قسط نمبر 3:
وہ حسب معمول آفس سے آنے کے بعد ٹیرس پر کھڑا سگریٹ پی رہا تھا۔وہ ایسا ہی تھا جب سے احساس جرم نے اسے آگھیرا تھا وہ اس دشمن جان کی یاد میں تب سے ایسے ہی جلتا تھا۔اس نے سگریٹ کا ایک گہرا کش لگایا "کاش کہ میں تب خود کو سنبھال لیتا، میں وجہ تھا اس سب کی اگرچہ مجھے ہر طرح سے معافی مل گئ ہے سوائے تمہاری معافی کے مگر کمبخت معافی چاہتا کون ہے مگر پھر بھی یہ تکلیف مجھے اندر سے کھائے جارہی ہے" اس نے سوچتے ہوئے پھر سے ایک کش بھرا۔اس کی سوچوں میں خلل فون کی رنگ نے ڈالا۔بے دلی سے اس نے فون اٹھایا اور کان سے لگایا مگر مقابل کی آواز سے اس کی پیشانی پر بل پڑے۔"کیا لگتا تھا تمہیں تب تم نے اسے بچا لیا تو اب بھی بچا لو گے نہیں اب تو میں اس کے ساتھ اس سے بھی برا کروں گا ۔ہاہاہا!" مقابل خباثت سے ہنسا۔"بکواس بند کر اپنی خبردار جو اپنی گھٹیا زبان سے اس کو مخاطب کیا ،میرا بدلہ ابھی باقی ہے "وہ زورداد آواز میں گرجا۔"آرہا ہے نا تو پاکستان اتنے عرصے بعد دیکھنا تیرے سامنے سب کروں گا اور تو دیکھتا رہ جائے گا۔تیری بیوی کو اپنی بیوی بناوں گا ہاہاہا" مقابل نے کہا۔" خبردار خبردار میں تجھے زندہ گاڑ دوں گا "صارم نے غصے سے کہا اور ساتھ ہی کھٹ سے فون بند ہوگیا۔وہ فورا اپنی ماں کے پاس آیا۔"امی ہم پاکستان جارہے ہیں" اس نے ان کو مطلع کیا۔" مگر ایسے کیسے صارم؟" " امی آپ بس سامان پیک کریں " اس کے بعد اس نے ایک فون کال کیا اور آگے کا لائحہ عمل تیار کیا۔
-----------------------------------------------------------
رات کے اندھیرے میں سیاہ بادل ہر طرف منڈلا رہے تھے۔قریب تھا کہ بارش بعد جاتی مگر وہ بارش جو ابر رحمت ہوتی ہے آج اس کو زحمت لگ رہی تھی۔ایسے میں وہ بنجر زمین پر ننگے پاوں بھاگ رہی تھی ۔کوئ اس کے تعاقب میں تھا۔مسلسل اس کے قریب آرہا تھا۔وہ اپنی عزت بچا کے بھاگ رہی تھی ۔ایک جھٹکے سے کسی نے اس پکڑا اور اس کا دوپٹا دور جا گرایا۔وہ آنکھیں میچ کر رہ گئ۔" نہیں تمہیں خدا کا واسطہ " ہوا کی بیٹی اپنی عزت کے لیے خدا کے واسطے دے رہی تھی اور وہ جنگلی اس کی عزت نوچ کھانے کو تھا۔اچانک کسی نے اسے اپنی طرف کھینچا اور وہ اپنے حواس کھو بیٹھی۔اچانک اس کی نیند سے آنکھ کھل گئ۔وہ ڈر کے مارے کانپ رہی تھی۔بظاہر وہ خود کو جتنا بھی مظبوط ثابت کرلیتی مگر تھی تو وہ ایک لڑکی ہی۔اس نے سائڈ ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس ایک ہی سانس میں ختم کرلیا۔ماضی کی ساری یادیں اس کے خیالات سے محو ہو گئ تھیں سوائے اس خواب کے۔" یااللہ آج اتنے عرصے بعد " اس نے خودکلامی کی۔پچھلے 5ماہ سے اسے یہ خواب نہیں آرہا تھا مگر آج پھر وہی خواب آیا تو وہ گھبراگئ۔وہ اٹھی اور اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوگئ۔" اللہ میری یہ آزمائش کب ختم ہوگی۔معاف کرچکی ہوں انہیں میں کہیں نہ کہیں " " وہ قصوروار تھا ہی کب جو تم اسے معاف کرتی " کہیں دور سے آواز آئ۔" نہیں وہ تھے قصوروار سارا قصور ہی ان کا تھا " وہ چیخی تھی۔" ارے بس کردو وہ تو 5 سال سے ایک ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہا ہے " پھر وہی آواز آئ۔" نہیں نہیں خاموش ہوجاو ۔وہ میرے قصوروار ہیں میں کبھی معاف نہیں کروں گی انہیں " وہ اکیلے میں ایسے ہی تھی۔اس کے اس حال سے کوئ واقف نہ تھا سوائے اس کے رب کے۔وہ صحیح راستے پر ہوتے ہوئے بھی غلط کررہی تھی ۔یہ صرف وہی جانتی تھی۔
-----------------------------------------------------------
