#میں_لاپتا
#فاطمہ_نیازیقسط نمبر :6
ان کے ٹیلی فونک رابطے کو ایک ماہ سے اوپر ہوچکا تھا۔اس ایک ماہ کے دوران خضریٰ کو حیدر سے گہرا لگاؤ ہو چکا تھا۔وہ اس سے بے حد بےتکلف ہوچکی تھی۔دوسری جانب اپنے تہی موقعے کی تلاش میں تھا۔وہ چاہ کر بھی ابھی تک اپنے مطلب کی بات پر نہیں آیا تھا۔وہ رات کو ڈھائی گھنٹے سے زیادہ کال پر بات کیاکرتے تھے۔حیدر کو خضریٰ آغاز میں جتنی معصوم لگی تھی وہ اس سے کئی زیادہ تھی۔اور جتنی کم گو لگی تھی اس سے کئی زیادہ بولتی تھی وہ۔شروع شروع میں تکلف کی حد تک بات تھی لیکن ہر، گزرتے دن کے ساتھ خضریٰ حیدر سے بے تکلف ہونے لگی تھی۔اپنے کمرے میں پلنگ پر نیم دراز وہ اس پہر حیدر سے باتوں میں مگن تھی۔
"نہیں تو۔"
"ہاں تو۔۔"حیدر نے تو پر زور دے کر کہا۔
"ارے کہا نا ریڈ تھی جیکٹ۔"خضریٰ اب کے چڑ کر بولی۔
"اچھا نا بابا! ٹھیک ہے اب بتاؤ کل لینے آؤں یا نہیں؟ "حیدر نے پوچھا۔
"بھئی اگر امی کو پتا چل گیا تو؟ "خضریٰ کو ڈر سا لگا۔
"کون بتائے گا؟ "حیدر تپ کر بولا۔
"اچھا نا غصہ نہیں کریں ٹھیک ہے۔لیکن جائیں گے کہاں؟ "خضریٰ نے پوچھا۔
"جہاں مرضی لےجاؤں۔"حیدر مسکرایا۔
"ٹھیک ہے۔لیکن جلدی واپس آجائیں گے ۔"
"ہمم۔۔اوکے۔۔چلو میں فون رکھتا ہوں۔ٹائم بہت زیادہ ہورہا ہے۔"حیدر نے کہا۔
"ٹھیک ہے۔گڈ نائیٹ! "خضریٰ نے مسکراتے ہوئے فون بند کردیا۔
حیدر گہری سانس لے کر پلنگ پر سیدھا لیٹ گیا۔اس کے ذہن میں وہی سب چل رہا تھا جو وہ چاہتا تھا۔لیکن اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے کہے گا کیا۔خیر کل کی کل دیکھی جائے گی۔اس نے سوچتے ہوئے ایک نمبر ڈائل کیا۔چند لمحوں بعد فون اٹھا لیا گیا۔
"ہاں استاد! "
"کدھر ہے آج کل؟ "حیدر نے سوال کیا۔
"یہی ہوں استاد! آپ حکم کرو۔"دوسری جانب سے کوئی بولا۔
"کیبن تیار رکھیو کل آرہا ہوں۔"حیدر نے کہہ کر فون بند کردیا۔
***********
حیدر کار میں بیٹھا خضریٰ کے باہر آنے کا انتظار کررہا تھا۔وہ دل ہی دل میں سرشار سا تھا۔اسے یقین تھا وہ اس کا شکار کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ایسی بےوقوف لڑکیاں محبت کے کھیل میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے سے کبھی نہیں کتراتی ۔اور جس شدت سے بے وقوف سی خضریٰ اس کے پیار میں پاگل تھی اس کے لیے جان بھی قربان کرسکتی تھی۔حیدر کو پورا یقین تھا۔دفعتاً خضریٰ بیگ سنبھالتی اس کی کار کی طرف آتی دکھائی دی۔حیدر نے اپنے تاثرات سنبھالے اور سیدھا ہو بیٹھا۔
"اسلام و علیکم! "کار میں بیٹھتے ہی اس نے نرمی سے کہا۔حیدر اس کی جانب دیکھ مسکرایا۔کار میں ہلکی سادہ سی مہک پھیلنے لگی۔
"میری پری کیسی ہے؟ "
"ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟ ناشتہ کرکے آئے ہیں؟ "وہ اپنا بیگ کھولتے ہوئے بولی۔حیدر نے ذرا سی نگاہ اس پر ڈال کر کار اسٹارٹ کی۔
"نہیں! "
"یہ دیکھیں آپ کے لیے میں نے صبح سینڈوچ بنایا تھا۔"خضریٰ لنچ باکس کھولتے ہوئے بولی۔
"میں نے کھاکر دیکھا تھا زیادہ اچھا نہیں ہے لیکن گزارے لائق ہے۔"وہ معصومیت سے کہتی سینڈوچ حیدر کے منہ تک لائی حیدر نے کچھ کہے بغیر منہ کھول لیا۔نگاہ خضریٰ کے چہرے پر ڈالی۔خضریٰ نے اسے اپنی طرف دیکھتے پایا تو شرماکر مسکرادی۔
"یہ آئی لائنر اور لپ گلوز پری نے لگایا ہے۔"اس نے بتایا۔
