#میں_لاپتا
#فاطمہ_نیازی
قسط نمبر :9نادر پنچولی انگاروں پر لوٹ رہا تھا۔اڈے کا ماحول اس قدر گرم تھا کہ کسی کی سوچ ۔۔وقفے وقفے سے گالیاں بکتا اس کا بس نہیں چل رہا تھا حیدر کو بری طرح پیٹ ڈالے۔
"بلاؤ اس کو! ابھی تک آیا کیوں نہیں وہ؟ "دفعتاً اس کی گرج دار آواز اڈے کے درو دیوار سے ٹکرائی۔
ایک جانب وہ سات لڑکے سرجھکائے کھڑے تھے جن کے ساتھ حیدر کالج میں داخل ہوا تھا۔
"بھائی فون نہیں اٹھارہا۔"محسن نےڈرتے ڈرتے کہا۔"
"جا پیچھے جا اس کے بلا کر لا اسے ۔۔"وہ غصے کی شدت سے سرخ ہوا پڑا تھا۔
"فون پہ فون آرہے ہیں مجھے۔۔اس نے اپنا چہرہ ظاہر کردیا سارے زمانے میں ۔۔اب سب کو معلوم ہے کہ یہ چیکو چوبیس سال کا لڑکا ہے ۔۔"وہ غراتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھا اور زوردار لات میز پر رسید کی۔دفعتاً اس کا فون بجنے لگا۔
"ہاں بول!"
"میں میر مراد۔۔
"آگے بول!"وہ سردمہری سے بولا۔
"دیکھو ہم جانتے ہیں وہ لڑکا تمہارے لیے کتنا اہم ہے ۔ہم سب ٹھیک کردیں گے۔بس ایک دو دن کے لیے اسے کسٹڈی ۔۔
"ابے بولا نا ایک بار چیتا نہیں دوں گا میں۔۔ایک دن کیا ایک منٹ کے لیے بھی اس کی گرفتاری نہیں دوں گا۔"
"دیکھو معاملہ بڑھتا جارہا ہے ۔از خود نوٹس لیےجانے کا امکان ہے ۔پروفیسر کو بری طرح پیٹا ہے تمہارے کمانڈر نے۔۔ہم پر پریشر ہے سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔چند دن کی بات ہے معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہی ہم اسے چھوڑ دیں گے۔"حکومتی پارٹی کے ایک اہم رکن کی طرف سے یہ فون کیا گیا تھا۔ایسی ہی اہم شخصیات نادر کو صبح سے فون کررہی تھیں۔جو اس کی معاونت کے طلبگار تھے لیکن نادر کسی صورت حیدر کو پولیس کے حوالے کرنے کا حامی نہیں تھا۔بات یہ نہیں تھی کہ وہ اسے چھڑا نہیں سکتا تھا۔بات یہ تھی کہ وہ دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھنا چاہتا تھا کہ وہ جان لیں ۔حیدر اور وہ ہر عمل پر آزاد ہیں ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔حکومتی پارٹی کی سپورٹ انھیں حاصل تھی۔قبضہ مافیا، بھتہ مافیا، ڈرگ مافیا سب کا نوے فیصد کمانڈ پنچولی گینگ کے ہاتھ میں تھا۔حکومتی پارٹی کے بڑے اہم لوگ نادر سے کمیشن لے رہے تھے۔ان کے زریعے دشمنوں کو ختم کر وارہے تھے۔کئی اہم سیاسی اور صحافی شخصیات کا قتل ان کے زریعے کروایا جاتا تھا۔
"دیکھ بھئی! تمہارے اوپر پہاڑ بھی آگرے میں اپنا لڑکا نہیں دوں گا۔اگر وہ کالج کو بم سے بھی اڑادیتا میں تب بھی اسے نہ دیتا ۔ہاں باقی کے لڑکوں کو ایک آدھ ہفتے کے لیے رکھ لو۔۔لیکن یاد رہے صرف ایک آدھ ہفتہ! پریس میں کہہ دو حیدر فرار ہوچکا ہے ۔"نادر نے اپنی بات ختم کرتے ہی فون بندکردیا۔
"چیتا ابھی تک نہیں آیا؟ "اس نے فون ایک طرف رکھتے قریب کھڑے لڑکے کو مخاطب کیا۔
"نہیں استاد!"لڑکے نے مری مری آواز میں کہا۔
دفعتاً اس کا فون دوبارہ بجنے لگا۔
"ایس پی غلام رسول بول رہا ہوں۔"دوسری طرف سے آواز آئی۔
"بول!"نادر نے لاپروائی سے کہا۔
"میر مراد صاحب نے کہا لڑکوں کی گرفتاری دینے کو تیار ہیں آپ!"وہ بولا۔
"ہاں آجا تو اڈے پر۔۔اور سن زیادہ ہوشیاری دکھانے کی نہیں سمجھا ۔۔"
"جی جی جناب فکر ہی نہ کریں۔"پولیس آفسر فورا خوشامدی لہجے میں بولا۔نادر نے فون بندکردیا۔
لڑکے خاموشی سے سرجھکائے کھڑے تھے۔ان کی گرفتاری بھی ان کی اپنی مرضی سے کی جاتی تھی ۔اکثر ایسا ہوتا تھا۔
***********
خضرا پلنگ پر آنکھیں موندے لیٹی ہوش و حواس سے بیگانہ تھی۔رابعہ خاتون فکر مند سی اس کے قریب بیٹھی تھیں۔اس کا چہرہ سرخ تھا۔وہ بخار میں بری طرح تپ رہی تھی۔وہ دوپہر سے بے ہوش پڑی تھی۔شام آنے کو آئی تھی لیکن آنکھیں کھولنا دور اس نے پلکوں کو جنبش تک نہ دی تھی۔رابعہ خاتون کئی بار ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ چکی تھیں۔کسی خیال کے تحت وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر چادر اوڑھتی باہر کی جانب بڑھنے لگیں۔ابھی وہ گیٹ سے نکلی ہی تھیں جب حیدر اور محسن سیڑھیاں اترتے نظر آئے۔
"حیدر بیٹا!"رابعہ خاتون نے فورا اسے پکارا۔
حیدر کا دل رکا۔محسن پر متوحش نگاہ ڈالتا وہ پلٹا۔
"معاف کرنا بیٹا تمہیں تکلیف دے رہی ہوں۔دراصل خضرا کو صبح سے بہت تیز بخار ہے آنکھیں ہی نہیں کھول رہی ہے۔قریبی کلینک سے کسی ڈاکٹر کو بلا لاؤگے؟ "
حیدر کی رنگت زرد پڑنے لگی۔وہ تیزی سے رابعہ خاتون کی جانب آیا۔محسن تیزی سے اس کے پیچھے لپکا۔
"کک۔کیا ہوا ہے؟ زیادہ بیمار ہے کیا وہ؟"حیدر کی آنکھوں میں بےچینی اور لہجے میں لڑکھڑاہٹ صاف ظاہر تھی۔
"بس بیٹا صبح سے آنکھیں ہی نہیں کھولیں۔بخار بہت تیز ہے۔مہربانی ہوگی زرا۔۔"
وہ تیزی سے سراثبات میں ہلاتا بھاگتے قدموں سے سیڑھیوں کی جانب بڑھنے لگا۔محسن بھی تیزی سے اس کے پیچھے لپکا۔
