قسط نمبر:10

904 89 76
                                    

#میں_لاپتا
#فاطمہ_نیازی
قسط نمبر:10

نادر اڈے پر موجود تھا۔کئی فون کرنے کے باجود حیدر نے اڈے کا ایک چکر تک نہ لگایا تھا۔نادر جلے پیر کی بلی کی مانند یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہا تھا۔اسے اپنا سب کچھ جاتا نظر آرہا تھا۔حیدر اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری تھا۔حیدر تھا تو طاقت تھی ۔ایسے کمانڈر سالوں میں تیار ہوتے تھے۔نڈر ہونا موت کے خوف سے عاری ۔بدلحاظ ہٹ دھرم۔حیدر میں وہ ساری خوبیاں تھیں جو ایک گینگ وار کمانڈر میں ہونا ضروری تھیں۔وہ ضدی تھا۔اس کی ضد نے ہی نادر کی پہنچ کو چند گلیوں سے پھیلاکر پورے علاقے تک لا چھوڑا تھا۔وہ حیدر ہی تھا جس کی ہٹ دھرمی نے اس علاقے کے ایک ایک مخالف گینگسٹر کو قبر میں پہنچادیا تھا۔وہ خطرناک حد تک ضدی اور بے خوف تھا۔نادر کو پوری امید تھی کہ مزید چند سالوں میں ہی وہ سارے شہر کو اپنی حد میں لے آئے گا۔لیکن حیدر کا یوں رخ پھیردینا نادر کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا وہ کسی قیمت پر حیدر کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔
وہ پریشان صورت لیے ہال کے چکر لگارہا تھا جب راجو اور جانی اندر داخل ہوئے۔وہ حد سے زیادہ پرجوش لگ رہے تھے۔
"استاد لڑکی کا پتا چل گیا ہے۔"راجو نے چھوٹتے ہی کہا۔
نادر نے جھٹکے سے گردن گھمائی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
"کون ہے وہ سالی؟۔۔"اس نے ساتھ ہی کئی گندی گالیاں نکالی تھیں۔
"استاد! آپ کے گھر کے نیچے رہتی ہے۔پہلی منزل پر! خضرا نام ہے ماں کے ساتھ رہتی ہے ماں کا نام رابعہ ہے۔اسی کالج میں پڑھتی ہے جہاں حیدر بھائی گھسا تھا۔"جانی نے اشتیاق سے کہا۔
نادر ساکت رہ گیا۔
"دھت تیرے کی۔۔بچہ بگل میں ۔۔ڈھنڈورا شہر میں۔ سالا میرے کو کیسے پتا نہیں چلا۔"نادر نے سرجھٹک کر غصے سے کہا۔
اسی پل محسن اندر داخل ہوا۔راجو اور جانی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔محسن نے جانچتی نگاہ ان دونوں پر ڈالی۔پھر نادر کی جانب دیکھا۔
"بھائی! کیا کررہے ہو؟ "محسن نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
"تیرے کو بتادوں؟ تو باپ ہے میرا سالے؟ ہیں؟"نادر غرایا۔
"چلو لڑکوں!"نادر اپنی بندوق سنبھالتا باہر کی جانب بڑھا۔راجو اور جانی سمیت کئی اور لڑکے بھی باہر کی جانب بڑھنے لگے۔محسن فورا ان کے پیچھے لپکا۔
"بھائی لڑکی معصوم ہے بھائی! بھائی چیتا مرجائے گا بھائی۔۔کچھ مت کرنا۔۔بھائی بات تو سنو۔۔"محسن دیوانہ وار ان کے پیچھے لپکا۔نادر نے رک کر اسے قہرآلود نگاہ سے گھورا۔
"بھائی درخواست ہے بھائی!"محسن نے روہانسا ہوکر ہاتھ جوڑے۔نادر اسے پیچھے دھکیلتا اپنی گاڑی میں سوار ہوا۔اس کے ساتھ ہی باقی لڑکے ہائی لیکس کے پیچھے سوار ہوئے۔محسن نے فورا حیدر کا نمبر ملایا جو بند جارہا تھا۔محسن کا سانس جوں کا توں رہ گیا۔
"یا خدا خیر کر۔۔"محسن تیزی سے اپنی بائیک کی جانب دوڑا تھا۔
                     *************
نادر پنچولی لڑکوں سمیت سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اسی پل محسن بھاگتا ہوا اوپر کی جانب بڑھتا نظر آیا۔
"اوئے رک!"نادر نے پشت سے اس کی شرٹ کو دبوچ کر اسے روکا۔
"بھائی نہیں کرو ایسا بھائی!"محسن پھر کرلاتے ہوئے بولا ۔
"سالے تو بہت حرامی ہے کتے۔۔رک ادھر ہی چل تو میرے ساتھ ۔۔بڑی آگ ہے تیرے میں بھی۔۔"نادر اسے بھی ساتھ گھسیٹتا کونے والے فلیٹ کی طرف بڑھنے لگا۔وہ فلیٹ خضرا کا تھا۔ان لوگوں نے دھڑا دھڑ گیٹ بجانا شروع کیا ۔جب تک گیٹ نہ کھلا وہ زوردار انداز میں بجاتے رہے۔
دفعتاً گیٹ کھلا۔گیٹ کھلتے ہی وہ اندر داخل ہوتے گئے۔رابعہ خاتون الجھن میں گھریں چند قدم پیچھے ہٹیں۔آنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں بھاری ہتھیار دیکھ وہ لمحے بھر کو دھک سے رہ گئیں۔
"ک۔۔کون ہیں آپ لوگ؟ "وہ ان سب کو خوف زدہ نظروں سے دیکھتی پوچھنے لگیں۔محسن بھی ساتھ ہی کھڑا سلامتی کی دعائیں کررہا تھا۔
اسی پل خضرا اپنے کمرے سے نکل کر آئی۔ان پر نگاہ پڑھتے ہی وہ یک دم سہم کر دوبارہ اندر جانے لگی۔
"اوئے رک!"نادر نے گرج دار آواز میں کہا۔
"خضرا اندر جاؤ تم۔"رابعہ خاتون لرزتے لہجے میں بولیں۔
"اوہ تو یہ ہے خضرا!"نادر رابعہ خاتون کو ایک طرف دھکیلتا آگے بڑھا۔رابعہ خاتون تیر کی تیزی سے خضرا کی طرف لپکی۔نادر نے پستول کے اشارے سے رابعہ خاتون کو پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا۔
"کیا چاہتے ہیں آپ لوگ؟ کون ہیں آپ۔۔؟"رابعہ خاتون بری طرح پریشان ہوتی خوف زدہ لہجے میں سوال کرنے لگیں۔
نادر قہر آلود نگاہوں سے خضرا کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔
"یہ۔یہ ہے وہ لڑکی؟ یہ!"نادر نے سردمہری سے کہتے پیچھے کھڑے لڑکوں کی جانب دیکھا۔
"اس چھٹانک بھر کی معمولی لڑکی کا دیوانہ بنا پھر رہا ہے سالا!"وہ غرایا۔خضرا بےخوف نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتی رہی۔
"ک۔۔کیا مطلب ہے کیا بکواس کررہے ہو؟ نکلو میرے۔۔"
"اے چپ!"نادر نے رابعہ خاتون کو دیکھ کر درشتی سے کہا۔
"کیا ہے بھئی تیرے میں ہاں؟ نہ شکل تیری حوروں والی ہے نا قد ہے نا کاٹھ ہے؟"وہ واقعتاً حیرت زدہ تھا۔
"میرے کو تو لگا آسمان کی حور زمین پر اتر آئی ہوگی جس کے لیے میرا چیتا باؤلا ہوا جارہا ہے۔۔تیرے سے لاکھ گنا حسین تو اس کے گھر کی صفائیاں کرکے جاتی ہیں۔ ہے کیا اس میں میری تو یہ سمجھ نہیں آرہی۔۔"اس نے حقارت سے کہتے پلٹ کر اپنے لڑکوں کو دیکھا۔
