تم سے تم تک ( پارٹ ۱)

109 16 12
                                    

سردی کا موسم تھا۔ وسیع آسمان پر چمکتے سورج کی سنہری کِرنیں شاہ پلیس کے terrace کو پوری طرح روشن کیے ہوئے تھی۔ایک طرف پودوں کے خوبصورت گملے رکھے ہوئے تھے اُن کے پاس ہی کرسیاں پڑیں تھی۔وہ کُرسی پر بیٹھی ہوئی تھی ٹیرس میں کھلتے دروازے سے اس کا نیم رخ نظر آرہا تھا۔
بالوں کو ایک طرف پن کیا ہوا تھا وہ پیچھے سے ۲۰ یا ۲۱ سال کی دُبلی پتلی لڑکی لگ رہی تھی جبکہ اس کے بلکل سامنے اُس کی ہی ہم عمر لڑکی بیٹھی تھی جس کے بال اسی ہی کی طرح سیاہ تھے آنکھوں کا رنگ ہرا تھا جس میں بیزاریت وضع جھلک رہی تھی۔
ہاں تو مسئلہ کیا ہے۔سربراہی کُرسی پر بیٹھی لڑکی نے اپنے مقابل بیٹھی ہری آنکھوں والی لڑکی سے جھنجھلاتے ہوئے پوچھا۔تم تو ایسے کے رہی ہو جیسے تمہیں کچھ پتہ ہی نہیں۔لیکن اگر میرے منہ سے سننا چاہتی ہو تو سنو۔ہری آنکھوں والی لڑکی سیدھی ہوتی ہوئی بولی۔
میں ہمہ تن گوش ہوں۔وہ پورے دل و جان سے اُسکی طرف متوجہ ہوئی۔
پھوپھو لوگ آرہے ہیں۔اُس کی اس بات پر مقابل کے چہرے کے زاویے ایسے بدل جیسے کڑوا بادام چبا لیا ہو۔
ہائے مشی کہدو یہ جھوٹ ہے ۔سربراہی کُرسی پر بیٹھی لڑکی نے درماٹک انداز میں کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
کاش یہ جھوٹ ہوتا نشی پر خبر ایکدم پکی ہے۔مشال نے رازدارانہ انداز اپناتے ہوئے اُس کی طرف جُھک کر کہا۔
ہائے مطلب وہ دو چچندر بھی پھوپھو کے ساتھ اینگے۔
ظاہر سی بات ہے ویسے میں نے امی ابو کو بات کرتے سنا تھا  کے پھوپھو اُن دو بندروں کے لیئے رشتہِ دنڈھنے آرہی ہیں پاکستان ۔مشال نے اُن دونوں کو ایک اور لقب سے نوازتے ہوئے کہا ساتھ ساتھ اپنی جمع کی ہوئی رپورٹ بھی نشال تک پنچائ ۔و ایسی ہی تھی گھر بر کی خبر رکھنے والی گھر میں سوئی بھی گھیرتی تو پہلے مشال مادام کو پتہ چلتا تھا۔گھر میں سب اُسّے bbc news بولتے ہیں۔
ویسے حیرت ہے اُن بندروں کو اپنی بیٹیاں دے گا کون۔اس بات پر وہ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتی ہنس دی۔
ہوگا کوئی نہ کوئی بیچارہ  مجبور انسان مجھے تو ابھی سے اُن پر ترس آرہا ہے۔مشال نے چہرے پر ہمدردانہ ایکسپریشن لاتے ہوئے کہا۔
ابھی نشل نے کچھ بولنے کو منہ کوہلا ہی تھا جب عرش اُن کو پکارتا ہوا ٹیرس کے دروازے پر نمودار ہوا ۔
اپیہ آپ دونوں کو امی نیچے بلا رہی ہیں ۔ وہ امی جن کا پیغام دیتا واپس بھاگ گیا جبکہ وہ دونوں بھی اُسکے پچے چلدین ورنہ امی سے بے عزتِ کے پورے امکانات تھے۔
یہ تھے اذلان شاہ کے بچے نشال اور مشال دونوں جڑواں تھی جبکہ عرش اُن سے 6سال چھوٹا تھا ۔اذلان شاہ کی صرف ایک بہن تھی عزرا جن کی شادی انہوں نے اپنے دوست سے کی تھی جو اب london میں مقیم تھے عزرا بیگم کے دو بیٹے ہیں بڑا حنان اور اس سے ایک سال چھوٹا منان وہ لوگ پورے دس سال بعد پاکستان واپس آرہے تھے جس وجہ سے گھر میں افرا تفری مچی ہوئی تھی ۔

تم سے تم تکDonde viven las historias. Descúbrelo ahora