"بھائی کے پاس چل ۔۔بہت غصے ۔۔"
"میری پری ۔۔۔
"تیری پری نے ہم سب کی جان نکال کے رکھ دی ہے خدا کو مان حیدر ترس کھا خود پر!"محسن نے بلند آواز میں کہتے ہاتھ جوڑے۔حیدر نے سرخ آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔
"جا تو بول دے بھائی کو آرہا ہوں میں۔۔"حیدر لاپروائی سے کہتا اپنی بائیک پر سوار ہوا اور بائیک تیزی سے بھگالے گیا۔محسن سر پیٹ کر رہ گیا۔
************
حیدر ڈاکٹر کو بائیک کی پشت پر بٹھائے اپنے ساتھ لایا اور تیزی سے دوڑتا ہوا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ڈاکٹر بھی تیزی سے اس کے پیچھے لپکا تھا۔خضرا کے فلیٹ کے باہر آکر حیدر رک گیا اور لرزتے ہاتھوں سے گیٹ بجایا ۔اگلے پل ہی گیٹ کھل گیا۔رابعہ خاتون ڈاکٹر کو ساتھ لیے اندر کی جانب بڑھ گئیں۔حیدر کچھ پل وہیں کھڑا رہا۔پھر جھجھکتا اندر داخل ہوا۔اور مرے مرے قدموں سے چلتا خضرا کے کمرے کی جانب بڑھا۔گیٹ کے قریب آکر وہ رک گیا۔اس کی نگاہ سیدھا سامنے پلنگ پر ہوش حواس سے بیگانہ خضرا پر پڑی۔اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار چھانے لگے۔دل میں درد کی شدید لہر اٹھی۔
"کیا وہ جان گئی؟ "اس کے دل میں سوال اٹھا۔وہ کئی لمحے یک ٹک اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔پھر الٹے قدموں پلٹ گیا۔
سیڑھیاں اترتے ہوئے اس کے چہرے پر افسوس اور افسردگی کی گہری پرچھائیاں تھیں۔وہ مرے مرے قدموں سے اترتا اپنی بائیک تک آیا ۔اور ایک آخری نگاہ خضرا کی کھڑکی پر ڈالی۔جانے کیوں اس کا دل آج بے حد خاموش تھا۔بالکل چپ گہری پرسکوت چپ!
*************
"آؤ آؤ حیدر صاحب آپ کا ہی انتظار تھا۔"اس کے اندر داخل ہوتے ہی نادر نے طنزیہ انداز میں کہا۔اڈے میں اس وقت گینگ کے تمام لڑکے موجود تھے۔اڈے کے باہر دور دور تک رش تھا۔وہ راستے سے آتے ہوئے علاقہ مکینوں کے چہروں پر وہ تاثرات دیکھ چکا تھا۔وہ سب اسے دیکھ کر چوکنے ہوئے تھے۔لیکن اسے کسی کی پروا نہیں تھی۔نادر غصیلی قہر آلود نگاہوں سے اس کا چہرہ دیکھتارہا۔حیدر خاموش تھا۔ماتھے پر ان گنت بل تھے۔آنکھیں سرخ تھیں۔چہرہ بھی سرخ ہورہا تھا۔کنپٹی کی رگیں بھینچی ہوئی تھیں۔
"بول !یہ کیا تھا؟ "نادر کی درشت آواز اڈے میں گونجی۔
حیدر چپ چاپ کھڑا نادر کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔نادر اپنی جگہ سےاٹھ کر اس کی طرف بڑھا اور اس کا گریبان پکڑ کر اسے جھٹکا دیا۔حیدر نے نرمی سے اپنا گریبان چھڑایا۔
"کیا تھا یہ سالے؟ ہاں ۔۔بول؟ کیا تھا؟ "وہ پھر چلایا۔
"سالے سارے زمانے میں اپنی شکل دکھادی دیکھ لو میں گھبرو جوان ہوں۔حیدر پٹھان ہوں۔کپڑے اترواتا ہوں بابو لوگوں کے؟ پنچولی گینگ کا کمانڈر خود اٹھ کے جاتا ہے لوگوں کے کپڑے اترواتا ہے؟ کیا آگ تھی تیرے اندر ہیں؟ کس کے پیچھے باؤلا کتا بنا پھررہا ہے؟ کون ہے وہ طوائ۔۔
"استاد!"حیدر کی آواز بلند ہوتی غراہٹ میں تبدیل ہوئی۔اس کی آنکھیں غصے کی شدت سے پھیلیں وہ بے اختیار طیش زدہ ہوکر نادر کی جانب بڑھا۔محسن جھٹکے سے سامنے آیا اور حیدر کو پیچھے دھکیلا۔
"پاگل ہوگیا ہے؟ "محسن نے کپکپاتے لہجے میں اسے شانت کرنا چاہا۔
نادر کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔حیرت کی شدت سے وہ دو قدم پیچھے ہٹا تھا۔تمام لڑکوں کو سانپ سونگھ گیا۔حیدر کے انداز میں بغاوت تھی۔جس نے وہاں موجود ہر ایک کو لرزادیا تھا۔
"ایک لڑکی کے پیچھے بھائی آج استاد ہوگیا۔"نادر کے لہجے میں اچانک ہی ایک درد اٹھا۔حیدر نے سرجھکالیا۔
"معاف کردو!"وہ پیشمانی سے بولا۔
نادر نے اس کا فورا نادم ہونا پرسکون کرگیا۔پوری طرح ہاتھ سے نہیں نکلا تھا۔اسی کے پاس تھا۔دل کو سکون آیا لیکن بظاہر وہ قہر آلود نگاہوں سے اسے گھورتارہا۔
"عزت پر بات آگئی تھی۔"حیدر بولا۔
"عزت؟ تیری عزت؟ وہ تیری عزت بن گئی؟ کون ہے وہ خوش بخت جس کے لیے یہ پتھر موم ہورہا ہے اپنی قیمت بھول رہا ہے۔اپنی طاقت بھول رہا ہے۔تو حیدر پٹھان ہے ۔دلشاد نگر کا وارث ہے ۔ تیری اوقات بہت اوپر ہے چیتے۔۔یوں سڑک پر نہ رول!"نادر غراتے ہوئے بولا۔
"کیا تو نہیں جانتا کل کو یہ علاقہ تیرے کو سنبھالنا ہے؟"
"معلوم ہے۔"حیدر آہستگی سے بولا۔
"ابھی شروعات ہے پیچھے ہٹ جا۔میں کہہ رہا ہوں میں تیرے کو اس عشق و عاشقی کے چکر میں نہیں جانے دوں گا۔تیرے پر میری محنت ہے ۔تو میرا سارا اثاثہ ہے۔"نادر نے کہا۔
حیدر نے اثبات میں سرہلایا۔
"دور رہ اس لڑکی سے چیتے۔۔دنیا کیا بولے گی؟ ایک لڑکی کے لیے اپنا علاقہ چھوڑدیا؟ کیا بول رہا ہوں؟ "
"ہاں، سمجھ گیا۔"حیدر نے سرجھکاکر اثبات میں ہلایا۔
"نام کیا ہے؟ "
"نام نہیں بتاؤں گا۔"حیدر نے جھکا ہوا سر نفی میں ہلادیا۔
"سالے پھر؟ تو لڑکی کے لیے میرے آگے زبان چلائے گا؟ بتا کون ہے کہاں رہتی ہے؟ "
