کا نام کیتھرین ابراہم ہے جو کہ اپنے ماں باپ کی چھوٹی بیٹی ہے اب اپنے شوہر سے علیحدگی کے بعد اکیلی رہتی تھی۔
پھر کیٹی نے ہی انھیں ایک ہوٹل پہ کام لگوا دیا ۔چار سال تک اسجد مختلف شہروں میں کام کرتے رہے مگر تب تک وہ برطانیہ جیسے آزاد ملک میں اتنی دفعہ گرے کہ اب سیدھا چلنا سیکھ گئے تھے
زندگی بہت مشکل تھی، قدم قدم پر انھیں ماں باپ کی یاد آتی رہتی تھی
مگر انکا کوئی سہارا نہیں تھا، شاید کوئی بھی نہیں،، اور جو اللہ کا سہارا تھا اسکا انھیں احساس ہی نہیں تھا
تنہائی میں ایک تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے
جب لگے کہ دنیا میں کوئی نہیں تو معمولی دوست بھی زندگی کا محور بن جاتے ہیں
اس سارے عرصے میں انکی کیٹی کے ساتھ دوستی برقرار رہی وقت گزرتا رہا
وہ تنہائی سہنے کے اتنے عادی ہو چکے کہ اب کسی کا وجود نہ ہونا معنی ہی نہیں رکھتا تھا
اور پھر چار سال بعد وہ قانونی شہری کے طور پر وہاں رہنے لگے تو ایک دن کیٹی نے انھیں شادی کی پیش کش کی
"کیٹی میں مسلمان ہوں اور تم تو عیسائی ہو شادی کیسے کر سکتے ہیں ہم؟"
دوستی کا رشتہ ہمدردی پہ مبنی تھا مگر شادی کے بارے انکا یہی خواب تھا کہ وہ سیٹل ہو کر کسی اچھی پاکستان کی لڑکی سے شادی کر لیں گے۔
پھر حالات کچھ ایسے ہوئے کہ انھیں شدت سے یہ محسوس ہوا کہ پاکستان میں کوئی بھی انکا انتظار نہیں کر رہا نا سگا باپ نا سوتیلی ماں اور نا ہی سوتیلی ماں کے بچے۔
شروع میں ان سے مانگ کر پیسے منگوائے جاتے۔
بعد میں جب اکمل اور اصغر کمانے لگے تو پاکستان سے فون آنا بھی بند ہو گئے شاید کسی کو انکی ضرورت نہیں تھی اور تبھی ایک دن انھوں نے کیٹی کو اپنا جیون ساتھی بنا لیا ۔
تب تک وہ نام کے ایک پیدائشی مسلمان تھے۔
"کیٹی تم اسلام قبول کر لو" ایک دن انھوں نے کیٹی سے کہا تھا۔
"کیوں" وہ فطری طور پر حیران ہوئی کبھی اسجد نے ایسا نہ کہا تھا۔تو آج ایک دم سے کیوں کہا؟
"کچھ نہیں میں چاہتا ہوں تم مسلمان ہو جاو پھر میں تمہیں پاکستان لے جاوں گا"
"پاکستان میں صرف مسلمان ہی جا سکتے ہیں؟؟"
وہ ان سے سوال کر رہی تھی۔اس سوال کا انکے پاس کوئی جواب نہیں تھا
جواب انھوں نے سوچا ہی نہیں تھا وہ ایک پل کو ہکلائے
"نہیں لیکن پھر بھی اسلام سب سے مکمل دین ہے تمہاری دنیا اور آخرت بھی سنور جائے گی"انھوں نے جمعہ کے خطبے میں سنے جملے دہرائے۔
" اچھا مجھے تو نہیں لگتا کہ اسلام اور عیسائیت میں کچھ فرق ہے،، تم بھی ہمارے جیسے ہی ہو"کیٹی نے اسکا مذاق اڑایا اور یہ پہلی دفعہ تھا کہ اسجد کے دل پہ بوجھ بڑھ گیا تھا
کیٹی ٹھیک ہی تو کہتی تھی۔
مسلمانوں کے گھر پیدا ہونا اور مسلمانوں کا سا نام ہونا ہی تو کافی نہیں تھا۔
اگر انکا نام بھی جیک یا جوزف ہوتا تو وہ بھی عیسائی پہ لگتے یا اگر کوئی عیسائی اسجد نام رکھ لیتا تو کیا وہ مختلف ہو سکتا تھا،
مسلمان ہونا تو ایک طرز زندگی، ایک نظریہ فطرت کا نام تھا جس پر عمل کرنا سب سے زیادہ ضروری تھا
اور یہی وہ لمحہ تھا جب انھوں نے خود کو عیسائیوں سے الگ کرنے کا سوچا،، اس سلسلے میں اس نے نماز پڑھنا شروع کی تھی۔
اور تب انھیں احساس ہوا کہ واقعی" کافر اور مومن میں فرق کرنے والی چیز نماز ہے"
