پارٹ ٣

72 7 0
                                    

شام میں حبس اور گرمی کا زور ٹوٹا تھا۔نیازی ہاٶس کے اندر آٶ تو اشوع لیپ ٹاپ لیے بالکونی میں بیٹھی نظر آرہی تھی۔اسکی آنکھوں میں غصہ اور ماتھے پر بل پڑے تھے۔
"پریٹی سول "نامی آٸی ڈی سے کوٸی اسے مسلسل پیغامات بھیج رہا تھا۔انسٹاگرام،فیس بک سے اب سلسلہ واٹس اپ تک آپہنچا تھا۔ابھی واٹس اپ پر موصول ہونے والا پیغام اسکا پارہ چڑھ گیا۔

"ناجانے کون فضول شخص ہے۔"وہ جنجھلاٸی تھی۔لیپ ٹاپ بند کرتی وہ فون لیے بالکونی سے اٹھ آٸی۔

"کدھر جارہی ہو میرے بالوں میں مالش کردو۔"رانیہ صاحبہ نے تیل کی بوتل اسکی جانب بڑھاٸی۔وہ صاف ستھراٸی کے معاملات میں بہت نفاست پسند تھی۔۔۔رانیہ صاحبہ کے سر پر مساج بھی وہ خود باقاعدگی سے کیا کرتی تھی۔

صوفے پر بیٹھ کر وہ رانیہ صاحبہ کے بالوں میں مالش کررہی تھی جب اسکے موبائل پر مسلسل کالز کا سلسلہ چل دوڑا۔

"کون بار بار کال کررہا ہے؟"امی کی آواز پر اسنے موبائل اٹھا کر نمبر بلاک لسٹ میں ڈال دیا۔
"نہیں امی انجان نمبر سے فون آرہا ہے۔۔مس کالز ہی آٸی ہے۔۔۔۔جسے ضرورت ہوگی خود دوبارہ کرلے گا۔"اسے جان چھڑواٸی تھی۔وہ اضرار کو نمبر سینڈ کرنا چاہ رہی تھی لیکن امی ک مساج کے درميان دھیان سے نکل گیا۔

"بلاک کر دیا میری بلا سے بھاڑ میں جاۓ۔۔۔۔"وہ مطمئن ہوگٸی۔رات کو ٹیبل لگاتے اسکا فون بجنے لگا۔اشوع کو تو فون کا ہوش نہیں ہوتا تھا۔اب بھی اسکا فون لاٶنج میں لاوارثوں کی طرح دھرا تھا۔کمرے سے نکلتے عمران نیازی کی اسکے مسلسل بجتے فون پر نگاہ پڑی۔

"اشوع تمھارا فون بج رہا ہے۔۔۔۔دیکھ لو۔"انھوں نے آگے بڑھ کر فون پر ایک غیرارادی نظر بھی نہ ڈالی۔انکے گھر میں بچوں کو ایک سپیس دی جاتی تھی۔لیکن آج اشوع نے دل سے چاہا تھا اسکا باپ آگے بڑھ کر اسکا فون اٹھاۓ اور سامنے والے کی اچھی کردے تاکہ وہ جوکوٸی بھی ہو اسے دوبارہ تنگ کرنے کی جرات نہ کرسکے۔

"جی ابو اچھا۔۔"وہ برتن چھوڑتی صوفے تک آٸی۔۔۔شام سے تیسرے مختلف نمبر سے کال آرہی تھی۔وہ نمبر بلاک کرتی جاتی اور اگلی دفعہ نمبر بدل کر کال آجاتی۔اب کہ اسنے غصے میں نمبر ہی بند کردیا۔وہ فون وہی میز پر پٹک کر واپس ڈاٸننگ پر آگٸی۔کھانا کھا کر وہ لان میں نکل آٸی۔جب اسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔سامنے انعمتہ کھڑی تھی۔اسکے ہاتھ میں دو آٸس کریم کپس تھے۔

"لیڈی ڈیانا آٸس کریم کھاٸے گیں۔"وہ انس کے انداز میں اسے چیڑتی ہنس کر کہتی اسکے سمت ایک کپ بڑھاتی قریب چلی آٸی۔

"شیور"کپ تھامتے وہ دونوں بہنیں لان کے جھولے پر آبیٹھی۔

"آپی زندگی اتنی اداس کیوں ہے؟"

"کیا ہوا میری چندا کو جو تمھیں رنگ برنگی زندگی اداس لگنے لگی۔"

"اداسی کی ضروری تو نہیں کوٸی وجہ ہو۔کبھی کبھی بےربط اداسی یونہی ہمارے دل میں بسیرا کرلیتی ہے۔پھر اپنی ذات بےمول اور زندگی بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے۔"اسنے آٸس کریم چکھی تک نہیں۔۔۔
وہ اداس تھی۔
اسکا دل خالی تھا۔
اسکی آنکھیں بےنور تھی۔
اسکا وجود تنہا تھا۔
اسکی سوچیں بےلگام الجھی تھیں۔
اسکی مسکراہٹ کھوکھلی تھی۔
تلاش تھی تو کسی مقصد کی۔
ضرورت تھی تو زندگی کی رنگینیوں
کو محسوس کرنے کی۔

تصور بقلم نازش منیرDonde viven las historias. Descúbrelo ahora