#میں_لاپتا
#فاطمہ نیازیقسط نمبر:8
رات گہری سیاہ اور کٹھور بنی ستم ڈھائے جارہی تھی۔برف بھری سرد ہوائیں جسم جمائے دے رہی تھیں۔دسمبر کا وسط اور بلوچستان کے پہاڑی علاقے خضدار کی آخری بلند چوٹیاں۔محسن تو کپکپارہا تھا۔جبکہ حیدر لاپروا نظر آرہا تھا۔بلاول شاہ نورانی رحمتہ اللّٰہ علیہ کے مزار سے پندرہ کلو میٹر پیچھے لاہوت لامکاں کے مقام پر حیدر نے اپنی بائیک روک دی۔محسن نے حیرت سے آس پاس کا مقام دیکھا۔
"یہاں بائیک کیوں روکی ہے؟"محسن نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
"پار کریں گے لاہوت لامکاں۔"حیدر نے کہا۔
"دماغ ٹھیک ہے اندھیرا دیکھ! سردی دیکھ کتنی ہے چل ابھی آگے صبح آکر کریں گے۔"محسن کا سوچ کر ہی سانس رک گیا تھا۔اونچی نیچی گھاٹیوں اور پہاڑیوں کے درمیاں خطرناک راستوں اور غاروں سے گزرتے ہوئے لاہوت لامکاں تک پہنچنا ایک بہت مشکل اور خطرناک کام تھا۔یہ جگہ ویرانے کے درمیان کھنڈرات کے درمیان واقع تھا۔اس مقام سے کئی قصے اور روایتیں جڑی تھیں۔کچھ کا کہنا تھا کہ لاہوت لامکاں کے غار میں بی بی فاطمہ کا جھولا ہے غار کے اندر ہی ایک اونٹنی سے مشابہت رکھتا چٹانی پتھر تھاجس کے لیے مشہور تھا کہ وہ کسی بزرگ کی اونٹنی تھی۔ان کھنڈرات کے درمیان پہاڑوں اور چٹانوں کی صورتیں ایسی تھیں کہ مختلف جانوروں کا گماں ہونے لگتا۔پراسرار سی جگہ جو دن کے وقت بھی رونگھٹے کھڑے کردیا کرتا تھا۔اس جگہ کے لیے یہ بھی مشہور تھا کہ کسی زمانے میں یہاں پریوں کا بسیرا تھا جن پر گوگل نامی دیو ظلم ڈھایا کرتا تھا اور پھر اس مقام پر کسی بزرگ کا ظہور ہوا تھا جنھوں نے اس گوگل دیو کو انھی گھاٹیوں میں قید کردیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ آج بھی گوگل دیو ان پہاڑوں کے بیچ کہیں قید ہے اور یہاں سے چیخوں کی آواز آتی ہے۔غرض کہ کئی قصے تھے۔اس مقام کی زیارت کو لوگ سارے پاکستان سے آیا کرتے تھے۔نورانی شاہ کے دربار سے سات پہاڑ عبور کرنے کے بعد لاہوت لامکاں آتا تھا۔جبکہ حیدر نے نورانی کے مقام سے پہلے ہی اپنی بائیک روک دی تھی۔اس وقت یہ جگہ تقریبا سنسنان پڑی تھی۔رات کے اس پہر لاہوت لامکاں کی گھاٹیوں اور خطرناک پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے تنگ و تاریک غاروں کو عبور کرنے کا سوچ کر ہی عام انسان کی گگھی بند ہوجاتی تھی۔
"ابے چل ادھر سے حیدر!"محسن نے اس کا کندھا پکڑ کر کہا۔
"چلتے ہیں یار!"حیدر نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
"ابے رات ہے یار کہاں بھٹکیں گے سانپ بچھو ہوں گے ساری جگہ! مرے گا خود بھی مجھے بھی مروائے گا۔"محسن چڑکر بولا۔
"اچھا یہیں رک جاتے ہیں صبح ہوتے ہی پار کریں گے لاہوت لامکاں کو۔۔پھر آگے جائیں گے یہیں سے۔"حیدر نے کہا۔
"یہاں اتنی ٹھنڈ میں کہاں رکیں گے کدھر سوئیں گے چل یار آگے چلتے ہیں۔مجھے بھوک بھی لگی ہوئی ہے۔"محسن نے کہا۔
"نہیں جارہا میں! جاتو۔۔"حیدر نے چڑکر اسے پرے دھکیلا۔محسن گہری سانس لے کر رہ گیا۔
"کیا بات ہے؟ بتا۔"محسن جو حیدر کی رگ رگ سے واقف تھا سمجھ گیا کہ اسے کوئی بات پریشان کررہی ہے اور فی الحال وہ بھیڑ سے بچنا چاہ رہا ہے۔
"بیٹھتے ہیں ادھر ہی۔"حیدر نے کہا۔
"چل ٹھیک ہے ادھر ہی بیٹھتے ہیں۔وہ اس طرف ایک چھوٹا سا ڈھابہ ہے وہاں چلیں؟ "محسن نے رائے مانگی ۔حیدر نے اثبات میں سرہلایا۔محسن نے شکر کی سانس لی۔رات گہری ہوتی جارہی تھی ۔روشنی کا انتظام بھی نہ تھا۔احتیاط سے بائیک چلاتے وہ پیچھے کی طرف آئے جہاں ایک چھوٹا سا ڈھابہ تھا۔جہاں کچھ مسافر تھے تو کچھ اپنی اپنی گاڑیوں میں تھے۔ان لوگوں نے بھی اپنی بائیک ایک جانب روکی اور ڈھابے کے اندرونی حصے کی جانب بڑھنے لگے۔محسن نے رک کر ایک لڑکے کو چائے اور کچھ کھانے کی چیزیں لانے کی ہدایت دی اور اندر چلا آیا۔اندرونی بیٹھک میں حیدر چارپائی پر لیٹا تھا۔
"اب بول!"
