pary 6

104 9 2
                                    

اسے لگا تھا کہ پاکستان جاکر کم از کم وہ ذہنی مریض بننے سے بچ جائے گی، مگر اب اسے پاکستان آنا بھی اسی اپنی حماقت لگ رہا تھا۔ایک تو سب کو اکھٹا دیکھ اسے اسکی اپنی فیملی کی محرومی کا احساس شدت سے ہورہا تھا حالانکہ وہ سب اسکا بےحد خیال رکھ رہے تھے مگر اسکا دل بے چین تھا۔وہ کمرے سے بہت کم کم نکلنے لگی تھی،دوسرا رلیجن جو اسے امریکہ میں بھی نقاش کی فیملی کے قریب آنے کے بعد سے کھٹکتا رہتا تھا اب شدت سے اسکے سر پر سوار ہونے لگا تھا۔پروفیسر صفدر کی عام زندگی کی باتوں میں اکثر دین کا حوالہ دیتے رہتے تھے مگر وہ جولیا کے سامنے محتاط رہتے تھے،لیکن خود جولیا لاشعوری طور پر انکی کسی نہ کسی اس طرح کی بات کی منتظر رہتی جس میں وہ دین ومذہب یا اللہ یا نبی(ﷺ) کا ذکر ہوتا۔جولیا کو خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیوں سوار کر رہی ہے اس چیز کو اتنا سر پر۔
جولیا!وہ کسی کی آواز پر ہڑبڑا گئی۔
کن سوچوں میں گم ہو؟پارسا نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
کہیں نہیں۔تمہیں کام تھا کوئی؟جولیا نے بات گھمائی۔
یس۔گرینڈپا بلا رہے ہیں تمہیں،اسٹڈی روم میں ہیں وہ۔پارسا نے کہا۔
اوکے میں ہو کر آتی ہوں۔جولیا نے کہا اور اٹھ کر باہر کی طرف لپکی۔

پروفیسر صفدر کرسی پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے،ہاتھ میں کوئی کتاب پکڑی ہوئی تھی جسے وہ بڑی محویت سے پڑھنے میں مصروف تھے۔
اس نے سیدھے ہاتھ کی تیسری انگلی سے دروازہ کھٹکھٹایا۔
آجائیے بیٹا۔انہوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر کتاب بند کرتے ہوئے بولے۔
بیٹھے انہوں نے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کیا تو جولیا بیٹھ گئی۔
کیسی جارہی ہے جاب آپکی؟انہوں نے پوچھا۔
اچھی جارہی ہے۔جولیا نے  مسکرا کر کہا۔
مشکل تو نہیں آرہی لینگویج کی وجہ سے؟
نہیں انکل نو سال سے نقاش اور اسکی فیملی میں آجا رہی ہوں اردو بول ہی لیتی ہوں گزارے لائک اور سمجھ تو مجھے آجاتی ہے ٹھیک سے بس پڑھ نہیں سکتی۔جولیا دھیمے لہجے میں وضاحت کی۔

آپ اپنے پیرینٹس کو فون کیوں نہیں کرتی؟ کافی دیر اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد وہ مدعے پہ آئے۔
جولیا خاموشی سے ٹکر ٹکر انکا چہرہ دیکھنے لگی۔
بیٹا مجھے پتہ ہے کہ مجھے آپکے پرسنل معاملات میں نہیں بولنا مگر آپ سمجھدار لڑکی ہو ابھی بے حد کنفیوژن کا شکار ہو میں نہیں چاہوں گا کہ جب یہ کنفیوژن ختم ہو تب آپ پچھتاو۔میں نے نوٹ کیا ہے جب سے آپ آئی ہیں نہ آپ نے اپنے پرینٹس کو کال کی نہ انہوں نے آپ سے رابطہ کیا۔
انکل انہیں میری ضرورت نہیں ہے،اور اب مجھے بھی انکی نہیں ہے۔جولیا نے دھیرے سے ہاتھ مسلتے ہوئے کہا۔
ہر کام ضرورت کے تحت کیا جائے یہ ضروری تو نہیں کچھ کام انسان کو بنا ضرورت کے بھی کرلینے چاہیے۔
جولیا نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا۔
آپکو ان سے بات کرنی چاہیے۔جولیا کو لگا کہ وہ وضاحت دیں گے مگر انہوں نے مختصراً اتنا ہی کہا۔
انکل میں نے بتایا ہے نہ انہیں میری ضرورت نہیں ہے۔جولیا کی آواز میں اب آنسوؤں کی آمیزش تھی۔
پروفیسر صفدر خاموش رہے وہ چاہتے تھے کہ جولیا وہ بولے جو اسکے دل میں ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر بار ہم سامنے والے کو نصیحتوں کا انبار تھما دیں کبھی کبھی ہمیں خاموشی سے کسی کو سن بھی لینا چاہیے تاکہ سامنے والا بھی اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکے۔
انہیں میری بالکل ضرورت نہیں ہے انکل ان دونوں کے پاس اپنی اپنی فیملی ہے تو جولیا کی فکر کسی کو بھی نہیں ہے۔جولیا بے ربط انداز میں بولی۔
بچن سے اب تک انہوں نے مجھے بورڈنگ میں ہی رکھا ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ میرے اخراجات اٹھا کر وہ اپنی ذمہ داری پوری کرچکے ہیں تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے، کیونکہ پیسا سکون نہیں خرید سکتا۔میرے ڈیڈ انکے کئے انکا پیسا سب سے امپورٹینٹ ہے اور ممی انکے کئے انکی نیو فیملی،انکے بچے اور انکے ہزبینڈ۔آپکو پتہ ہے میرے پاکستان آنے پر ان دونوں کو یہ فکر نہیں تھی کہ جولیا دور ہوجائے گی بلکہ میرے ڈیڈ کو یہ فکر تھی کہ وہ اپنے سوشل سرکل میں کیا کہیں گے کہ انکی بیٹی ایک پسماندہ ملک میں گئی ہے اور ممی انکو یہ فکر تھی کہ میرے ڈیڈ نے انکی انسلٹ کی اور یہ کہ انکے ہزبینڈ کیا سوچیں گے۔
جولیا کیسی ہے کہاں ہے یا زندہ بھی ہے اس سے انکا کوئی واسطہ نہیں ہے بس اپنی عزت بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔
انکی لو میرج تھی بہت خوش تھے وہ دونوں پہلے۔
کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے جب میں بہت چھوٹی تھی میرے پیرنٹس ساتھ رہتے تھے صلح کے ساتھ۔
اسکا چہرہ آنسوؤں سے تر ہوگیا تھا،وہ خاموش ہوگئی اس میں ہمت نہیں تھی مزید کچھ بھی کہنے کی۔
پروفیسر صفدر نے ٹیبل پر رکھے جگ سے کلاس میں پانی انڈیلا اور اسکی طرف بڑھا دیا۔جولیا نے خاموشی سے کلاس تھاما اور سارا پانی پی لیا۔

ایک بار کہو تم میری ہو❤Where stories live. Discover now