"اچھی لگ رہی ہو۔ویسے تم میک اپ کیوں نہیں کرتی؟ "حیدر نے پوچھا۔
"میرے پاس ہے ہی نہیں ۔امی نے کہا تھا اس بار دلائیں گی۔ویسے تو مجھے لگانا نہیں آتا ۔لیکن پری سکھادے گی۔پھر میں آپ کو میک اپ والی پکچرز سینڈ کیا کروں گی۔ٹھیک ہے نا؟ "خضریٰ نے سینڈوچ کا آخری ٹکڑا اس کے منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔پھر پانی کی بوتل نکال کر اس کی طرف بڑھائی۔حیدر نے کچھ کہے بغیر بوتل تھام لی۔یہ ان کی براہ راست پہلی ملاقات تھی۔حیدر نے نگاہ پھیر کر اسے دیکھا۔وہ اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔اسے اپنی جانب متوجہ دیکھ کر مسکرادی۔
"محبت کرتی ہو؟ "حیدر نے سوال کیا۔اس کا لہجہ الجھا سا لگا۔
"جی! آپ کو نہیں پتا کیا؟ "خضریٰ سرخ چہرہ لیے ہنس دی۔حيدر نے اس کا چہرہ دیکھا۔مسکراہٹ سمٹ چکی تھی۔
"ارے یہ دیکھیں یہ اورنگ پارک ہے یہاں چلیں؟ "اچانک خضریٰ کی نگاہ بڑے بڑے جنگلوں کے پار بنے فیملی پارک پر پڑی۔
"نہیں! کہیں اور جارہے ہیں ہم! "حیدر سنجیدگی سے بولا۔خضریٰ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔پل بھر کا خیال تھا۔اگلے پل ہی خضریٰ نے خود کو بری طرح کوسا۔وہ حیدر کے بارے میں ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہے۔اس نے خود کو ڈپٹا۔
"پلیز یہاں چلیں نا۔پری نے بتایا تھا یہاں آسٹریلین پیروٹ ہیں۔اور بھی پیارے پیارے پرندے ہیں۔سلائیڈ بھی ہے۔میں یہاں کبھی نہیں آئی۔"خضریٰ نے پھر کہا۔حیدر خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا۔
"کیا ہوا حیدر؟ آپ مجھ سے ناراض ہوگئے؟ سینڈوچ اچھا نہیں تھا؟ چپ کیوں ہیں؟ "خضریٰ کو اس کی خاموشی چبھنے لگی تھی۔
حیدر نے مرکزی شاہراہ تک لاکر گاڑی کو یوٹرن دیا۔وہ بالکل چپ سا تھا۔اگلے پندرہ منٹ میں گاڑی پارک کے باہر کھڑی تھی۔خضریٰ نے پارک کے قریب گاڑی کو رکتے دیکھاتو خوشی سے اچھل پڑی۔
"تھینک یو حیدر!"کھلکھلاکر کہتی وہ کار سے اترگئی۔حیدر بھی انجن بند کرتا باہر نکل آیا۔فی الحال اس نے اپنا ارادہ ملتوی کردیاتھا۔کیوں کیا وہ نہیں جانتا تھا۔
"پری! اس طرف آؤ وہ جینٹس سائڈ ہے۔"حیدر نے اسے مردوں کی ٹکٹ لائن کی جانب بڑھتے دیکھا تو آواز دے کر اپنے قریب بلایا۔خضریٰ مسکراتی ہوئی اس کے قریب چلی آئی۔حیدر جاکر ٹکٹ لایا اور وہ دونوں اندر کی جانب بڑھ گئے۔
************
"آپ کو پتا ہے یہاں توے والی آئسکریم بھی ملتی ہے حیدر! "گھاس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ مسکرائی۔اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔حیدر نے پل بھر کو اس کی آنکھوں کو دیکھا۔
"کھاؤگی؟"حیدر نے نرمی سے پوچھا۔آج پہلی دفعہ یہ نرمی بناوٹی نہیں تھی۔اس نے خوش ہوکر فورا اثبات میں سرہلادیا۔
"جاؤ لے آؤ۔"حیدر نے والٹ نکال کر اسکی طرف بڑھایا۔
اگلے ہی پل اس کے تاثرات بدلے۔آنکھیں سکیڑ کر اس نے حیدر کو غصے سے دیکھا۔
"نہیں کھانی!"تنک کر کہا اور دوسری جانب دیکھنے لگی۔حیدر الجھا۔
"کیا ہوا؟"حیدر نے پوچھا۔
وہ خفگی سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"مجھے اکیلے جاکر کھانی ہوتی تو پیسے میرے پاس بھی ہیں۔اور ویسے بھی میں اکیلی فوڈ کارٹ کی طرف نہیں جاؤں گی۔دیکھ نہیں رہے کتنی بھیڑ ہے؟"وہ تلخی سے بولی۔