"کیابولوں؟ "حیدر نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے پوچھا۔
"یہی سکون تیرا جو بن گئی ہے وہ ۔"محسن نے کہا۔جانے کیوں وہ اس ذکر پر بےچین ہوجاتا تھا دل اندر ہی اندر کانپ کر رہ جاتا تھا۔
حیدر دھیمے انداز میں مسکرایا۔اس کے کانوں میں خضرا کی آواز گونجی۔اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔محسن بغور اس کے پل پل رنگ بدلتے تاثرات جانچ رہا تھا۔
"میں نے خواب میں بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ کوئی احساس اس قدر خوبصورت ہوسکتا ہے۔میری زندگی ایسی ہے کہ ہر طرف انگارے ہوں۔اور وہ میٹھی ٹھنڈی چھاؤں۔۔میں جب سارا دن گزار کر رات کو گھر جاتا ہوں تو مجھے کسی چیز کی طلب نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ مسکراتے ہوئے نرمی سے کہے "حیدر! آپ آگئے۔" کہاں کی عیاشی کہاں کے نشے؟ میرا دل نہیں چاہتا کچھ کروں بس اس کی باتیں سنتا رہوں اس کو محسوس کروں۔وہ بہت معصوم ہے محسن! بہت اچھی لگتی ہے مجھے۔مجھے ڈر بھی بہت لگتا ہے اس جادوگرنی سے لیکن سکون بھی اسی کے پاس ہے میرا۔ل۔۔لیکن اسے نہیں پتا کہ میں کون ہوں۔"وہ پل بھر کو رکا۔اس کے چہرے پر عجیب سا خوف تھا جس کو دیکھ محسن کے رونگھٹے کھڑے ہونے لگے۔
"جب اسے پتا چلے گا کہ میں پنچولی گینگ کا مین کمانڈر حیدر پٹھان ہوں جس نے ستائیس ہائی پروفائل اور درجنوں اور انسانوں کو قتل کیا ہے۔جب اسے پتا چلے گا کہ میں کراچی کا سب سے بڑا ڈرگ اسمگلر ہوں جب اسے پتا چلے گا دلشاد نگر کا حیدر پٹھان ہوں میں، تب وہ کیا کرے گی۔مجھے چھوڑدے گی۔"حیدر نے محسن کی طرف دیکھا۔محسن اس پل اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگاجہاں ایک بے چینی سی پھیلی ہوئی تھی۔
"محسن! اس سے پہلے مجھے جسم کی بھوک تھی عورت یہی تھی میرے لیے بس! لیکن مجھے اب لگتا ہے کہ خضرا جیسی معصوم اور پاکیزہ عورتیں روح کے سکون کے لیے بنی ہیں ۔اس کے پاس جاکر میری روح کا بوجھ اترنے لگتا ہے۔کیا تجھے بھی رمشاء کے لیے یہ سب محسوس ہوتا ہے؟"حیدر نے سادگی سے سوال کیا۔محسن نے آہستگی سے اثبات میں سرہلایا۔
"اگر رمشاء تجھے نہ ملے؟ "حیدر نے اچانک سوال کیا۔
"میں خوش نہیں رہ پاؤں گا۔"محسن نے فورا جواب دیا۔
"اور مجھے لگتا ہے خضرا مجھ سے دور ہوگی تو میں مرجاؤں گا۔"حیدر نے خوف زدہ تھا۔محسن ساکت رہ گیا۔
"حیدر؟ تو ایک لڑکی کے لیے مرجائے گا؟تو کون ہے جانتا ہے نا؟ کراچی کے خطرناک ترین لوگوں میں شامل ہے تو۔۔ایک دنیا تجھ سے ڈرتی ہے ۔۔تو طاقت کی نشانی ہے ۔بہادری ۔۔ہمت ۔۔سب ہے تجھ میں۔۔۔"
"ہاں مجھے لگتا تھا کہ مجھے کبھی کوئی ہرا نہیں سکتا ڈرا نہیں سکتا۔کمزور نہیں کرسکتا میں تو حیدر پٹھان ہوں نا۔۔لیکن اب لگتا ہے ڈر خضرا سے۔۔میں کمزور محسوس کرتا ہوں جب میں خضرا کو خود سے دور رکھ کر سوچوں۔میں آج یا کل بھائی کو ۔۔
"نہیں! نہیں حیدر نہیں ۔۔"محسن نے تیزی سے نفی میں سرہلایا۔
"بھائی کو ابھی کچھ مت کہنا! میں بات کروں گانا۔"
"نہیں میں خود کروں گا۔"حیدر نے کہا۔
"بڑا بھائی ہوں نا تیرا ۔۔ ہمیشہ تیری سنتا ہوں نا۔میری سن لے اس بار!بھائی نے کیا کہا تھا یاد ہے؟ محبت کے چکروں میں نہیں پڑنا؟ یاد ہے رمشاء کی دفعہ کتنا ہنگامہ کیا تھا اس نے ۔۔پھر تو تو سب سے خاص ہے حیدر ۔۔مناسب وقت آنے دے۔"محسن نے اسے نرمی سے سمجھایا۔
"بھائی مان جائے گا یار شادی ہی تو کرنی ہے۔کیا بھائی نے نہیں کی؟ "حیدر نےکہا۔
"تو پاگل ہے کیا؟ تیرےبھیجے میں یہ بات کیوں نہیں بیٹھ رہی؟ وہ بھائی ہے ۔استاد ہے گینگ کا لیڈر ہے۔اور تو اس کا اہم سپاہی۔۔وہ نہیں چاہے گا کہ تو اس کے گینگ اور علاقے کے علاوہ کچھ اور سوچے تیرا دھیان بٹے۔۔جب سے تیری زندگی میں خضرا آئی ہے تب سے وہ اسی کھوج میں لگا ہے کہ تیری توجہ بٹنے کی وجہ جان سکے۔"محسن پھٹ پڑا۔
"دماغ خراب ہے کیا سالے؟ بھائی ہے وہ میرا مجھے بچپن سے پالا ہے اس نے۔"حیدر نے غصیلے انداز میں کہا۔
"حیدر! حیدر میرے چیتے! جانتا ہوں بھائی ہے باپ بن کے پالا ہے ۔لیکن اس لیے کہ کل کو اس علاقے کو سنبھال سکے اس لیے نہیں کہ محبت کرکے شادی کرے گھر بسائے بیوی کی زمہ داریاں اٹھائے بچے پیدا کرے خاندان بنائے۔سمجھا۔۔میر داد بھی تو بچپن سے اس اڈے پہ رہا ہے۔۔ بھائی نے اس کو فری ہینڈ دیا؟ نہیں ۔۔مجھے دیا؟ نہیں ۔تجھے یہ سب اس لیے دیا ہے کہ تو اس علاقے کو سنبھالے ۔۔تجھے ہی یہ سب کرنا ہے۔ہم لوگوں کو لڑکیوں سے دور رکھتا ہے تاکہ ہم کام زیادہ کریں اڈے پر رہیں تجھے اجازت ہے ۔اس لیے کہ وہ تجھے خوش مطمئن دیکھنا چاہتا ہے لیکن ایسی زندگی میں ہی ۔۔۔شادی شدہ گھر بسانے والی زندگی میں نہیں۔"محسن نے پرزور انداز میں کہا۔حیدر خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
