قسط ۹

424 39 1
                                    

ارے جناب کس کی جان لینے کا ارادہ ہے اتنی پیاری لگو گی تو مر جائے گا وہ تمہیں دیکھ کر ۔ مومل نے سحر کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔ دونوں آج رات کے کھانے کے لیے تیار ہو رہی تھی اور ان کی تیاری تقریباً مکمل ہو چکی تھی ۔
بھابی آج جان تو نکلے گی اس کی مگر وجع کچھ اور ہو گی ۔ سحر نے ایک شرارت بھری مسکراہٹ دیتے ہوئے کہا ۔
سحر زرا بتاؤ گی کہ تمہارے اس دماغ میں کیا چل رہا ہے ۔
نا۔۔۔۔نا ۔ زرا انتظار کریں ۔ آج ہی پتا چل جائے گا ۔
سحر مجھے فکر ہو رہی ہے بتاؤ کیا کرنے والی ہو تم ۔ مومل نے قدرے ڈر ہوئے تاثرات چہرے پر سجاتے کہا ۔
بھابی فکر نہ کریں نہیں چلاتی میں بندوق اس پر ۔ سحر نے مومل کے تاثرات دیکھتے ہوئے اسے مطمئن کرنے کے لئے کہا۔
وہ تو چاہ کر بھی نہیں کر سکتی سحر ۔ مومل نے بڑے اطمعنان سے کہا۔
اچھا چلیں یہ نا ہو وہ انتظار کرتے کرتے بوڑھے ہو جائیں اور میزبان بعد میں آ رہے ہوں آپ کو پتا ہے نا کہ ہمیں انہیں ریسیو کرنا ہے ۔سحر نے مومل کی بات پوری طرح اگنور کرتے ہوئے کہا ۔ وہ مومل کو ابھی کچھ نہیں بتانا چاہتی تھی اور اگر اسے اس کی اس حرکت کی بھنک تک لگ گئی تو شاید وہ ڈنر ہی کینسل کر دے ۔
*******************************
شہزل مومل سحر اور شہزل کی بیوی حیا چاروں ایک فائیو سٹار ہوٹل میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے ۔ عاصم نے لاسٹ مومنٹ منع کر دیا تھا سحر کو تو اس نے صبح ہی بتا دیا تھا مگر باقی سب کو یہاں پہنچ کر ہی پتا چلا تھا اور شہزل کو اس کی اس حرکت پر کافی غصہ بھی آ رہا تھا ۔
حیا صدیقی کافی خوبصورت لگ رہی تھی مگر خوبصورتی تو دیکھنے والے کی آنکھوں میں ہوتی ہے اور اس کی آنکھیں تو سحر پر ٹھری ہوئی تھی ۔
ویسے تم نے تو خاموشی سے شادی کر لی پتا بھی نہیں لگنے دیا ورنا ہم ہلا گلا کرتے کتنا مزہ آتا مگر خیر جانے دو یہ سب ہم میری شادی پر کر لیں گے ۔ سحر نے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا ۔
شہزل کے گلے میں ایک لمحہ کو کچھ اٹکا تھا ۔
ویسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا تم لوگوں کو ہلا گلا کرنے کے لیے ۔ سحر نے پھر سے بولنا شروع کیا ۔
شہزل ابھی بھی اسی کی ہی طرف دیکھ رہا جو بڑے آرام سے اپنی شادی کا بتا رہی تھی ۔
بس منگنی تو ہو گئی ہے شادی بھی ہو ہی جائے گی بس اسی مہینے ہماری فیملیز مل رہی ہیں ۔
اس بات پر پہلے تو مومل کھاتے کھاتے رک گئی اور پھر بغور اس کو دیکھنے لگی کہ آیا اس کی باتوں میں کتنی سچائی ہے ۔
وہ بس ایک ہفتہ پہلے ہی مجھے عاصم نے پروپوز کیا اور مجھ سے تو انکار ہی نا کیا جا سکا بس میں نے ہاں کر دی ماما سے بھی بات ہو گئی ہے بس زیادہ وقت نہیں لگے گا ۔ وہ اتنے آرام سے بتا رہی تھی جیسے کوئی خبر نامہ پڑھ کر سنایا جا رہا ہو ۔
وہاں بیٹھے لوگو میں صرف حیا نے اسے مبادک باد دی باقی دونوں تو ابھی تک اس کے الفاظ کو ہضم کرنے کی کوشش میں تھے ۔