کل اسے پاکستان کے لیے نکلنا تھا۔اس نے پاکستان میں خالد صاحب کو فون کیا ۔" جی خالد صاحب مجھے اس لڑکی کی ساری ڈیٹیل چاہئے اور میک شیور وہ ہماری کمپنی میں ہی جاب کرے۔" وہ انہیں ہدایت دے رہا تھا۔" جی سر آپ فکر نہ کریں ایسا ہی ہوگا " ساتھ ہی فون بند ہوگیا۔کیا ہوا جو تم مجھے قصوروار سمجھتی ہو میں بھی اب اپنے طریقے سے سب صحیح کروں گا۔اپنی چیز کیسے حاصل کرتے ہیں یہ صارم وجدان خان کو اچھے سے معلوم ہے۔تم میرے قریب رہو گی اور میں 5 سال کا بدلہ تمہیں قریب رکھ کر قربت دے کر لوں گا ۔وعدہ ہے میرا " صفحہ صارم خان" میرے نام کے ساتھ تمہارا نام ہمیشہ کے لیے رہے گا ڈئر۔ساتھ ہی ایک گہرا کش سگریٹ کا لیا۔
-----------------------------------------------------------
وجدان خان کا خاندان کچھ زیادہ بڑا نہ تھا مگر چونکہ وہ گاوں کے سردار تھے تو ان کی حویلی گاوں میں ہی تھی ۔وجدان خان کی شادی آسیہ بیگم سے ہوئ تھی جن سے ان کی تین اولادیں تھیں ۔دو بیٹے اور ایک بیٹی۔بڑے صہیب خان اور چھوٹے ذوہیب خان ۔ذوہیب خان کی شادی ان کی خالہ زاد عشرت بیگم سے ہوئ تھی اور ان سے ان کے تین بچے تھے۔سب سے بڑا داور،پھر دائم اور سب سے چھوٹی صفحہ۔جبکہ صہیب خان کی شادی ان کی مرضی سے ان کی یونی فیلو صدف بیگم سے ہوئ تھی جن سے ان کا ایک ہی فرزند تھا۔وہی ان کا سب کچھ تھا صارم وجدان خان۔جبکہ بیٹی کی شادی ان کے پھوپھو زاد ظفر سے ہوئ تھی جن سے ان کی دو بیٹیاں تھیں ۔سمینہ اور سندس ۔سب مل کر خان مینشن میں ہی رہتے تھے مگر کہتے ہیں نا کچھ خوشیاں وقتی ہوتی ہیں اور انہیں نظر لگ جاتی ہے تو ان کی خوشیوں کو بھی کوئ دیمک کی طرح چاٹ گیا تھا ۔
-----------------------------------------------------------
نماز پڑھنے کے بعد سے وہ یونہی بےمقصد کمرے میں پڑی رہی۔اس نے سوچ لیا تھا کہ آج وہ ریزائن کردے گی۔سب اسے بلا بلا کے تھک گئے تھے مگر وہ سر درد کا بہانہ کیے لیٹے رہی۔تب اچانک دارجی کمرے میں داخل ہوئے۔ان کو دیکھتے ہی اس نے سلیقہ سے ڈوپٹہ لیا اور سیدھے ہوکر بیٹھ گئ۔" اسلام علیکم " اس نے ادب سے سلام کیا۔" وعلیکم اسلام کیا ہوا میرے بیٹے کو طبعیت تو ٹھیک ہے؟" انہوں نے فکرمندی سے پوچھا۔" جی ٹھیک ہے " " تو پھر آفس کیوں نہیں جارہی؟" " بس دل نہیں چاہ رہا کل ریزائن کردوں گی " وہ بے دلی سے بولی۔" کیوں بیٹا تمہیں تو بہت شوق تھا، صفحہ بیٹے کیا کوئ بات ہے تو بتاو؟" وہ اس کا رخ اپنی جانب موڑتے ہوئے بولے۔" وہ میں ۔۔۔۔۔وہ" " کیا بیٹا آپ کو پتا ہے نا ہم آپ کے دوست بھی ہیں" " دارجی میں کل صارم سے ملی اور وہ آفس صارم کا ہے" وہ روتے ہوئے بولی۔" کیا صارم ہمارا صارم میرا جگر وہ واپس کب آیا؟" " پتا نہیں؟" تو بیٹا اس کے ہوتے ہوئے آپ کو کیا مسئلہ ہے ؟"
صفحہ: "دارجی آپ کو سب معلوم ہے"
دارجی:"بیٹا اب اسے معاف کردو، وہ سب ایک غلط فہمی تھی اس کی تو کوئ غلطی نہیں تھی"
صفحہ:" جی دارجی ہر دفعہ آپ ایسے ہی کہتے ہیں مگر میں انہیں معاف نہیں کرسکتی جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا کیا وہ غلط تھا؟"
دارجی:"بیٹا وہ سب غلط تھا"
صفحہ:" دارجی مجھے اس موضوع پر بات نہیں کرنی"
دارجی:" بیٹا آپ ایک دفعہ میرے کہنے پر اسے معاف کردو"
صفحہ:" دارجی واللہ مجھے میرے خدا کی قسم میں جانتی ہوں وہ سب غلط تھا مگر انہوں نے ایک دفعہ بھی میری طرف تب نا دیکھا تھا ،میں قسم کھاتی ہوں وہ ایک دفعہ مجھ سے معافی مانگ لیں میں انہیں معاف کردوں گی مگر وہ کیسے معافی مانگیں گے وہ تو مجھے پہچاننے سے بھی انکاری ہیں" آنسو اس کی شفاف گالوں کو بھگو رہے تھے۔
دارجی:" کیا کہ رہی ہیں انہوں نے آپ کو پیچانا نہیں " وہ بےیقین تھے۔
صفحہ:" جی ہاں " اور پھر اس نے ساری بات بتا دی۔
دارجی:" اچھا آپ پریشان نہ ہوں لیکن وعدہ کریں جاب نہیں چھوڑیں گی ہم کچھ کرتے ہیں" وہ ذرا سختی سے بولے تو وہ اثبات میں سر ہلا گئ۔
(جاری ہے)۔۔۔
♡♡♡♡♡♡♡♡◇◇◇◇♧♧♧♧♧
Do vote and comment 😊