قسط نمبر:4

989 74 37
                                    

#میں_لاپتا
#فاطمہ_نیازی
قسط نمبر 4
وہ لاؤنج میں نیم دراز خبریں سن رہا تھا جہاں آج کے گینگ وار کے متعلق تازہ ترین معلومات فراہم کی جارہی تھیں۔حیدر نے چرس بھری سگریٹ کا ایک آخری گہرا کش لیا اور اسے ایش ٹرے میں اچھال دیا۔تب ہی دروازہ بجا۔حیدر کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات چھلکے ۔
"اب کون ہے؟"وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھ کر گیٹ کے پاس آیا۔درز سے جھانکا۔باہر محسن کھڑا تھا۔اس نے گیٹ کھول دیا۔
"زخم کیسے ہیں؟"اس نے اندر داخل ہوتے ہی پوچھا۔
"بہتر! تو اس وقت؟ "حیدر لاؤنج کی جانب آیا۔
"ہاں، باہر ناکہ بندی ہے۔اس لیے ادھر چلا آیا۔کھانے کو کچھ ہے؟ "محسن سیدھا کچن کی جانب مڑگیا۔وہ لنگڑا کر چل رہا تھا۔اس کے ماتھے پر بھی پٹی بندھی ہوئی تھی۔یہ زخم آج کی لڑائی میں اسے آئے تھے۔
"ہاں۔فریج میں پیزا اور چکن رکھا ہے۔اوون میں ڈال لے۔"حیدر نے لاؤنج میں بیٹھے بیٹھے بلند آواز میں جواب دیا۔محسن فریج کھول کر جائزہ لینے لگا۔حیدر ریموٹ پکڑے چینل تبدیل کررہا تھا۔
"سن! ابھی جب میں آرہا تھا زینب جارہی تھی۔وہ یہاں کیوں آئی تھی؟ "محسن نے پیزہ اوون میں ڈالا اور فریج سے بئیر کے کین نکال کر کاؤنٹر پر دھر دیے۔
"ہاں، بھیج دیا میں نے۔"حیدر نے کہا۔
محسن نے چونک کر سامنے لاؤنج پر نیم دراز حید کی جانب دیکھا لیکن کچھ کہنے سے گریز کیا۔کچھ دیر بعد پلیٹ میں پیزہ اور بئیر کے کین لیے وہ لاؤنج میں آیا۔
"ہاں اب بتا۔"محسن نے دلچسپی سے پوچھا۔زینب کا قصہ اسے شروع سے بہت سنجیدہ لگتا تھا۔کیوں کہ وہ واحد لڑکی تھی جسے حیدر کی فکر رہتی تھی وہ اکثر محسن کو کال کرکے حیدر کی خبر لیاکرتی اور اسے حیدر کا خیال رکھنے کی تاکید کرتی رہتی تھی۔
"کیا بتاؤں؟ نہ وہ میرے مزاج میں ڈھل سکتی تھی نہ میں اس کے۔صاف سیدھی بات ہے میں بلاوجہ کے واسطے نہیں رکھتا میرا کام بنتا ہے تو ٹھیک ورنہ وہ اپنے رستے، میں اپنے!"حیدر لاپرواہی سے بولا۔محسن نے تاسف بھری نگاہ اس پر ڈالی۔
"محبت کرتی ہے تجھ سے۔"محسن نے اسے شرم دلانا چاہی۔حیدر نے ہاتھ جھلایا لیکن خاموش رہا۔
"اچھی لڑکی ہے۔تیرے ساتھ ہر حال میں رہنا چاہتی ہے۔"محسن چاہتا تھا حیدر اسے دل سے اپنالے۔
"دیکھ یار! یہ جو محبتیں کرتے ہو نا تم لوگ۔جیسے تونے رمشاء سے کی ہے۔اب تو اس کا پابند ہے۔کوئی اور پسند آجائے تب بھی تم لوگ کچھ نہیں کر سکتے نہ کھل کر جی سکتے ہو نا کھل کر مزے کرسکتے ہو۔مانا وہ اچھی لڑکی ہے۔مجھے اچھی بھی لگتی ہے۔لیکن آزادی مجھے زیادہ عزیز ہے اور ویسے بھی یہ محبت وغیرہ میرے سمجھ میں نہیں آتی۔ایسا بھلا کیسے ممکن ہے ایک انسان سے ہوجائے تو اسی کے ہوکر رہ جاؤ۔"حیدر طنزیہ انداز میں بولا۔