"لیکن اس نے مجھے بچے کی طرح پالا ہے۔"حیدر نے ایک بار پھر کہا۔
"جانتا ہوں میں جان جانتا ہوں۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تجھ سے محبت نہیں کرتا بھائی، یا تجھے بچوں کی طرح نہیں پالا لیکن اس انداز میں جائے گا تو قیامت ہی آئے گی تیرے اوپر!"محسن نے کہا۔
حیدر نے اثبات میں سرہلادیا۔
"میں سمجھ گیا۔"حیدر بولا۔
"بہت شکریہ۔"محسن نے سکھ کی سانس لی۔
"چل اب تھوڑی دیر آرام کرلے پھر چلنا ہے ہمیں۔"محسن نے کہا۔حیدر نے اثبات میں سرہلایا اور آنکھیں موند لیں۔آنکھیں بندکرتے ہی اس کی آنکھوں کے پردے پر وہ چہرہ چھاگیا جس کو سوچتے ہی اس کی روح میں سرشاری پھیل جاتی تھی۔
***********
صبح ہوتے ہی وہ لوگ لاہوت لامکاں کی جانب چل دیے۔ایک گھنٹہ پیدل چلتے وہ لوگ لاہوت لامکاں کے غار تک آئے ان دونوں نے دعا کی۔حیدر نے غار کے قریب بیٹھے ملنگ سے موتی والے دھاگے لے کر بدلے میں اسے کئی نوٹ تھمائے کچھ دور آنے پر ایک اور زائر سے انگھوٹی خریدی ۔اس نے یہ انگوٹھی اور دھاگہ خضرا کے لیے لیا تھا۔
"محسن! وہ شال ملتی تھی نا پہلے یہاں؟ "حیدر بائیک کی طرف آتے ہوئے کہا۔
"یہاں نہیں تھوڑا آگے چل کر آتی ہے مارکیٹ ۔لیکن تو مت لینا میں رمشاء کے نام سے لوں گا ورنہ بھائی کو شک ہوگا۔"محسن نے کہا۔
حیدر نے اثبات میں سرہلایا اور بائیک اسٹارٹ کرنے لگا۔
***********
"آرام سے چار دن بعد آتے نا سالوں!"نادر ان کو دیکھتے ہی سیخ پا ہوا۔
"معاف کردو بھائی! دراصل چیتے کو لاہوت جانا تھا۔"محسن نے حیدر کی طرف دیکھ کر کہا۔
"ہیں؟ لاہوت پر چڑھ کر آئے ہو؟"اس نے حیرت سے حیدر کی جانب دیکھا۔
"ایسا کیا چاہیے جس کو مانگنے کے لیے لاہوتی بننے چلا گیا؟ "نادر نے بظاہر لاپروائی سے پوچھا تھا۔حیدر نے محسن کی جانب دیکھا۔محسن نے نادر کی جانب دیکھا۔جو حیدر کو دیکھ رہا تھا۔
"ہزاروں خواہشیں ہوتی ہیں بھائی! "حیدر سادگی سے کہتا اپنا بیگ کھولنے لگا۔نادر چپ چاپ حیدر کی جانب دیکھتا رہا۔اس کے دل میں کچھ تھا جو نادر سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔لیکن سمجھ نہیں پارہا تھا۔حیدر ایک جانب بیٹھا اپنے بیگ سے سامان نکالتا رہا۔
"خیر پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے رات کو پہلی باری شروع ہورہی ہے نگرانی کرتے رہنا۔"نادر نے حیدر کو حکم دیا۔حیدر فقط سرہلاکر رہ گیا۔
***********
یہ ایک کھلا میدان تھا جس کے پچھلے حصے میں مزار کا احاطہ شروع ہوتا تھا۔اس طرف گھنی جھاڑیاں اور گھنے پیڑ تھے۔ایک جانب قطار میں دیگیں تیار ہورہی تھیں۔حیدر سر پر رومال باندھے ہاتھ پیٹھ پر باندھے کھڑا تھا۔محسن کو اس نے قریبی بازار بھیجا ہوا تھا۔آس پاس گینگ کے لڑکے ٹولیوں میں بٹے مذاق مستیوں میں مگن تھے۔تمام لڑکے کم عمر تھے۔سترہ اٹھارہ کی عمر میں ان کے ہاتھوں میں خطرناک ہتھیار تھے۔معصومیت جانے کہاں کھوگئی تھی۔وہ بچپن سے اسی ماحول میں تھے اس لیے ڈر مرچکا تھا۔قریب کھڑے لڑکوں کے قہقہے بلند ہوتے تو حیدر فقط انھیں دیکھ کر رہ جاتا۔آج کل وہ لوگ حیدر کے سامنے بھی مذاق مستی کرنے لگے تھے۔یہی بات تھی جس نے نادر کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا تھا۔وہ لڑکے جو حیدر کی موجودگی میں چوں تک کی آواز نہیں نکالتے تھے اب قہقہے لگائے پائے جاتے اور حیدر اپنے آپ میں کھویا رہتا تھا۔دفعتا حیدر کا فون بجا اس نے چونک کر فون نکالا اور لب بے اختیار مسکراہٹ میں ڈھلے۔
"پری! تم اس وقت؟ "وہ خوشگوار حیرت میں گھر کر بولا ۔
"جی ہاں آپ کی پری نے سوچا آج اپنے کھڑوس راجا کو سرپرائز دیا جائے۔آج آرہے ہیں نا؟ "خضرا چہک کر بولی۔
"ن۔۔نہیں وہ دراصل پری ۔۔
"وہاٹ پری؟ نہیں آرہے؟ "وہ فورا خفاہوئی۔حیدر نے پریشان ہوکر پیشانی کو شہادت کی انگلی سے کھجایا۔
"میری بات تو سنو نا پری!"حیدر نے نرمی سے سمجھانا چاہا۔
"جی سنائیں؟ کیا سنانا ہے؟"وہ تلخی سے بولی۔
"نہیں پہلے پیار سے بات کرو ۔ایسے نہیں تمہیں اچھی طرح معلوم ہے مجھے کتنا برا لگتا ہے تمہارا ناراض ہونا۔"حیدر چڑکر بولا۔خضرا زرا بھی سختی یا تلخی سے بات کرتی حیدر چڑنے لگتا تھا۔
"اچھا نا بتائیں کیا بات ہے اور آج آپ کیوں نہیں آرہے؟ "خضرا نے پوچھا۔
"کام پورا نہیں ہوا نا۔"حیدر منہ بناکر بولا۔
