قسط نمبر 2

929 75 31
                                    

#میں_لاپتا
#فاطمہ_نیازی
قسط نمبر :2

حیدر اور محسن اڈے پر پہنچے تو وہاں خوب بھیڑ تھی۔گینگ کے زیادہ تر لڑکے وہیں موجود تھے۔ایسا صرف تب ہوتا تھا جب کوئی پنچھی پکڑ میں آتا تھا۔جیسے کہ آج چٹا نامی چھوٹا ڈرگ ڈیلر ہاتھ آگیا تھا۔اڈے کا منظر ہی خوف زدہ کردینے کو کافی تھا۔ہال میں بدرنگ چٹائی بچھی ہوئی تھی۔دیواروں کی اصل رنگت کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔دیواروں پر مختلف نعرے لکھے ہوئے تھے۔ایک طرف زرد بلب تھا جس کی روشنی ہال کو روشن کرنے میں ناکافی تھی۔ہال قدرے وسیع تھا ۔بائیں جانب ایک کوٹھری تھی جہاں اکثر لوگوں کو لاکر رکھا جاتا اور ٹارچر کیا جاتا تھا۔حیدر کو آتا دیکھ تمام لڑکے ایک طرف ہوگئے تھے۔
کچھ نے سلام داگا تو کوئی چپ چاپ کھڑا رہا۔
"کدھر ہے وہ چٹا لے کر آؤ ادھر!"حیدر نے ایک کم عمر لڑکے سے ہنٹر لیتے ہوئے کہا۔
اسی پل دو لڑکے ایک کوٹھری کی طرف گئے واپسی پر ایک منحنی سا مرد ان کے ساتھ تھا۔جو مسلسل خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔
"حیدر استاد یہ تو ظلم ہے استاد! میں نے تو بس دو دن مانگے تھے۔"وہ خوف زدہ سا بولا
"کیوں؟ مال برابر جارہا ہے۔جارہا ہے کہ نہیں؟ "حیدر نے ایک ابرو اچکاکر دائیں جانب کھڑے محسن سے تائید چاہی۔محسن نے اثبات میں گردن ہلائی۔
"استاد میرے بچے کا آپریشن تھا ۔میں بولا دو دن دینے کو ۔قسم سے بس، دو دن سارا پیسہ چکادوں گا۔"وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔
"کیوں اڑے دو دن میں آسمان سے پیسہ برسے گا؟ جو مال تو لے جارہا ہے اس کا پیسہ کدھر گیا سارا؟ کتنا پیسہ لگا آپریشن میں بتا اوئےاس کو محسن!"حیدر نے آنکھیں نکالتے ہوئے درشتی سے کہا۔
"ڈھائی تین لاکھ آپریشن کا لگا ہوگا۔سات لاکھ روپے کا مال تھا۔باقی پیسہ  کدھر گیا؟ "محسن نے اس کے بال پکڑے ہوئے کہا۔
"یہ نہیں سالہ میرے سے سیان پتی کرے گا۔تیری میں چمڑی میں نمک نہ بھردوں سالے ۔۔"حیدر نے زور دار ہنٹر اس کی کمر پر رسید کرتے ہوئے کہا۔ایک زور دار چیخ ہال میں گونجی۔تمام لڑکے پیچھے ہونے لگے۔حیدر بےدریغ ہنٹر برسارہا تھا۔
"ہم سے حرام خوری ۔۔ہیں۔۔سالے پھر آگے سے زبان لڑاتا ہے ۔۔تیرے ماں کے یار ہیں ہم؟ ہیں۔۔"وہ گندی گالیاں بکتے ہوئے اس پر بے دریغ ہنٹر برسارہا تھا۔ایک طرف سے محسن نے اس کے بال دبوچ رکھے تھے دوسری طرف سے دوسرا لڑکا اس کا راستہ روکے کھڑاتھا۔اس شخص کی درد ناک چیخیں اڈے کی در و دیواروں سے ٹکرارہی تھیں۔یہاں تک کہ وہ بے دم ہوکر زمین پر آگر۔حیدر کا بھی سانس پھول چکا تھا ۔ہنٹر ایک طرف پھینکا تو ایک لڑکا پانی لیے دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا۔
"جارہا ہوں پنچولی بھائی کے پاس! اس کو اس کے گھر پھینک کے آؤ ۔اگلے ہفتے تک اگر پیسہ نہ لوٹائے دوبارہ اٹھاکر لے آنا۔۔دوسری دفعہ میں ہنٹر نہیں۔۔میرا پستول چلے گا۔۔بتادے اس کو محسن!"حیدر پانی کا گلاس ایک کو پکڑاتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔اس کی سفید شرٹ پر جگہ جگہ خون کی باریک بوندیں اڑ کر آلگیں تھیں۔چٹا نامی شخص ابھی بھی زمین پر پڑا کراہ رہا تھا۔اس کے جسم سے جگہ جگہ خون رس رہا تھا۔