"بھئی میں تو سمجھا قیامت ہوگی ۔۔ادھر تو معاملہ ہے الٹا ہے سالا! صحیع بولا ہے جس نے بولا ہے ۔۔یہ عشق بڑی کتی چیز ہے ۔۔"نادر ہنستے ہوئے پلٹا۔خضرا چپ چاپ کھڑی اسے دیکھتی رہی۔
"بیٹی پر دھیان دو۔۔مرنے پر تلی ہے۔۔بچی ہے ابھی ۔۔میں مارنا نہیں چاہتا اس کو۔۔نادر نے قہر آلود نگاہ دروازے کے ساتھ لگی خضرا کو دیکھتے ہوئے اپنی پستول کی نال پر پھونک ماری۔
"ہو کون تم؟ "رابعہ خاتون نے درشتی سے سوال کیا۔ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔
"نادر پنچولی نام ہے میرا۔۔اس علاقے کا مالک ہوں۔۔نام تو سنا ہی ہوگا۔۔اپنی شہزادی کو سمجھاؤ ۔۔۔میرے چیتے سے دور رہے۔۔حیدر ۔۔حیدر پٹھان! دور رہ اس سے۔۔سنا! دور رہ! ورنہ!"اس نے پستول کا رخ خضرا کی طرف کیا۔اور ایک گہری نگاہ اس پر ڈالتا باہر نکل گیا۔اس کے پیچھے وہ سب بھی ایک ایک کرتے نکلتے چلے گئے۔
                      ***********
"ت۔۔تم خضرا ۔۔مجھے یقین نہیں آرہا۔۔کہہ دو یہ ایک غلط فہمی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔"رابعہ خاتون کپکپاتے لہجے میں بولیں۔ان کی بے یقین نگاہیں خضرا کے جھکے سر پر تھیں۔
"جواب دو!کہہ دو جھوٹ ہے یہ سب!"وہ چلائیں۔خضرا کا بازو جھنجھوڑتے ہوئے انھوں نے اسے پکارا۔لیکن خضرا خاموش کھڑی رہی۔
"خضرا کچھ پوچھ رہی ہوں میں کون ہے یہ حید۔۔حیدر؟ حیدر!"رابعہ خاتون کے ذہن میں جھماکا ہوا۔
"کیا وہ حیدر؟ جو ۔۔یا میرے اللّٰہ۔۔"رابعہ خاتون سرپکڑتی زمین پر بیٹھی چلی گئیں۔خضرا یوں ہی سکتے میں کھڑی رہی۔یک دم غصے میں بھریں وہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور خضرا کے قریب آئیں۔
"کیا جو وہ کہہ رہا تھا سچ تھا؟ "رابعہ خاتون نے اس کا بازو ہلایا۔خضرا نے نگاہیں اٹھاتے ہوئے ماں کی طرف دیکھااور اثبات میں سرہلادیا۔رابعہ خاتون کی نگاہیں حیرت سے پھیلیں۔اگلے ہی پل ایک زوردار تھپڑ خضرا کے چہرے پر لگا تھا۔وہ لڑکھڑاتے ہوئے دیوار سے جالگی۔
"بے حیا! بے شرم! تم تو ایسی نہ تھیں۔"وہ چلائیں۔
"تمہیں عشق و عاشقی کے لیے ایک گنڈہ ہی ملا تھا؟"رابعہ خاتون نے آگے بڑھ کر اسے بے دریغ مارنا شروع کردیا۔خضرا چپ چاپ کھڑی مار کھاتی رہی۔اس نے اف تک نہ کی تھی۔رابعہ خاتون خود ہی مارتے مارتے تھک کر رک گئیں اور وہیں بیٹھ کر رونے لگیں۔
                   ************
نادر اندرونی ہال میں بیٹھا سگار کے گہرے کش لگارہا تھا۔قریب ہی راجو اور جانی کھڑے تھے۔محسن کچھ فاصلے پر بیٹھا خاموشی سے زمین کو گھوررہا تھا۔دفعتاً جھٹکے سے ہال کا دروازہ کھلا اور حیدر اندر داخل ہوا۔اس کا چہرہ غصے کی شدت سے سرخ ہورہا تھا۔
"آگیا تو؟ "نادر فورا اپنی جگہ سے اٹھتا نرمی سے بولا۔
"پری کے گھر کیوں گئے تھے؟" اس نے تلخی سے پوچھا۔محسن چوکنا ہوکر سیدھا ہوبیٹھا۔
"میں صرف دیکھنے گیا تھا۔"نادر سکون سے بولا۔حیدر کے جبڑے بھینچ گئے۔
"بھائی! دیکھو میں کہہ رہا ہوں یہ تماشے نہیں کرو۔ختم کرو اس ٹنٹے کو ۔۔وہ میری محبت ہے مذاق نہیں ہے۔نہ کوئی تماشہ جسے دیکھنے چلے گئے ان کتوں کو لے کر! ایسے ہی اپنی بیوی دکھانے میں لے جایا کرو ان کو۔۔"حیدر درشتی سے بولا۔
نادر کا پارہ ہائی ہونے لگا لیکن وہ برداشت کیے کھڑا رہا۔
"اور تم سب بھی سن لو ۔۔گھٹنوں سے کاٹ دوں گا ٹانگیں اگر آج کے بعد اس گھر کے آس پاس بھی دکھے تو۔۔"وہ راجو اور جانی کی جانب دیکھ کر غرایا۔وہ فورا سہم کر سر جھکاگئے۔
"چیتے! تیری عقل تو گھٹنوں میں جاسوئی ہے۔وہ تیرے لائق ہے کیا؟ تجھے بریرہ پسند تھی نا ۔۔اپنی بھابھی کی بہن ۔۔میں نے تیرے کو اس سے دور رہنے کو کہا تو مان گیا ۔۔میں اسی سے تیری شادی کرواؤں گا۔تیرے کو پسند تھی نا۔"
"وہ مجھے شادی کے لیے پسند نہیں آئی تھی نا میرے کو اس سے محبت تھی۔۔اس جیسی ہزاروں آکر چلی گئیں۔پری کا معاملہ دوسرا ہے اس کو نہیں چھیڑو میں پاگل ہوجاؤں گا نہیں دیکھوں گا تم میرے بھائی ہو۔۔بتارہا ہوں ۔۔"حیدر نے شہادت  کی انگلی اٹھاتے ہوئے کہا۔
"سالے حرامزادے تیرے کو میں نے سکھایا ہے لحاظ نہیں کرنا۔۔تیرے کو یہ نہیں بولا تھا کہ میرا بھی نہ کرنا۔۔کتے۔۔یہی گاڑھ دوں گا۔۔"نادر اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے دھاڑا۔
"ہاں آؤ۔۔گاڑھ دو۔۔آؤ۔۔"حیدر بھی آگے بڑھا۔محسن جست لگاتا آگے آیا۔
"کیا ہوگیا ہے یار! ایسے مسئلے کا حل تھوڑی نکلے گا۔"محسن نے اسے پیچھے کیا۔
نادر خون آلود نگاہوں حیدر کو دیکھتا رہا۔
"میں آخری بار کہہ رہا ہوں۔میری پری سے دور رہنا میں سب کو چیر پھاڑ دوں گا۔"شہادت کی انگلی سے ان سب کو دھمکاتا ایک زوردار لات قریب رکھی کرسی کو رسید کرتا وہاں سے چلاگیا۔
                           **********
حیدر نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ زندگی کبھی اتنی مشکل ہوجائے گی کہ سانس لینا تک محال ہوگا۔وہ بے چینی سے کبھی لاؤنج میں تو کبھی اپنے کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا۔اسے یاد ہی نہ تھا کہ اس نے کب کھانا کھایا تھا۔بھوک کا احساس مرچکا تھا۔اسے شدت سے خضرا کی یاد آرہی تھی۔وہ اس کی آواز سننا چاہتا تھا۔اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔لیکن اس کا فون بند جارہا تھا۔وہ کئی دفعہ کوشش کر چکا تھا لیکن ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔آخر کار تنگ آکر اس نے محسن کو کال کی۔
"کیا ہوا؟"محسن نے فون اٹھاتے ہی فکرمندی سے پوچھا۔
"چرس ہے تیرے پاس؟"حیدر نے سوال کیا۔
"چرس؟ کیوں تیرے پاس نہیں ہے؟ "محسن نے الجھ کر پوچھا۔