"بھئی! "وہ ناراضی سے اس لفظ کو کھینچ کر بولی۔حیدر کے لب مسکرا دیے۔یہ انداز ہی تو اس کا پسندیدہ تھا۔
"حیدر!"اس بار خضرا نے اس کے نام کو اسی طرح کھینچ کر ادا کیا۔
"ہاں حیدر کے جگر کے ٹکڑے بول!"وہ محبت سے بھرپور لہجے میں بولا۔اس کے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ تھی۔کچھ دور ٹینٹ کے سائے میں کرسی پر بیٹھا نادر بغور حیدر کو دیکھ رہا تھا۔
دوسری طرف خضرا گنگ رہ گئی تھی چہرہ سرخ ہوا تھا لب مسکرادیے تھے۔
"ہاں، بولو نا اب۔"حیدر نے پھر کہا۔
"بھئی میں بھول گئی کیا بات تھی۔"وہ بے چارگی سے بولی تو حیدر قہقہہ لگاکر ہنس دیا۔اس کے یوں ہنسنے پر کچھ قریب کھڑے لڑکوں نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا۔نادر نے جبڑا بھینچ کر کرسی کے ہتھے پر گرفت سخت کی۔
"بھئی نہ ہنسیں یاد آگیا مجھے ۔وہ میں کہہ رہی تھی دو دن سے آپ کو دیکھا نہیں ہے بہت مس کررہی ہوں۔"وہ منہ بسور کر لاڈی سے بولی۔
"کیا کر رہی ہو؟ "حیدر نے جان بوجھ کر ان سنی کی۔
"مس کر رہی ہوں نا پک بھیجیں آج مجھے اپنی ۔"خضرا نے فرمائش کی۔
"تصویر بھیجوں؟ "حیدر نے پرسوچ انداز میں سوال کیا۔
"ہاں نا! "خضرا نے وہی مخصوص انداز میں بات کو کھینچا۔حیدر پھر مسکرادیا۔
"اچھا بھیجتا ہوں۔لیکن ابھی کال مت کاٹنا بات کرو۔"حیدر نے کہا۔
"نہیں ابھی پک بھیجیں۔امی کسی بھی وقت میرے کمرے میں چھاپا مار سکتی ہیں۔میں رات کو کال کروں گی نا۔"خضرا نے جلد بازی سے کہا ۔
"اچھا ٹھیک ہے۔خیال رکھنا اپنا ۔"
"آپ بھی۔"خضرا نے کہتے ہوئے فون بند کردیا۔حیدر نے جھٹ سے اپنی دو تین تصویریں لے کر اسے بھیج دیں اگلے لمحے ہی جواب آگیاتھا۔
"My cutie pie Haider. "
ساتھ ہی کئی دھڑکتے ہوئے دل بھیجے گئے۔حیدر دلکشی سے مسکرا دیا۔اس کا مزاج اچانک ہی خوشگوار ہوگیا تھا۔کچھ دور ٹینٹ میں بیٹھا نادر ہنوز شکی نظروں سے حیدر کی جانب دیکھ رہا تھا۔
***********
"بھائی میں نے تو کسی سے بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا اسے، یا میرے سامنے نہیں کرتا ہوگا۔"محسن نے بمشکل لہجے کو معتدل رکھا۔
"میں کدھر سارا وقت ہوتا ہوں اس کے ساتھ؟ مجھے پورا یقین ہے کوئی چکر ہے خطرناک والا۔شام کو میں نے دیکھا کسی سے بات کررہا تھا۔"
"بھائی یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں ۔"محسن نے کہا۔
"ابے سالے میرے کو بھی پتا ہے نئی بات نہیں ہے۔لیکن جتنی اس کی زندگی ہے نا اتنا میرا تجربہ ہے سارے رنگ ڈھنگ جانتا ہوں سمجھتا ہوں۔یہ سالی محبت ہوتی ہی کتی چیز ہے برباد کردیتی ہے۔اپنے چیتے کو نہ ہوجائے۔۔جو بھی ہے وہ لڑکی پتا چلانا پڑے گا۔حیدر نے ابھی تک مجھے نہیں بتایا ورنہ میں خود نپٹ لیتا۔"نادر کے لہجے میں پریشانی صاف ظاہر تھی۔محسن جھرجھری لےکر رہ گیا۔اسے دل ہی دل میں حیدر پر تاؤ بھی آیا تھا وہ بالکل ہی لاپروائی برت رہا تھا۔جانے کیوں وہ اس معاملے کی سنگینی کو سمجھنے سے قاصرتھا۔
نادر اپنی شال لپیٹ کر ٹینٹ سے نکل گیا۔محسن وہیں کھڑا گہری سوچ میں گم تھا۔
*************
بارہ بجنے میں چند منٹ باقی تھے۔حیدر کی نگاہ بار بار کلائی پر بندھی گھڑی پر بھٹکنے لگتی۔عجیب سی بے چینی نے اس کے گرد گھیرا تنگ کیا ہوا تھا۔یہ روز کی صورتحال تھی۔ایک طرف تیز آواز میں قوالیاں بج رہی تھیں۔دوسری باری کی دیگیں قطار میں تیار ہورہی تھیں۔ٹھنڈ بھی زوروں پر تھی۔کچھ لڑکے ایک طرف آگ جلائے ہاتھ سینکتے ہوئے چائے پی رہے تھے۔کچھ فاصلے پر کچھ لڑکے حقہ جلائے بیٹھے تھے۔حیدر سب سے الگ کھڑا تھا جہاں قوالیوں کی آواز کم آرہی تھی۔نادر بھی ایک طرف کرسی لگائے بیٹھا تھا۔محسن بھی قریب کھڑا تھا۔
"دیکھ رہا ہے اس کی بے چینی ۔"نادر نے داڑھی کھجاتے ہوئے محسن کی طرف دیکھا۔محسن نے تھوک نگل کر اثبات میں گردن ہلائی۔
"میرا چیتا ہاتھ سے جائے اس سے پہلے ہی یہ قصہ ختم کرنا ہے۔"نادر کی آنکھوں میں عجیب سی بے چینی اتری تھی۔محسن کچھ کہہ نہ سکا فقط پریشان نگاہوں سے گھاٹی کے آخری سرے پر کھڑے حیدر کو دیکھتا رہا۔جو اپنا فون ہاتھ میں لیے اسی حصے میں ٹہل رہا تھا۔
"یاد ہے تیرے کو پچھلی دفعہ آئے تھے ہم، تب حیدر زیارت پر آئی لڑکیوں کو چھیڑتا ادھر ناچ گانا کررہا تھا۔دو ڈھائی مہینے ہوگئے اس نے شراب نہیں منگوائی ۔اڈے سے اپنے لیے مال بھی نہیں لےکرجارہا ۔"نادر کے لہجے میں آگ تھی۔
محسن نے اثبات میں سرہلایا۔