"بھائی نہیں بتاؤں گا میں!"حیدر نے قطیعت سے بھرپور لہجے میں کہا۔
نادر کا غصے سے خون کھول اٹھا۔اس نے میز پر رکھی گن اٹھاکر اس کے کندھے کا نشانہ باندھا اور گولی چلادی۔گولی حیدر کا کندھا چھوتے ہوئے گزر گئی ۔لڑکوں کو ایسی سزائیں دینا یہاں عام تھا۔ان کی غلطیوں پر ایسے ہی ہاتھ پیروں پر گولیاں چلا کر لیڈر سزائے دیتے تھے۔
حیدر نے کراہتےہوئے اپنا کندھا تھاما۔اور بے یقین نگاہوں سے نادر کو دیکھا۔باقی تمام لڑکے بھی حیرت زدہ رہ گئے تھے۔حیدر کو ملنے والی یہ پہلی سزا تھی۔لیکن نادر جانتا تھا یہ بہت ضروری تھا۔
"بتا کون ہےوہ؟ "وہ غرایا۔
"سینے میں اتاردو گولی ۔۔نہیں بتاؤں گا۔"وہ اب کے ضدی انداز میں بولا۔نادر نے جبڑے بھینچ کر اس کو گھورا۔اسی پل اڈے کا مرکزی گیٹ بجا۔
ایک لڑکے نے آگے بڑھ کر گیٹ کھولا۔
ایس پی اپنے پولیس کی وردی میں ملبوس اپنے ساتھ کئی سپائی لیے اندر داخل ہوئے ۔
"یہ کھڑے ہیں ساتوں ۔۔"نادر نے ایک طرف سرجھکائے کھڑے لڑکوں کی طرف اشارہ کیا۔
"ایک کھروچ تک نہیں آنی چاہیے کسی کو بھی! سمجھ گیا۔"نادر نے سردمہری سے کہا۔
ایس پی خاموش نگاہوں سے حیدر کو دیکھنے لگا۔
"یہ حیدر پٹھان ہے نا؟ "ایس پی نے نادر کی جانب دیکھ کر پوچھا۔
"ہاں ہے تو؟ لڑکی کا رشتہ دینا ہے تیرے کو؟ چل کام کر اپنا۔۔لے کے جا ان کو۔"نادر نے اسے بری طرح جھڑک دیا۔
ایس پی خاموشی سے ان کی جانب دیکھتا باہر نکل گیا۔حیدر بھی اپنا کندھا تھامے باہر کی جانب بڑھنے لگا۔باہر پولیس کی گاڑی میں وہ سب سوار ہورہے تھے۔ایس پی وین کے باہر کھڑا حیدر کو دیکھ رہا تھا۔حیدر ان پر نگاہ ڈالے بغیر اپنی بائیک اسٹارٹ کی اور وہاں سے چلا گیا۔
******تھے۔
*****
ڈاکٹر اسے انجکشن اور دوائی دے کر جاچکا تھا۔رابعہ خاتون اس قدر فکرمند تھیں کہ انھیں حیدر کے جانے کی خبر ہی نہ ہوئی انھیں تو یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ وہ اندر داخل ہوکر خاموشی سے اسے نگاہوں میں بھرکر جاچکا تھا۔
دفعتا خضرا کی پلکوں میں جنبش ہوئی۔
"گ۔۔گینگ۔۔حی۔۔د۔۔د۔۔در۔۔گی۔۔گین۔۔گ۔۔"وہ زیر لب بڑبڑاتی ۔تکلیف سے سرپٹخنے لگی۔اس کے سر میں پھر درد اٹھا تھا۔
"امی!... "اس نے دلخراش چیخ ماری اور پلنگ پر اٹھ بیٹھی۔۔
"حیدر پٹھان نامی گینگسٹر ۔۔۔"
"امی! امی! ۔۔نہیں۔۔امی!... "وہ ہسٹریائی انداز میں چیختی پلنگ سے اترتے ہی زمین پر گرپڑی۔
رابعہ خاتون دوڑتی ہوئیں اندر داخل ہوئیں۔
"خضرا!"اسے اس طرح زمین پر پڑے بری طرح روتا دیکھ وہ بری طرح ڈر گئیں۔
"کیا ہوا میری بچی! خضرا ۔۔"انھوں نے اسے اٹھاکر سینے سے لگایا۔خضرا ماں کو قریب پاکر مزید تڑپ اٹھی اور بلند آواز میں رونے لگی۔
"امی! نہیں امی!.. امی۔۔مجھے کیا ہورہا ہے۔۔سر درد ہورہا ہے بہت۔۔امی۔۔"وہ بری طرح ہڑک رہی تھی۔
رابعہ خاتون کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔وہ زیرلب مختلف آیات پڑھتی اس پر پھونکنے لگیں۔خضرا بری طرح سسکتی رہی۔رابعہ خاتون نے آہستگی سے اسے سہارا دے کر پلنگ پر بٹھایا۔خضرا ہنوز سسک رہی تھی۔
"امی!"اس نے اپنی بھیگی ہوئی پلکیں اٹھاکر ماں کی آنکھوں میں دیکھا۔
"جی میری جان ۔۔بتاؤ نا امی کو کیا ہوا ہے؟ ہاں؟ بتاؤ؟"رابعہ خاتون کا دل کٹ کر رہ گیا۔انھوں نے بےاختیار اسے گلے لگایا۔خضرا کچھ کہہ نہ سکی ۔پھوٹ پھوٹ کر رودی۔رابعہ خاتون بے حد پریشان سی اس کا سر سہلاتی رہیں۔
***************
حیدر اپنے فلیٹ میں موجود تھا۔چہرے پر انتہا کی تکلیف تھی۔صوفے کی پشت پر سرگرائے وہ آنکھیں موندے ہوئے تھے۔اس کی کنپٹی کی رگیں شدت سے تنی ہوئی تھیں۔اس کا سردرد سے پھٹاجارہا تھا۔نیلی شرٹ پر خون کے دھبے تھے۔اس نےزخم تک صاف نہ کیا تھا۔دفعتاً اس نے آنکھیں کھول کر دیوار گیر گھڑی پر نگاہ ڈالی۔رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔وہ اڈے سے آنے کے بعد سے اسی مقام پر اسی انداز میں بیٹھا تھا۔اٹھ کر پانی تک نہ پیا تھا۔حلق میں پیاس کی شدت سے کانٹے چبھ رہے تھے۔اس کے ذہن میں خضرا کا چہرہ ہلچل مچائے ہوئے تھا۔دل اس کی آواز سننے کو بری طرح تڑپ رہا تھا۔لیکن اس نے خود پر جبرکرنے کا ایک بار پھر ارادہ کرلیا تھا۔
وہ خود تکلیف سہہ سکتا تھا لیکن خضرا کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔نہیں دے سکتا تھا۔دے ہی نہیں سکتا تھا۔اس کا رونا۔اس کا بے ہوش ہونا ۔وہ سب اس کے دل پر قیامت بن کراترے تھے۔وہ خود سہہ سکتا تھا۔لیکن خضرا ۔۔