شہزل مکمل حیرانی میں تھا اس نے اگر کسی آخری شخص کو سحر کے ساتھ سوچا ہو گا تو وہ عاصم تھا آج اگر سحر کسی اور کا نام لیتی تو شاید وہ دکھی ہوتا مگر عاصم ، عاصم کے نام پر دکھ سے زیادہ غصہ تھا ۔ شہزل نے پوری کوشش کی کہ وہ اپنے جزبات کو سنبھال سکے مگر وہ ایسا نہ کر سکا آخر لاوے کو نکلنے سے کتنا روکا جا سکتا تھا ۔
شہزل اٹھا اور حیا کو مخاطب کرتے ہوئے بولا ۔ میں ڈرائیور کو کال کر دیتا ہوں وہ کچھ دیر میں آ جائے گا تم اس کے ساتھ چلی جانا مجھے ضروری کام ہے میں وہ کر آؤں ذرا ۔ وہ یہ کہتا وہاں سے چلا گیا ۔
اور تینوں لڑکیاں وہاں اکیلی بیٹھی ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہی تھی ۔ مومل نے ماحول کو نارمل کرتے ہوئے کہا ۔ آپ کھانا کھائے شہزل تو ہے ہی ایسا شاید سحر اور عاصم سے ناراض ہو گیا ہو آخر اس کے بیسٹ فرنڈز ہیں ۔
ہممم۔ حیا نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا ۔
سحر کو اندر ہی اندر کچھ اچھا محسوس ہوا تھا جیسے اس نے اپنا مقصد پورا کر لیا ہو ۔اور اس احساس کی خوشی سے شہزل کے عمل میں اپنے لیے چھپی محبت کی خوشی زیادہ تھی ۔
*******************************
یہ کیا حرکت کی ہے اور یہ ماما سے کب بات کی تم نے ، مجھے تو نہیں بتایا ماما نے ۔ مومل کافی غصہ میں سحر سے مخاطب تھی ۔
سحر گاڑی چلاتے ہوئے مسلسل سیٹی بجا رہی تھی اور کب سے مومل کو اگنور کر رہی تھی ۔
سحر میں کچھ پوچھ رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سحر اگر اب نہیں بتایا تو میں گاڑی سے چھلانگ لگا دوں گی ۔ یہ کہنے کے ساتھ ہی وہ گاڑی کے لائک پہ ہاتھ رکھ دیتی ہے ۔
اچھا اچھا بتاتی ہوں ۔ سحر نے ہار مان جانے کے انداز میں کہا ۔
وہ میں نے آج ہی بات کی ہے امی سے اور عاصم کو میں نے اس سے اگلے دن جب شہزل کی شادی کی خبر آئی تھی پوچھا تھا کہ کیا وہ مجھ سے شادی کرے گا ۔
اور اس نے ہاں کر دی ۔ مومل نے قدرے حیرانی سے پوچھا ۔
ہاں اس نے ہاں کر دی ۔ سحر نے پر سکون انداز میں بتایا۔
سحر یہ کیا بیوقوفی ہے ۔ مومل نے قدرے غصے سے کہا ۔
بیوقوفی کیسی ، کسی نہ کسی سے تو شادی کرنی ہی ہے ناں تو عاصم میں کیا برائی ہے ۔
کوئی برائی نہیں ہے اس میں ، برائی اس طرح شادی میں ہے ، اگر یہ شادی تمہاری خوشی سے ہوتی تو میں بہت خوش ہوتی مگر اب نہیں ، میں امی کو سب کچھ بتا دوں گی ۔
ہر گز نہیں ۔ آپ ایسا کچھ سوچیں گی بھی نہیں اور اگر آپ نے ایسا سوچا بھی تو پوری عمر مجھ سے بات کرنے کو ترس جائے گی ۔۔۔۔۔۔ ۔ میں اپنی جان لے لوں گی ۔
سحر کی اس بات پر مومل خاموش ہو گئی وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی مگر اسے کچھ کرنا ضرور تھا اور وہ تو وہ کر کے ہی رہے گی اور وہ تھا عاصم سے بات ۔ ۔ ۔
*******************************
عاصم گھر پر ہے ۔ شہزل نے عاصم کے گھر پہنچتے ہی اس کے نوکر سے پوچھا ۔ وہ اکثر اسی طرح بنا بتائے آ جایا کرتا تھا شہزل عاصم کے گھر کے ہر فرد کو اسی طرح جانتا تھا جس طرح عاصم اپنے گھر والوں کو جانتا ہو ۔
جی ۔۔۔۔ مگر ۔۔۔ انہوں نے منع کیا ہے کہ وہ کسی سے نہیں ملیں گے ۔ نوکر نے اٹک اٹک کر جواب دیا ۔
کسی سے نہیں ملیں گے یا خاص طور پر یہ حکم میرے لیے ثادر کیا گیا ہے ۔ شہزل بہت غصے میں تھا اور وہ اسی لہجے میں بات کر رہا تھا ۔
