پارٹ ١

265 7 4
                                    

نامکمل ہیں میری سوچ کے خاکے اب تک
تیری تصویر تصور سے بڑی ہو جیسے

گڑگڑگڑگڑ۔۔۔شہر لاہور کے ماڈل ٹاٶن میں واقع گھر کی چھت پر بنی منڈیر پر کپڑے سکھاتی لڑکی مشن کا چکر پورے ہونے پر اسکی جانب متوجہ ہوٸی۔صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔۔۔کمرے میں اسکا فون بج بج کرپاگل ہوگیا تھا۔وہ سڑھیاں عبور کرتی اپنے کمرے کی جانب بڑھی جب کچن کے پیچھلے دروازے سے کوٸی اندر داخل ہوا تھا۔۔اشوع نیازی نے نامولود کی حاضری کو فراموش کرتے کمرے میں قدم رکھا۔نمبر ری ڈاٸل کرتے اسنے لیپ ٹاپ اپنا کھول لیا۔
"شاٸنہ تم نے ابھی تک پریزنٹیشن کی آٶٹ لاٸن مجھے نہیں بھیجی۔۔۔" تیوری چڑھا کر اشوع مخاطب ہوٸی۔
" میں نے ایک سو پندرہ کالز اور پچاس میسجز کیے لیکن مجال ہے جو ایک کا بھی جواب دیا ہو۔"

"افففف اچھا مجھے بھیجو میں دیکھ لیتی ہوں۔۔۔"
"اوکے اچھی سی پریزنٹیٹشن بنانا سڑو"
"ہممم ٹھیک ہے لڑکی۔"
اسنے فون رکھتے سر صوفے کی پشت سے ٹکاتے اپنا ماتھا مسلا۔۔۔"امی۔۔۔۔۔" وہ جھنجھلاٸی تھی۔فون رکھتی نیچے لاٶنج میں آٸی۔صبح سے اسکی اماں کی بیڈشیٹس۔۔۔پردیں دھونے کے چکر میں وہ اپنی پریزنٹیٹشن  فراموش کرچکی تھی۔جوکہ اسنے شام چھ بجے تک جمع کروانی تھی اور یونی میں اسکے گروپ نے پریزنٹ بھی کرنی تھی۔
اشوع ڈال دیے پردے۔۔۔؟" رانیہ صاحبہ نے کھانا میز پر لگاتے اس سے دریافت کیا اور اسے آکر بیٹھ کر کھانے کا اشارہ کیا۔
امی مجھے بھوک نہیں۔۔۔ آپ سب نے ناشتہ کرلیا ؟" وہ سر جھٹکتی انھیں مخاطب کرتی اپنا لیپ ٹاپ لے کر صوفے پر جابیٹھی۔۔۔رانیہ صاحبہ نے اسے دیکھتے ابرو اچکاٸی۔
"پہلے کھانا کھا لو اشوع پھر لگی رہنا۔انعمتہ نے بھی نہیں کھایا ابھی تک۔۔۔تمھارے نیچے آنے کا انتظار کررہی تھی۔۔۔۔"

"امی پہلے ہی اتنی دیر ہوگٸی ہے۔۔۔اچھا وقت لگ جاۓ گا کام میں۔۔۔۔اگر وقت پر نہ ہوا تو ٹیچر نمبر کاٹ لیتے ہیں۔۔۔"وہ منہ بنا کر بیٹھی رہی۔

"اشوع کبھی وقت پر کھانا بھی کھالیا کرو۔۔۔شکل دیکھو سڑی ہوٸی ٹوڑی جیسی ہوتی جارہی ہے۔"رانیہ صاحبہ نے اسکے سامنے سے لیپ ٹاپ اٹھا کر ساٸیڈ پر رکھ دیا۔

"امی حد ہوتی یے مبالغہ آراٸی کی بھی۔"وہ چڑ کر ٹیبل کی سمت الٹے قدم بڑھانے لگی۔

"اشوع ہر وقت چڑا مت کرو۔۔۔بیٹا خون سڑتا ہے۔"انکے لاڈ پر اسنے سینے پر بازو باندھتے اپنی معصوم ماں کو دیکھا۔

"پہلے خود ہی دل جلاتے ہیں پھر لاڈ بھی کرتے ہیں۔"وہ پہلی دفعہ مسکراٸی تھی۔اسکی مسکراہٹ بہت مدھم ہوتی تھی۔گال پر پڑتا ڈمپل گہرا ہوا اور رانیہ صاحبہ اسکے انداز پر سر جھٹکی اپنے کمرے کی سمت بڑھ گٸی۔اشوع ٹیبل کے قریب پہنچتے مڑی جب اسکا ہاتھ کسی کے بازو پر زور سے لگا۔

"آہ مر گیا۔۔۔۔"وہ اپنا بازو سہلاتا چیخنے لگا۔اشوع نے ناگواری سے نومولود کو دیکھا اور اپنی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گٸی۔
"کیا ہوا انس اتنا اونچا کیوں چینخے ہو ؟"انعمتہ پریشانی سے کیچن سے باہر آٸی۔
"بلبٹوڑی نے مجھے پنچ مارا ہے۔"
"جھوٹ۔۔۔۔"اشوع نے ناگواری سے اسکی سمت دیکھا۔
"انس میری بہن کو تنگ مت کرو۔۔۔وہ ایویں تمھیں کیوں مارنے لگی۔"انعمتہ نے آلو کے گرم گرم پراٹھے میز پر رکھے۔

تصور بقلم نازش منیرWhere stories live. Discover now