"نہیں ہے۔میں نہیں پیتا ہوں اب۔۔ل۔۔لیکن نیند نہیں آرہی مجھے۔۔سر درد کررہا ہے۔لادے مجھے۔۔شراب کی بوتل ساتھ لانا۔۔"حیدر نے کہہ کر فون بندکردیا۔اور جیکٹ پہنتا گھر سے نکلا ۔سیڑھیاں اترتا نیچے آیا۔پہلی منزل کے قریب کے قریب پہنچ کر اس کا دل شدت سے دھڑک کر ساکت ہوا۔وہ بے چینی سے خضرا کے دروازے کو دیکھتا رہا۔پھر چند قدم چلتا اس کے گیٹ تک آیا۔گیٹ اندر سے بند تھا۔گہری سانس بھرتا وہ نیچے چلا آیا۔پارکنگ تک آکر اس نے کھڑکی کی جانب دیکھا۔وہاں خضرا کھڑی تھی۔اس اندھیرے میں وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن اس کی موجودگی کا احساس ہی روح کو شانت کرگیا۔وہ تیزی سے چلتا کھڑکی کے بالکل نیچے آکھڑا ہوا۔
"پری!"اس نے پکارا۔آواز کسی قدر دھیمی تھی۔
خضرا کھڑکی کے پاس کھڑی ساکت نظروں سے حیدر کو دیکھتی رہی۔نیچے کسی قدر روشنی تھی وہ حیدر کا چہرہ دیکھ سکتی تھی اس کی آنکھوں کی بے چینی اس کی آنکھوں میں تڑپ تھی۔خضرا کی آنکھیں بھر آئیں۔اس نے ہاتھ کے اشارے سے حیدر کو انتظار کرنے کا اشارہ کیا۔حیدر کی دل کی دھڑکن تیز ہوئی۔خضرا کھڑکی سے ہٹ گئی۔حیدر وہیں کھڑا یک ٹک کھڑکی کو دیکھتا رہا۔اسے لگا وہ کوئی خط بھیجے گی ۔وہ یوں ہی آنکھیں کھڑکی پر جمائے کھڑا رہا۔کئی منٹ یوں ہی گزر گئے۔
"حیدر!"آواز پر وہ جھٹکا کھاکر پلٹا۔وہ سیڑھیوں کی راہ پر کھڑی تھی۔حیدر تقریبا دوڑتا ہوا اس کے قریب پہنچا۔
"پری! ت۔۔تم کیسے ۔۔تمہاری امی؟ "حیدر بے ربطگی سے بولا۔
خضرا کچھ کہے بنا اس کا ہاتھ تھامتی اسے پارکنگ ایریا کی طرف لے گئی۔حیدر بے جان بت کی طرح اس کے ساتھ کھنچتا چلا گیا۔وہ سامنے کھڑی ہاتھ میں پکڑے چھوٹے سے ٹفن باکس کو کھولنے لگی۔
"کھانا نہیں کھایا ہوگا؟ "خضرا نے آہستگی سے کہتے ہوئے ٹفن باکس اس کی جانب بڑھایا۔
"بھوک نہیں ہے۔"حیدر آہستگی سے بولا۔
"تھپڑ لگے گا تو بھوک بھی لگنے لگے گی۔"خضرا سرجھکائے خود ہی نوالہ بنانے لگی۔
"چہرہ اوپر کرو۔"حیدر نے کہا۔
خضرا نے سر اٹھایا۔اس کے چہرے پر انگلیوں کے نشان تھے۔حیدر کا دل دکھ سے بھرگیا۔خضرا کچھ کہے بنا نوالہ اس کے منہ تک لائی۔حیدر نے چپ چاپ منہ کھول لیا۔
"ابو کے انتقال کے بعد امی ڈپریشن کی مریضہ بن گئی تھیں۔رات کو نیند کی گولیاں کھائے بغیر نہیں سوتیں۔فون توڑدیا ہے امی نے۔بہت پریشان اور ناراض ہیں۔"خضرا کی آواز بھراگئی۔بھرائے لہجے میں کہتے کہتے اس نے دوسرا نوالہ اس کی طرف بڑھایا۔حیدر نے بےدلی سے سر نفی میں ہلادیا۔
"کھالیں یار!"خضرا چڑ کر بولی تو ناچار اسے منہ کھولنا پڑا۔
"مجھے نہیں پتا ہمارا مستقبل کیا ہے حیدر! لیکن وہ ہمارا ہی رہے گا میرا یا آپ کا نہیں ہوگا۔پریشان مت ہوں آپ کے ساتھ ہوں میں ۔رہوں گی۔اور اپنے بھائی سے کہہ دیجئے گا خضرا ان کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتی۔۔"آخری میں اس کا لہجہ بھراگیا۔
"وہ تمہیں کبھی نقصان نہیں پہنچائیں گے ۔ان کو پتا ہے تم کیا ہو۔"حیدر نے سنجیدگی سے کہا۔
"اب کبھی تمہارے آس پاس تو کیا دور دور تک نہیں آئے گا کوئی۔"حیدر نے ہاتھ بڑھاکر اس کے گال پر بہتا آنسو چن لیا۔
"جاؤ اب!"حیدر نے اس کا سر سہلاتے ہوئے نرمی سے کہا۔وہ کسی قدر پرسکون ہوگیا تھا۔
"میں بہت جلد خود کو اور تم کو اس سب سے نکال لوں گا۔"اس نے کہا۔
"مجھے شدت سے اس دن کا انتظار ہے۔"خضرا ہلکا سا مسکرائی اور آخری نوالہ اس کے منہ میں ڈالا۔
حیدر نم نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتا رہا۔خضرا کچھ پل اس کی طرف دیکھتی رہی پھر وہاں سے چلی گئی۔حیدر یک ٹک اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔کچھ فاصلے پر محسن کھڑا تھا۔خضرا کے جاتے ہی وہ اس کے قریب آیا۔
"تجھے کھانا کھلارہی تھی؟ "محسن نے پوچھا۔
حیدر نے اثبات میں سرہلادیا۔اس کی نگاہیں اب کھڑکی پر تھیں۔اسے یقین تھا اب وہ وہیں آئے گی۔
محسن اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھنے لگا۔
"وہاں کیا دیکھ رہا ہے؟ "
"تو نیچے دیکھ کتے پری کی کھڑکی ہے۔"حیدر نے اسے کہنی ماری۔
"خبیث مجھے تھوڑی پتا تھا۔"محسن چڑکر بولا۔
"پکڑ ۔یہ تیری بوتل ہے۔یہ چرس ۔یہ برگر بھی لایا۔۔
"لے جا واپس! مجھے نہیں کھانا پینا اب کچھ بھی۔۔"حیدر مسکراتے ہوئے کھڑکی کی جانب دیکھتا رہا جہاں خضرا کھڑی تھی۔محسن تاسف بھری نگاہوں سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
"میں اتنی سردی میں تیرے لیے خوار ہورہا تھا اور تو ادھر اپنی لیلہ کے ہاتھوں سے نوالے ٹھونس گیا۔"محسن نے اس کو زوردار مکارسید کیا۔
"جارہا ہوں میں اوپر! یہی سوجاؤں گا آج! دیدار سے فرصت مل جائے تو اوپر آجائیو۔"محسن بڑبڑاتا ہوا اوپر کی جانب بڑھ گیا۔کچھ لمحوں بعد خضرا نے بھی ہاتھ کے اشارے سے اسے گھر جانے کا کہا اور کھڑکی سے ہٹ گئی۔حیدر منہ بناتا خود بھی اوپر کی جانب بڑھ گیا۔
                          ***********
"تجھے ایک بات بتاؤں محسن؟ "حیدر اسٹول لیے الماری کے اوپر جھانک رہا تھا۔
"کیا بات؟ اور یہ تو الماری پر کیا ڈھونڈ رہا ہے؟ "محسن نے الجھ کر پوچھا۔حیدر کے لیے لایا ہوا برگر وہ خود ہی کھارہا تھا۔
جوں ہی حیدر کے ہاتھ وہ بریسلیٹ لگا وہ جست لگاکر نیچے اتر آیا۔اس نے محبت سے بریسلیٹ کو دیکھا اور پھر محسن کو دکھایا۔
"یہ پری نے دیا تھا۔"حیدر بریسلیٹ ہاتھ میں باندھتا بولا۔محسن نے ایک نظر بریسلیٹ پر ڈالی۔
"اچھا اور بات کیا تھی؟ "محسن نے پوچھا۔
"میں بالکل بدل گیا ہوں۔بہت کچھ محسوس ہوتا ہے۔لیکن بس پری کے لیے۔"حیدر نے تکیہ سرکے نیچے رکھتے ہوئے کہا۔اور آنکھیں موندلیں۔
"کیا محسوس ہوتا ہے؟ "محسن نے پوچھا۔
"وہ مجھے بہت چاہتی ہے۔کسی نے اتنا پیار نہیں کیا۔زینب نے بھی نہیں ۔۔"حیدر بولا۔
"وہ میری آنکھوں کو بھی پہچان لیتی ہے۔میں جو نہیں کہتا وہ جان جاتی ہے۔بہت اچھی ہے میری پری!"