اسی پل فلیٹ کا دروازہ بجا۔حیدر جانتا تھا محسن ہوسکتا ہے۔اس لیے بے پروا بنا یوں ہی آنکھیں موندے لیٹارہا۔فلیٹ کا دروازہ مسلسل بجتارہا۔دستک کی آواز اس کی سماعت پر ہتھوڑے بن کر برس رہی تھی۔آنکھیں تکلیف سے بھینچ کر اس نے خود میں ہمت مجتمع کرتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی۔لڑکھڑاتا دروازے تک آیا ۔دروازہ کھولتے ہی وہ ساکت رہ گیا۔بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹا۔سامنے خضرا کھڑی تھی۔سپاٹ چہرہ لیے۔آنکھوں میں ایک قہر ہلکورے لے رہا تھا۔حیدر نے بے اختیار نظریں جھکالیں۔خضرا اندر داخل ہوئی۔نگاہیں ایک پل کے لیے بھی حیدر کے چہرے سے نہ ہٹائیں۔
"میری طرف دیکھیں۔"خضرا نے سرد لہجے میں کہا۔اس کا لہجہ حیدر کے دل میں خنجر بن کر اترا۔اس نے بمشکل آنکھیں اٹھائیں۔خضرا جھپٹ کر آگے بڑھی اور بے دریغ اس پر تھپڑ برسانے لگی۔
"حیدر فرشتہ سمجھتی تھی میں آپ کو۔۔فرشتہ کہتی تھی۔۔۔فرشتہ۔۔"وہ بری طرح رو رہی تھی۔حیدر نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔اس کی آنکھوں میں تکلیف کے آثار تھے۔خضرا کی آنکھوں میں جانے کیا تھا جو حیدر کو تڑپارہا تھا۔اس نے آہستگی سے اس کے ہاتھ چھوڑدیے اور الٹے قدموں پیچھے ہٹنے لگا۔خضرا دونوں ہاتھ چہرے پر رکھے بری طرح روتی وہیں بیٹھ گئی اور سر گھٹنوں پر رکھ کر دونوں ہاتھ گھٹنوں کے گرد لپیٹ لیے۔حیدر کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔وہ بھی ہارے ہوئے انداز میں میز کے پاس بیٹھ گیا اور دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا۔
خضرا کی سسکیاں بلند ہوتی گئیں۔حیدر نے چہرہ اٹھایا اور بے بسی سے اس کی جانب دیکھتا رہا۔
"جاؤ خضرا!"بمشکل اس نے الفاظ جوڑکر ادا کیے۔
"کیوں؟ جاؤں؟ ہاں کیوں جاؤں؟ "جھٹکے سے سر اٹھاکر وہ اس پر چلائی۔
"نہیں جاؤں گی تو کیا کریں گے؟ گولی چلائیں گے؟ ہاں؟ کمانڈر صاحب؟ کیا کریں گے؟ میرا بھی سر کاٹ کر فٹ بال کھیلیں گے؟ کیا کریں گے ہاں؟ بولیں۔۔"وہ جھٹکے سے اٹھ کر اس کے قریب آئی۔
"کسی کے جذباتوں سےیوں کھیلا جاتا ہے؟ "وہ چلائی۔چیختے ہوئے اس کی آواز پھر بھرائی اور وہ پھر رونے لگی۔حیدر کا سر پھٹنے لگا۔
"چلی جاؤ خضرا!"حیدر نے بمشکل کہا۔
"نہیں جاؤں گی مسٹر حیدر پٹھان! پہلے مجھے میرے سوالات کے جواب دیں۔"وہ حلق کے بل چلائی۔
"طبیعت ٹھیک نہیں ہے تمہاری۔اور خراب ہوجائے گی۔"حیدر نے پریشانی سے کہاوہ بری طرح پریشان ہو رہا تھا۔اس کا سردرد سے پھٹ رہا تھا۔اس کا لہجہ اسے تڑپارہاتھا۔اس کے آنسو قیامت تھے۔وہ کا رونا عذاب جیسا لگ رہا تھا۔حیدر کو خود سے نفرت محسوس ہونے لگی۔
"میں خود سے نفرت کرنا چاہتی ہوں۔نفرت کرنا چاہتی ہوں خود سے کہ آپ جیسے منافق جھوٹے اور گھٹیا انسان سے محبت کی۔"وہ قہر آلود لہجے میں بولی۔
حیدر نے تکلیف سے لب بھینچ لیے۔لیکن کچھ کہا نہیں۔
"کیوں کیا یہ سب؟ کیوں کھیل کھیلتے رہے؟ ہاں؟ شرم نہیں آئی اپنی حقیقت چھپاتے ہوئے؟ کیا کیا نہیں سوچتی تھی میں۔یوں کیا جاتا ہے کسی کے ساتھ؟ شرم نہیں آئی آپ کو۔۔اوہ۔شرم کی بات بھی میں کس سے کررہی ہوں۔۔آپ تو حیدر پٹھان ہیں نا قاتل ۔۔ایک قاتل! گنڈہ موالی! شرابی! آخر آپ میں انسانیت ہوبھی کیسے سکتی ہے۔یہ سب تو معمولی بات ہے نا آپ کے لیے؟ "
خضرا کی بدگمانیاں اس کے دل میں پل پل خنجر اتار رہی تھیں۔اس کی آنکھیں ضبط کی شدت سے سرخ ہورہی تھیں۔
"لعنت ہو حیدر آپ پر! آپ اس دنیا کے گھٹیا ترین انسان ہیں۔نفرت کے قابل ہیں آپ ۔۔نفرت کے صرف اور صرف نفرت کے ۔۔۔"وہ اس پر چیخی تھی۔
"ٹھیک ہے ۔تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔اب جاؤ یہاں سے۔"حیدر نے اسے کوئی وضاحت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔یہی ٹھیک تھا کہ وہ اس سے نفرت کرنے لگے اور یہ درد ناک قصہ یہی ختم ہوجائے۔
"چلی جاؤں گی مجھے میرا جواب دیں۔"خضرا نے درشتی سے کہا۔
"کیا جواب چاہیے۔؟"حیدر نے آہستگی سے پوچھا۔
"کیوں کیا یہ سب؟ "
"اپنےمطلب کے لیے۔محبت نہیں کرتا میں کسی سے بھی! تم میری زندگی کی پہلی لڑکی نہیں ہو۔میں ہر لڑکی کے ساتھ یہی کرتا ہوں۔یہی ہے جواب اب تم جاسکتی ہو۔"حیدر نے دل پر پتھر رکھ کر کہا اور چہرہ گھمالیا۔خضرا بے یقینی سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔
"محبت نہیں ہے مجھ سے؟ "خضرا نے کانپتے لہجے میں سوال کیا۔
"نہیں ۔"حیدر نے آنکھیں اور لب بھینچ کر کہا۔
"میری آنکھوں میں دیکھ کر کہیں کہ آپ نے مجھ سے مطلب کے لیے تعلق رکھا اور آپ مجھ سے محبت نہیں کرتے؟ "خضرا نے سردمہری سے کہا۔حیدر یوں ہی رخ موڑے کھڑا رہا۔
"ہاں نہیں کرتا۔"حیدر فورا بولا۔
"میری طرف دیکھ کر!"وہ ٹھہر ٹھہر کر سلگتے لہجے میں بولی۔
"میں ہر لڑکی سے اس لیے تعلق رکھتا۔۔
"تو پھر مطلب پورا کیوں نہیں کیا؟ "خضرا نے فورا سوال کیا۔
"تم چلی جاؤ خضرا ۔۔میں تم سے مزید کوئی تعلق۔۔
"تو میں کون سا آپ سے بات کرنے کے لیے مری جارہی ہوں۔"وہ تڑخ کر بولی۔حیدر کے دل میں تکلیف کی شدید لہر اٹھی تھی۔
"ٹھیک ہے چلی جاؤ ۔"حیدرنے اسے جانے کا کہا۔