"کتنا ڈرتی ہو یار!دنیا کا مقابلہ کرنا سیکھو۔کوئی تمہیں کھا نہیں جائے گا۔"حیدر چڑکربولا۔خضریٰ خفگی بھرے انداز میں اسے دیکھنے لگی۔حیدر نے اس کی طرف دیکھا۔وہ غصے میں تھا۔
"میں نہیں ڈرتی، مقابلہ بھی کرسکتی ہوں دنیا کا! لیکن مجھے اچھا لگے گا اگر مجھے دنیا سے مقابلہ کرنے کی ضرورت نہ پڑے ۔مجھے اچھا لگے گا جب آپ میرے پاس ہوں اور آپ دنیا کے اور میرے درمیان ہوں۔مجھے پروٹیکٹ کرنے کے لیے۔"وہ مسکرادی۔اس کی آنکھوں میں کچھ چمک رہا تھا۔اور اس روشنی نے حیدر کا دل مٹھی میں لے لیا۔وہ جھٹکے سے اٹھا۔
"چلو گھر چلیں۔"حیدر کا انگ انگ دکھنے لگا۔جسم پر سو من کا بوجھ سا محسوس ہونے لگا۔
"کیوں؟ نہ میں نے جھولے لیے۔نہ تصویر بنائی۔"وہ اب مزید خفا دکھائی دے رہی تھی۔
"کیوں بنابنایا کھیل بگاڑرہا ہوں میں؟"کہیں سے آواز آئی۔وہ رک گیا۔اس نے خضریٰ کی جانب دیکھا۔مزید وہ کچھ سوچتا وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے ایک جانب کھینچنے لگی۔حیدر بت بنا اس کے ہاتھ دیکھتا اس کے ساتھ چلنے لگا۔
"اچھا آپ مجھے آئسکریم نہیں کھلائیں لیکن طوطوں کے ساتھ میری تصویر تو بنالیں۔"وہ کہہ رہی تھی۔اگلے دو منٹ میں وہ پنجرے سے لگی کھڑی تھی۔حیدر نے اپنا فون نکالا اور اس کی تصویر بنانے لگا۔
"اب آپ بھی آئیں سیلفی بنائیں۔"اس نے اسے ایک اور حکم دیا۔حیدر خاموشی سے اس کے برابر آکھڑاہوا۔وہ قد میں اس سے بہت چھوٹی تھی۔کندھوں تک بھی نہیں آرہی تھی۔حیدر سرجھکائے اس کا پرسکون چہرہ دیکھنے لگا۔وہ اس کے ساتھ پرسکون تھی۔کھلکھلارہی تھی۔زندگی سے بھرپور کتنی خوش تھی۔کتنا بول رہی تھی!حیدر کا دل تلخی سے بھرگیا۔
"میرے مزاج کی نہیں ہے۔"وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا۔
"یار آپ کیا سوچ رہے ہیں۔تصویر بنائیں نا۔"اس نے حیدر کا بازو ہلایا۔حیدر الجھ کر اپنا بازو دیکھتا تو کبھی اس کا چہرہ۔
"یار چلو ادھر سے۔"حیدر نے اپنا بازو جھٹکے سے چھڑایا۔اور تیزی سے اس سے دور ہوا۔وہ تیز قدموں سے پارک کے بیرونی حصے کی جانب بڑھنے لگا۔خضریٰ ہکابکارہ گئی۔
"حیدر!"اس نے روہانسی ہوکر اسے پکارا۔حیدر کے بھاگتے قدم وہیں ساکت ہوئے وہ رک گیا۔لیکن پلٹا نہیں۔
"حیدر! آگے بڑھ جا! بربادی قریب ہے تیری۔"دماغ نے راہ سجھائی۔لیکن کانوں میں خضریٰ کی آواز چبھی تھی دل میں بھی۔زندگی میں پہلی دفعہ وہ خوف زدہ ہوا۔ڈرتے ڈرتے پلٹ کراسے دیکھا۔قدم اپنے آپ پلٹتے۔خضریٰ مسکرادی۔حیدر کو مزید غصہ آیا۔
"کیا مسئلہ ہے؟"اس کے قریب پہنچتے ہی حیدر درشتی سے بولا۔خضریٰ سہم کر دو قدم پیچھے ہٹی۔حیدر نے مزید کچھ نہیں کہا۔اس کی طرف دیکھا بھی نہیں ۔خضریٰ یوں ہی الجھن بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"مجھے قابو کرنے کی کوشش کررہی ہو؟"اس نے سپاٹ لہجے میں سوال کیا۔خضریٰ نے اس کی بات سنی اور کھلکھلاکر ہنس دی۔
"اپنا سائز دیکھیں۔اور مجھے دیکھیں۔چڑیا اور شیر جتنا فرق ہے میں آپ کو کنٹرول کروں گی؟"وہ ہنستے ہنستے بولی۔حیدر چپ چاپ کھڑا رہا۔
"اوہ! دیکھیں سب سے اہم چیز تو میں بھول گئی۔"وہ جو کچھ قدم دور کھڑی تھی۔لپک کر اس کے قریب آئی۔حیدر ساکت کھڑا رہا۔وہ مسکراتے ہوئے اپنا بیگ کھولنے لگی ۔اس نے بیگ سے ایک ڈبا نکالا۔جس پر سرخ کاغذ تھا۔سیاہ پین سے اس پر کچھ لکھا تھا۔
"For My King haider!"