"تیری اس اچھی پری نے تیری زندگی میں اتنی پریشانیاں بھردی ہیں۔"محسن نے دبے لہجے میں کہا۔
"سکون بھی تو اسی کے آنے سے آیا ہے نا۔وہ مجھے زندگی میں اتنا سکون دے سکتی ہے تو کیا میں پریشانیوں کو نہیں سہہ سکتا ۔؟کچھ بھی کروں گا میں۔بس وہ ساتھ رہے۔"حیدر نے کہا۔
"بھائی نے صبح کہا تھا شادی کروائے گا بریرہ سے۔تیرے کو پسند تھی نا؟"محسن نے کہا۔
"پسند تھی کیوں کہ بہت خوب صورت تھی تب تو میں ایسا نہیں تھا۔اب تو پری کے علاوہ میں کسی کو دیکھوں تک نہیں ۔۔اس سے فرصت ملے تب کسی اور کو سوچوں گانا۔بھائی اس سے شادی نہیں کروائے گا کیوں کہ اس کے لیے مجھے یہ سب ختم کرنا ہوگا ورنہ اس کی ماں نہیں مانے گی۔یہ سب چھوڑدوں گا تو منالوں گا اس کی ماں کو جیسے تیسے کرکے۔"حیدر نے کہا۔
محسن کرنٹ کھاکر اپنی جگہ سے اٹھا۔
"کیا چھوڑے گا؟ "محسن نے بے یقینی سے پوچھا۔
"داداگیری!"حیدر نے کہا۔
"داداگیری چھوڑرہا ہے؟ "محسن نے پھٹی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں! چھوڑرہا ہوں۔۔"
"سب کچھ؟ "محسن بے یقین تھا۔
"نہیں !سب کچھ تو پری ہے۔میں صرف یہ داداگیری چھوڑرہا ہوں۔"حیدر بولا۔
"ابے استاد پاگل ہوجائے گا قیامت آجائے گی۔"محسن نے غصے سے کہا۔
"میں اس سے بڑا پاگل ہوں پھر اس کو پتا ہے۔"حیدر نے گہری سانس لیتے ہوئے کروٹ بدل لی۔محسن ساکت نگاہوں سے حیدر کی پیٹھ کو دیکھتا رہا۔
                    ***********
وہ نہیں جانتا تھا آنے والا دن قیامت ڈھانے والا ہے۔کوئی نہیں جانتا تھا اچانک حالات اس قدر بگڑ جائیں گے۔صبح اٹھتے ہی نادر کی کال نے حیدر کو صبح بخیر کہا ۔لیکن انداز بتاتے تھے یہ صبح خیر لے کر اس کے لیے نہیں آئی تھی۔
"خاری نگر جانا ہے جلدی آجا ۔۔"نادر نے چھوٹتے ہی حکم دیا۔
"کیوں؟ وہاں کیوں جانا ہے؟ "حیدر چونکا۔
"ابے جلدی آ ۔۔سالے یہ چیونٹیوں کے پر نکل آئے ہیں۔دھمکی دے کر گئے ہیں مجھے۔۔"نادر نے کہا۔
حیدر نے محسن کو ہلاکر اٹھنے کا اشارہ کیا۔
"ہاں آرہا ہوں۔"بےدلی سے کہتا وہ پلنگ سےاترا۔وہ نادر کو صاف انکار نہیں کرسکا۔وہ نہیں بتاسکا کہ وہ مزید خون خرابہ کرنا نہیں چاہتا۔لیکن اس نے ارادہ کرلیا تھا اور اس ارادے پر عمل پیرا ہونے کا اس نے خود سے وعدہ بھی کررکھا تھا۔وہ اور محسن ساتھ نکل کر اڈے میں آئے۔حیدر کی آمد پر نادر کو ڈھارس ملی تھی۔اس کا رویہ بھی حیدر سے ہمیشہ کی طرح نرمی اور محبت بھرا تھا یہ محبت اور یقین اسے صرف حیدر پر تھا اور یہ بات سب جانتے تھے۔
                         **************
ایک زوردار جھڑپ کے نتیجے میں پنچولی گینگ کے تین لڑکے مارے گئے تھے۔حیدر کو بھی کئی خراشیں آئی تھیں۔لیکن ان کا پلڑا بھاری رہا تھا۔وہ کسی بھی لڑائی میں کبھی نہیں ہارتے تھے۔اس وقت تو کبھی نہیں جب حیدر ساتھ ہوا کرتا ہو۔اس کی پھرتی اور بے خوفی گینگ کے دیگر لڑکوں کے لیے بھی ہمت کا باعث بنتی تھی۔شام گہری ہوتے ہی وہ لوگ اڈے پر لوٹ آئے تھے۔فائرنگ کرکے جشن منایا جارہا تھا۔شراب کی بےشمار بوتلیں منگوائی گئی تھیں۔نادر بھی بے حد خوش تھا۔لیکن حیدر کا دھیان خضرا پر لگا تھا۔نہ اس نے ہمیشہ کی طرح اڈے کی چھت پر چڑھ کر اندھا دھند فائرنگ کی تھی نا اس نے نعرے لگائے تھے۔اڈے پر رش بڑھتا دیکھ وہ اپنی بلٹ پروف جیکٹ اندورنی ہال میں رکھتا باہر نکل آیا۔گن اس کی جینز میں اڑسی ہوئی تھی۔مشین گن اس نے وہیں رکھ دی تھی۔کسی کو بتائے بغیر اپنا چہرہ ماسک میں چھپاتا وہ خاموشی سے اڈے سے نکل گیا۔نادر نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تو اس کی رگ رگ میں بے چینی سرائیت کرگئی۔اس نے بےاختیار پہلو بدلا تھا۔دل ہی دل میں اس نے خضرا کو کئی گالیاں دی تھیں۔اسے امید تھی حیدر جلد سنبھل جائے گا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ نہ خضرا حیدر سے دور ہوئی تھی نا حیدر نے اسے چھوڑنے کا ارادہ کیا تھا۔
                     ************
حیدر مے بائیک پارکنگ میں روکی اور پہلی نگاہ خضرا کی کھڑکی پر ڈالی۔کھڑکی بند تھی۔حیدر کو قدرے مایوسی ہوئی۔تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا وہ پہلی منزل تک آیا۔قدم اپنے آپ خضرا کے گھر کی طرف بڑھنے لگے۔وہاں تک آتے ہی ایک پل کے لیے اس کا دل رکا ۔دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔حیدر دل ہی دل میں پریشان ہوتا اوپر چلا آیا۔یوں تو اکثر وہ دونوں باہر مارکیٹ تک جاتی تھیں لیکن جانے کیوں آج اسے کچھ بدلا سا لگا۔گھر کے باہر رکھی کیاریاں بھی غائب تھیں۔حیدر کافی دیر لاؤنج میں بیٹھا بے دھیانی سے ٹی وی دیکھتا رہا پھر دوبارہ نیچے آیا ۔ہنوز گھر پر تالا تھا۔یوں ہی وہ وقفے وقفے سے دیکھنے آتا رہا اور تالا اسے منہ چڑھاتا رہا۔رات گہری ہوتے ہی اس کی پریشانی بڑھنے لگی۔وہ ساری رات بے چینی سے اپنے گھر میں چکر کاٹتارہا۔صبح ہوتے ہی وہ دوبارہ دوڑتا ہوا نیچے آیا تھا۔جب جب وہ تالے کو دیکھتا اس کے دل میں درد اٹھتا۔دوپہر کے قریب اسے نادر نے فون کیا اور اڈے پر آنے کا حکم دیا۔حیدر نے طبیعت خرابی کا بہانہ کرکے آنے سے انکار کیا اور بےدلی سے پلنگ پر گیا۔کافی دیر بے چینی سے پلنگ پر کروٹیں بدلنے کے بعد آخر کار وہ سوگیا تھا۔