                    *************
وہ روشن اپارٹمنٹس کے دائیں پارکنگ میں اپنی بائیک کھڑی کرتا سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔دوسری منزل پر نادر پنچولی کا عالیشان گھر تھا۔جبکہ حیدر ساتویں منزل پر رہتا تھا۔اسے پہلے نارد پنچولی کے گھر جاکر رپورٹ دینی تھی پھر گھر جاکر کپڑے بدلنے کا سوچ رہاتھا۔ابھی وہ پہلی منزل پر ہی پہنچا تھا جب اس کی نگاہ راہداری میں سامنے کی جانب ایک بھاری بھرکم بیگ کھینچتی نازک اندام لڑکی پر پڑی۔یوں تو وہ پہلی منزل کی تمام لڑکیوں کو جانتا تھا۔اسے معلوم تھا کس فلیٹ میں کتنی لڑکیاں تھیں۔کون کس قد کی تھی کس کا وزن کچھ زیادہ تھا۔لیکن سامنے موجود لڑکی ان میں سے نہیں لگ رہی تھی۔سرمئی عبایا پہنی لڑکی کا قد دراز تھا۔تجسس نے حیدر کے گرد گھیرا تنگ کیا۔اس کے اندر کے شیطان نے سر اٹھایا۔مدد کے بہانے وہ اسی جانب بڑھنے لگا۔اسے یہ بھی ہوش نہیں رہا کہ اس کی سفید شرٹ پر خون کے چھینٹے ہیں۔
"سنیں!"حیدر نے کچھ فاصلے پر رک کر آواز دی۔
لڑکی چونک کر پلٹی ۔گندمی رنگت اور دلکش نقوش کی حامل لڑکی نے انجان نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
"تو چڑیا واقعی یہاں نئی ہے۔"دل ہی دل میں  بڑبڑایا۔
"کوئی مدد کردوں۔؟"اس نے چہرے پر شرافت سجاتے ہوئے نرم لہجے میں سوال کیا۔
"جی شکریہ بس یہ بیگ ذرا وہاں رکھ دیں ۔"لڑکی نے راہداری پر موجود آخری فلیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"لائیے دیجیئے۔ویسے آپ کو کیا ضرورت تھی اتنے وزنی بیگ کو اٹھانے کی ۔"اس نے ایک ہی ہاتھ سا بیگ اٹھاکر کہا۔لڑکی اس کے ہمقدم چل رہی تھی۔
"امی نے تو کہا بھی کہ رکشے والے سے کہہ دوں لیکن مجھے لگا میں اٹھالوں گی ۔مگر بھاری ہے بہت۔"وہ بولی۔اس کے لہجے میں بچوں کی سی معصومیت تھی۔اور حیدر ایسی  معصومیت کی بربادی میں ماہر تھا۔
"اچھا آپ یہاں نئی آئی ہیں؟ "
"جی کل ہی شفٹ ہوئے ہیں یہاں۔ویسے یہ آپ کی شرٹ پر بلڈ ہے کیا؟ "لڑکی نے اس کی شرٹ کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
"راستے میں کسی کا ایکسڈنٹ ہوگیا تھا اس کی مدد کرتے ہوئے لگ گیا۔"حیدر نے معصومیت سے کہا اور بیگ کھلے گیٹ کے اندر رکھ دیا۔
"بہت شکریہ آپ کا۔آپ بھی یہی رہتے ہیں کیا؟ "لڑکی نے سوال کیا۔
"شکریہ کی کوئی بات نہیں۔جی میں یہی رہتا ہوں ساتویں منزل پر۔ویسے آپ کا نام کیا ہے؟ "حیدر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"خضریٰ !"وہ کہہ کر اندر داخل ہوگئی۔حیدر مسکراکر پلٹ گیا۔
"سالی مطلب پورا ہوتے ہی اندر گھس گئی۔چائے پانی ہی پوچھ لیتی! چائے پانی چھوڑ نام ہی پوچھ لیتی میرا۔"وہ بڑبڑاتا ہوا تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔
                  ***************
"کون تھا گیٹ پر؟ "ادھیڑ عمر رابعہ خاتون نے خضریٰ کے اندر داخل ہوتے ہی سوال کیا۔