حیدر الجھن بھرے انداز میں اسے دیکھتارہا۔اس نے گفٹ پیپر نکال کر اس کو پکڑا۔حیدر نے اسے گرادیا۔خضریٰ بدک گئی۔جھٹکے سے جھک کر وہ لال گفٹ پیپر اٹھایا۔
"کیوں پھینکا؟"اس کی آنکھوں میں غصہ تھا۔
"تو کیاکروں؟ کچرا۔۔
"کچرا نہیں ہے یہ! اس پر آپ کا نام لکھا ہے۔"وہ گفٹ باکس کھولتی بولی۔حیدر ساکت رہ گیا۔اس کی آنکھیں جلنے لگیں۔خضریٰ کے ہاتھ میں ایک مردانہ بریسلیٹ تھا۔سیاہ چمڑے کا بیلٹ نما خوبصورت بریسلیٹ۔اس نے حیدر کا ہاتھ پکڑ کر اپنی سامنے کیا۔اسے بریسلیٹ باندھنے لگی۔حیدر خاموشی سے سب دیکھتا رہا۔وہ بالکل خاموش رہ گیا تھا۔خضریٰ بے تکان بول رہی تھی۔حیدر سنتارہا۔وہ اس کا ہاتھ تھامے اسے سارے پارک میں گھماتی رہی۔اس نے آئسکریم بھی کھائی۔لیکن حیدر کو کھانے نہیں دی۔
"آپ مت کھائیں۔نزلہ ہے نا آپ کو۔"اپنی گہری آنکھوں کو پھیلاکر اس نے اسے گھورا تھا۔حیدر وہاں بھی خاموش رہ گیا تھا۔
"تم ہمیشہ ہی اتنا بولتی ہو؟"حیدر پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
"نہیں تو! میں صرف ان سے بہت زیادہ باتیں کرتی ہوں جو مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔امی بھی اچھی لگتی ہیں لیکن ان سے ڈر لگتا ہے نا، اس لیے ان سے بہت زیادہ باتیں نہیں کرتی۔بس آپ اور پری!"وہ مسکرائی۔حیدر خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا۔
"میری زندگی میں پہلے صرف امی اور پری تھے۔اب آپ بھی ہیں۔"وہ بولتی رہی۔
"شروع شروع میں مجھے لگا تم بہت کم بولتی ہو۔"حیدر نے کہا۔
"اور اب؟ "خضریٰ ہنسی۔
"اب لگتا ہے تم سے زیادہ کوئی نہیں بول سکتا۔"وہ بولا۔
خضریٰ کھلکھلاکر ہنس دی تھی۔حیدر نے گردن گھماکر اسے ہنستے ہوئے دیکھا۔
"اچھا آپ بتائیں مجھ سے بات کرکے آپ کو کیسا لگتا ہے۔؟"خضریٰ متجسس انداز میں کہتی اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"لگتا ہے جیسے کسی بچی سے بات کررہا ہوں۔"حیدر صاف گوئی سے بولا۔خضریٰ فورا خفاہوئی۔
"ہنہ! خود بھی تو کھڑوس ہیں۔"خضریٰ منہ پھلاکر بولی۔حیدر جواب دیے بغیر گاڑی چلاتا رہا۔خضریٰ چند لمحے خاموش رہ کر دوبارہ بولنے لگتی تھی۔
"اچھا آپ کیا پڑھتے ہیں؟ مطلب کون سے سبجیکٹ؟"خضریٰ نے پوچھا۔
"سائنس!"حیدر نے یک لفظی جواب دیا۔
"سائنس میں کیا؟"خضریٰ نے پھر پوچھا۔
"سائنس میں سائنس ہی پڑھوں گا نا۔اے بی سی تو پڑھنے سے رہا۔"وہ تپ کر بولا۔وہ اسے اس پل جھڑکنا چاہتا تھا۔کیوں کہ وہ فیصلہ کر چکا تھا۔
خضریٰ خاموشی سے کار کے پار جھانکنے لگی۔وہ شاید ناراض ہوگئی تھی۔لیکن حیدر کو پرواہ نہیں تھی اب! اس نے سوچ لیا تھا۔خضریٰ کا قصہ بھی یہیں ختم! لیکن یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔وہ اسے گھر چھوڑ کر اڈے پر نکل گیا تھا۔
************
خضریٰ گھر لوٹی تو رابعہ خاتون اس کے انتظار میں ہی بیٹھی تھیں۔کھانا تیار تھا۔
"جاؤ ہاتھ منہ دھو آؤ۔اب کیا تھا پری کے گھر؟"رابعہ خاتون نے سوال کیا۔