"پسند تو آتی ہے لڑکیاں۔خوبصورت لڑکیوں سے باتیں بھی کرلیتے ہیں دل بھی بہلا لیتے ہیں کوئی راضی ہوجائے تو بات آگے بھی بڑھالیتے ہیں۔لیکن جو دل میں ہوتی ہے وہ تو رمشاء ہی ہے اسی سے ہے محبت۔محبت جس سے ہوتی ہےاس کا بن کررہنا پڑتا ہے۔"محسن پیزہ کھاتے ہوئے بولا۔
حیدر نے مسکراتی نگاہ اس پر ڈالی۔
"یہ محبت شحبت تم لوگ ہی کرو میں ایسے ہی خوش ہوں۔جو میرے ساتھ رہے گی اسے میری بات ماننی پڑے گی۔میرے ساتھ وہ تب تک ہی رہے گی جب تک میرا دل چاہے گا۔جب دل بھرجائے گا۔واسطہ ختم! اور رہی زینب جیسی لڑکیاں تو ان کو ان جیسے ہی ملنے چاہیے۔میں نے اس سے کہا تو اس نے کہہ دیا کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرے گی ۔تو میں نے کہہ دیا کہ بھئی پھر واسطہ بھی نہیں رکھنا ۔کیا کروں گا واسطہ رکھ کر؟ "حیدر نے کہہ کر بیئر کا کین منہ سے لگایا۔
"اور یہ نیا کیا چکر ہے؟ "محسن نے بھی بیئر کا کین اٹھالیا۔
"باہر کی ہے۔معصوم سی۔حسین ہے آنکھیں اس کی!"حیدر کی آنکھوں میں خضریٰ کا سراپا لہرایا۔
"معصومیت تو تجھے ویسے ہی بہت پسند ہے۔"محسن ہنسا۔
حیدر بھی قہقہہ لگاکر ہنس دیااور نفی میں گردن ہلائی۔
"نہیں مجھے معصومیت نہیں،معصومیت کا چولا اتارنا پسند ہے۔یہ جو معصومیت کا روپ دھارے لڑکیاں ہوتی ہیں نا ان کو چکنی چپڑی باتوں میں گھماکر رکھنا ہوتا ہے اور یہ مکھن کی طرح پگھلتی ہوئیں ہمارے ہاتھوں میں۔۔یوں!" حیدر نے ہنستے ہوئے ہاتھوں کا پیالا بنایا۔
"اور اگر وہ نہ مانے زینب کی طرح؟"محسن نے سوال کیا۔
"آج تک سوائے زینب کے کوئی لڑکی ایسی نہیں جسے میں نے مٹھی میں نہ کیا ہو۔اور اگر یہ بھی میرے مطلب پر نہیں آتی تو اسے بھی یوں کک مار کر آؤٹ!"حیدر نے ہوا میں لات رسید کی اور آنکھ دباکر مسکرادیا۔
"اسے معلوم ہے کہ تو۔۔
"نہیں! جب تک میرا مطلب پورا نہ ہو میں یہ بات چھپاکر رکھوں گا پھر میری بلا سے لگ جائے پتا۔میں ڈرتا ہوں کیا ۔۔"حیدر نے بئیر کا خالی کین میز پر رکھا۔
"آج تو جوڑ جوڑ دکھ رہا ہے۔چل میں تو چلا سونے۔"حیدر نے  اونگھتے ہوئے کہا اور محسن کی طرف دیکھا۔
"تو اپنی رمشاء سے باتیں کر۔۔ویسے بور نہیں ہوتا تو روز اسی سے گھنٹوں باتیں کرکے؟ "حیدر نے جاتے جاتے سوال کیا۔محسن نے ہنستے ہوئے نفی میں گردن ہلادی۔
"کمال ہے یار!"حیدر منہ بناتا کمرے کی جانب چل دیا۔
                 ************
اتوار کا دن تھا۔اتوار کے دن حیدر کا معمول تھا وہ علاقے کے بازار اور دکانوں میں چکر لگایا کرتا ۔اسی علاقے کے قریب ایک وسیع گراؤنڈ تھا جہاں اتوار کے دن اتوار بازار لگتا تھا۔اس بازار میں حیدر جاکر ہر دکاندار سے پیسے وصول کرتا تھا۔حیدر نے اٹھ کر گھڑی پر نگاہ ڈالی ساڑھے دس بج رہے تھے۔اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا کالا پلاسٹک اپنے زخموں پر ٹیپ کے ساتھ لگایااور کپڑے لیے نہانے گھس گیا۔واپس آکر اس نے بال بنائے گن جیب میں اڑسی اور بائیک کی چابی اٹھاتا باہر نکل آیا وہ اپنے آپ میں گنگناتا سیڑھیاں اتررہا تھا۔