پارٹ ١٠

43 1 0
                                    

میری وقعت خاندان میں بس اتنی ہی ہے ک تایا کی اولاد کی خاطر میری قربانی دے دی جاۓ۔نکاح۔۔۔میرا۔۔۔وہ بھی انس بھاٸی سے۔۔یا اللّٰه کس آزمائش میں ڈال دیا۔"ڈبڈباتی آنکھوں سے کھڑکی کے پار غروب آفتاب دیکھتے وہ رب سے مخاطب تھی۔

"مجھے اتنا بھی حق نہیں دیا گیا کہ میری رضامندی ہی لے لی جاۓ۔"انعمتہ نے رات اسے تمام معاملات سے آگاہ کیا تھا۔خلاف توقع اشوع نے کسی قسم کا جذباتی ردعمل نہیں دیا۔وہ بس خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتی رہ گٸی۔

"اللّٰه آپ کے علاوہ میں کس سے اپنی کیفیت کہوں۔آپی کو میری حالت کا خیال نہیں آرہا کیا۔اس نکاح کا تصور ہی میرا کلیجہ بیٹھا رہا ہے۔انس بھاٸی راضی کیسے ہوگٸے۔اوہ خدایا۔"اسنے اپنا دکھتا سر تھامتے آنکھوں میں آٸی نمی اندر اتارنی چاہی۔لیکن بے سدھ۔۔۔درد اسکی گردن سے اٹھتا سر کے پیچھلے حصے سے ہوتا کھونپڑی تک آپہنچا تھا۔دیوار سے ٹکرانے سے لگی چوٹ اور حددرجہ سے بڑھ کر ذہنی دباؤ نے اسے پٹھوں کے مسٸلے کا شکار کردیا تھا۔کچھ دیر پہلے اس نے دوا لی تھی۔درد کی بڑھتی شدت سے تنگ آتے وہ بستر سے اٹھ کر ٹیرس پر آکر ٹہلنے لگی۔یکایک اسکی نظر التمش نیازی کے گھر کے داخلی دروازے سے باٸیک پر اندر داخل ہوتے انس پر پڑی۔اس کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار کے باوجود اطمينان تھا۔

"یہ شخص ایک معمہ ہے جسے میں کبھی حل کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔" اشوع مکمل یکسوٸی سے انس کے چہرے دیکھتی رہ گٸی۔

انس نے کسی مقناطیسی کشش اپنے چہرے پر محسوس کرتے چونک کر سر اٹھا کر عمران نیازی کے گھر کی بالائی منزل کے ٹیرس پر نظر ڈالتے اپنے جسم سے تمام تھکاوٹ دور ہوتے محسوس کیا۔اس کے چہرے کو دیکھتے ہی انس نیازی کی آنکھیں مسکرانے لگتی تھیں۔

ماتھے تک ہاتھ لے جاتے سلوٹ کے انداز میں اسے اشارے سے سلام کرتے وہ پوری جان سے مسکرایا۔

اشوع کے زخم بھرنے میں وقت لگنا تھا سو وہ کمرے تک ہی محدود ہوکر رہ گٸی تھی۔اسکے چہرے پر پھیلے اضطراب کو بھانپتا وہ تایا کے لان سے ہوتا انکے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔احتشام کی کال پر وہ آج جلدی گھر آگیا تھا۔کمرے کی فضا تلخ ہوتی جارہی تھی اسکی وجہ کمرے میں چلتا موضوع تھا جو گھمبیر ہی ہوتا چلا جارہا تھا۔

اروحہ کی تلاش ہوگٸی تھی۔وہ ہوٹل میں صفران کے ساتھ رہ رہی تھی۔تفشیش سے انکے نکاح کی خبر بھی کنفرم ہوگٸی۔عزیز تایا کے چہرے پر انس نے زندگی میں پہلی مرتبہ شرمندگی کے تاثرات دیکھے تھے۔وہ افسوس سے سر جھٹکتا رہ گیا۔

تایا کمرے میں اضطرابی انداز میں ٹہلتے التمس سے کچھ کہہ رہے تھے۔لیکن انس کی ساری محسوسات وہی جڑی تھی جہاں کچھ لمحے قبل وہ کھڑی تھی۔

اسکا اضطراب انس کو کھٹکنے لگا تھا۔وہ چاہ کر بھی سکون کی سانس نہیں لے پارہا تھا۔اتنی بے چینی۔۔۔وہ موم ہوجاۓ اگر وہ ایک مرتبہ حکم کردے لیکن اسکی آنکھوں میں دیکھی خود کے لیے بےگانگی۔ اسے پہچاننے کی بےچینی لیے وہ خود سے بےنیاز کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔بے تحاشہ سوالات اور انکے جوابات میں حاصل ہونے والی بےبسی سے پھیلی تکليف اسکے چہرے پر رقم تھی۔

Você leu todos os capítulos publicados.

⏰ Última atualização: Sep 22 ⏰

Adicione esta história à sua Biblioteca e seja notificado quando novos capítulos chegarem!

تصور بقلم نازش منیرOnde histórias criam vida. Descubra agora