                        -***********-
رابعہ خاتون خضرا کو لیے اپنے بھائی کے گھر چلی آئی تھیں۔یہ فیصلہ انھوں نے بھائی کو تمام صورتحال بتانے کے بعد کیا تھا لیکن وہ یہ بتا نہیں سکی تھیں کہ خضرا خود بھی اس سڑک چھاپ گینگ وار کمانڈر کی چاہت میں گرفتار تھی۔افیروز صاحب ایک ریٹائرڈ ٹیچر تھے۔جن کا اپنا چھوٹا سا گھر تھا۔ان کا بیٹا خضرا سے چند سال ہی بڑا تھا۔باپ کی طرح وہ بھی ایک گورنمنٹ اسکول میں استاد کی حیثیت سے فائز تھا۔رابعہ خاتون جو پہلے ہی بھائی سے بیٹی کے لیے امیدوار تھیں اب انھوں نے باقائدہ خضرا کے لیے ان سے بات کرلی تھی۔شریف اور عزت دار لوگ تھے۔فورا مان گئے۔رابعہ خاتون کے دل سے ایک بہت بڑا بوجھ سرک چکا تھا۔اب وہ قدرے پرسکون تھیں۔جبکہ خضرا اتنی ہی پریشان اور بے چین تھی۔رابعہ خاتون نے اس کے احتجاج کو ایک کان سے سننا بھی گوارا نہ کیا تھا۔خضرا کمرے میں پڑی فقط روتی رہتی تھی۔حیدر سے رابطہ کرنے کی بھی کوئی راہ نہیں تھی اور اس لاچاری نے اسے مزید دل برداشتہ کردیا تھا۔
                     ************
دوسرا دن آپہنچا تھا اور حیدر کی حالت یوں تھی  کہ کاٹو تو لہو نہیں۔دو دنوں میں ہی اس کا رنگ لٹھے کی مانند سفید پڑچکا تھا۔اس وقت بھی وہ سر تھامے پلنگ پر بیٹھا تھا۔بال بکھرے چہرہ کسی صدیوں کے بیمار کا سا لگتا تھا۔رہ رہ کر اس کا شک نادر پر جارہا تھا۔وہ بمشکل خود کو روکے ہوئے تھا لیکن اب مزید انتظار مشکل تھا۔اٹل فیصلہ کرتے ہی وہ اپنی پستول جینز میں اڑستا گھر سے نکل آیا۔وہ سب سے پہلے اڈے میں آیا پر آیا تھا۔اڈے پر معمول کے کام جاری تھے۔نادر اسے دیکھ کر ٹھٹھکا تھا۔محسن جو اس کی حالت سے پہلے ہی واقف تھا اس انداز پر مزید ڈر گیا۔
"آگیا! طبیعت کیسی ہے؟ "نادر نے اس کی سرخ آنکھوں کو پڑھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے سوال کیا۔
"میری پری کہاں ہے؟ "حیدر نے پہلا سوال یہی کیا۔نادر نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا۔
"تیری پری کا میرے سے کیا واسطہ ہے؟ "نادر نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
"تمہارا ہی تو واسطہ ہے میرا سکون برداشت نہیں ہورہا؟ "وہ چلایا۔باقی تمام لڑکے بھی اپنے کام چھوڑ کر حیدر کی جانب متوجہ ہوئے۔
"دیکھ چیتے اس بیکار سے تماشے سے بیزار ہو گیا ہوں۔سدھر جا! سدھر جا میرے صبر کا امتحان نہ لے۔"نادر بیزاری سے بولا ۔
"ابے تم کررہے ہو تماشہ تو۔۔میرے صبر کا امتحان لے رہے ہو۔۔تمہیں بولا تھا اس کا معاملہ نہیں چھیڑو۔۔۔"وہ ضبط کی آخری حدوں تک آتا چلایا۔
نادر نے پریشانی سے ماتھا مسلا۔
"کہاں ہے میری پری؟ کیا کیا ہے اس کے ساتھ؟ "وہ حلق کے بل چلایا۔اس کے چہرے سے لگتا تھا ابھی روپڑے گا۔
"آواز کم کر سالے ادھر ہی تیرے کو میں گاڑھ دوں گا۔"نادر بھڑک کر بولا۔
"نہیں کروں گا آواز کم! سب برباد کردوں گا ۔۔بتاؤ کدھر ہے وہ؟ کہاں ہے؟"اس نے چلاتے ہوئے گن نکال کر نادر پر تان لی۔محسن تیزی سے آگے آیا۔حیدر نے پستول کا رخ اوپر کرتے ہوئے بے دھڑک فائر کھول دیے تھے۔اڈا گولیوں کی تھرتھراہٹ سے گونجنے لگا۔سب جھکتے ہوئے کونوں کھدروں میں چھپنے لگے۔کسی میں ہمت نہیں تھی کہ وہ ان کے بیچ میں آئے۔خود محسن بھی پیچھے ہٹ گیا تھا۔حیدر کے پاگل پن سے سب خوب واقف تھے۔
نادر خود بھی ساکت رہ گیا تھا۔اس پل اسے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا تھا۔
"میری جان! میں نے کچھ نہیں کیا اسے ۔۔میں کچھ نہیں جانتا ۔۔تیری قسم!"وہ نرمی سے بولا۔لیکن دل ہی دل میں وہ خوف زدہ تھا۔
"تو کہاں گئی؟ "حیدردھاڑا۔
"مجھے کیا پتا جا ڈھونڈ۔۔لے کے جا لڑکے ڈھونڈ اپنی پری کو۔۔میرے کو تیرے سے کوئی دشمنی تھوڑی ہے جگر ہے تو میرا۔۔بیٹا ہے تو میرا۔۔میں تو صرف تجھے بتانا چاہ رہا تھا عشق و عاشقی نہیں کرنی ۔اب کرلیا تو کیا کرسکتے ہیں۔۔ڈھونڈ جا میں خود تیری شادی کرواؤں گا اس سے ۔۔"نادر نے پینترا بدل لیا تھا۔حیدر کئی لمحے اسے جانچتی نگاہوں سے دیکھتا رہا۔
"کسی کی ضرورت نہیں ہے اپنی پری کو میں خود ڈھونڈلوں گا۔"سردمہری سے کہتا وہ گن جینز میں اڑستا باہر نکل گیا۔
"گیا میرا چیتا۔۔ہائے میرے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔۔جاؤ حرامزادو ۔۔ڈھونڈو اس خبیث کی اولاد کو ۔۔سالی کو زندہ زمین میں خود گاڑھوں گا۔۔"وہ چیختا ہوا اپنی جگہ سے اٹھا۔
"حیدر کو بھنک بھی پڑی تو تم سب ساتھ قبر میں جاؤگے۔۔اوئے محسن تیرے کو بول رہا ہوں۔۔سن لے۔۔سب سے پہلے تیری قبر کھودوں گا میں۔۔"نادر اسے خبردار کرتا خود بھی اڈے سے نکل گیا۔
                   ***************