"پھر بھی تو بولتا ہے کہ میرا وہم ہے؟ دیکھ محسن مجھے بتا دے کون ہے وہ لڑکی؟"نادر نے گردن گھماکر محسن کو گھورا۔اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں سفاکی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔
"قسم میری ماں کی مجھے نہیں پتا۔"محسن فورا بولا۔
"سالے ماں کی قسم تو ایسے کھارہا ہے جیسے ماں کی گود میں پل کر جوان ہوا ہے۔ماں کا پتا بھی ہے تیرے کو؟ "نادر نے استہزائی انداز میں پوچھا۔محسن کھسیاکر ہنس دیا۔
حیدر جو اتنی دیر سے بے چینی سے ٹہل رہا تھا دفعتا رکا۔اس کے چہرے پر عجب سی چمک آئی تھی۔اس کا فون بجا تھا۔اس نے ایک لمحہ رکے بغیر فون اٹھا کر کان سے لگایا۔
"حیدر!"خضرا کی پکار سنتے ہی حیدر کی رگ رگ میں سکون اترنے لگا۔وہ مسکرادیا۔
"حیدر کی پری! پتا ہے کب سے انتظار کررہا ہوں تیرا میں ۔"محبت سے کہتا وہ مسکرایا۔وہ جب زیادہ محبت سے بات کرتا تو "تو"کہہ کر مخاطب کرنے لگتا تھا۔
"سچ میں؟ "خضرا کھلکھلائی۔
"ہاں سچ میں! جلدی فون کیوں نہیں کرتی۔"حیدر نے منہ بناکر کہا۔
"ٹائم ہی نہیں ملتا۔"خضرا نے شرارت سے کہا۔
"کیا کہا؟پٹنے والی نہیں کر ۔۔"حیدر اس کی شرارت سمجھ کر ہنس دیا۔
"مزہ آرہا ہے وہاں کیسی جگہ ہے؟ ویسے ہے کہاں یہ جگہ؟ پک میں تو بہت زبردست بیک گراونڈ آرہا تھا۔"خضرا بولی۔
"کوئی نہیں مزہ بالکل نہیں آرہا۔"حیدر نے صاف گوئی سے کہا۔جانے کیوں اس سے دور ہونے کا احساس کسی طور اسے چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ایک وقت تھا وہ پورا سال اس ماہ کا انتظار کرتا تھا۔یہ اس کی پسندیدہ جگہ تھی وہ کہیں نہیں جاتا تھا سوائے شاہ نورانی کے مزار کے۔۔وہ ہر سال عرس کا شدت سے انتظارکرتا تھا۔لیکن اس بار نہیں ۔۔سارا دھیان ساری سوچیں ہر پل خضرا کے گرد گھومتی رہتیں تھیں۔
"مزہ کیوں نہیں آرہا۔"خضرا نے پوچھا۔
"تم سے دور ہوں میں۔"حیدر منہ بناکر بولا۔
"تو یہاں ہوکر کون سا آپ میرے ساتھ رہتے ہیں؟کہیں آپ کے ساتھ بھی میرے والا سین تو نہیں ہورہا کہ یہی خیال سکون کے لیے کافی ہے کہ آپ اسی بلڈنگ میں رہ رہے ہیں آس پاس ہی ہیں۔"
"ہاں! "حیدر بے ساختہ بولا۔خضرا مسکرادی۔
"اچھا ہے اور جائیں کام سے باہر! ہنہ مجھے پتا تھا مجھے مس کریں گے آپ ۔وہاں تھوڑی کوئی کھڑکی پر آپ کا انتظار کرتا ہوگا۔"وہ نروٹھے پن سے بولی۔حیدر بے اختیار مسکرادیا۔
"اوپر سے ہنس رہے ہیں ویسے نا بڑے ہی ڈھیٹ ہیں۔اب بھی بول دیں کہ پیار نہیں کرتے آپ ۔۔بس اچھی لگتی ہوں میں ہےنا حیدر صاحب؟"خضرا طنزیہ انداز میں بولی۔
"ہاں میں تھوڑی کرتا ہوں پیار تم سے چوئی!"
"حیدر! خبردار چوئی کہا تو ۔۔"خضرا فورا چڑ گئی۔
"بولوں گا چوئی موئی!"حیدر مسکرایا۔مسکراتے مسکراتے پلٹا تو اس کی نگاہ سیدھی سامنے بیٹھے نادر پر گئی جو سرد نگاہوں سے حیدر کی جانب دیکھ رہا تھا۔حیدر پل بھر کو ٹھہر گیا۔
"حیدر!"اسی پل خضرا کی مسکراتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔حیدر نادر پر نگاہ ڈالے بغیر اس جگہ سے ہٹتا اندھیرے والے حصے کی جانب چلا آیا۔
"حیدر!"خضرا نے پھر پکارا۔
"ہمم!"اس نے آہستگی سے کہا۔
"کیا ہوا آپ کو اچانک؟"خضرا نے اس کے لہجے کی بجھا ہوا انداز فورا محسوس کرلیا۔
"کچھ نہیں پری! پریشان مت ہو۔"اس نے فورا خود کو سنبھالا۔
"کوئی مسئلہ ہے؟"خضرا نے پوچھا۔
"نہیں میری جان تم بات کرو۔کھانا کھایا ہے؟"حیدر نے نرمی سےپوچھا۔
"نہیں، امی سے کہا تھا مجھے کیک لادیں۔ڈانٹ دیا انھوں نے مجھے ۔میں نے بھی غصے میں کھانا نہیں کھایا۔"َخضرا نروٹھے پن سے بولی۔
"پھر کہتی ہو حیدر ڈانٹتا ہے؟ ہاں ڈانٹ والے کام کررہی ہو نا پھر؟ بند کردوں فون؟"حیدر غصے سے بولا۔
"حالت دیکھی ہے اپنی؟ کتنی کمزور ہو۔کبھی تو بولا کرو کہ ہاں کھالیا ہے ۔رکو ایک منٹ ہولڈ کرو!"حیدر نے کال کاٹے بغیر کان سے ہٹایا اور کسی کو میسج کرنے لگا۔میسج کرنے کے بعد اس نے فون دوبارہ کان سے لگایا۔
"ہاں اب بولو۔"حیدر نے کہا۔
"کیا بولوں؟ آئی لو یو کہہ دوں جواب دیں گے؟ "خضرا نے چہکتے ہوئے کہا حیدر مسکرایا۔
"نہیں میں جواب نہیں دوں گا۔"حیدر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"بھئی کیوں؟ "وہی مخصوص انداز میں الفاظ کھینچنا۔حیدر کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔
"بھئی میری مرضی!"حیدر نے اس کی نقل اتاری۔
خضرا کھلکھلاکر ہنس دی۔
"بہت کیوٹ لگا۔پھر سے کریں۔"خضرا ہنستے ہوئے بولی۔
"جب میں کہتا ہوں پھر سے بولو بولتی ہو؟ "حیدر کو اپنا بدلہ یاد آیا۔
"بھئی! بولیں نا۔"خضرا نے وہی مخصوص انداز اپنایا۔حیدر ہنس دیا۔
"پھر بولو!"