کیٹی اسکی اس تبدیلی پہ حیران تھی۔
"ایسجد تمہیں کیا ہو گیا ہے؟"
"کچھ نہیں میں بس مسلمان ہونے کی کوشش کر رہا ہوں"
وہ ہنس کر ٹال جاتا آہستہ آہستہ اسکا جھکاو اسلام کی جانب بڑھتا گیا مگر تمام تر محبت کے باوجود وہ کیٹی کو اسلام قبول کرنے پہ راضی نہ کر سکا۔
مگر یہ سب کیٹی کے لیے معمولی نہیں تھا
اسے تو اسجد میں یہی بات اچھی لگتی تھی کہ وہ خبطی قسم کا مرد نہیں تھا
نہ ہی اسکی کوئی شرائط تھیں، اور نہ ہی کوئی شکایات
وہ تھوڑے میں بھی خوش رہتا تھا اور زیادہ میں بھی بس مطمئن ہی ہوتا تھا
نگر اب تو وہ بلکل ایک بدلا ہوا انسان بن رہا تھا
اور یہ سب کیٹی کے سامنے ہو رہا تھا وہ اپنی شناخت بدل رہا تھا جو کہ کیٹی کے لیے قابل قبول نہیں تھا
سچ کہتے تھے سب مسلمان بنیاد پرست ہوتے ہیں
اور یہ اسکی ضد ہی تھی کہ وہ کیٹی جو کبھی چرچ کا منہ نہ دیکھتی تھی اب اتوار کو اپنی دوستوں کے ساتھ چرچ جانے لگی تھی
وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے رہے، مگر اپنے اپنے مدار میں رہے
ہمیشہ وفاداری سے ایک دوسرے کا ساتھ دیا، اسجد کا تعلق پاکستان سے ختم ہوتا چلا گیا ۔
انکے درمیان ہمیشہ بس ایسا ہی تعلق تھا مختصراََ وہ دونوں جانتے تھے کہ ایک دوسرے کے علاوہ دنیا میں کسی کو انکی ضرورت نہیں۔
اور اسی بات نے انھیں ایک دوسرے کے ساتھ باندھے رکھا ۔
اور اب وہ ایک دوسرے کے ساتھ اس وفا اور ساتھ کا کھیل کھیل کر تھک چکے تھے۔
یہ سچ تھا کہ ان دونوں کے معاشی فوائد ایک دوسرے کے ساتھ جڑے تھے مگر اب کیٹی تنگ پڑ چکی تھی پھر اچانک اسجد ایک دفعہ پاکستان گیا۔ پھر کچھ عرصے بعد اسکے باپ کی طبیعت خراب ہوئی اور وہ چلا گیا مگر کیٹی کو اسکا جانا معیوب ہی لگا اسی لیے اسے فورا واپس بلوایا اور پھر چھ ماہ بعد اسکے بابا کریٹیکل تھے تب وہ گیا تو کافی عرصہ رہا تبھی اسکے باپ کی ڈیتھ ہو گئی تھی۔مگر کیٹی کو لگا کہ اب اسکی پاکستان سے جان چھوٹ جائے گی
مگر اسجد کو نجانے راتوں رات اتنی محبت کیوں ہو گئی تھی پاکستان سے۔
"کیٹی میں چاہتا ہوں کہ کچھ عرصے کے لیے پاکستان چلا جاوں"
پچھلے تین دن سے اسے بخار تھا جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔
"کیوں ایسجد اب تم کیا کرنے جاو گے وہاں"
"میں ٹھیک محسوس نہیں کر رہا وہاں جاو تو شاید کچھ بہتر محسوس کروں"
اس نے کچھ اداسی سے کہا۔
"اب تمہارا کوئی نہیں وہاں،، تم کیا کرنے جاو گے وہاں "
" ایسے تو مت کہو وہاں کچھ اور نہیں تو بھی میرے باپ دادا کی قبریں ہیں انکا گھر ہے میری ماں کی قبر ہے"
کیٹی نے اسے سمجھانا چاہا۔اسے اسجد کا پاکستان جانا پسند نہیں تھا ۔پاکستانیوں کے بارے مشہور تھا کہ وہ بہت جنگجو قوم ہیں اور کتنی مشکل سے اس نے اسجد کو بدلا تھا اب پھر سے ان جنگلیوں کے ساتھ رہتا اور میل جول رکھتا تو ویسا ہی ہو جاتا۔
" اسجد تم خود کو اکیلا فیل کر رہے ہو نا؟"
"ہممم" اس نے خود کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی۔
"ایسجد میں سوچ رہی ہوں کہ ہم کوئی بے بی ایڈاپٹ کر لیں.." اس نے محتاط ہو کر کہا ساتھ ہی اسجد کا چہرہ دیکھا
"مطلب اب اگر ہمارا بے بی نہیں ہوا تو پھر ایک دوسرے کو الزام دینے سے تو کہیں اچھا ہے کہ ہم کوئی پیارا سا بے بی لے لیں"