حیدر خضرا کے کالج کے باہر اپنی بائیک پر بیٹھا تھا۔چہرے پر وہی سیاہ ماسک لگارکھا تھا تاکہ پہچانا نہ جاسکے۔اس کی نگاہیں کالج کے گیٹ پر جمی تھیں۔آنکھوں میں عجب سی ویرانی چھائی ہوئی تھی۔کافی دیر گزرنے کے بعد آخر لڑکیاں باہر آتی دکھائی دیں۔وہ متلاشی نگاہوں سے ہر چہرے کو دیکھتا رہا۔خضرا ان میں نہیں تھی۔دفعتاً اس کی نگاہ پریبہ پر پڑی جو ہاتھ میں کتابیں لیے باہر آتی دکھائی دی ۔حیدر نے اپنی بائیک کو کک ماری اور کچھ فاصلے سے اس کا تعاقب کرنے لگا۔کالج سے کچھ فاصلے پر بس اسٹاپ تک آتے حیدر نے اسے آلیا۔یوں اپنے سامنے حیدر کو دیکھ وہ پل بھر کو سہم گئی۔حیدر کا چہرہ چھپاہوا تھا لیکن وہ اب اسے پہچاننے لگی تھی۔اس لیے وہ ماسک میں ہی اسےپہچان گئی۔
"ک۔۔کیا ہوا؟ "پریبہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
"پری کہاں ہے؟ "حیدر نے سوال کیا۔
"کیا مطلب؟ "وہ اپنے خوف پہ قابو پاتی بولی۔حیدر کی سرخ آتش ہوتی آنکھیں اسے ڈرارہی تھیں۔
"مطلب یہ ہے کہ پری کے گھر پر تین دن سے تالا لگا ہوا ہے۔وہ کہاں ہے؟ "
"یہ مجھے کیسے پتا ہوگا؟ ویسے ہی آپ کی وجہ سے اس کی امی نے مجھے بہت ڈانٹا تھا۔انھیں لگا میں نے خضرا کو آپ سے بات کرنے کا کہا ۔کلاسس اسٹارٹ ہوچکی ہیں لیکن آنٹی اسے کالج بھی نہیں بھیج رہیں۔نا میری اتنے دن سے اس سے بات ہوئی ہے۔"پریبہ نے تیزی سے کہا۔
"تو تم نہیں جانتی کہ وہ کہاں ہے؟ یا کہاں ہوسکتی ہے؟ "حیدر نے سردمہری سے سوال کیا۔
"نہیں پتا، پتا ہوتا بھی تو آپ کو نہ بتاتی۔"وہ چڑکربولی۔حیدر نے سرخ ہوتی نگاہوں سے اسے گھورا۔پریبہ تھوک نگل کر نظریں چراگئی۔
"پہلے وہ کہاں رہتی تھی؟ "حیدر نے پوچھا۔
"ناظم آباد میں اپنے آبائی گھر!"پریبہ نے کہا۔
"ایڈریس دو۔"حیدر نے اسی کا بیگ چھین کر اندر سے کاغذ اور پین نکال کر اسے تھمایا۔پریبہ احتجاجی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔
"وقت نہیں ہے میرے پاس! جلدی کرو۔"حیدر نے درشتی سے کہا۔
پریبہ نے ایک روہانسی نگاہ اس پر ڈالی اور پتا لکھنے لگی۔
"اس کے علاوہ کون کون ہے اس شہر میں ان کے رشتہ دار وغیرہ؟ "
"دو ماموں ہیں۔ایک ملیر میں رہتے ہیں ۔دوسرے کلفٹن میں ۔۔کلفٹن والے ماموں سے ان کے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔اور دوسرے ملیر والے ہیں ۔ان کا بیٹا خضرا کا منگیتر ہے۔"پریبہ نے جان بوجھ کر واضح کیا۔حیدر کے دل کو ایک آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ایک قہر آلود نگاہ اس نے پریبہ پر ڈالی۔
"قیامت تک پری حیدر کی ہی رہے گی۔سمجھی!"درشتی سے کہہ کر اس نے پرچہ پلٹا اور اس کی طرف بڑھا۔پریبہ اس کے انداز پر سہم کر خاموش ہوئی۔
"ایڈریس دو  اس کے دونوں ماماؤں کا۔"
"مجھے صرف ایک کا پتا ہے۔"وہ بولی۔
"لکھو!"حیدر نے حکم دیا۔پریبہ منمناتی ایڈریس لکھنے لگی۔
"زیادہ ہوشیاری نہیں کرنی اگلی دفعہ واپس آجاؤں گا اور اتنی نرمی سے بات نہیں کروں گا۔"حیدر نے اسے خبردار کیا۔
"یہ نرمی ہے؟تو گولی چلانا آپ کی ہلکی پھلکی ڈانٹ ہوگی ؟"پریبہ نے تنک کر اس کی طرف دیکھا۔حیدر نے اسے ایک اور گھوری سے نوازا۔پریبہ نے جھٹکنے کے انداز میں پرچہ اس کی طرف بڑھایااور ایک غصیلی نگاہ اس پر ڈالتی آگے بڑھ گئی۔حیدر کی آنکھوں میں ایک نئی امید جاگی تھی۔اس نے پرچی کو بغور دیکھتے ہوئے بائیک اسٹارٹ کی۔اور ایک طرف کو جھک کر آس پاس نگاہ ڈالتے ہوئے اس نے جینز میں اڑسی پستول نکال کر بائیک کی تنکی کے نیچے بنے خفیہ خانے میں ڈالی اور بائیک کی رفتار بڑھادی۔
                      *************
حیدر کو شک تھا کہ نادر نے اس کے تعاقب میں لوگ بھیجے ہوں گے۔اس کا یہ شک درست تھا۔مبین عرف ملّا اپنی بائیک پر اس کے تعاقب میں تھا۔لیکن حیدر جو پہلے ہی حد سے زیادہ محتاط تھا مخلگا۔
"راستے بدلتا رہا کبھی اس سڑک پر تو کبھی کسی گلی میں گھومتا رہا اسی چکر میں ملّا نامی گینگسٹر کئی پیچھے رہ گیا تھا۔حیدر مختلف راستے بدلتا وہ تین گھٹنوں میں ناظم آباد مطلوبہ پتے پر پہنچا۔دروازہ بجانے پر کچھ لمحوں بعد ہی ایک ادھیڑ عمر شخص باہر نکلا۔
"رابعہ بی بی یہاں رہتی ہیں؟"حیدر نے پوچھا۔سامنے کھڑے شخص نے جانچتی نگاہ اس پر پھر ایک طرف ہوکر اس کی اسپورٹ بائیک کو دیکھا۔
"کون رابعہ بی بی؟ "
"جو یہاں رہتی تھیں پہلے؟ "حیدر کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔
"بھئی تم کون ہو؟ "وہ شخص متجسس تھا۔
"تیرے کو جو پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دے۔"حیدر نے آگے کی طرف جھک کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سختی سے کہا۔
"م ۔۔میں نے چھ سات مہینے پہلے ہی یہ گھر خریدا ہے۔اپنے دوست سے۔۔ان کے بھائی تھے حیدر صاحب ۔۔ان کی بیوی تھیں رابعہ!"وہ شخص جلدی سے بولا۔
"تمہارا دوست اب کدھر رہتا ہے؟ "حیدر نے پوچھا۔