"اف بھئی!"خضرا چڑچڑے انداز میں بولی ۔
اسی پل حیدر کے فون پر ایک اور کال آنے لگی۔حیدر نے کان سے ہٹاکر نمبر دیکھا اور پھر فون کان سے لگایا۔
"اچھا چلو بہت مستی ہوگئی باہر جاکر گیٹ کھولو مبشر آرہا ہے ۔"
"ہیں کیوں؟ "خضرا حیرت سے بولی۔
"فورا مت کھولنا۔کھڑکی پر جاکر دیکھو وہ آیا ہے۔"حیدر نے کہا۔خضرا پلنگ سے اتر کر کھڑکی تک آئی۔سترہ اٹھارہ سالہ لڑکا مبشر اکثر حیدر کے کہنے پر خضرا کے لیے آئسکریم کیک وغیرہ لایا کرتا تھا۔ابھی بھی وہ اپنی بائیک سے اترتا دکھائی دیا۔
"کیا منگوایا ہے؟ "خضرا نے پوچھا۔
"جو تم کھاتی ہو۔"حیدر نے کہا۔
"جب تک وہ واپس نہ چلا جائے تب تک گیٹ مت کھولنا۔"
"ارے ہاں نا پتا ہے بھئی۔"خضرا مسکرائی۔
"ٹھیک ہے کھانا کھاؤ شرافت سے ۔۔صبح کالج جانا ہے نا؟سوجانا پیپر ہے نا تمہارا"
"بھئی بات نہیں کریں گے کیا؟یاد ہے مجھے سب"خضرا رونکھی ہوئی۔
"نیند نہ آئے تو کال کر لینا پھر۔لیکن سونے کی کوشش کرنی ہے سمجھ آئی؟"حیدر جانتا تھا وہ تھوڑی دیر بعد کال کرکے کہے گی کہ نیند نہیں آرہی ۔حیدر اسے اچھی طرح سمجھتا تھا۔
"اچھا ٹھیک ہے ۔ویسے میں دن میں سوگئی تھی۔"خضرا نے جتانا چاہا۔
"اچھا بابا کھانا کھا لو پھر کال کرلینا انتظار کر رہا ہوں۔"حیدر نے ہنستے ہوئے فون بندکردیا۔اور ٹینٹ کی جانب بڑھ گیا ۔
*************
"کس سے بات کررہا تھا؟"نادر نے اسے ٹینٹ میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔
"دوست سے۔"حیدر نے محسن کی طرف دیکھا۔محسن کی آنکھوں میں خاموش التجا تھی۔
"کون سی دوست؟ دوستیں کب سے بنانا شروع کردی؟کال گرلزپالتا تھا نا تو؟"نادر نے لوہا گرم دیکھ کر چوٹ کی۔حیدر کے لب بھینچ گئے۔
"یہ گھنٹوں کی کالیں؟ یہ مسکراہٹیں؟ ہنسی؟ دیکھ چیتے ۔۔ہمارے پاس دلشاد نگر ہے سب سے بڑا سب سے مین علاقہ ۔۔اس پر راج کرنے کے لیے ہم کو طاقت چاہیے ۔دماغ چاہیے ۔۔تیرے پاس یہ دماغ ہے طاقت ہے ۔۔سارے مل کر ہم کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔یہ علاقہ گیا نا ہمارے ہاتھ سے نہ تو بچے گا نہ میں۔"نادر نے صاف سیدھی بات سامنے رکھی۔
"ایسی کیا قیامت آگئی ہے؟ کس میں ہمت ہے ہمیں کمزور کرے؟ ہم کمزور کب سے ہونے لگے؟ کیسے؟ کیوں؟ کیسی بات کررہے ہو بھائی؟ بولا نا دوست ہے بس!اب ضروری تو نہیں کہ ہر بات پر قیامت مچائی جائے ۔"حیدر کی آواز بلند ہوئی۔ یہ آزادی فقط اسے حاصل تھی۔وہ احتجاج کرسکتا تھا۔غصہ کرسکتا تھا۔اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرسکتا تھا۔اور آج نادر کو لگ رہا تھا اسے اتنی آزادی دے کر غلطی کربیٹھا ہے وہ۔
"قیامت اگر آئے گی نا چیتے۔۔لانے والا تو ہوگا یاد رکھ۔وقت ہے سنبھل جا۔اس دھندے میں دل کے معاملوں کا کوئی مول نہیں ۔۔"نادر پنچولی اس کا کندھا تھپتھپاکر ٹینٹ سے نکل گیا۔حیدر نے گردن گھماکر نادر کو جاتے ہوئے دیکھا۔
"بھائی ٹھیک کہہ رہا ہے ۔خود کو سنبھال! تو حد سے جارہا ہے ۔لڑکی پاگل کررہی ہے تیرے کو۔"محسن نے آہستگی سے کہا۔حیدر سرجھٹک کر رہ گیا اسی پل اس کا فون بجنے لگا۔خضرا کا فون تھا۔حیدر خاموش نگاہوں سے بجتے فون کو دیکھتا رہا۔اس نے فون نہیں اٹھایا۔فون کئی دفعہ بج کر خاموش ہوگیا۔حیدر وہیں بیٹھ گیا اور فون زمین پر رکھ دیا ۔خود بھی زمین پر لیٹ گیا۔آنکھیں موندلیں۔دل اچانک ہی ہر چیز سے خفاہوگیا تھا۔
***********
اگلا دن حیدر کے لیے ایک بھاری سل ثابت ہوا۔رات کو خضرا کا فون نہ اٹھانے کے بعد وہ بے چینی سے صبح کا انتظار کرتا رہا۔صبح ہوئی تو وہ باہر نکل آیا۔سب جاگ رہے تھے۔بے فکر،پرسکون تھے۔ایک وہ تھا بے چین روح کی مانند یہاں سے وہاں ٹہلتا رہا۔خدا خدا کرکے رات آئی تو وہ گھاٹی کے قریب بیٹھ کر اس کے فون کا انتظار کرنے لگا۔بارہ بج کر گزر گیا ۔ایک بج گیا۔حیدر کی بے چینی بڑھتی رہی۔وہ جتنا بھی خفاہو فون ضرور کرتی تھی۔حیدر نے کچھ سوچتے ہوئے میسج لکھا۔میسج دیکھ لیا گیا تھا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔حیدر مزید پریشان ہوا اور فون کرنے لگا۔چند گھنٹیوں بعد فون اٹھالیا گیا۔آج اس نے چہکتے ہوئے اسے پکارا نہیں ۔حیدر کا دل بجھ گیا۔
"پری! بہت ناراض ہو کیا کال تک نہیں کی؟ نام تک نہیں لیا۔"حیدر نے شکوہ کیا۔
"ناراض نہیں ہوں آپ سے۔"وہ آہستگی سے بولی۔اس کا لہجہ مرجھایا ہوا تھا۔
"پھر کیا ہوا اداس کیوں ہو؟"حیدر پریشانی سے بولا۔
"ک۔۔کچھ نہیں ۔۔"اس کا لہجہ بھراگیا۔
"پری! میری جان کیا ہوا؟ بتاؤ مجھے؟ "اس نے نرمی و محبت سے پوچھا۔