پہلی منزل پر پہنچتے ہی وہ رک گیا۔کونے والے فلیٹ کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔اگلے ہی پل خضریٰ باہر نکلی حیدر پر نگاہ پڑتے ہی وہ پل بھر کو رکی۔حیدر نے بھی لبوں پر نرم مسکراہٹ سجائی آنکھوں میں نرم تاثرات لایا۔خضریٰ بھی جھجھک کر مسکرادی۔تب ہی رابعہ خاتون چادر سنبھالتی باہر نکلیں۔حیدر کو دیکھ کر مسکرائیں۔حیدر بھی مسکراتا ہوا سیڑھیاں اترگیا۔نیچے تک پہنچتے اس کے وہ نرم تاثرات اور مسکراہٹ غائب تھی۔وہی سنجیدہ چہرہ اور سفاک آنکھیں۔پارکنگ میں بائیک تک آکر اس نے سیاہ رومال چہرے پر باندھا اور سیاہ کیپ سر پر ڈالی۔بائیک اسٹارٹ کرتا زن سے نکال لے گیا۔
                 ************
وہ بائیک روک کر سب سے پہلے علاقے کی مشہور ترین بیکری میں گھسا۔اس کا ارادہ بھتے کے علاوہ کچھ کھانے پینے کا بھی تھا۔چہرے پر بندھا کپڑا نیچے کرتے شیشے کا گیٹ سرکاتا اندر داخل ہوا۔ایک لمحے کو ٹھہر کر رہ گیا۔سامنے ہی خضریٰ اور اس کی ماں کاؤنٹر پر کھڑیں تھیں۔
"سلام استاد!"بیکری مالک جو کاؤنٹر پر نیم دراز تھا اٹھ کھڑا ہوا۔بیکری میں کام کرنے والے باقی لڑکے بھی چوکنے ہوئے ان کے چہروں پر خوف صاف ظاہر تھا۔
"وعلیکم اسلام! کیسے ہیں طاہر بھائی؟ "حیدر نرمی سے مسکرایا۔ پھر خضریٰ اور اس کی ماں کی طرف دیکھا۔
"ارے یہی تمہاری بیکری ہے کیا؟ "خضریٰ کی ماں رابعہ خاتون نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"جی جی! باجی!  سارا علاقہ ہی استاد کا ہے۔"دکاندار حیدر سے پہلے بول اٹھا۔حیدر نے سخت نگاہ دکاندار پر ڈالی اور ان کے قریب آیا۔
"جی بس! محبت ہے لوگوں کی ۔آپ یہاں! طاہر صاحب! پہلے آنٹی کو فارغ کریں۔"حیدر نرم نگاہوں سے باری باری خضریٰ اور رابعہ خاتون کو دیکھا۔خضریٰ ماں سے نظریں بچاکر مسکرائی ۔
"بس کیا کہوں یہ لڑکی ہے نا،کیک، چاکلیٹ بس ان چیزوں کے لیے ہی زندہ ہے۔"وہ ہنستے ہوئے بولیں۔خضریٰ کی بات پر خجالت سے سرخ ہوئی تھی۔حیدر مزید مسکرادیا تھا۔چند منٹ بعد دکاندار نے سامان رابعہ خاتون کو پکڑایا۔رابعہ خاتون نے ادائیگی کرنے کو اپنا پرس کھولنا چاہا۔
"ارے باجی رہنے دیں۔حیدر استاد کے جاننے والے ہیں آپ ،آپ سے کیسے پیسے لے سکتے ہیں۔"
"ارے نہیں  بھئی، جان پہچان اپنی جگہ دکانداری اپنی جگہ ۔۔رکھیں پیسے۔"رابعہ خاتون نے نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
"ارے کچھ نہیں ہوتا آنٹی۔۔
"نہیں۔۔بھئی! پیسے رکھیں۔"
"ارے کہا نا باجی! آپ سے نہیں لے سکتے اب! بس آپ خیال سے جائیں گھر۔۔" بیکری کا مالک بولا۔
اس دوران خضریٰ کن اکھیوں سے حیدر کو دیکھتی رہی۔اس کی نرم نگاہیں خود پر پڑنے کی منتظر ۔۔جب وہ اسے دیکھتا خضریٰ خوش فہمیوں میں گھرنے لگتی۔حیدر کی نگاہوں میں نرمی اور پسندیدگی دیکھ وہ یہ جان ہی نہیں پاتی تھی کہ کچھ معاملات میں مرد زبردست اداکار ہوتا ہے۔حیدر اسے گھیرنے کی خاطر آنکھوں میں نرمی، شرافت اور پسندیدگی سجائے اسے دیکھتا اور وہ اسے پسندیدگی ہی سمجھتی۔رابعہ خاتون کے قطیعت بھرے انکار کے باوجود بھی وہ پیسے لینے پر راضی نہ ہوئے تو وہ ناچار ادائیگی کیے بغیر ہی بیکری سے نکل آئیں۔