"اس کے امی ابو کی اینی ورسری تھی۔"اس نے کہا۔اور یہ سچ بھی تھا۔آج پری کے گھر میں تقریب تھی۔لیکن اسے پری نے پہلے ہی سب کچھ سمجھادیا تھا۔اور یوں رابعہ خاتون یکسر بےخبر تھیں کہ ان کی اکلوتی بیٹی کس راہ پر قدم رکھ چکی تھی۔خضریٰ کا چہرہ چمک رہا تھا۔مسکراہٹ تھی کہ تھمنے کا نام نہ لےرہی تھی۔وہ خوش تھی۔بہت زیادہ خوش تھی۔
***********
حیدر اڈے میں داخل ہوا۔وہ حد سے زیادہ سنجیدہ تھا۔اڈے میں آج معمول سے زیادہ رش تھا۔اسے دیکھ کر یک دم خاموشی چھاگئی۔وہ کسی سے کچھ کہے بغیر اندرونی حصے کی جانب گیا۔جہاں ایک کمرہ اس کے لیے مخصوص تھا۔اس نے اندر جاکر اپنی پستول نکالی اور جینز میں اڑس لی۔اسی پل اس کا فون بجنے لگا۔اس نے فون نکال کر کان سے لگایا۔
"ہاں استاد آئے نہیں؟ "دوسری طرف سے کوئی بولا۔
"نہیں آرہا۔"حیدر نے تلخی سے کہہ کر فون بندکردیا۔
"کیا ہوا کرلیا شکار؟"محسن اسی پل اندر داخل ہوا۔حیدر کی مٹھیاں بھینچ گئیں۔اس نے تپی ہوئی نگاہ محسن پر ڈالی۔
"کیا ہوا نہیں مانی؟"محسن نے الجھ کر سوال کیا۔وہ اسے بتا نہیں سکا کہ منایا ہی نہیں ۔چپ چاپ مختلف درازیں ٹٹولتا رہا۔
"ارے بھئی تیرے سے بات کررہاہوں۔"محسن نے اسے پھر پکارا۔
"مت کر بات!"وہ درشتی سے کہتاوہاں سے نکل آیا۔محسن حیرت میں گھراوہیں کھڑا رہ گیا۔
*************
حیدر تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا جارہا تھا۔اسے غصہ آرہا تھا۔بہت شدید قسم کا غصہ ۔خود پر!وہ کیاکر آیا تھا؟ یہ کیا تھا؟ وہ احساس کیا تھے؟ وہ سب کیا تھا؟ وہ یہی سوچتا اپنے فلیٹ میں آگیا۔اسے آج بہت سے کام تھے۔اسے آج مال لینے جانا تھا۔آج ہی کے دن اسے علیشا سے بھی ملنا تھا۔اسے نئے افسر سے سیٹلمنٹ کے لیے بھی جانا تھا لیکن وہ گھر چلا آیا تھا۔اس کے سر میں شدید درد اٹھ رہا تھا۔اس نے گن نکال کر پلنگ پر پھینکی۔اس کی نگاہ ہاتھ پر بندھے بریسلیٹ پر پڑی۔اس نے اسے کھول کر پوری قوت ایک طرف اچھال دیا۔بریسلیٹ اڑتا ہوا الماری کے اوپر جاگرا۔اس نے اپنا فون کھولا اور خضریٰ کا نمبر ڈیلیٹ کردیا۔اور پلنگ پر اوندھے منہ گرگیا۔اس نے ابھی آنکھیں بند ہی کیں تھیں جب وہ پل اس کی آنکھوں کے گرد گھومنے لگے۔اس کی باتیں کانوں میں چبھنے لگیں۔لیکن اس نے سارے خیالات ذہن سے جھٹک دیےاور سونے کی کوشش کرنے لگا۔تھوڑی دیر میں ہی وہ گہری پرسکون نیند میں چلاگیا تھا۔یہ پہلی بار تھا جب وہ بغیر کوئی نشہ کیے گہری نیند میں چلاگیا تھا۔بظاہر اس نے آج کوئی نشہ نہیں کیا تھا لیکن! اس کے فرشتوں کو بھی احساس نہیں تھا کہ وہ کس قدر خطرناک نشے میں گرنے لگا تھا۔اب یہ وقت ہی جانتا تھا کہ وہ اس نشے سے خود کو بچاسکے گا یانہیں ۔۔
***********
"کدھر ہے یہ؟ فون بھی نہیں اٹھارہا!"نادر غصے سے سرخ پڑا ہوا تھا۔قریب ہی گینگ کے لڑکے کھڑے تھے۔محسن بھی موجود تھا۔اس کےذہن میں حیدر کا رویہ ابھرا لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکا۔فقط اس کا فون ملاتارہا۔لیکن فون اٹھایا نہیں جارہا تھا۔