خضرا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔حیدر کا دل رک گیا۔دھڑکنا بھول گیا۔اسے لگا کسی نے اس کا دل نچوڑ کر رکھ دیا ہو۔
"پری! کیا ہوا۔۔رونا بند کرو بتاؤ مجھے۔۔پری! میری جان کیا ہوا؟ "حیدر بے چینی سے بولا ۔اسے اس کا رونا تکلیف دے رہا تھا۔وہ اس کے رونے پر مچل اٹھا تھا۔خضرا نے فون بندکردیا ۔
"کہیں اسے میری حقیقت ۔۔"حیدر جان سے لرز اٹھا۔اس نے دوبارہ فون ملایا۔لیکن فون بند ہوچکا تھا۔حیدر بے چینی سے ٹہلتا بار بار فون ملاتا رہا جو مسلسل بند جارہا تھا۔دفعتاً حیدر کو ایک خیال آیا اس نے پریبہ کا نمبر ملایا۔جو فورا ہی اٹھالیا گیا۔
"حیدر بھائی؟ آپ اس وقت خیریت؟ "پریبہ کے لہجے میں بھی پہلے سی گرمجوشی منقود تھی۔
"پری کو کیا ہوا ہے؟ "حیدر نے چھوٹتے ہی سوال کرڈالا۔
"آپ سے بات ہوئی ہے اس کی؟ "
"ہاں رورہی تھی ۔کیا ہوا ہے اسے؟ بتاؤ مجھے۔"حیدر بےچینی سے بولا۔
"وہ ۔۔حیدر بھائی۔۔"پریبہ نے بتانا شروع کیا۔جیسے جیسے حیدر سنتا گیا اس کا چہرہ اور آنکھیں سرخ ہوتی گئیں۔فون بندکرتے ہی وہ تیز قدموں سے چلتا ٹینٹ تک آیا۔اس کا چہرہ خطرناک حد تک سپاٹ تھا۔اس کی آنکھیں خون چھلکانے کو بےتاب تھیں۔اس نے جھک کر اپنا بیگ اٹھایا۔پیٹرول کا کین لیے ٹینٹ سے نکلنے لگا۔سب دیگوں کی طرف کھڑے تھے۔اسے وہاں سے جاتے کسی نے نہیں دیکھا۔اس نے بیگ پیٹھ پر ڈال کر بائیک کو پیٹرول سے بھرا اور کین کو بائیک کی پشت پر باندھ کر بائیک پر سوار ہوگیا۔
**************
خضراپلنگ پر سرلپیٹے لیٹی تھی۔اس کی آنکھیں اور گال رونے کے باعث سرخ ہورہی تھیں۔دل تھا کہ رونے کو مچل رہا تھا۔اس کا دل چاہ رہا تھا ہر چیز تہس نہس کردے لیکن اس کے بس میں کیا تھا؟ وہ کیا کرسکتی تھی؟ ایک بے بس و لاچار لڑکی تھی۔اس کی عزت پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان تھا کیا؟ اس کا دل یک دم اس دنیا سے بری طرح اچاٹ ہوگیا تھا۔درس و تدریس جیسے مقدس پیشے سے وابستہ ہوکر بھی انسان اتنا گھٹیا ہوسکتا ہے۔وہ بات یاد کرتے ہی خضرا پھر رونے لگی۔اس نے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا سوائے پریبہ کے ۔وہ اور کسی کو بتانہیں پائی تھی۔حیدر کو بھی نہیں ۔۔کیسے بتاتی؟ کیا بتاتی؟
اس کی آنکھوں سے تیزی سے آنسو بہے رہےتھے۔وہ سسک رہی تھی۔بری طرح ہڑک رہی تھی۔
***********
صبح ہونے کو آئی تھی۔نادر پنچولی غصے میں بھرا یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا۔نادر جو ہر وقت حیدر کو اپنے آس پاس دیکھنا پسند کرتا تھا۔اسے کچھ دیر بعد ہی اس کی غیر موجودگی کا احساس ہوگیا اس نے آس پاس دیکھا اور پھر لڑکوں اس کی تلاش میں دوڑایا۔اس کی بائیک بیگ اور پیٹرول سب غائب تھا۔محسن نے کئی دفعہ اس کا فون ملانے کی کوشش کی تھی لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔اس نے فون نہیں اٹھایا تھا۔
"چلو سب تیاری پکڑو۔نکلنے کی کرو۔"نادر نے گرج دار آواز میں سب کو حکم دیا۔
"لیکن بھائی دو دن باقی۔۔
"کہا نا بس! چلو ۔۔۔مزار کے لوگوں کو دے دو سب ۔۔باقی کا وہ کریں گے۔۔گاڑیاں تیار کرو سامان باندھو سب!"نادر پنچولی بے حد غصے میں تھا۔محسن کا دل بری طرح لرزنے لگا۔اس کی چھٹی حس اسے خبردار کررہی تھی۔کچھ ہونے والا تھا لیکن کیا؟
***************
پانچ گھنٹے کا سفر تین گھنٹے میں طے کرتا وہ کراچی پہنچا تو سب سے پہلے اڈے میں داخل ہوا۔گینگ کے لڑکے اچانک اسے یہاں دیکھ کر چونک گئے تھے۔
"راجو، باصد، خلیل، ملاّ، رب نواز، چلو میرے ساتھ ۔۔"حیدر ان کو حکم دیتا اندرونی حصے کی جانب بڑھا۔واپس آیا تو ہاتھ میں ایکسٹرا میگزین تھی۔اپنی پسٹلز جینز میں اڑس کر سیاہ رومال اس نے چہرے کر گرد باندھ لیا۔
"بھائی! کدھر؟ "سب اپنی اپنی بندوقیں سنبھالنے لگے۔
"میرے ساتھ آؤ۔"وہ سرد لہجے میں کہتا باہر کی جانب بڑھا باقی لڑکے بھی تیزی سے اس کے پیچھے لپکے تھے۔
**************
صبح کے آٹھ بجے تھے۔کالج کا گیٹ کھل چکا تھا۔وہ سب باہر اپنی بائیکوں پر تیار بیٹھے تھے۔حیدر بھی اپنی بائیک پر بیٹھا غصیلی نگاہوں سے کالج کے گیٹ پر کھڑے گارڈ کو گھوررہا تھا۔آدھا گھنٹہ وہیں کھڑے رہنے کے بعد حیدر نے لڑکوں کو اشارہ کیا۔وہ سب اپنی بائیک اسٹارٹ کرنے لگے۔حیدر نے بائیک آگے بڑھائی اور وہ سب ایک ایک کرتے کالج کے گیٹ سے اندر داخل ہوتے گئے۔کالج کے بوڑھے سیکیورٹی گارڈ نے روکنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔وہ تیزی سے بائیک دوڑاتے کالج گراؤنڈ کے وسط میں آکر کھڑے ہوئے۔حیدر نے ہاتھ بائیک کے ہارن پر رکھا تو ہٹانا بھول گیا اس کی دیکھا دیکھی باقی لڑکوں نے بھی یہی کیا۔اگلے لمحے ہی کالج کی کلاسوں سے لڑکیاں نکل کر باہر آنے لگیں۔ہر طرف سے لوگ امڈ امڈ کر آرہے تھے۔اساتذہ پرنسپل سمیت کئی لوگ وہاں جمع ہوچکے تھے۔
