دوسری قسط

969 69 14
                                    

"یہاں کیا ہورہا ہے؟"وہ  یہاں سے گز رہا تھا کہ شور شرابے اور رش کو دیکھ کر روکنے پر مجبور ہوگیا۔
"سلام،چھوٹے سردار۔"یہ مالک مکان تھا جو گربڑایا تھا۔
"وعلیکم اسلام،یہاں کیا ہورہا ہے۔"اس نے اپنا سوال پھر دہرایا  تھا۔یہ اس کی شخصیت کا ہی رعب تھا۔
کہ اسکو وہاں پوچھ گچھ کرتا دیکھ کر تمام تماشای وہاں سے کھسک لیے تھے۔
"کچھ نہیں چھوٹے سردار،یہ ہر مہینے کا معمول  ہے....ہر مہینے اسی طرح اپنے حق کیلئے یہاں کھڑا ان سے بھیک مانگ رہا ہوتا ہوں.،مگر سب بےسود،ان ماں بیٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا،دونوں بہت ڈھیٹ ہیں،سات ماہ کا کرایہ کھائے بیٹھی  ہیں"وہ چہرے پر بے چارگی کی اور مسکینی طاری کرتے ہوئے بولا۔
"اور یہ دونوں ماں بیٹی کون ہے"عالیان  بولا تھا۔
اس سے مگر اس سے پہلے کہ مالک مکان نمک مرچ لگا کر تعارف کراتا کہ خالدہ بیگم آگئیں تھیں.
وہ پہلے پہل تو گھر کے باہر لگا تماشہ دیکھ کر حیران ہوئیں،پھر فورا سے آگے بڑھ کر اپنے گھر کے دروازے تک پہنچی تھیں۔حویلی کے فرد کو اپنی چوکھٹ پر کھڑا دیکھ کر ماضی کی کڑوی یاد نے دل میں کڑواہٹ بھر دی تھی، پر وہ جی کڑا کرکے آگے بڑھی تھیں۔
"سلام چھوٹے سردار،آپ یہاں۔۔"سلام کے بعد انہوں نے اس کے آنے کا مقصد پوچھا۔

"جی....اگر آپ کو مناسب لگے تو ہم اندر چل کر بات کریں،یہاں کھڑے ہو کر بات کرنا مناسب نہیں ہے"
وہ ایک نظر مالک مکان اور ایک نظر زرمینہ بیگم پر ڈال کر بولا۔اسکی بات سن کر وہ دروازے کی اوٹ میں کھڑی کھڑی آبشار فٹ سے اندر کچن کی جانب گئی تھی جبکہ دوسری جانب وہ دونوں زرمینہ  بیگم کے ہمراہ اندر داخل ہوے تھے۔

اب وہ تینوں کچھ دیر تک آپس میں باتیں کرتے رہے ،وہ سہی سے سن نہیں پارہی تھی،کچھ دیر میں ملک مکان تو نکل کل چلا گیا پر وہ وہیں اندر بیٹھا تھا۔

وہ وہیں کچن میں سلیب سے ٹیک لگاے اپنی زندگی کو سوچ رہی تھی،وہ اچھا وقت اسے ٹوٹ کر یاد آرہا تھا جب ابا زندہ تھے،کتنی خوش اور مطمئن زندگی تھی،سب پرفیکٹ تھا،اور اب کتنے مسائل تھے،کچھ بھی ٹھیک نہیں تھا۔

"آبی ......"امی کی آواز پر وہ ٹھٹکی تھی۔

"جی ...اممی ...کیا ہوا"
"کچھ نہیں...بس تم چھوٹے سردار کیلئے چایے بنا کر دے آؤ،میں ہم دونوں  کا سامان پیک کررہی  ہوں "وہ بنا اس سے نگاہیں ملائے  بولتیں کمرے کی جانب چلی گئیں۔

"پیکنگ؟کیوں،ہم کہاں جارہے ہیں"ماتھے  پر بل لئے وہ ان کے سامنے سوالیہ نشان بنی کھڑی تھی۔

"آبی دیکھو زیادہ سوال مت کرو،چھوٹے سردار  باہر  انتظار کررہے ہیں،جاؤ جا کر ان کو چاے دو"وہ اسے قطعی ہے سخت لہجے میں  کہ کر اپنے کام میں مصروف ہوچکی تھیں۔
  
                          *************

وہ چاے تیار کر کے سر پر ڈوپٹہ لئے، ڈوپٹہ کے پلو سے آدھ چہرہ چھپاے وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی،عالیان جو کہ موبائل پر مصروف ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے صوفہ پر بیٹھا ہوا تھا۔آہٹ پر اس نے سر اٹھایا تھا،ٹیبل پر ٹرے رکھتی آبشار ور اسکی نظر پری  تھی۔
کالے سادے شلوار کمیز میں موجود آبشار اپنے دھیان میں چاے کپ میں انڈیل رہی تھی۔
اسکی کمر پر لٹکٹی اسکے لمبے کالے بالوں کی چوٹی نے لمحہ بھر کو اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔

 عشق تیرا لے ڈوبا از زون شاہWhere stories live. Discover now