"میرے سوال کا میری آنکھوں میں دیکھ کر جواب دیں۔اور پھر آپ دیکھیں گے میری نفرت کیا چیز ہے۔"خضرا نے سلگتے ہوئے انگارے حیدر کے دل پر اتارے۔
"ہاں تو کرو نفرت! م۔۔میں نے روکا ہے۔۔"حیدر کی آنکھوں میں اس بار آنسو تھے۔جسے اس نے بےدردی سے پیچھے دھکیلا۔
"میں تم سے محبت نہیں کرتا۔"اس کا لہجہ لڑکھڑایا تھا۔
"ہنہ! لہجہ تک ساتھ نہیں دے رہا۔محبت تو آپ کو بہت ہے مجھ سے حیدر!"وہ طنزیہ انداز میں مسکرائی۔کہیں دل میں ایک دھاڑس ملی تھی۔اس کی شخصیت میں فریب تھا محبت میں نہیں۔۔
"چلی جاؤ۔نہیں ہے محبت"حیدر نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا۔
"مجھ سے جھوٹ بولیں گے تو چلے گا حیدر! خود سے جھوٹ نہ بولیں۔"اس کے لہجے میں ایک کرب ہلکورے لے رہا تھا۔
"سچ کہہ دیا تو کہیں کا نہیں رہوں گا۔"وہ زیرلب بڑبڑایا۔
"اور جھوٹ کہہ دیا تو میرے نہیں رہیں گے میری غیر موجودگی میں جو محسوس ہو اسے سمجھنے کی کوشش کیجئیے گا۔اگر میری کمی محسوس ہو تو سمجھ لیجئیے گا فیصلہ ابھی باقی ہے۔"وہ کہتی ہوئی باہر کی جانب بڑھ گئی۔
حیدر نمک کا مجسمہ بناوہیں کھڑا رہ گیا۔اس کا آخری جملا ایک نئی قیامت ثابت ہوا تھا۔
*************
وہ بے آواز روتی تیزی سے سیڑھیاں اترتی اپنے گھر میں داخل ہوئی اور گیٹ بندکرتی دروازے کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔اس کی سانس بری طرح پھول چکی تھی۔لب بھینچتی بمشکل آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے اٹھنے کی ہمت کی اور ہارے قدموں سے چلتی اپنے کمرے میں آئی جہاں رابعہ خاتون گہری نیند سو رہی تھیں۔خضرا کئی منٹ اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑی بے آواز روتی رہی۔ضبط کی آخری حدیں پھلانگ کر سسکیاں لبوں سے آزاد ہونے کو مچلنے لگیں تو وہ تیزی سے غسل خانے کی جانب دوڑ گئی اور کافی دیر تک غسل خانے میں بیٹھی روتی رہی۔
*************
نادر صبح ہوتے ہی اڈے میں آ پہنچا۔اڈے میں معمول کی کاروائیاں جاری تھیں۔محسن بھی وہیں موجود تھا۔عموماً نادر اڈے پر اتنی صبح نہیں آیا کرتا تھالیکن حالات کا تقاضہ تھا کہ اسے ان دنوں چوکس رہنا پڑرہا تھا۔
"چیتا نہیں آیا؟ "
"وہ تو کل شام سے ہی نہیں آیا استاد!"راجو نامی گینگسٹر نے کہا۔
"فون کر محسن اسے!"نادر نے حکم دیا۔
"بھائی!ابھی پریشان ہے تھوڑا۔ایک آدھ دن آرام کرنے دو۔"محسن جو حیدر سے دلی لگاؤ رکھتا تھا عاجزی سے بولا۔
"آرام؟ کیسا آرام؟ چیتا ہے وہ! اسے میں نے کمانڈر بنایا ہے اسے میں نے ٹریننگ دی ہے۔چٹان بنایا ہے۔وہ ان باتوں کو سر پر سوار کرنے والا نہیں ہے۔ایک ہفتہ نہیں لگے گا اسے اب اس ٹنٹے سے نکلنے میں۔۔فون لگا اس کو بلا ابھی! بلکہ جا تو پیچھے جا اس کے۔"نادر نے سختی سے حکم دیا۔
محسن خاموشی سے گن اڑستا باہر نکل گیا۔اس کے جاتے ہی نادر نے کچھ لڑکوں کو اندر آنے کا حکم دیا اور خود بھی اندرونی ہال کی جانب بڑھ گیا۔
************
"پتا کرو اس لڑکی کا۔ذرا ہمیں بھی تو پتا چلے کہ وہ حور کون ہے جس کے پیچھے میرا چیتا باؤلا ہوا جارہا ہے۔"نادر کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔
"کیسے استاد؟ "راجو نے الجھ کر سوال کیا۔
"سالے حرام خوروں یہ بھی میں بتاؤں گا؟ "وہ تپے ہوئے لہجے میں بولا۔
"استاد! اس دن حیدر بھائی مجھ پر گرم ہوگیا تھا۔۔"جانی نامی لڑکا بولا۔
"کیوں؟ "نادر چونکا۔
"کہہ رہا تھا روشن گلی کے آس پاس نہیں دکھوں ورنہ ٹکڑے کرکے وہاں کے کتوں کو ڈال دے گا۔"وہ بولا۔
"ہاں یاد آیا استاد! اس دن جانی کی گردن دبوچ لی تھی حیدر بھائی نے۔"راجو نے فوراََ سے کہا۔
"اچھا!"نادر نے ٹھوڑی کھجاتے ہوئے اچھا کو کھینچا۔
لڑکے اس کے حکم کے منتظر کھڑے رہے۔
"ایسا کرو۔ذرا یہ پتالگاؤ کہ یہ روشن گلی کی کون سی لڑکیاں جاتی ہیں اس کالج میں۔۔کیا نام تھا کالج کا؟ "نادر نے راجو کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
"ویمن کالج ہے استاد!"جانی نے کہا۔
"ٹھیک ہے لیکن محسن اور حیدر کو پتا نہ چلے۔سمجھ گئے؟ "
"جی استاد!"وہ تابعداری سے بولے تو نادر نے ان کو جانے کا اشارہ کیا۔
**************
رابعہ خاتون نیند سے جاگیں تو خضرا کو پلنگ سے ٹیک لگائے بیٹھا پایا۔وہ فورا اس کے قریب آئیں۔ رات کو کہیں وہ ڈر نہ جائے یا طبیعت نہ بگڑ جائے اس لیے وہ اس کے پاس ہی سوگئی تھیں۔خضرا کے ماتھے کو چھوکر بخار کا اندازہ لگانا چاہا۔
"میں ٹھیک ہوں امی!"خضرا نے مسکرانے کی کوشش کی۔ناکام کوشش۔
"کیاہوا تھا تمہیں خضرا؟ کوئی پریشانی ہے؟ مجھے بتاؤ تو ایسے پریشان ہوتی رہو گی؟ ڈاکٹر کہہ رہا تھا بہت زیادہ اسٹریس لیا ہے تم نے۔کیا پریشانی ہے؟"انھوں نے نرمی سے اس کے بال سنوارتے ہوئے پوچھا۔خضرا نم آنکھوں سے مسکراتی ان کے سینے سے آلگی۔
"کیا ہوا ہے میری جان؟ بتاؤ نا۔۔"انھوں نے اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے پوچھا۔