"پروفیسر راشد کون ہے؟ "حیدر نے وہاں کسی کو مخاطب کیے بغیر بلند آواز میں کہا۔کہیں سے ایک اڈھیر عمر پروفیسر نکل کر سامنے آیا۔
"میں ہوں۔کیا ہوا ؟کیا مسئلہ ہے؟ اور یہ کیا طریقہ ہے؟ یوں اندر گھسنے کا؟ "وہ درشتی سے کہتے آگے آئے۔حیدر نے قہر آلود نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا اور بائیک سے جست لگائی۔اس کے یوں کرنے پر پروفیسر سہم کر پیچھے ہوا تھا۔اس سے قبل کہ کوئی انھیں بچانے آتا باقی لڑکوں نے اپنی بندوقیں نکال کر سب کو خبردار کیا۔حیدر نے پروفیسر کی گردن دبوچ لی۔
"کیوں بھئی؟ تیرے کو بغیر کپڑوں کی تصویریں دیں تب تو پاس کرے گا؟"حیدر کی سرد برفیلی آواز پروفیسر کو اندر تک اترتی محسوس ہوئی۔
وہاں کھڑے طالب علم اور باقی لوگ ویڈیو بنانے لگے تھے۔
حیدر نے اپنی گرفت مزید سخت کی ۔اس کی قہر آلود نگاہیں پروفیسر کے چہرے پر تھیں۔اس کے کانوں میں خضرا کی سسکیاں گونجی۔
"ہاہ۔۔۔۔۔"حیدر نے چلاتے ہوئے ایک زور دار مکا پروفیسر کی ناک پر رسید کیا۔
"سالے تیرے کو تصویر چاہیے؟ بغیر کپڑوں کی تصویر ہاں؟ "حیدر اس پر پل پڑا۔۔پروفیسر کی اپنے بچاؤ کرنے کی کوشش میں حیدر کے چہرے پر بندھا رومال کھل کر زمین پر گرگیا۔وہ بے دریغ اس پر مکے اور تھپڑ برساتا رہا۔جو قریب آنے کی کوشش کرتا باقی لڑکے اسے گن دکھا پر پیچے ہونے کا اشارہ کرتے۔حیدر اس بری طرح پیٹ کر پیچھے ہٹا۔
"چل اٹھ!"حیدر جوں ہی اپنی جگہ پر اٹھا۔ہجوم کے بیچ میں کہیں کھڑی پریبہ کرنٹ کھاکر پیچھے ہوئی۔اس کے لبوں سے بے آواز حیدر ادا ہوا۔
"تیرے کو بہت شوق ہے کپڑے اتروانے کا؟ "حیدر نے ان کی شرٹ دبوچ کر ایک اور مکا رسید کیا۔
"چل اب تو اپنے کپڑے اتار!"حیدر نے اپنی گن نکال کر ان پر تان لی۔
"مجھے معاف کردو۔معاف کردو پلیز!"وہ پروفیسر رونے لگے۔
"چل اوئے زیادہ بات نہیں ۔۔کپڑے اتار نہیں تو ساری گولیاں بھیجے میں اتاردوں گا چل جلدی کر میرے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے۔"حیدر غرایا۔
پریبہ پھٹی نگاہوں سے حیدر کی جانب دیکھ رہی تھی۔
پروفیسر روتے ہوئے اپنے کپڑے اتارنے لگا۔لڑکیوں نے اپنے چہرے گھمالیے کچھ ابھی بھی ویڈیوز بنانے میں لگے تھے۔
پروفیسر کپڑے اتار کر سرجھکائے رونے لگے۔
"چل اب بھاگ! جلدی بھاگ ۔۔شاباش!"حیدر نے لات مارتے ہوئے اسے دھکیلا۔
"جلدی بھاگ نہیں تو گولی چلے گی یہی بھیجا کھلا پڑا ہوگا۔۔"حیدر نے غراتے ہوئے کہا۔پروفیسر بھاگنے لگے۔کئی منٹ تک انھیں گراونڈ میں دوڑانے کے بعد حیدر نے پھر پکڑ کر مزید مکے رسید کیے اور زور دار انداز میں انھیں زمین پر پٹخ کر اپنی بائیک کی جانب بڑھنے لگا۔باقی لڑکے بھی گن کے اشاروں سے لوگوں کو پیچھے دھکیلتے اپنی موٹر سائیکلوں کی جانب بڑھنے لگے۔اگلے ہی لمحے وہ تیزی سے کالج کا گیٹ پار کرگئے۔کالج میں سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ کسی کو سمجھ ہی نہ آئی کہ ان پندرہ منٹ میں کیا ہوا کیسے ہوا۔سب اپنی اپنی جگہ دنگ کھڑے تھے۔ان سب میں جو سب سے زیادہ حیران تھا وہ پریبہ تھی۔جس کا منہ حیرت و صدمے سے کھلارہ گیا تھا۔
*************"ہوا کیا ہے؟ "خضرا ناسمجھی سے بولی ۔
"پلیز نا جو کہہ رہی ہوں کر ٹی وی آن کر کے نیوز، چینل لگا۔"پریبہ روہانسی ہوکر بولی۔خضرا پریشان ہوتی کمرے سے نکل کر آئی اور ٹی وی آن کرنے لگی۔
"حیدر پٹھان نامی گینگسٹر نے ساتھیوں سمیت گرلز کالج میں گھس کر غنڈہ کردی کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔چھ سے آٹھ گینگسٹر موٹر سائیکلوں سمیت کالج میں گھسے گئے۔ویڈیو میں نظر آنے والا مرکزی کردار حیدر پٹھان نامی لڑکا ہے جو کہ پنچولی گینگ کا اہم کمانڈر ہے۔"
خضرا کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔سر میں درد کی شدید لہر اٹھی۔وہ سر پکڑے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
"حیدر پٹھان جس کی عمر چوبیس سال ہے ۔اس پر ستائس قتل کے الزامات ہیں یہ چھ سالوں سے پولیس کو مطلوب ہے۔راشد کاکا کو بے دردی سے قتل کرنے کے بعد حکومت نے اس کے سر کی قیمت پچاس لاکھ مقرر کی تھی۔کالج کے پروفیسر کو شدید تشدد کے بعد برہنہ کرکے کالج میں چکر لگوائے گئے۔پروفیسر سارا وقت معافیاں مانگتے رہے لیکن ایک نہ سنی گئی۔یہ واقعہ آج صبح کراچی کے گرلز کالج میں پیش آیا ہے۔بہت بڑی خبر۔۔
خضرا مزید کچھ سن نہ سکی اور چکرا کر زمین پر گرگئی۔
***************
جاری ہے