"وہ نئے ناظم آباد میں۔ لیکن اس کا چھوٹا بھائی مشتاق اسی گلی میں رہتا ہے ۔وہ گھر ہے کالے گیٹ والا۔"اس شخص نے مخالف سمت میں بنے ایک گھر کی طرف اشارہ کیا۔حیدر نے پلٹ کر اس گھر کو دیکھا اور پلٹ کر اپنی بائیک کی طرف آیا۔
"ویسے تم کون ہو؟ "اس شخص نے تجسس سے مجبور ہوکر پھر پوچھا۔حیدر نے تپی نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے بائیک اسٹارٹ کی اور جواب دیے بغیر بائیک آگے بڑھالے گیا۔بائیک سیاہ گیٹ کے قریب روکتے ہوئے اس نے گیٹ بجایا۔وہ شخص اب بھی کھڑا اسی کو دیکھ رہا تھا۔چند لمحوں بعد گیٹ کھلا اور ایک ساٹھ پینسٹھ سالا شخص باہر آیا۔
"جی؟ کون؟ "اس شخص نے باہر آتے ہی انجان نگاہوں سے حیدر کو دیکھا۔
"رابعہ بی بی آپ کی بھابھی ہیں؟"حیدر نے پوچھا۔
"ہاں! تم کون ہو؟ "وہ شخص چونکا۔
"کہاں ہیں وہ؟ کیا میں ان سے مل سکتا ہوں ابھی؟ "حیدر کے لہجے میں بے چینی اتر آئی۔
"تم کون ہو؟اور کیوں ملنا چاہتے ہو؟ "وہ شخص جانچتی نگاہوں سے حیدر کی آنکھوں کو گھورنے لگا۔
"کیا میں مل سکتا ہوں ان سے یا نہیں؟ "حیدر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا۔
"وہ یہاں نہیں رہتی۔"اس شخص نے کھردرے لہجے میں جواب دیا۔اسے شاید حیدرکا یہ انداز پسند نہ آیا۔ حیدر نے تھکی ہوئی سانس خارج کی اور چند گہری سانسیں لیتے ہوئے خود پر ضبط کرنا چاہا۔لیکن سر درد سے پھٹنے لگا تھا۔اس نے زوردار لات سیاہ گیٹ کو رسید کی۔
"ارے لڑکے پاگل ہوئے ہو کیا؟ یہ کیا طریقہ ہے۔"وہ شخص آگ بگولہ ہوا ۔
حیدر آتش اگلتی نگاہوں سے اس شخص کو گھورتا اپنی بائیک تک آیا اور بائیک اسٹارٹ ہونے تک یوں ہی اس شخص کو گھورتا رہا۔
"پتا نہیں کہاں کہاں سے اٹھ کر آجاتے ہیں۔"وہ شخص بڑبڑاتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور گیٹ بندکردیا۔حیدر نے بھی پوری رفتار سے بائیک آگے بڑھادی۔
                         *************
وہ ملیر پہنچا تو شام گہری ہوچکی تھی۔مختلف گلیوں سے گزرتا وہ مطلوبہ پتے پر پہنچا۔ مکان قدرے چھوٹا تھا۔حیدر مکان سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔یہ اس کی آخری امید تھی۔وہ کافی دیر تک یوں ہی کھڑا مکان کو گھورتا رہا۔اسے شدید پیاس لگی تھی۔وہ صبح گھر سے ایک گلاس پانی پی کر نکلا تھا۔کل شام کو اسے محسن سے زبردستی کھانا کھلایا تھا اور اس کے بعد سے وہ بھوکا تھا۔یہ اس کی زندگی کبھی نہیں رہی تھی۔وہ سارے راستے سوچتا ہوا آیا تھا کہ  محبت اس قدر آزماتی ہے۔اپنی چوبیس سالہ زندگی میں اس نے اپنی زندگی کو اس قدر تلخ کبھی نہیں پایا تھا۔کئی بار ذہن مشورے دینے لگتا۔ کہ چھوڑ یہ بھاگم بھاگ اور اپنی اصلیت کی طرف پلٹ جا۔لیکن دل سنتا تب نا۔وہ تو بس اسے نچائے جارہا تھا۔اور وہ ناچ رہا تھا۔آخر کار ہمت کرکے وہ آگے بڑھا اور بیل پر ہاتھ رکھ دیا۔کئی لمحوں بعد گیٹ کھلا سامنے ایک سانولی رنگت کا نوجوان کھڑا تھا۔حیدر جو اپنی کیپ اتار چکا تھا۔بال ماتھے پر بکھرے تھے۔سرخ آنکھیں سامنے کھڑے لڑکے پر جمی تھیں۔
"رابعہ آنٹی یہی رہتی ہیں؟ "اس نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
"جی! آپ کون ہیں؟ "سامنے کھڑا لڑکے نے شائستگی سے پوچھا۔حیدر نے سکون کی سانس خارج کی۔
"مجھے ملنا ہے ان سے۔"حیدر نے کہا۔
"اندر آجائیں۔"وہ کہتا ایک طرف ہوا۔شاید اسے تمام معاملے سے بے خبر رکھا گیا تھا ورنہ وہ اتنی بے احتیاطی کبھی نہ کرتا۔حیدر اس کے پیچھے اندر داخل ہوا۔
"پھپھو! آپ سے ملنے کوئی آیا ہے۔"اس نے ایک جانب منہ کرکے آواز لگائی۔
"آپ بیٹھیں میں پانی لایا۔"وہ کہتا اندر چلا گیا۔
کچھ لمحوں بعد ہی رابعہ خاتون صحن میں آئیں۔حیدر پر نگاہ پڑھتے ہی وہ لمحے بھر کو حیرت زدہ رہ گئیں۔اگلے ہی پل ان کا چہرہ غیض و غضب کا مظہر ہوا۔
"دفع ہوجاؤ! تم یہاں کیا کرنے آئے ہو؟ "وہ بری طرح چلائیں۔ان کے چیخنے پر حیدر اپنی جگہ سے اٹھا۔اگلے چند لمحوں میں ہی گھر کے تمام افراد وہاں آ جمع ہوئے۔تب ہی پری بھی تیزی سے سیڑھیاں اترتی نیچے آئی۔حیدر پر نگاہ پڑھتے ہی اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرنے لگیں۔حیدر یک ٹک اس کی جانب دیکھتا اسی جانب بڑھا۔
"دور ہٹو۔پیچھے ہٹو۔۔"
"شہروز پولیس کو فون کرو۔۔"
"امی!"خضرا بے اختیار بے چینی سے بولی۔شہروز سمیت تمام افراد نے چونک کر خضرا کی جانب دیکھاتھا۔
"پولیس کو فون کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔"حیدر نے کہتے ہوئے اپنا ماسک نیچے کیا۔خضرا کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔
شہروز سمیت شہروز کی ماں اور چھوٹی بہن نے چونک کر خضرا کی طرف دیکھا۔شاید وہ حیدر کو پہچان گئے تھے۔لمحوں میں انھیں سارا معاملہ سمجھ آگیا۔
"کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔علاقے والوں کو بلاؤگے تو میں شاید یہی مرجاؤں گا۔ لیکن کل یہ علاقہ آگ میں لپٹا ہوا ہوگا۔پولیس ایک گھنٹے سے زیادہ مجھے اپنے پاس نہیں رکھ پائے گی۔اس لیے بہتر ہے میری بات سنی جائے۔"وہ سنجیدگی سے بولا۔