"کیا ہوا؟ نہیں اٹھایا فون؟ "نادر نے پوچھا۔
محسن نے نفی میں گردن ہلادی۔
"جا پتا کر کدھر مرگیا ہے یہ! افسر تین گھنٹے انتظار کرکے گھر چلاگیا۔وہ مشکی کہہ رہا ہے مال کا حساب کرنے بھی نہیں آیا وہ۔"نادر غصے میں بھراہوا تھا۔
محسن سرہلاکر اڈے سے باہر نکل آیا۔
**********
خضریٰ بے چینی سے اپنے کمرے میں ٹہل رہی تھی۔وہ پچھلے دو گھنٹوں سے اس کا فون ملارہی تھی۔لیکن جواب ندارد۔نیچے اس کی بائیک بھی شام سے ہی کھڑی تھی۔اس کا مطلب وہ گھر میں ہی تھا۔تو فون کیوں نہیں اٹھارہا۔خضریٰ نے دوبارہ فون ملایا۔کئی منٹ بیل جانے کے باوجود فون نہیں اٹھایا گیا۔خضریٰ روہانسی ہوکر پلنگ پر اوندھے منہ گر پڑی۔اس کا دل چاہا پھوٹ پھوٹ کر رودے۔دوپہر کو بھی اسے حیدر کا رویہ اکھڑا سا لگاتھا۔فون پر اس کا انداز بالکل مختلف تھا۔وہ کتنی نرمی اور چاہت سے اس کی باتوں کے جواب دیا کرتا تھا۔لیکن آج اسے سامنے پاکر اس کا، رویہ یکسر تبدیل ہوگیا تھا۔وہ غائب دماغ اور الجھا سا تھا۔خضریٰ کو مختلف خیالات تنگ کرنے لگے۔اس نے کچھ دیر بعد دوبارہ فون ملایا۔فون بند آنے لگا۔اب کی بار وہ مزید پریشان ہوئی۔اس کا دل عجیب توہمات کا شکار ہونے لگا۔
*************
حیدر پلنگ پر بیٹھا آنکھیں مسل رہا تھا۔باہر جانےکب سے دروازہ بج رہا تھا۔حیدر گہری سانس لیتا اٹھا۔باہر آکر اس نے گیٹ کھولا۔سامنے محسن کھڑا تھا۔حیدر نے اس کا راستہ چھوڑا۔محسن اسے دھکیل کر اندر داخل ہوا۔
"بھائی کا دماغ گھوما ہوا ہے آج تیرے کو من بھر گالیاں پڑی ہیں۔کدھر مرا ہوا تھا؟ تیرے کو کتنے فون کیے فون بھی نہیں اٹھایا تونے سالے!"محسن دبے دبے غصے سے بولا ۔
"سوگیا تھا۔"حیدر نے اپنا فون دیکھا جو بیٹری ڈاؤن ہونے کی وجہ سے سوئچ آف ہوچکا تھا۔
"کہاں گیا تھا صبح تو۔؟"محسن نے سوال کیا۔
"ملنے گیا تھا۔"حیدر نے جواب دیا۔اسے بھوک لگنے لگی تھی۔جاکر فریج چیک کیا۔فریج میں بروسٹ پڑا تھااس نے نکال کر اوون میں ڈالا اور اپنا فون چارج پر لگانے لگا۔
"نیچے والی سے ناپھر کیا کیا وہاں؟"محسن نے دلچسپی سے پوچھا۔
"اس کو طوطے دکھائے اس کی تصویریں بنائیں۔اسے پارک میں گھومایا اس کی بکواس سنتا رہا ۔بس یہی سب کیا ۔اور کچھ پوچھنا ہے؟"تلخی سے کہہ کر اس نے اپنے کمرے کا رخ کیا۔محسن کے چہرے پر عجیب سے تاثرات ابھرے۔وہ فورا اس کے پیچھے آیا۔
"تو اتنا غصے میں کیوں ہے؟ اور سارا دن سوتا رہا طبیعت تو ٹھیک ہے؟"
"یار میرے دماغ میں درد ہورہا ہے ابھی تو جا بھائی کو بول میں تھوڑی دیر میں نکل رہاہوں مال بھی لے آؤں گا اور افسر کے گھر بھی چلاجاؤں گا۔"حیدر نے اسے جانے کا اشارہ کیا۔
"کچھ بتا تو!"محسن کو اس کا انداز عجیب لگا۔
"کیا بتاؤں؟"یک دم حیدر غصے سے دھاڑا۔
"نکل یار ابھی کل ملیں گے۔"حیدر نے فورا غصہ قابو کیا اور اسے جانے کا اشارہ کیا۔محسن کندھے جھٹک کر وہاں سے چلاگیا۔حیدر سرجھٹک کر لاؤنج میں آیا۔اوون سے بروسٹ نکال کر کاؤنٹر پر رکھا اور اپنا فون آن کیا۔فون آن کرتے ہی اس نے کال لسٹ چیک کی۔خضریٰ کی چوبیس مسڈ کالز تھیں۔چند میسج بھی، تھے۔