"امی! میرا پریکٹکل تھا۔۔وہ۔۔اچھا نہیں ہوا۔۔م۔۔میں فیل ہوسکتی ہوں۔"وہ جی کڑا کر بولی۔آج پھر اسے جھوٹ بولنا پڑا۔
"پریکٹیکل اچھا نہیں ہوا؟ اس کے لیے تم نے خود، کو اتنی اذیت دی؟ پیپر ہی تو تھا نا، خضرا ۔۔یوں پریشان کرتے ہیں امی کو؟ میں کتنا ڈر گئی تھی۔"رابعہ خاتون نے اسے خود سے الگ کرتے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"آئی ایم سوری امی!"اس کی آواز بھرانے لگی۔
"میں اب بالکل ٹھیک ہوں۔"اس نے خود کو بمشکل سنبھالتے ہوئے کہا۔
"اللّٰہ تمہیں ہمیشہ ٹھیک رکھے۔"رابعہ خاتون نے اس کی پیشانی چومتے ہوئے کہا۔
"امی! آج پری آئے گی ۔"خضرا نے ان کا دھیان خود پر اسے ہٹانے کے لیے کہا۔
"ارے یہ تو اچھی بات ہے تمہارا دھیان بھی بٹ جائے گا۔چلو تم یہیں آرام کرو میں تمہارے لیے ناشتہ بناتی ہوں۔پھر دوا لینی ہے۔شکر تمہارا بخار تو اترا!"وہ اس کا سر تھپتھاتی کمرے سے نکل گئیں۔خضرا نے ان کے جاتے ہی اپنا سر تھام لیا۔
**********
وہ رابعہ خاتون کو پریبہ کے ساتھ چہل قدمی کرنے کا کہہ کر نیچے پارکنگ ایریا میں چلی آئی تھی۔مقصد پریبہ سے کھل کر بات کرنا تھا۔پریبہ اس کے لیے حد سے زیادہ فکرمند تھی۔جبکہ وہ خود کافی حد تک سنبھال چکی تھی۔لیکن اس کی آنکھوں اور انداز میں ایک بے چینی سی صاف ظاہر تھی۔
"تم نے آنٹی کو بتایا نہیں؟ انہیں پتا بھی نہیں چلا؟ "پریبہ نے الجھن آمیز لہجے میں کہا۔
"ابھی تک تو نہیں!"خضرا نے افسردگی سے کہا۔
"اور وہ گھٹیا کمینہ۔۔
"پلیز پری!"خضرا نے بےاختیار اس کے لبوں پر ہاتھ رکھا۔پریبہ کی آنکھیں حیرت و ناگواری سے پھیلیں۔
"تم اب بھی اس شخص کے لیے مجھے چپ کروارہی ہو۔؟"پریبہ نے اس کا ہاتھ لبوں سے ہٹاتے ہوئے کہا۔
"مجھے معلوم ہے انھوں نے میرے ساتھ غلط کیا۔مجھ سے اپنی حقیقت چھپائی اور میں بہت زیادہ دکھی ہوں۔ناراض ہوں۔غصہ ہوں۔لیکن مجھے حیرت ہے اس بات پر کہ مجھے برا لگا تمہارا یوں کہنا۔"خضرا آہستگی سے بولی۔
"تو مطلب تم اس جھوٹے مکار انسان سے اب بھی تعلق رکھنا چاہتی ہو؟ "پریبہ غصے سے بولی۔
"یہ سب کچھ بالکل ہی اچانک ہوا۔میری زندگی اور جذبات ایک دم بدل گئے۔کہاں میں سگریٹ پینے والا مرد تک پسند نہیں کرتی تھی اور مجھے حیدر جیسے انسان سے گہری محبت ہے۔میں چاہ کر بھی خود کو ان کی محبت سے نہیں نکال سکتی۔"وہ ناچاہتے ہوئے بھی روپڑی۔پریبہ نے پریشان ہوتے ہوئے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہلایا۔
"پلیز رو مت خضرا!"
"تو کیاکروں؟ میں ان سے نفرت نہیں کرپارہی نا میرا دل اس پر راضی ہے کہ میں ان سے اپنا رشتہ ختم کردوں۔"خضرا نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
"کیا مطلب تم اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو یہ سب جانتے ہوئے بھی کہ وہ کس طرح کا انسان ہے؟ انسان کیا حیوان کہنا زیاد۔۔
"یار پلیز!"خضرا بے چین ہوئی تھی۔
پریبہ تاسف بھری نگاہ اس پر ڈالتی خاموش رہی۔
"صبح سات بجے کے قریب میں گھر سے نکلی اور حیدر کے پاس گئی۔"خضرا نے کہنا شروع کیا۔
پریبہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔
"پاگل لڑکی وہ تمہیں نقصان پہنچا سکتا تھا۔"
"کبھی نہیں ۔"خضرا فوراً بولی۔
"اس وقت ان کی آنکھوں میں جو کچھ تھا وہ صرف میں ہی سمجھ سکتی ہوں۔یا حیدر! اور کوئی نہیں ۔۔میرے لیے وہ حیدر ہی رہیں گے۔۔محبت کرنے والے۔۔بہت زیادہ محبت۔۔جس حیدر کو دنیا جانتی ہے وہ مجھ سے کبھی نہیں ملا۔اس سے میرا سامنا ہوا ہی نہیں ۔۔جو میرے سامنے ہے وہ میری محبت کا اسیر ہے۔جسے خوف ہے اس کی آنکھوں میں ایک معصوم سا خوف ہے مجھے کھونے کا۔۔وہ ڈرا ہوا تھا۔ بہت کمزور لگ رہا تھا۔۔میں نے اس وقت فیصلہ کیا کہ انھیں میں اس سب سے نکال باہر کروں گی۔"خضرا پرعزم تھی۔
"خضرا یہ کوئی کہانی یا فلم نہیں ہے ۔۔اصل زندگی میں یہ اتنا آسان نہیں ہوا کرتا۔۔ایسے لوگوں کی موت سائے کی طرح ان کے پیچھے رہتی ہے۔یہ لوگ عام زندگی نہیں جی سکتے۔۔کوشش بیکار ہے کیوں خود کو نقصان پہنچانے پہ تلی ہو۔؟"
"پری!"دفعتاً اسے پکارا گیا۔
خضرا چونک کر مڑی۔اس نے فورا چہرہ بے تاثر کرلیا۔حیدر ان کی طرف بڑھنے لگا۔
"خضرا چلو ادھر سے۔۔"پریبہ نے فوراََ خضرا کا ہاتھ تھاما اور ایک طرف سے نکلنے کی کوشش کی۔حیدر نے فورا آگے آکر اپنا ایک ہاتھ سیدھا کرکے پریبہ کا راستہ روکا اور دوسرے ہاتھ سے خضرا کی کلائی تھام لی۔خضرا بت بنی حیدر کا ہاتھ دیکھتی رہی اس نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش تک نہ کی۔
"خضرا تم اس گھٹیا انسا۔۔۔"
"ششش!"حیدر نے شہادت کی انگلی لبوں پر رکھ کر ایک قہر آلود نگاہ پریبہ پر ڈالی۔پریبہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔حیدر نے آنکھوں کے اشارے سے اسے خضرا کا ہاتھ چھوڑنے کی تاکیدکی۔پریبہ نے فورا اس کا ہاتھ چھوڑدیا۔