اس نے دونوں ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے جوش سے کہا، وہ نہ خود پہ الزام لے رہی تھی نا ہی اسجد کو دے رہی تھی ۔
اسجد نے اپنے ننھے بچے کے بارے میں سوچا۔
ایک مشکوک سا خیال انکو چھو گیا۔
انھوں نے ادھر ادھر دیکھ کر اپنے چہرے کو بے تاثر رکھنے کی کوشش کی۔
(الحمدللہ مجھے اللہ نے اپنا بچہ دیا ہے) اسکا اعتماد بڑھ گیا تھا ایک شکر گزاری اور اعتماد کی لہر نے اسے چھوا جو وہ کیٹی سے چھپا رہا تھا۔
"ایسجد ہم خوش رہیں گے اور ویسے بھی تم ایشیئنز کو بے بیز بیت پسند ہوتے ہیں تو اچھا ہے نا... ہم کوئی مسلم بے بی بھی ایڈاپٹ کر سکتے ہیں" اسجد ہی نہیں وہ خود بھی چاہتی تھی انکی زندگی کا جمود کسی بھی طریقے سے ختم ہو... پھر چاہے وہ طریقہ کسی بچے کی ذمہ داری لینا ہی ہوتا ۔
" نہیں کیٹ مجھے نہیں لگتا میں کسی کے بچے کے لیے ایک اچھا باپ ثابت ہو سکتا ہوں،،تم فکر نہیں کرو میں ٹھیک ہو جاوں گا کچھ دنوں میں" اس نے کیٹی کو ٹالا۔
"تو پھر میں بھی چلتی ہوں پاکستان تمہارے ساتھ" اس نے اسجد کو خوش کرنے کے لیے حامی بھر ہی لی۔
"تم؟ نہیں،،، تم کیا کرو گی جا کر"نا چاہتے ہوئے بھی بے ساختہ اسکے منہ سے نکلا۔
" کیوں میں کیوں نہیں جا سکتی؟ "اسکے اتنے سخت انکار پر کیٹی نے پوچھا ۔تو وہ سنبھلا۔
"نہیں مطلب وہاں بجلی نہیں، صاف پانی نہیں،، گندگی ہے گھر بھی چھوٹے چھوٹے ہیں،، تم کیسے رہو گی وہاں "
اس نے پاکستان کا بدترین نفشہ کھینچ کر کیٹی کو ڈرانا چاہا۔
"اور وہاں پر طرف مکھیاں، وائرس ہیں کچھ بھی صاف ستھرا نہیں ہوتا اکثر تو انسان اور جانور ایک ہی جگہ پر رہ رہے ہوتے ہیں،، زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں "اسجد نے افسوس سے منہ بنا کر کہا اور کیٹی کا قطعی اس گند کے ڈھیر پاکستان میں رہنے کا کوئی خواب نہ تھا۔
اور پھر اسجد کو اجازت مل ہی گئی ۔مگر کیٹی نے کہا تھا کہ کہ وہ دس دن سے زیادہ اس گندی جگہ نہ رکے اور وہ جانتا تھا دس دن سے پہلے ہی کیٹی اسکے سر ہو جائے گی۔
اب بھی اگر وہ یوں بیمار نہ ہوتا تو وہ کبھی بھی راضی نہ ہوتی۔
"___--_---_-_______-____سارا ہی نہیں باقی سب کے لیے بھی یہ ایک حیرت انگیز انکشاف تھا ۔اسجد نے کال کی اور کہا کہ شاید کل پاکستان پہنچ جاوں ۔
انداز ایسا تھا کہ وہ سب حیران ہوئے مگر یہ تو انکے گمان میں بھی نہ تھا کہ" شاید "سے شروع ہونے والا یہ جملہ اتنی جلدی سچ ہو جائے گا۔
ٹیکسی گھر کے باہر رکی تھی اور چھوٹے سے ہینڈ کیری کے ساتھ سیاہ جینز کی پینٹ اور سرمئی چیک شرٹ میں وہ سامنے تھے۔
مصعب حسب معمول گلا پھاڑ کر چیخ رہا تھا ثمر آپی اسے چپ کرانے کے جتن کرکے تھک گئیں تو سارا کو پکڑا گئیں اسی وقت خالہ منظورہ کے ساتھ وہ رہائشی حصے میں داخل ہوئے ۔
سارا تو پلک جھپکنا بھی بھول گئی تھی۔مصعب نے بھی ماں کی بے توجہی کے باعث رونا بند کر دیا تھا۔
اور اسجد ثمر آپی سے ملنے کے بعد انکی جانب آئے سارا کا دھیان تب بھی نہ بٹا وہ آنکھیں پھاڑے انھیں بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔
وصال یار کا لمحہ
نہایت دل گداز تھا
__________________
حاضری پوری کریں تا کہ اگلی قسط اپ لوڈ ہو سکے