"حیدر!کہاں ہیں آپ؟"
"کال اٹھائیں نا۔"حیدر نے پڑھ کر ڈیلیٹ کردیا۔
"مس یو سو مچ حیدر! "ساتھ ہی روہانسی شکل کا زرد کارٹون ۔
حیدر نے سارے میسج ڈیلیٹ کردیے۔اور فون چارجنگ پر چھوڑ کر کر کھانا کھانے لگا۔گھڑی پر نگاہ ڈالی تو رات کے بارہ بج رہے تھے۔اسے خود پر حیرت کے ساتھ غصہ بھی آرہا تھا۔
**********
حیدر سے بات کیے اسے تین دن ہوچکے تھے۔وہ اسے سیکڑوں فون کرچکی تھی۔لیکن اس نے اس کا ایک بھی فون نہیں اٹھایا تھا۔وہ اسے روز آتے جاتے دیکھتی تھی۔وہ اس کی طرف نگاہ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتاتھا۔ان تین دنوں میں ہی خضریٰ مرجھاکررہ گئی تھی۔اب بھی وہ اداسی چہرے پر لیے کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔تب ہی اس کا فون بجنے لگا۔اس نے جھٹکے سے گردن گھماکر فون کو دیکھا۔لپک کر فون کے قریب آئی۔پری کا فون تھا۔اس نے اداسی سے سرجھٹکا اور فون اٹھاکر کان سے لگایا۔
"ہاں! "اس کے لہجہ مرجھایاہوا تھا۔
"کیا ہوا اس نے کال پک کی؟"پری نے پوچھا۔
"نہیں ،ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اوپر گئے ہیں۔انھیں پتا تھا کہ میں کھڑی ہوں۔اس کے باوجود میری طرف نہیں دیکھا ۔"وہ رونے لگی۔
"ارے یار تو رونا تو بند کر!"پری نے اسے دلاسہ دیا۔
"یار میں کیاکروں؟ "خضریٰ نے بےچارگی سے پوچھا۔
"جو کہہ رہی ہوں وہ کر! کتنے بجے اترتا ہے وہ روز؟ "
"ساڑھے بارہ ایک کے قریب!"وہ بولی۔
"اچھا،اب میری بات غور سے سن۔"پری کہنے لگی۔
*************
"ٹھیک ہے بھائی!"حیدر نے جیکٹ پہنتے ہوئے کہا۔ایک ہاتھ سے فون دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے اس کی نگاہ گن پر پڑی۔
"اس دن کی طرح ۔۔
"ارے ہاں بھائی۔۔تم تو وہ بات پکڑ کر ہی بیٹھ گئے ہو۔"حیدر تنک کر بولا اور فون رکھا۔گن اٹھاکر جینز میں اڑس کر جوتے پہننے لگا۔اس کا مزاج اب بہتر تھا۔اس نے تین سے مسلسل خضریٰ کو نظرانداز کرکے خود کو کمپوز کرلیا تھا۔وہ اب اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہا تھا۔وہ خوش تھا کہ اس نے وقت پر خود کو قابو کرلیا تھا۔ورنہ خضریٰ سے ملاقات کے دن اس کا بے قابو ہونا اسے خود سے خوف زدہ کرگیا تھا۔بائیک کی چابی اٹھاتا وہ گنگناتا ہوا سیڑھیاں اتررہا تھا۔
پارکنگ ایریا میں اپنی بائیک کے قریب پہنچتے ہی اس کے قدم ساکت ہوئے۔وہ اس کی بائیک سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔حیدر بے نیازی سے چلتا آیا۔
"سائیڈ پہ ہو۔"اس نے سنجیدگی سے کہا۔خضریٰ چونک کر پلٹی۔حیدر کی نگاہ اس کے چہرے پر پڑی۔
"کیوں کررہے ہیں آپ ایسا؟ مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو مجھے بتائیں نامیں معافی مانگ لوں گی۔"وہ اپنے لہجے کو بمشکل سنبھالے ہوئے تھی۔اس کی آنکھیں نمکین پانی سے بھرنے لگیں۔حیدر نے اسے بائیک کے پاس سے ہٹنے کا اشارہ کیا۔اور چابی آگنیشن میں ڈالی۔خضریٰ نے جھٹکے سے چابی نکالی۔