"ہنہ! محترمہ پری کو "مجھ " بچانا چاہ رہی ہیں۔میڈم جی ۔۔ایک گھوری سے ڈر کر تو آپ ہاتھ چھوڑ دیتی ہیں۔"حیدر نے کہتے ہوئے خضرا پر نگاہ ڈالی۔خضرا ہنوز چبھتی سرد نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"خضرا چلو یہاں سے۔۔"پریبہ منمنائی۔
"چپ چاپ وہاں جاکر کھڑی ہوجاؤ۔"حیدر نے قہرآلود نگاہ پریبہ پر ڈالی۔پریبہ ساکت رہ گئی۔وہ سہم گئی تھی۔
"مجھے تم سے بات کرنی ہے پری! "حیدر کی ٹون خضرا کی جانب متوجہ ہوتے ہی تبدیل ہوگئی۔
پریبہ حیرت بھری نگاہوں سے کبھی حیدر کو تو کبھی خضرا کو دیکھنے لگی۔اس سے بات کرتے ہوئے حیدر کے لہجے میں جہاں بھر کا قہر امڈ آیا تھا جبکہ خضرا کے لیے جہاں بھر کی ملائمت۔۔جیسے اس کا بے دام غلام ہو۔وہ بے یقین سی تھی۔خضرا کے مقابل کھڑے اس حیدر کو تو وہ واقعی کبھی کسی میں دیکھ نہیں سکی تھی۔
"پری!"اس نے خضرا کو پھر پکارا۔بے چینی سی بھری تھی اس کی پکار میں۔
"مجھے بات کرنی ہے پری!"حیدر نے کہا۔
"میرا ہاتھ!"خضرا نے سنجیدگی سے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔حیدر نے فورا سے پیشتر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔خضرا ہاتھ سینے پر باندھے کھڑی ہوئی۔
"تمہیں سنائی نہیں دیا وہاں جاکر کھڑی ہو۔"حیدر پریبہ کی جانب مڑ کر سرد مہری سے بولا۔پریبہ سہم کر الٹے قدموں پیچھے ہٹتی گئی۔
"حیدر! یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا اس سے؟ "خضرا تپ کر بولی۔
"میں ہر ایرے گیرے کی فضول باتوں کو برداشت نہیں کرسکتا پری! تمہیں حق ہے۔تم باتیں سناؤ، گالیاں دو، جان سے ماردو اف تک نہیں کروں گا۔باقی اس وقت مجھے ویسے ہی بہت زہر لگ رہیں ہیں وہ لوگ جو تم سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں مجھے۔"اس نے کہتے ہوئے ایک بار پھر قہر آلود نگاہ پریبہ پر ڈالی۔پریبہ جو ان کی جانب ہی دیکھ رہی تھی۔فورا نظریں چراگئی۔
خضرا خاموش کھڑی رہی۔
"مجھے پتا ہے میری غلطی ہے پری! لیکن میری غلطی نہیں ہے۔۔میرا مطلب میں کیسے سمجھاؤں تمہیں پری!"وہ زچ ہوکر سر جھٹک گیا۔خضرا نے اس کے چہرے پر نگاہ ڈالی۔وہ قابل رحم لگ رہا تھا۔سرخ چہرہ سر آنکھیں۔بکھرے ہوئے بال! خضرا کا دل پسیجا تھا۔لیکن وہ سخت دل کیے چپ چاپ کھڑی رہی۔
"پری! میری طرف دیکھو نا!"حیدر نے جیسے التجا کی ہو۔
"ت۔۔تمہیں مجھے دیکھ کر کچھ سمجھ نہیں آرہا؟ میں سب کیسے بتاؤں۔؟"حیدر جو الجھا پریشان سا کھڑا تھا بےچارگی سے بولا۔خضرا جو پہلے ہی سب جانتی تھی۔اس کے باوجود چپ کھڑی رہی۔
"پری!"
"بولیں نا! بولیں آپ! ہاں کیسے سمجھ آئے گا؟ کیسے بتانا آئے گا؟ کبھی گولیوں کے سوا کچھ کیا جو نہیں ہے۔"خضرا تلخی سے بولی۔اس پل بھی اس نے حیدر کی جانب نہیں دیکھا۔
"پری! میں نے کبھی سمجھا ہی نہیں کچھ۔۔سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔سب کچھ ٹھیک تھا۔۔
"میرے آنے کے بعد سب بگڑ گیا ہے نا یہی تو کہتے ہیں آپ ہمیشہ۔۔سب ٹھیک تھا آپ کی لائف پرفیکٹ تھی۔۔"خضرا سنجیدگی سے بولی۔
حیدر چپ رہ گیا۔اسے بے اختیار پچھلے دن یاد آئے۔۔
:"میری زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے۔میں پہلے ٹھیک تھا۔بالکل! جب سے تم آئی ہو میرے کام خراب ہورہے ہیں۔سب کچھ غلط ہورہا ہے۔زندگی عذاب ہوگئی ہے۔چلی جاؤ یار مجھے اکیلا چھوڑ دو!"ایک دن حیدر نے یہی الفاظ کہے تھے۔
لیکن اگلے تین دن میں ہی اس نے دوبارہ اسے فون کرنا شروع کردیا وہ یہی کرتا تھا۔
"کیوں تم میرا فون نہیں اٹھارہی ۔۔مجھ سے بات کرو۔۔اب مجھے نظرانداز مت کرنا ۔۔میں تنگ ہورہا ہوں۔۔مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔سب غلط ہورہا ہے۔"
اس کی ان باتوں کو سن کر خضرا سر پکڑ کے بیٹھ جایا کرتی تھی۔
"میں مانتا ہوں میں یہ کہتا تھا لیکن سچ نہیں تھا یہ ۔۔بس میں زندگی کی اچانک تبدیلی سے گھبرارہا تھا ۔میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ میں کمزور کیوں پڑ رہا ہوں۔میں تم سے پہلے کبھی خود سے نہیں لڑا تھا۔مجھے کبھی کسی نے مشکل میں نہیں ڈالا تھا۔میں کبھی کسی کے بارے میں سوچتا نہیں تھا۔اپنے بارے میں بھی نہیں سوچتا تھا۔جب تم مجھے نظر آئی۔ تو میرے اندر جو ازلی شیطانی نیت تھی ۔۔لیکن مجھے خود بھی نہیں پتا کہ میں تمہارے بارے میں ایسا سوچ کیوں نہیں سکا اس کے بعد۔۔تمہیں پتا ہے میں نے کسی لڑکی سے اتنی بات نہیں کی۔میں کرتا ہی نہیں تھا بات! میں بس اپنے مطلب کا پجاری تھا۔جب دل چاہا مل لیا۔جب دل چاہا ختم کردیا تعلق۔۔جب میں پہلی بار تم سے ملا ۔۔ہم جب پارک گئے تھے۔اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ تمہاری طرف میرا دل مجھے لارہا ہے ۔اور میں پریشان ہوگیا تھا۔"حیدر لمحے بھر کو رکا۔