"اسی بلڈنگ کا لڑکا تھا۔بیگ گیٹ تک چھوڑگیا ہے۔"خضریٰ نے کہا۔
"زیادہ کسی سے فضول بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہاں۔یہ علاقہ اور یہاں کے لوگ کچھ ٹھیک نہیں ہیں سمجھی۔"رابعہ خاتون نے خبردار کیا۔
"جی امی!"خضریٰ کہتی ہوئی اندر کی جانب بڑھ گئی۔
                  ************
نادر پنچولی اپنے وسیع لاؤنج میں ٹانگیں پھیلائے بیٹھاتھا۔قریب ہی حیدر سگریٹ جلائے گہرے کش لگارہا تھا۔گھر قدرے صاف ستھری حالت میں تھا۔فرنیچر قیمتی اور معیاری تھا۔صاف ستھرے پردے قیمتی صوفے گھر کافی کشادہ اور پرتعیش تھا۔
"چٹا کو نمٹا لیا؟ "
"ہاں بھائی ایسا ویسا! چمڑی ادھیڑ کرآیا ہوں سالے کی! "وہ لاپرواہی سے بولا۔
"شاباش میرا شیر! مال پورا ہے؟ یا منگوانا ہے؟ "نادر نے پوچھا۔
"منگوادو تو اور اچھا ہے۔ویسے ابھی پڑا ہے کافی سارا۔"
"اچھا تیرے کو چاہیے پیسہ ویسا یا ہے ابھی؟ "
"ہے بھائی تم ٹینشن نہیں لو بس اس لفڑے کو نمٹانے کی کرو نیا افسر آرہا ہے پچھواڑے میں۔اس کو سنبھالنے کی کرو۔میں، اوپر جارہا ہوں تھوڑا آرام کروں گا اڈے پر نہیں آؤں گا رات کو۔"
"کیوں بھئی؟ کیا بات ہے آج پھر کسی چڑیا کے ساتھ گزارنی ہے؟ "نادر جناتی قہقہے لگاتے ہوئے پوچھنے لگا۔
"بھائی تم تو پھرجانتے ہو اپنے شیر کو۔"حیدر خباثت سے آنکھ دباتا اٹھ گیا۔پیچھے نادر حلق پھاڑے قہقہے لگارہا تھا۔
                          *************
اس کے فلیٹ کی حالت بڑی خراب تھی۔لاؤنج کے صوفوں پر بیئر اور شراب کی بوتلیں، سگریٹ کے پیکٹ اور اسٹریٹ فوڈ کے ڈبے وغیرہ پڑے تھے۔کولڈرنک کی بوتلیں بھی جگہ جگہ بکھری ہوئی تھیں۔وہ لاؤنج کی حالت کو نظر انداز کرتا کمرے  میں آیا۔جینز کے ساتھ اڑسی نئے ماڈل کی نائن ایم ایم پستول اس نے پلنگ پر پھینکی اور شرٹ اتارتا غسل خانے کی جانب بڑھ گیا۔
کمرے کی حالت بھی لاؤنج سے کچھ کم نہ تھی۔تکیے ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔بیڈ کے دائیں جانب  ایک حقہ بے ڈھنگے پن سے رکھاہوا تھا۔سائیڈ ٹیبل پر ادھ جلی سگریٹیں تھیں۔ بائیں جانب صوفوں کے ساتھ پڑی میز پر لیز چپس کے کچھ خالی اور کچھ بھرے پیکٹ رکھے تھے۔زمین پر کولڈرنک کی ادھ بھری بوتل اوندھے منہ پڑی تھی۔ابھی وہ غسل خانے سے نکلا ہی تھا جب دروازہ بجنے لگا۔اس نے الماری کھول کر ایک شرٹ نکالی اور پہنتا ہوا باہر آیا ۔باہر آکر اس نے گیٹ کھولا تو سامنے ایک خوبصورت لڑکی  کھڑی مسکرارہی تھی۔
"ہائے ڈارلنگ!"لڑکی نے آگے بڑھ کر اس کا گال چومتے ہوئے کہا اور اندر داخل ہوئی۔
"ہائے!اچانک کیسے؟ "حیدر جو بسمہ کو ٹائم دئیے بیٹھا تھا رباب کو دیکھ کر الجھ گیا۔
"کیوں تمہیں اچھانہیں لگا؟ "رباب صوفوں کی جانب بڑھتی اٹھلاکر بولی۔
"میری جان تم جیسی کس کو اچھی نہیں لگے گی۔"وہ اس کے دلکش سراپے پر نگاہ ڈالتے ہوئے بولا۔وہ سیاہ چست شرٹ اور نیلی جینز میں ملبوس تھی۔
"ہاٹ لگ رہی ہو بےبی!"حیدر نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔رباب کھلکھلاکر ہنس دی۔