"حیدر!"وہ روہانسی ہوئی۔حیدر یک دم ساکت ہونے لگا۔اس کا پکارنا اسے اس روز بھی ہولاگیا تھا۔
"کوئی دیکھ لے گا خضریٰ گھر جاؤ!"حیدر چاہنے کے باجود بھی اپنا لہجہ سخت نہ کرسکا۔
"میں نہیں جارہی پہلے میری بات کا جواب دیں۔"وہ اب کے آنسو سنبھال نہیں پائی۔آنسو اس کے گالوں پر بہنے لگے۔حیدر تنک کر اس کی جانب پلٹا۔
"رونا بند کرو۔"وہ سنجیدگی سے بولا۔وہ اس کی جانب نہیں دیکھ رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں نہیں دیکھ رہا تھا۔وہ کیفیت جس سے اس نے کوشش کرکے پیچھا چھڑایا تھا۔اس پر طاری ہونے لگی۔جیسے روح سبک ہورہی ہو۔جیسے دل پر رکھا پتھر اچانک کسی نےہٹادیا ہو۔جیسے وہ کئی سالوں سے کسی پہاڑ کے نیچے دباہوا تھا اور اب اچانک آزاد سا ہوکر ہواؤں میں چہل قدمی کرنے لگاہو۔
"کیا سوچ رہے ہیں؟"خضریٰ اس کی گہری خاموشی پر مزید پریشان ہوئی۔
حیدر نے اس کے ہاتھ میں دبی بائیک کی چابی کو دیکھا۔
"چابی دو میں جاؤں۔"حیدر نے کہا۔
"میں نہیں دے رہی۔کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں پہلے بتائیں۔"خضریٰ نے پوچھا۔
"نہیں، لاؤ چابی دو۔"حیدر نے ہاتھ بڑھایا خضریٰ نے چابی پیچھے کرتے ہوئے گردن نفی میں ہلائی۔
"مجھے غصہ مت دلاؤ یار چابی دو مجھے جانا ہے۔"حیدر نے اس کے پیچھے چھپا ہاتھ پکڑ کر اس کی مٹھی کھولنی چاہی۔خضریٰ پھر رونے لگی۔
"تمہیں چوٹ لگ جائے گی خضریٰ چابی دو یار!"حیدر کو اب بے حد غصہ آنے لگا۔اس نے اس کا ہاتھ چھوڑدیا تھا۔
"پہلے میری طرف دیکھ کر بات کریں بتائیں مجھے نا میری غلطی حیدر!مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رہا۔آپ مجھ سے بات نہیں کررہے۔مجھے بہت یاد آتی ہے آپ کی۔آپ کو پتا ہے میں تین دن سے نہیں سوئی۔"
حیدر نے اب کی بار اس کے چہرے پر نگاہ ڈالی۔اس کا چہرہ سرخ اور آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔
"اچھا!رونا بند کرو۔میں کال کروں گا تمہیں آج واپس آکر!"وہ نرمی سے بولا۔
"لیکن آپ نے وجہ نہیں بتائی؟ ایسا کیا کیا تھا میں نے؟"خضریٰ نے آنکھ رگڑتے ہوئے پوچھا۔
"چابی دو! کہا نا کال کروں گا واپس آکر۔"حیدر نے پھر کہا۔خضریٰ نے چابی اس کی طرف بڑھائی۔حیدر نے دیکھا اس کی ہتھیلی پر حیدر کا نام لکھا تھا۔حیدر نے اس کے چہرے پر ایک اور نگاہ ڈالی۔وہ اب بھی اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔
"گھر جاؤ۔"حیدر نے چابی لیتے ہوئے اسے حکم دیا۔
"اللّٰہ حافظ! کال کریں گے نا؟"خضریٰ نے جاتے جاتے پھر پوچھا تھا۔حیدر کی گردن بےاختیار اثبات میں ہلی۔اس کے جانے کے بعد بھی حیدر بائیک اسٹارٹ نہ کرسکا۔بت بنا وہیں کھڑا تھا۔ایک نئی کونپل اندر پھوٹی تھی۔یہ وہی احساس تھا جو اس دن اسے طیش زدہ کرگیا تھا۔آج بھی وہ اپنے اندر جھانکنے لگا۔کیا تھا یہ؟
**************
جاری ہے