"سالے زبان اتنی ہی چلایاکر جتنی چلانی چاہیے ہو۔سمجھا! چل اب ہفتہ نکال!"ان کے جاتے ہی حیدر اپنے اصلی روپ میں نکل آیا۔
"استاد میں تو۔۔
"بس بس! جلدی کر آگے جانا ہے مجھے۔اور سن اگر ان کو آئندہ بھی کبھی بھنک پڑی نا کہ میں کون ہوں تو ادھر ہی مار کے تیرے کو میں اسی زمین میں دفناؤں گا۔اوئے سن لو سارے!"حیدر نے درشتی سے کہتے بیکری کے دیگر تین لڑکوں کو بھی خبردار کیا۔وہ سب فورا اثبات میں سرہلانے لگے۔
                    ***********
وہ مارکیٹ میں اپنی اسپورٹ بائیک پر چکر لگاتا گینگ کے لڑکوں کو وصولی کرتا دیکھ رہا تھا۔اسے چکر لگاتا دیکھ دکاندار بغیر کسی چوں چراں کے بھتہ دے رہے تھے ان سب کو اپنی جان اور روزی عزیز تھی وہ پانچ سو،ہزار کے چکر میں اپنی جان گنوانا نہیں چاہتے تھے۔یوں ہی چکر لگاتے وہ دو تین دفعہ خضریٰ کو مختلف دکانوں پر ماں کے ساتھ سبزی خریدتا تو کبھی کسی گوشت کی دکان پر کھڑا دیکھ چکا تھا۔خضریٰ بھی اسے ایک بار دیکھ چکی تھی۔اسے یہی لگاکہ وہ بھی شاید خریداری کرنے آیا ہے۔
                ************
"اتنی دیر کدھر لگی؟ "نادر پنچولی اسے دیکھ کر پوچھنے لگا۔
"بازار میں تھا۔"وہ گن نکال کر میز پر رکھتے ہوئے بولا۔جیب سے نکال کر اس نے پیسے پنچولی کی جانب بڑھائے۔اس کا چہرہ دھوپ کی تمازت سے سرخ ہورہا تھا۔نادر پنچولی نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا پھر محسن کی جانب دیکھا محسن نے نظریں گھمالیں۔نادر کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن خاموش رہا۔حیدر نے قریب رکھی پانی کی بوتل منہ سے لگائی۔اسی پل اس کا فون بجنے لگا۔بوتل رکھ کر اس نے اپنا موبائل جیب سے نکالا اور فون ریسیو کرکے کان سے لگایا ۔
"ہاں بول!"لاپروائی سے پوچھا۔
"آج اتوار ہے۔تم نے کیا وعدہ کیا تھا اس دن؟ "دوسری جانب سے ایک نسوانی آواز آئی۔
حیدر جو جانے دن میں کتنوں سے کتنے وعدے کیا کرتا تھا سوچنے لگا۔
"اوہ، سدرہ! ہاں یاد ہے میں کیسے بھول سکتا ہوں ۔ملتے ہیں شام کو! پھر چلیں گے۔"حیدر یاد آتے ہی بولا۔
نادر پنچولی محسن کی جانب دیکھ کر ہنس دیا۔
"یہ لڑکے کے کتنے لفڑے ہیں بھئی لڑکیوں سے! سدرہ،رمشاء، رباب ۔۔"وہ دبے لہجے میں بولا۔
"روشنی،دعا،ماریہ،مریم، سوہا،وجہیہ!"محسن کو بھی جو جو یاد تھیں۔انگلیوں پر گننے لگا۔
اسی پل حیدر فون جیب میں ڈالتا ان کی طرف آیا۔
"یہ کیا گن رہا ہےسالے نظر لگائے گا؟ "حیدر قہقہے لگاکر ہنسنے لگا۔
"تجھے نہیں لگتی نظر!"نادر مسکرایا۔
"بھائی یہ روز ایک سے بھی ملے گا نا تو اس ایک نا نمبر اگلے مہینے آئے گا اتنی لڑکیاں ہیں اس کے پاس!"