"ہاٹ ہوں ہاٹ نہیں لگوں گی تو کیا لگوں گی ویسے تم نے یہ حال کیا بنارکھا ہےفلیٹ کا۔"رباب نے اردگرد نگاہ  ڈالتے ہوئے کہا۔
"کیا کروں کوئی ماسی ٹکتی ہی نہیں ہے۔ا
یہ والی بھی بھاگ گئی۔"حیدر لاپرواہی سے بولا۔
"تم آ ہی گئی ہو تو کردو صفائی! میں ذرا ریڈی ہوکر آتا ہوں پھر حقہ جلائیں گے۔"حیدر کہتے ہوئے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔رباب کڑوے منہ بناتی اپنا پرس رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔بھلا اسے کہاں پسند تھا یہ کام! وہ تو حیدر کے پاس اس کے پیسے اور پارٹیز کے لیے آیاکرتی تھی۔لیکن وہ اس کےمزاج سے بھی خوب واقف تھی۔وہ کہہ گیا تھا تو اسے کرنا تھا۔ورنہ اس کا غصہ برداشت کرنا کہاں آسان تھا۔؟
                ***************
"ہاں شونا! آج کا ملنا کینسل کردیتے ہیں مجھے ذرا کام ہے۔کل کا رکھ لیں؟ "حیدر خود پر پرفیوم چھڑکتا فون پر کہہ رہا تھا
"پرسوں بھی یہی کہا تھا تونے حرامی!"دوسری طرف بسمہ چڑکر بولی۔
"ابے او! کام ہے تو کیاکروں چھوڑ کر آجاؤں تیرے پاس! بکواس کرتی ہے آگے سے۔"حیدر بھڑک کر بولا۔
"سالے حرامی صاف بول دے وہ لائنز ایریا والی خبیث عورت آگئی ہے تیرے گھر۔"بسمہ نے غصے سے کہا۔
"ہاں آگئی ہے تو؟ کیا کرلے گی تو؟ تیرے کو کوئی مسئلہ ہے؟ "حیدر نے سردمہری سے پوچھا۔
"غرق ہوجا ۔۔ اب مت آئیو میرے پاس۔اسی کے ساتھ رہ چل میں رکھ رہی ہوں فون۔ابھی میں نے چڑیل کو تیری بلڈنگ میں گھستے دیکھا ہے۔"بسمہ غصے سے بولی۔
"ابے او نکل زیادہ دماغ میں مت لگ! رکھ فون!مت آئیو کی بچی !تیرے لیے میری سانس تھوڑی نکل رہی ہے کمی ہے کیا مجھے تجھ سے اچھی اچھی پیروں میں پڑی رہتی ہیں۔"حیدر حقارت سے کہتا فون بند کر گیا۔یہ حقیقت بھی تھی اس کے پاس لڑکیوں کی کمی واقعی نہیں تھی۔ایک سے بڑھ کر ایک اس کا وقت رنگین کرنے کو تیار رہتی تھیں۔اس کا فون پھر بجنے لگا تھا لیکن اسے پرواہ نہیں تھی۔فون پلنگ پر پھینکتے اس نے قریب رکھا حقہ اٹھایا اور کمرے سے نکل گیا۔آج کی شب رنگینی سامان مکمل تھا۔رباب ہال کی حالت سنوار چکی تھی۔حیدر ایک معنی خیز مسکراہٹ اس کی طرف اچھالتا کچن کی طرف چلا آیا ۔جس کا استعمال وہ فقط حقہ جلانے کے لیے ہی کرتا تھا۔
"جانم! میں حقہ جلارہا ہوں تم فریج سے ڈرنکس نکال لو۔"حیدر نے اس سے کہا۔
"اچھا اوکے۔۔پتا ہے شونا۔کل میں ایٹریم مال گئی وہاں ایک واچ دیکھی بہت زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔لیکن پینتالیس ہزار۔۔"
"ڈونٹ وری ۔لے لینا!"حیدر لاپرواہی سے کہتا فلیم جلانے لگا۔
"ہائے تھینک یو سو مچ مائے لو۔۔!"رباب خوشی سے نہال ہوتی بولی۔حیدر فقط مسکرادیا۔
اسے رباب کی اتنے دن بعد آمد کا مقصد ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں سمجھ آگیا تھا لیکن اسے پروا نہیں تھی۔اس کے تمام تعلقات کچھ لو اور کچھ دو کے نظریے پر قائم تھے۔اسے ان کی جوانی سے مطلب تھا اور انھیں اس کے پیسے سے۔
                      **************
جاری ہے

میں لاپتا از قلم فاطمہ نیازیWhere stories live. Discover now