تم مجھے بتاؤ وہ ہے کہاں ؟
وہ اپنے کمرے میں ہیں ۔ نوکر نے ڈرتے ہوئے جواب دیا ۔ اس نے آج سے پہلے شہزل کا یہ روپ نہیں دیکھا تھا وہ تو بڑی بڑی باتوں پر غصہ نہیں کرتا تھا تو آج اسے کیا ہوا ہے ۔
نوکر کی بات سنتے ہی وہ عاصم کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔
عاصم کا کمرہ پہلی منزل پر تھا ۔ اس نے لمبے لمبے ڈگ برھتے سیڑھیاں چڑھی اور عاصم کے کمرے کے سامنے پہنچ کر زور سے دروازہ کھول دیا ۔ جس کی آواز سن کر عاصم بیڈ پر اٹھ بیٹھا ۔ اس سے پہلے کہ وہ بیڈ سے نیچے اترتا شہزل نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا اور اس کے منہ کے اوپر گھوسہ مارا جس کی شدت سے اس کے ہونٹ سے ہلکا سا خون نکلا تھا اس سے پہلے کہ وہ سنبھل پاتا اس نے دوسری طرف دوسرا مکا مارا ۔ اور اس طرح مارنا شروع کیا جیسے اس کی جان ہی لے لے گا ۔
عاصم نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو اس مار پیٹ سے آزاد کروایا ۔
کیا ہو گیا ہے شہزل جان لے گا کیا مجھ معصوم کی ۔ عاصم نے کچھ غصہ میں اسے مخاطب کیا ۔
توں معصوم ۔۔۔ اگر تجھ جیسے ہوتے ہیں معصوم تو اللّٰہ بچائے معصوموں سے ۔
کیا کیا ہے میں نے ۔
اچھا تجھے نہیں پتا ۔ توں سحر سے شادی کر رہا ہے ۔
ہاں تو اس میں کچھ غلط ہے کیا ۔ عاصم نے اطمعنان سے جواب دیا ۔
ہاں کچھ غلط نہیں ہے ۔ شہزل نے ایک مکا اس کے منہ پر مارا ۔
مار میں بھی سکتا ہوں اس لیے سیدھی طرح بات کرو ۔اب کی بار عاصم نے زیادہ غصے میں بولا ۔
توں سب جانتا تھا ، تجھے میں نے بتایا تھا اور پھر بھی ۔
ہاں میں جانتا تھا اور جس دن تیری شادی کی خبر آئی اس سے اگلے دن توں نے مجھے سب بتایا تھا اور جس دن توں نے مجھے بتایا اسی دن رات کو اس کی مجھے کال آئی اور اس نے مجھ سے شادی کی بات کی اور میں نے ہاں کر دی ۔ اب تیرے چکر میں میں اتنی اچھی لڑکی کو انکار کرتا اور ویسے بھی اب تیری شادی ہو گئی ہے تو توں اپنی شادی پہ دھیان دے تجھے کیا لگے وہ کسی سے بھی شادی کرے مجھ سے کرے یا کسی مالی سے توں ہوتا کون ہے پوچھنے والا ۔
عاصم توں اس کی حالت کا فائدہ اٹھا رہا ہے وہ تجھ سے محبت نہیں کرتی اور نا توں اس سے تو یہ شادی کیوں کر رہے ہو ۔
میں اس کا فائدہ نہیں اٹھا رہا اور رہی بات محبت کی تو وہ شادی کے بعد ہو جائے گی تو توں جا اب یہاں سے ۔
عاصم توں بہت پچھتائے گا ۔ شہزل اس کے کمرے سے نکلے لگا تھا کہ عاصم نے اسے پیچھے سے سوال کرتے ہوئے کہا
شہزل اگر یہ شادی ہماری مرضی سے ہو رہی ہوتی تو ۔
تو میں یہاں آکر تجھے گلے لگاتا اور کہتا مبارک ہو میرے یار ۔ شہزل نے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا
تو اب لگا لے گلے ۔ عاصم نے اس کو مسکراہٹ دیتے ہوئے کہا ۔
دے دیتا مگر ا فسوس یہ شادی تم لوگ خوشی سے نہیں کر رہے ۔۔۔۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر یہ خوشی نہیں ہے ۔ یہ کہتا وہ کمرے سے باہر چلا گیا ۔
***********************************
مجھے میرے انسٹاگرام پیج پر فولو ضرور کریں novelist_sadia

  کچھ کہا ہوتا (✔Completed)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora