ہم نے تو خود سے انتقام لیا
تم نے کیا سوچ کر محبت کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتقام کا پہیہ ایک دفعہ چل جائے تو پھر چلتا ہی جاتا ہے۔انتقام کی آگ میں جلنے والا کبھی فلاح نہیں پاتا ۔جب کوئ بدلے کی راہ پر چل پڑتا ہے تو وہ اپنا آپ،اپنا حاصل سب کھو دیتا ہے جبکہ صبر،خاموشی اور سب سے بڑھ کر لاتعلقی ہی بہترین انتقام ہے اور "صارم وجدان خان" نے بھی لاتعلقی سے ہی انتقام کا آغاز کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔×۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔×۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔×۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔×۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔×
"یہ میں کیا سن رہا ہوں صارم تو پاکستان جارہا ہے"مقابل کی آواز پر وہ پلٹا ۔وہ پلٹے تو ایک پل کے لیے اگلا بندہ سانس لینا بھول جائے۔وہ تھا ہی اتنا خوبصورت ۔کالی آنکھیں جو اپنے اندر کسی کو بھی سمانے کا ہنر رکھتی تھیں ۔بل جیل سے سیٹ کیے،تھری پیس پہنے وہ بےحد دلکش لگ رہا تھا۔خوبصورت بھی،بااخلاق بھی۔کسی سے ملتا تو سامنے والا اس کے سحر میں کھوجاتا۔ایسا ہی تھا وہ ہر ایک کو اپنی طرف مائل کرنے والا۔"صارم وجدان خان"۔شمس کی آواز پر وہ پلٹا اور اس سے بغلگیر ہوا۔"ہاں یار سہی سنا ہے تو نے میں پاکستان جارہا ہاں"اس نے جواب دیا۔
شمس:"مگر کیوں؟"
صارم:"یار تجھے پتا تو ہے امی کی طبیعت کا بس وہ چاہتی ہیں کہ اب ہم پاکستان چلے جائیں "
شمس:"مگر یار تو 8 سال سے ادھر ہے ،بزنس کی دنیا میں اتنا نام کمایا ہے تونے ،اب اگر تو چلا گیا تو یہ تیرا بزنس کون دیکھے گا؟"شمس نے اسے سمجھانا چاہا۔(شمس اور صارم 8 سال سے دوست تھے جب سے وہ امریکہ آیا تھا)۔
صارم:"میں کونسا ہمیشہ کے لیے جارہا ہوں، چند مہینوں کی بات ہے تب تک مجھے میرے یار پر پورا بھروسہ ہے وہ دیکھ لے گا سب اور اس عرصے میں میں پاکستان والی برانچ دیکھ لوں گا"
شمس:"اچھا کب کی فلائٹ ہے میری کوئ مدد چاہیے ہوئ تو بتانا"وہ ہار مانتے ہوئے بولا کہ اب اس کو سمجھانا بے سود تھا ۔
صارم:"کل شام کی فلائٹ ہے اور شکریہ کوئ مدد نہیں چاہئیے آپ کی خضور" یہ کہتا ہوا وہ وہاں سے چل دیا۔
♡♡♡♡♡♡♡♡♡◇♡♡♡♡♡♡♡♡
یونیورسٹی کا وہ ہال کچھا کھچ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ہر طرف لوگوں کا جم غفیر تھا جبکہ وہ اس تناو بھرے ماحول میں بھی وہ آرام سے اپنی کرسی پر بیٹھی کتاب کے صفحے پلٹ رہی تھی جب سمیہ نے اسے پکارا "یار کیا ہے تمہیں ذرا ٹینشن نہیں ہورہی اتنی ریلکس کیسے ہو؟" مگر کوئ جواب نہ آیا۔ہنوز خاموشی برقرار رہی ۔" یار میں تمہیں بلا رہی ہوں" سمیہ نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔"ہوں کیا ہے؟"وہ سمیہ کی طرف متوجہ ہوئ۔آنکھیں گہرے سمندر کی مانند تھیں۔اس کی خوبصورتی اور دلکشی کی گواہ اس کی آنکھیں تھیں ۔