پارٹ ٢

77 6 0
                                    

شہر لاہور پر چہکتی مہکتی صبح طلوع ہورہی تھی۔فجر پڑھ کر اشوع لان میں آگٸی۔اسنے اپنا چاۓ کا مگ ہاتھ میں تھامے سبزے پر نظریں ٹکاٸی۔ہر سو نور کی برسات تھی۔فلک پرسکون تھا۔صبح سویرے آسمان کا دیدار کرنا اسکا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
جب فرشتوں کی آمد ہوتی ہے۔
حمد اللّٰه کی تلاوت ہوتی ہے۔
افق پر چہچہاہٹ ہوتی ہے۔
بادصبا پرنور ہوتی ہے۔

تینوں گھروں کے قطار میں تین لان واقع تھے۔اشوع اپنے گھر کے احاطے میں بنے لان کے جھولے پر بیٹھی تھی۔جب اپنی طرف بڑھتے وجود کو دیکھ کر وہ مدھم سا مسکراٸی۔
"آپی آپ جاگ رہی ہیں۔؟"انعمتہ اسکے نزدیک آگٸی۔

"سر میں درد ہے سوچا زرہ چہل قدمی کرلو۔۔"روز صبح انکے گھر میں اشوع ہی لان میں آیاکرتی تھی۔

"یہ لیجیے چاۓ پیجیے آپکا موڈ خوشگوار ہوگا۔"اشوع نے اسکے طرف اپنا مگ بڑھا دیا۔دو گھونٹ لے کر انعمتہ نے مگ اسے تھاما۔اب ایک گھونٹ وہ اور دو گھونٹ انعمتہ لے رہی تھی۔
"آپی کوٸی وش کریں؟"وہ دانستہ بولی۔
"کیسی وش؟"
"ارے آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ییں؟"وہ جھولے پر بیٹھی پرجوش ہوکر اسکی جانب دیکھ رہی تھی۔

"اممم سوچنے دو۔۔۔۔میری وش ہے۔۔۔"وہ زرہ ٹھہری پھر کہنے لگی۔"میرے والدین سکون امیز زندگی بسر کریں۔۔۔غم کے بادل انکی زندگيوں سے کہی دو جاسوۓ اور رحمتوں کا نزول انکی چھوکٹ پر ہو۔۔۔میں اپنے اپنوں کے سنگ خوشحال زندگی گزاروں۔آمین۔"وہ مسکرا کر کہہ دو قدم آگے بڑھی۔

"بھلا یہ تو ہر انسان چاہتا ہے۔۔۔۔اور یہ اپنوں میں اضرار بھاٸی کا نمبر فرسٹ پر آتا ہے نا۔۔۔اہممم اہممم۔"اسکے انداز پر وہ جھنپ گٸی۔

"تم پر بھی انس کا اثر ہوگیا ہے۔"وہ ہنس کر کہتی واپس چہل قدمی کرنے لگی۔

"افففف کس جن کا صبح سویرے نام لے لیا۔"وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی افق کی رنگینیاں آنکهوں کے راستے اپنے اندر اتار رہی تھی۔

"اچھا تم بتاٶ زرہ تمھاری سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟"انعمتہ نے چہرہ اسکی طرف موڑ کر پوچھا۔

"مجھے میری فیملی کے ساتھ مبارک جگہ بیت اللّٰه کا حج کرنے کی سعادت حاصل کرنی ہیں۔ ان شاءاللّٰه ایک روز زرور ہوگا۔
مجھے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں مکہ کی پاک سرزمین پر اعتکاف پر بیٹھنا ہے۔آمین
مجھے مدینہ کی فضا میں سانس بڑھنی ہے جس مبارک فضا میں حضرت مُحَمَّد ﷺ کی موجودگی ہے۔ ان شاءاللّٰه"

"میں ہر سال اعتکاف پر بیٹھ کر یہ دعا شدت سے مانگتی ہوں۔۔۔اللّٰه جی مجھے اپنے گھر کے نزدیک یہ عمل کرنے کی توفيق دے۔۔۔۔رمضان المبارک کی تاک راتوں میں اس سرزمین پر سرٹکا کر میں اللّٰه سے اللّٰه کو مانگنا چاہتی ہوں۔۔۔جہاں سے وہ کبھی کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔۔وہاں نور چاندی میں بستا ہے۔وہاں تجلیوٶں کی عجب ہواٸیں اپنے سنگ برکتیں لے کر چلتی ہیں۔۔۔وہ دن ۔۔۔ ان شاءاللّٰه زرور آۓ کا جس دن میں مکہ مکرمہ کی سرزمین پر قدم رکھ کر معتبر ٹھہراٸی جاٶں گی۔۔۔۔مجھے مکمل کردیا جاۓ گا۔۔۔میری سانس میں وہ خوشبو رچ جاۓ گی جس کے لیے کاٸنات کے سارے دیوانے وہاں کا رکھ کرتے ہیں۔"اسکا چہرہ افق کی سمت اٹھا تھا۔آنکھیں چمک رہی تھی۔وہ تصور میں اپنا وجود اسی فضا میں سانس بھرتا محسوس کررہی تھی۔اسک دل بےربط مہکتی چہکتی فضا میں رقص کرنے لگا تھا۔فجر کے وقت آسمان سے اترتے فرشتوں نے اسکی دعاٶں پر لبیک کہا اور یہ دعا افق کے بادشاہ کے در پر جاٹھہری۔۔۔تصوراتی دنیا میں کوٸی مسکرایا تھا۔

تصور بقلم نازش منیرWhere stories live. Discover now