"کیا بات ہے ہم سے بھی ملایاکر!"نادر پنچولی آنکھ دباکر بولا۔
"مجھ سے زیادہ مال لٹاؤ ساری تمہارے پاس آئیں گی استاد۔۔"حیدر ہنستے ہوئے بولا۔
"ویسے ہیں کافی ہیں جن سے اب واسطہ نہیں ہے تم اپنا کام چلاؤ۔"حیدر نے آنکھ دباکر کہا۔نادر بھی قہقہہ لگاکر ہنس دیا۔
"چلو میں پھر نکلتا ہوں ۔بخشی تھوڑی دیر تک مال لارہا ہے محسن تو مال گودام میں رکھوادئیو۔گن کے رکھنا ۔۔چار سو پیکٹ ہونگے۔چار لاکھ دےدینا بھائی! اس نے کہہ کر نادر کی طرف دیکھا۔
"چھ کہہ رہا تھا وہ تو؟"
"چار دینا چھ مانگے تو مجھے فون کردینا۔میں ٹھنڈاکرتا ہوں سالے کو ڈھائی کا لا کر ادھر چھ کا دے گا؟  ڈیڈھ لاکھ لوڈنگ کے؟ تم نے سر چڑھارکھا تھا سالوں کو ۔۔میں پتاکر کے آیا ہوں مین منڈی میں اصل ریٹ!"حیدر بولا۔
نادر کا منہ کھلارہ گیا۔اگلے پل ہی وہ ستائشی انداز میں گردن ہلاکر ہنس دیا۔
"چیتے تو واقعی پہنچی ہوئی چیز ہے۔دیکھ رہا ہے محسن تو!"نادر فخریہ انداز میں بولا۔حیدر لاپروائی سے مسکراتا اڈے سے نکل آیا۔وہ نادر کے لیے دن بہ دن بے حد ضروری ہوتا جارہا تھا۔اس بات کا احساس نادر پنچولی کو ہو چکا تھا۔یہی وجہ تھی اس کی ہر کوتاہی کو وہ فورا بھول جایاکرتا تھا جتنا وہ پندرہ سالوں میں نہیں کرپایا چھ سالوں میں حیدر اس کو جمع کرکے دے چکاتھا۔
                          ***********
وہ گنگناتے ہوئے اپنے بال بنارہا تھا۔بے فکری اس کے ہر انداز سے ظاہر تھی۔ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی پرفیوم اٹھاکر اس نے خود پر چھڑکاؤ کیا۔ڈریسنگ ٹیبل کی دراز کھول کر نوٹوں کی گڈی نکال کر گنتے ہوئے اس نے پانچ ہزار کے کئی نوٹ والٹ میں ڈال کر گڈی دوبارہ اندر رکھی۔جیکٹ زیب تن کرتا جوتے پہننے لگا۔وہ نک سک سے تیار تھا۔فلیٹ پر تالا لگاتے وہ پہلے دوسری منزل پر آیا۔نادر پنچولی کے گھر کا دروازہ بجا کر اس نے کار کی چابی لی اور نیچے اترنے لگا۔پہلی منزل پر پہنچتے ہی اس نے قدم سست کیے۔سامنے ہی خضریٰ اپنے ساتھ ایک درمیانے قد کی سانولی سی لڑکی کو لیے چلی آرہی تھی۔حیدر کی آنکھیں چمک اٹھیں۔خضریٰ نے اسے دیکھ کر اپنے ساتھ موجود لڑکی کو اشارہ کیا تھا۔وہ مزید قریب پہنچی تو حیدر خضریٰ کی جانب براہ راست متوجہ ہوا۔
"کیا حال ہیں؟ "حیدر نے آنکھوں اور لہجے میں وہی نرمی سجالی تھی۔
"ٹھیک ۔"خضریٰ جھجک کر مسکرائی۔
"یہ کون ہے سہیلی ہے تمہاری؟ "وہ اب کے پریبہ کی جانب دیکھ کر مسکرایا۔
"جی میں اس کی اکلوتی بیسٹ، فرینڈ پریبہ ہوں۔سب پیار سے پری کہتے ہیں۔اور آپ حیدر ہ۔۔"اسی پل خضریٰ نے اسے کہنی ماری ۔حیدر نے مسکراہٹ روکی۔