سیاہ برقعے میں ہم رنگ سکاف سے نقاب کیے وہ بہت آرام سے وہاں بیٹھی تھی ۔"میں پوچھ رہی ہوں تمہیں بالکل ڈر نہیں لگ رہا"سمیہ نے پوچھا۔"نہیں!سمیہ میں تو مطمئن ہوں تم بھی مطمئن ہوجاو" لہجہ ٹھرا ہوا اور مقابل کو قائل کرنے کا ہنر رکھتا تھا ۔آج بزنس کا فائنل ائیر ختم ہوا تھا اور پوزیشن لینے والے طلبہ کے اعزاز میں ایک ایوارڈ سیریمنی منعقد کی گئ تھیم"میں کیسے مطمئن ہوجاوں" سمیہ نے کہا۔دونوں کی آوازوں کو اسٹیج پر موجود مقرر کی آواز نے بریک لگائے ۔"تو اب میں دعوت دیتا ہوں محترم سر شہباز کو کہ وہ آئیں اور بزنس ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹ آف دا ائیر کا اعلان کریں" مقرر نے یہ کہ کر مائک سر شہباز کو پکڑایا۔
"جی تو بزنس ڈیپارٹمنٹ سٹوڈنٹ آف دا ائیر ایوارڈ گوز ٹو "مس صفحہ ذوہیب خان"۔ سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔اپنے نام کے پکارے جانے پر وہ اپنی نشست سے کھڑی ہوئ اور نہایت متانت اور وقار سے چلتی ہوئ اسٹیج کی طرف بڑھی اور ایوارڈ وصول کیا اور پھر اسی انداز سے واپس آکر اپنی نشست پر بیٹھ گئ ۔"واہ صفحہ کیا بات ہے تمہاری مبارک ہو" سمیہ نے اسے مبارک دی۔"بہت شکریہ سمیہ" اس نے مبارکباد وصول کی۔وہ اپنے نقاب میں بھی دلکش لگتی تھی۔تقریب کا اختتام ہوا تو وہ دونوں باہر آئیں۔"اچھا پھر آگے کا کیا ارادہ ہے یونیورسٹی کی طرف سے تو تمہیں 2،3 کمپنیز میں جاب آفر ہوئ ہے نا"سمیہ نے اس سے پوچھا ۔"یار پتا نہیں پہلے ہی میں نے اتنی مشکلوں سے یونیورسٹی تک پڑھا ہے صرف دارجی کی حمایت پر ورنہ تمہیں میرے گھر کے ماحول کا تو پتا ہے "اس نے جواب دیا۔"ہاں پتا ہے مجھے تمہارے قید خانے کا قید ہوکر رہ گئ ہو تم"سمیہ نے کہا۔"اب ایسی بھی بات نہیں میں خوش ہوں وہاں اچھا میں چلتی ہوں" یہ کہ کر وہ باہر کی طرف بڑھ گئ کہ داور بھائ انتظار کررہے تھے۔وہ گھر پہنچی تو سب سے پہلے دارجی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔اجازت ملنے پر وہ اندر داخل ہوئ۔"دارجی السلام علیکم " اس نے ادب سے سلام کیا۔"وعلیکم اسلام میرا بیٹا آگیا"انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔"جی دارجی!اور یہ دیکھیں انعام سٹوڈنٹ آف دا آئیر "وہ انعام دکھاتے ہوئے بولی۔دارجی کے سامنے تو اس کے انداز ہی بدل جاتے تھے۔"ارے واہ!مبارک ہو میرا بیٹا کیا انعام چاہئیے مجھ سے"انہوں نے پوچھا۔"کچھ خاص نہیں جاب کی اجازت"وہ معصومانہ انداز میں بولی۔"صفحہ بیٹا یہ میں نہیں دے سکتا پہلے ہی بڑی مشکلوں سے میں نے تمہیں تعلیم دلوائ ہے تمہارے باپ بھائ کے خلاف جاکر"دارجی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔"مگر دارجی"اس نے احتجاج کیا۔"اگر مگر کچھ نہیں بس اب تمہاری شادی ہوگی" انہوں نے کہا۔"مگر شادی کیسے میں تو پہلے ۔۔۔۔"وہ بات کرتے کرتے رک گئ۔"وہ ہم دیکھ لیں گے اب تم جاو "وہ سمجھتےہوئے بولے۔وہ بنا کچھ کہے کمرے سے نکل گئ۔
(جاری ہے)