"شہروز ابو کو فون کرو تم!"رابعہ خاتون کانہتےلہجے میں بولیں۔اس دوران حیدر کی نگاہیں خضرا پر ٹکی رہیں۔اتنے دن بعد اسے دیکھ کر اس کے دل میں ڈھیروں سکون اترا تھا۔حیدر کی نگاہیں خضرا پر جمی دیکھ شہروز نے خضرا کی جانب دیکھا اور اسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔خضرا اس کے اشارے کو نظر انداز کرتی وہیں کھڑی رہی۔
"پھپھو خضرا کو اندر بھیجیں۔"شہروز نے دھیمے لہجے میں کہا۔
"تم ابھی تک یہی کھڑی ہو اندر جاؤ۔"رابعہ خاتون دھاڑیں۔خضرا اب بھی وہیں کھڑی رہی۔حیدر کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ چمکی۔
"خضرا!"رابعہ خاتون حلق کے بل چلائیں۔خضرا تنک کر ماں کی جانب دیکھتی ایک جانب بڑھ گئی۔حیدر یوں ہی اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
کچھ دیر گزرنے کے فیروز صاحب گھر آئے۔
"کیا چاہتے ہو تم؟ "فیروز صاحب نے رسان سے سوال کیا۔
"پری!"اس نے یک لفظی جواب دیا۔رابعہ خاتون کا پارہ ہائی ہونے لگا۔
"میری بیٹی کا پیچھا چھوڑ دو حیدر! میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔"رابعہ خاتون تلخی سے بولیں۔شہروز بھی سردمہری سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔
"دیکھو بیٹا! تمہاری زندگی میں اور ہماری زندگی میں بہت فرق ہے۔ہم عام سے شریف لوگ ہیں۔تمہارا طبقہ ہمارے طبقے سے بالکل مختلف ہے۔اور رہی خضرا تو وہ میرے بیٹے کی ہونے ۔۔
"شش!پری صرف میری ہے کسی اور کے ساتھ اس کا نام مت جوڑو۔"حیدر نے درشتی سے کہا۔اس کی آنکھیں سرخ ہوئی تھیں۔
"لیکن ہم اپنی بیٹی کا رشتہ تم سے نہیں کرنا چاہتے۔ختم بات! جاسکتے ہو تم!"رابعہ خاتون غصے سے بولیں۔
"میں سب کچھ چھوڑ چکا ہوں۔ایک عام انسانوں کی طرح رہوں گا۔ وعدہ کرتا ہوں۔میں پری کا بہت خیال رکھوں گا۔ اسے کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔"حیدر نے تحمل سے کہا۔
"تم سب کچھ چھوڑ بھی دو تو تمہیں وہ سب کچھ نہیں چھوڑے گا۔میں ایک قاتل سے اپنی بیٹی کی شادی نہیں کرنا چاہتی۔ایسا میرے جیتے جی ممکن نہیں ۔"وہ صاف انکارکرگئیں۔
حیدر مزید ایک لفظ کہے بنا وہاں سے اٹھ گیا۔میز پر رکھا پانی کا گلاس اٹھاکر اس نے منہ سے لگایا اور ایک ہی سانس میں حلق میں اتاردیا۔وہ سب عجیب نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتے رہے۔حیدر نے ماسک چہرے پر چڑھایا اور باہر نکل آیا۔ابھی وہ بائیک اسٹارٹ کررہا تھا جب بائیک کے ٹائر کے قریب ایک کاغذ کا گولہ آکر گرا۔حیدر نے جھک کر کاغذ کا گولا اٹھایا اور نگاہ اٹھائی سامنے ہی کھڑکی پر خضرا کھڑی نم آنکھوں سے مسکرارہی تھی۔حیدر بھی مسکرادیا۔کئی لمحے وہ یہی کھڑا اسے تکتا رہا۔پھر بائیک اسٹارٹ کرتا وہاں سے چلاگیا۔
                      ************
"ایک ہفتے کے اندر اندر مجھے یہاں سے لے جائیں۔جمعہ کی رات کو میں آپ کا انتظار کروں گی۔"
                                    " حیدر کی پری"
وہ بار بار اس سطر کو پڑھتا رہا۔وہ ساری رات اسی سطر کو گھورتا رہا۔جو قدم وہ اٹھانے جارہا تھا وہ بہت مشکل تھا لیکن اسے اٹھانا تھا وہ فیصلہ کرچکا تھا۔سطر کو مٹھی میں ہی لیے وہ فجر کے قریب سویا تو صبح گیارہ بجے اس کی آنکھ کھلی۔
                  ************
"رات کو میں نے اسے آتے ہوئے دیکھا ہے۔اب وہ جہاں جہاں جائے اس کے ساتھ رہنا ہے وہ کیا کرتا ہے کس سے ملتا ہے سارا پتا ہونا چاہیے۔"نادر نے سامنے کھڑے لڑکوں کو حکم دیا۔
"بھائی آپ سچ میں اس لڑکی کو مارنا چاہتے ہیں؟ "جانی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
"نہیں اس پر روح افزاء چھڑک کر چیتے کو ڈراؤں گا۔سالے کتے مذاق کروں گا میں؟ ادھر میری زندگی مذاق بنی ہوئی ہے ۔اس حرامی کو میں نے اپنے بچے کی طرح پالا ہے۔کرتا ہے کرے شادی۔۔مگر جب میرے دھندے کو لات مارے گا میں اسے ایسا کرنے دوں گا؟ دھرتی ہلادوں گا۔"نادر جلا بیٹھا تھا۔
"بھائی لڑکی مرنے کے بعد وہ کیا واپس آئے گا؟ "راجو نے سوال کیا۔
"اور کیاکرے گا ایک مہینے روئے گا پھر واپس میرے پاس ہی آئے گا۔"نادر کو یقین تھا۔ایسے قصے بہت ہوچکے تھے۔
"مجھے تو نہیں لگتا ایسا۔"ایک اور لڑکا ڈرتے ڈرتے بولا۔
"تو پھر کیا لگتا ہے تیرے کو؟ "نادر نے بھنویں اچکاکر سوال کیا۔
"یا تو وہ خود سنبھل جائے یا ہم سب کو برباد کردے گا۔"اس نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔
"یہ تو اب وقت ہی بتائے گا۔"نادر نے پوچھا۔
"لیکن اگر کوئی لاپروائی ہوئی میں سب کو لنگڑا کردوں گا بتارہا ہوں۔تم سب کو تو پتا ہی ہے داداگیری میں زیادہ تر لڑکے لنگڑا کر کیوں چلتے ہیں۔؟پتا ہے نا؟ ایسی غلطیوں پر گولیاں کھاکر! تو اب کوئی لاپروائی برداشت نہیں کروں گا میں۔"وہ سب کو خبردار کرتا بولا ۔سب سرجھکائے کھڑے رہے۔
                        ************

جاری ہے۔
                   

میں لاپتا از قلم فاطمہ نیازیWhere stories live. Discover now