"یہ بیوقوف لڑکیاں بھی نا!"دل ہی دل میں ہنسا۔
"جی میں حیدر ہوں۔اسی بلڈنگ میں رہتا ہوں۔کہیں جارہی ہو دونوں۔؟"وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے پوچھنے لگا۔
"جی۔امی نے کہا بلڈنگ کے نیچے ہی ایک کاکا بیٹھے ہوتے ان کے رکشے پر پری کے ساتھ چلی جاؤں۔آج اس کے گھر قرآن خوانی ہے نا تو یہ مجھے لینے آئی ہے۔"خضریٰ کا لہجہ بچوں کی طرح معصومیت سے لبریز تھا۔آواز بھی کافی نرم تھی۔
"میں چھوڑ دیتا ہوں ۔آنٹی سے پوچھ لو۔"حیدر نے فورا پیشکش کی۔
خضریٰ نے پہلے جذبذ ہوکر پری کی جانب دیکھا پھر نفی میں گردن ہلائی۔
"نہیں رکشا ۔۔
"ارے یار حیدر بھائی کہہ رہے ہیں تو ان کے ساتھ ہی چلے جاتے ہیں۔رکو میں یہیں سے آنٹی کو کال کرکے کہ دیتی ہوں۔"پری پرجوش سی کہہ کر فون نکالنے لگی۔حیدر نے نرم نگاہیں خضریٰ پر ڈالی۔معمول سے ہٹ کر آج وہ سیاہ برقعے میں تھی۔اسکارف گلابی رنگ کا تھا جو اس کی معصومیت پر مزید کھل رہا تھا۔
"جی، اوکے۔"پری فون رکھتی ان کی جانب متوجہ ہوئی۔
"آنٹی کہہ رہی ہیں ٹھیک ہے۔حیدر بھائی کے ساتھ چلے جاؤ۔لینے وہ خود ہی آئیں گی۔"پری نے کہا۔
"چلو آجاؤ پھر!"حیدر کہتے ہوئے پارکنگ کی جانب بڑھنے لگا۔
"یار کیا ضرورت تھی۔شرم آتی ہے ان کے سامنے مجھے ۔۔"خضریٰ منمنائی۔
"چپ کر۔شرم کی بچی۔۔ویسے یار بندہ بڑا ہینڈسم ہے۔"پری شرارتی انداز میں بولی تو خضریٰ شرماگئی۔گاڑی میں بیٹھتے ہی خضریٰ نے چپ سادھ لی۔جبکہ پری حیدر سے سوال کرتی رہی جوں حیدر خضریٰ کی جانب دیکھتا وہ گھبراجاتی۔
پری کے گھر کے قریب پہنچتے ہی حیدر نے خضریٰ کی جانب دیکھا۔
"واپسی پر لینے آجاؤں؟ "
"ن۔۔نہیں امی آجائیں گی ۔آپ پریشان نہ ہوں۔"خضریٰ فورا سے بولی۔پری شرارتی نگاہوں سے ان کی جانب دیکھتی رہی۔
"یہ لو اس پر میرا نمبر ہے ۔جب کبھی کوئی کام ہو مجھے کال یا میسج کرلینا۔"اس نے جیب سے کارڈ نکالا جس پر اس کا نمبر درج تھا۔خضریٰ پہلے حیران ہوئی پھر پری کو دیکھا۔
"ل۔لیکن مجھے کیا کام ہوگا۔۔م۔میرے پاس تو موبائل نہیں ۔۔"خضریٰ ہچکچائی۔حیدر نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔
"موبائل نہیں ہے؟ "حیدر کو جیسے یقین نہ آیا ہو۔
"نہیں۔"
"ارے لائیں دیں مجھے ۔۔میں اسے دے دوں گی۔دراصل جب اسے مجھ سے بات کرنی ہوتی ہے تب یہ آنٹی کا فون ہی استعمال کرتی ہے۔آپ کے سامنے بول نہیں رہی یوں تو روز فون کرکے بتاتی ہے کہ آج حیدر نے اس رنگ کی جی۔۔اف۔ "