خضرا کو اس دن اس کا اکھڑالہجہ اور پریشان چہرہ یاد آیا۔
"جب جب بھائی مجھے میری غیر حاضری کی وجہ سے ڈانٹتا مجھے تم قصوروار لگتی کیوں کہ تمہاری ذات میں اتنا کھوتا جارہا تھا کہ میری دلچسپی باقی چیزوں میں نہیں رہی تھی۔مجھے پتا ہے تم یقین نہیں کروگی پر جب سے تم میری زندگی میں آئی ہو میں نے شراب کو ہاتھ تک نہیں لگایا نہ چرس پی! اور کسی لڑکی سے ملنا تو دور بات کرنے کا بھی دل نہیں چاہتا۔مجھے روز اتنی کالز آتی ہیں۔میسجز آتے ہیں۔"حیدر نے کہتے ہوئے اپنا فون اس کی طرف بڑھایا۔
"پہلے اس میں لڑکیوں کے ڈھیروں نمبر تھے اب اس میں تمہارے نمبر کے علاوہ کوئی نمبر سیو نہیں رکھا۔"
خضرا بت بنی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"مجھے کبھی کوئی خواہش نہیں رہی۔جو چاہتا تھا مل جاتا تھا لیکن تمہارے بعد مجھے احساس ہوا کہ میری سب بڑی خواہش سکون ہے ۔اور میرا سکون تم بنتی جارہی تھی۔میں پریشان تھا ۔۔بھائی ناراض رہنے لگا۔میرا دھیان نہیں تھا۔میں جمعہ پڑھتا ہوں تمہیں پتا ہے نا۔۔ہمیشہ اپنی طاقت ہی مانگی ۔۔پر اب میں طاقت نہیں مانگتا سکون مانگتا ہوں۔جب میں نورانی گیا تو میں نے تمہارے لیے ان غاروں اور پہاڑوں کو پار کیا۔وہاں جاکر میں نے تمہارے لیے بہت دعا کی۔۔مجھے خوف تھا جس دن تمہیں میری حقیقت معلوم ہوگی تم مجھے چھوڑ دوگی اور یہ سوچتے ہی میری روح فناہوجاتی ہے۔میں تمہیں کبھی دھوکا نہیں دے سکتا۔کبھی بھی نہیں دینا چاہتا تھا لیکن میری سچائی تمہارے لیے دھوکا بنتی گئی تمہیں بتانے کی بہت بار کوشش کی تھی لیکن میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا ۔۔"اس نے سر جھکا لیا۔خضرا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔شاید وہ خود بھی ضبط کرنے کی کوشش کررہا تھا۔اس کی گہری سانسیں یہی بتارہی تھیں۔
"مجھے کبھی پتانہیں تھا کہ میں ایک نازک سی لڑکی کے آگے اتنا کمزور ہوجاؤں گا اتنا جھک جاؤں گا۔مجھے جاننے والوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا ہوگا۔پر مجھے پرواہ نہیں ہے ۔۔جب تم کل میرے پاس آئی تو تمہاری آنکھوں میں سب کچھ تھا سوائے نفرت کے۔۔اور اس سب کچھ میں کہیں مجھے دبی دبی محبت دکھائی دے رہی تھی۔
جب تم نے کہا کہ فیصلہ ابھی باقی ہے تو مجھے لگا تم فیصلہ کرکے آئی ہو اور آخری فیصلہ مجھ پر چھوڑ کر گئی ہو۔"
خضرا نے چونک کر گردن اٹھائی۔اسی پل دونوں کی نظریں ملی تھیں۔
"میں اتنا زیادہ کبھی محسوس نہیں کرتا لیکن تم ہمیشہ مجھے گہری سوچ میں ڈال دیتی ہو کل بھی ایسا ہی ہوا۔۔"حیدر گہری سانس لیتے ہوئے بولا۔
"تمہارے جانے کے بعد میں نے سوچا جیسا تم نے کہا تھا کہ تمہاری غیر موجودگی میں جو محسوس ہو اسے سمجھنے کی کوشش کروں۔"
وہ سرجھکائے کہہ رہا تھا۔
"اور تم نے کہا تھا تمہاری غیر موجودگی میں تمہاری کمی محسوس ہو تو فیصلہ ابھی باقی ہوگا۔"حیدر کہتے کہتے رک گیا۔
"تو کیا محسوس کیا آپ نے جناب حیدر پٹھان صاحب؟ "خضرا کے لہجے میں گہرا طنز تھا۔
"میں نے محسوس کیا۔مجھے احساس ہوا کہ تمہاری غیر موجودگی میں میرا کوئی وجود ہے ہی نہیں ۔پھر میرے لیے فیصلہ آسان ہوگیا۔وہ ہار گیاتھا۔اس نے یہ بات مان لی تھی۔
خضرا ششدر رہ گئی۔
"مطلب آپ میرے لیے اپنی دنیا چھوڑنے کو تیار ہیں۔"وہ بے یقین سی تھی۔
"وہ میری دنیا تھی ہی نہیں ۔۔میری دنیا کا احساس تم ہو۔ میں تمہارے لیے کچھ بھی چھوڑ سکتا ہوں بس تم مجھے مت چھوڑو۔"حیدر بمشکل بولا تھا۔
خضرا کا دل لمحے بھر کے لیے دھڑکنا بھول گیا۔وہ یک ٹک حیدر کا چہرہ دیکھتی رہی۔حیدر خوف زدہ نظروں سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔خضرا کو لگا اس کا ایک جملہ اس چٹان جیسے مضبوط انسان کو یہی ڈھا سکتا ہے اور ایک ہی جملہ اس کی خوف زدہ نگاہوں میں جان ڈال سکتا ہے۔
"میں آپ کو نہیں چھوڑ رہی ہوں حیدر! صرف اس لیے کہ مجھے لگتا ہے میرے بغیر آپ بالکل اکیلے ہیں۔"خضرا کا لہجہ بھرایا تھا۔
حیدر کی آنکھوں میں اسی پل زندگی کی جوت جگی تھی۔اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔بے یقینی سے اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔اس کی آنکھوں میں نمی ابھرتی رہی۔
"آپ میرے سامنے روسکتے ہیں۔"خضرا نے ہاتھ اٹھاکر اس کی دائیں آنکھ کے کنارے اٹکا آنسو چن لیا۔حیدر اس پل برف بن کر رہ گیا۔نہ وہ ہنس سکا نہ روسکا۔خضرا گہری سانس بھرتی اس کو ایک طرف کرتی وہاں سے جانے لگی۔کچھ دور کھڑی پریبہ نے خضرا کو جاتے دیکھا تو خود بھی تیزی سے اس جانب دوڑنے لگی۔جاتے جاتے بھی سہمی ہوئی نگاہ اس نے حیدر کے وجود پر ڈالی۔جو اس وقت اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا وہ کسی اور ہی جہاں میں پہنچا ہوا تھا۔
**************
جاری ہے۔