خضریٰ نے اسے زوردار چیونٹی بھری اور سرخ چہرہ لیے پری کو گھورنے لگی۔حیدر پہلے تو حیران ہوا پھر مسکرادیا۔دل میں ایک کمینی سی خوشی کا احساس جاگا یہ تو بغیر کسی محنت کے ہی ہاتھ لگ گئی۔وہ سوچنے لگا۔خضریٰ گھبراکر فورا گاڑی سے اترکر پری کے گھر کی جانب بڑھتی گئی۔پری حیدر کو سلام کرتی گاڑی سے اترکر اس کے پیچھے لپکی۔حیدر کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
                     ***********
"تم نے یہ سب بکواس کیوں کی ان کے سامنے کیا سوچیں گے وہ کہ میں کیسی لڑکی ہوں۔"خضریٰ سرخ چہرہ لیے غصے سے کہہ رہی تھی۔
"پاگل !وہ بھی تجھے پسند کرتا ہے۔اور ویسے کیا مطلب کیسی لڑکی ہے ۔۔محبت کرنا جرم تھوڑی ہے۔اگر، ایسی بات ہوتی تو اپنا نمبر کیوں دیتا وہ۔"
"بس چپ کرو یار۔بات مت کرو مجھ سے۔"خضریٰ شرمندگی میں ڈوبی جارہی تھی اسے سوچ سوچ کر شرم آرہی تھی۔اس کا دل چاہا پری کا منہ توڑ دے لیکن پری مطمئن سی مسکراتی رہی۔خضریٰ سارا وقت غصے میں بھری بیٹھی رہی۔قرآن خوانی ختم ہونے تک اس نے پری سے بات نہ کی۔پری نے چھپکے سے وہ کارڈ خضریٰ کے پرس میں ڈال دیا تھا اس بات سے خضریٰ ناواقف تھی۔
واپسی پر اسے رابعہ خاتون لینے آئیں تو بادل نخواستہ اسے اپنا موڈ ٹھیک کرنا پڑا۔ورنہ ممکن تھا اسے امی کو جواب دینا پڑجاتا۔
                **********
کلب میں شوروغل عروج پر تھا۔رنگ برنگی روشنیوں میں عورتوں کے آدھے ننگے بدن تھڑک رہے تھے۔مرد اور عورت ایک دوسرے کے گلوں کا ہار بنے بے دھڑک جھوم رہے تھے۔حیدر ایک طرف کاؤچ پر بیٹھا تھا۔قریب ہی سدرہ نیم دراز شراب لبوں سے لگائے ہوئے تھی۔حیدر نے بھی پی رکھی تھی لیکن اسے اتنی آسانی سے نہیں چڑھتی تھی۔وہ عادی ہوچکا تھا۔
"آؤ حیدر ڈانس کریں۔"سدرہ گلاس سامنے میز پر رکھ کر اس کا بازو کھینچنے لگی۔
"نہیں تم ڈانس کرو۔ادھر ہی میں صرف دیکھوں گا۔"حیدر آنکھوں میں شوخی لیے اس کے سراپے پر نگاہیں گھماتا ہوا بولا۔
"اوکے! "سدرہ جھوم رہی تھی۔اس کی شرٹ پیٹ سے ذرا اوپر تھی۔آستین ندارد ۔سیاہ چست پینٹ میں اس کی ٹانگیں نمایاں تھیں۔وہ نشے میں دھت بے دھڑک ناچ رہی تھی۔حیدر لبوں پر محضوظ مسکراہٹ لیے اسے دیکھتا رہا اور شراب کے گھونٹ بھرتا رہا۔شراب، ناچ گانے اور زنا کا دور رات کے آخری پہر تک چلتا رہا صبح کے قریب وہ ڈگمگاتے قدموں سے اس پرائیوٹ کلب سے نکل کر آیا تھا۔راستے میں دکھائی پڑتے چھوٹے سے ڈھابے پر رک کر اس نے قہوہ آرڈر کیا اور آنکھیں رگڑتا خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتا رہا۔
                    ***********

جاری ہے

میں لاپتا از قلم فاطمہ نیازیWhere stories live. Discover now