#الم_زاد
قسط نمبر ۳
از قلم #مصطفٰی_چھیپا”ڈاکٹر صاحب کیسی طبیعت ہے لڑکی ہے؟“
احمد بھائی نے پریشانی سے پوچھا..
”خطرے کی کوئی بات نہیں ہے شاک کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی ہیں میں نے اِنہیں انجیکشن دے دیا ہے کُچھ گھنٹوں میں ہوش آجائے گا۔“
ڈاکٹر صاحب نے متانت سے جواب دیا..
”شکر ہے خطرے کی کوئی بات نہیں۔“
اُنہوں نے سکون کا سانس لیا..
”آئیں میں آپ کو باہر تک چھوڑ دیتا ہوں..“
وُہ ڈاکٹر کا بیگ اٹھائے اُن کے ساتھ باہر نکل گئے کمرے میں اب صرف عیشل اور اُس کے دوپٹے کو پکڑے بیٹھا سہما ہوا عبداللہ تھا جو بے آواز رو رہا تھا عیشل کی ایسی حالت دیکھ کر..
”کیا کنڈیشن ہے اُس لڑکی کی..؟“
جہانگیر نے ڈاکٹر کو چھوڑ کر واپس آتے احمد بھائی سے پوچھا..
”ٹھیک ہے خطرے والی کوئی بات نہیں ہے بس شاک کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی ہے مگر اُس کے ساتھ جو بچہ ہے وُہ مسلسل رو رہا ہے..“
”آپ اُن کا خیال رکھیں جب اُس لڑکی کو ہوش آئے تو کُچھ پیسے دے کر صبح اُسے جہاں بھی جانا ہو ڈرائیور کے ساتھ ڈراپ کروا دیجئے گا...“
ایش ٹرے میں سگریٹ بجھاتے ہوئے اُس نے متانت سے کہا..
”احمد بھائی..“
وُہ کُچھ کہتے کہتے رُک گیا بات اُس کے لبوں تک آکر لوٹ گئی..
”جی بیٹا..“ اُنہوں نے محبت سے پوچھا..
”میرا سر بہت درد کر رہا ہے کیا آپ مجھے کافی بنادیں گے..“
اُس نے بات بنائی..
”وُہ تو میں بنادیتا ہوں مگر آپ کو آرام کی ضرورت ہے بیٹا کُچھ دیر سوجاؤ گے تو بہتر محسوس کرو گے..“
وُہ نے فکرمندی سے بولے..
”نیند ہی تو نہیں آتی..“ وُہ بے اختیاری میں کہہ گیا..
”مُجھے کُچھ کام بھی کرنا ہے آپ پلیز کافی بنادیں تھینک یو..“
خود پر فوراً قابو پاتے ہوئے وُہ نرمی سے بولا اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر اپنی جلتی آنکھیں بند کرلیں..
”پلیز ہمیں بچا لیں پلیز...“ اُس کی سماعتوں میں عیشل کی آوازیں گونج رہیں مگر آنکھوں کے سامنے منظر یکسر مختلف تھا..
فریحہ کا دانش کے پیروں میں گر کر محبت کی بھیک مانگنا،
مگر ٹھکرایا جانا..
”میں تمہارے پیر پڑتی ہوں دانش مُجھ پر رحم کھاؤ صرف میرے ہوکر رہو میں تُمہیں کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی میرے دِل پر آرے چلتے ہیں، میری روح جلتی ہے تُم کیوں نہیں سمجھتے میرا درد ، کیوں تُمہیں میری تکلیف نہیں دکھائی دیتی..“
آج بھی جہانگیر کی آنکھیں نم ہوتیں تو صرف اُسی منظر کو یاد کرکے ہر اولاد اپنے ماں باپ سے محبت کرتی ہے مگر وُہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتا تھا اور صرف ماں سے ہی کرتا تھا باپ سے تو اُس نے ہمیشہ سے نفرت کی تھی، بے انتہا نفرت، اتنی شدید نفرت کہ اگر اُس کا بس چلتا تو اُس شخص کے نرخرے پر اپنے ہاتھ سے چھری پھیر دیتا مگر تب بھی وُہ درد اُس تکلیف کا عشر عشیر بھی نہ ہوتا جو اُس کی ماں نے برداشت کیا تھا اپنی زندگی میں...
بند آنکھوں کے پردے پر اُسے اپنی ماں کا چہرہ دکھائی دیا۔ بہت حسین اور پیارا مگر بیک وقت غمگین اور پریشان چہرے پر ہمیشہ کی طرح پچھتاوا تھا...
”جہان کیا ہوا میرے شہزادے کو...“
اُنہوں نے اتنی محبت سے پوچھا کہ اُس کا دِل کیا اُن کے گلے لگ کر بری طرح روئے اور بس روتا ہی جائے اور وُہ اُس کے آنسو اپنی مخروطی اُنگلیوں سے صاف کرتے ہوئے مسلسل اُس کا ماتھا چومتی رہی اور وُہ بچپن کی طرح روتے روتے چُپ ہوکر اُن کی انگوٹھی سے کھیلتے کھیلتے اُن ہی گود میں سوجائے۔
”مما مُجھے بہت ڈر لگ رہا ہے..“
اُسے اپنی آواز سنائی دی..
”مما کے ہوتے ہوئے کیسا ڈر میری جان میں ہوں ناں اپنے شہزادے کے پاس..“ اُن کا صرف اتنا کہنا تھا کہ جہانگیر کو لگا واقعی فریحہ اُس کے پاس ہے اور وُہ اُن گود میں سر رکھ کر لیٹا ہوا ہے اور وہ اُس کے بالوں میں اپنی اُنگلیاں پھیر رہی ہیں جس سردرد کی وجہ سے وُہ اذیت میں تھا وُہ تو یوں غائب ہوگیا جیسے تھا ہی نہیں...
”مُجھے ڈر لگتا ہے میں آپ جیسا نہ ہوجاؤں، مُجھے نہیں بننا آپ کے جیسا مما مُجھے اُس اِنسان جیسا بننا ہے کیونکہ ایسے ہی لوگوں کی جیت ہے آپ جیسے لوگ ہمیشہ دُکھ اور تکلیف میں رہتے ہیں اور اپنی جان کو ایک اور روگ نہیں لگانا چاہتا..“ وُہ خوف سے کانپتی آواز میں بولا...
”تُم میری طرح نہیں بن سکتے مگر تُم اُس شخص کی طرح بھی نہیں بن سکتے کیونکہ نہ تُم فریحہ ہو نہ ہی دانش تُم جہانگیر ہو میرے "جہانگیر"... "فاتحِ عالم.." تُمہاری الگ پہچان تُم سا کوئی نہیں، تُم ہم دونوں سے جُدا ہو اور یہی تُمہیں ممتاز کرتی ہے بس اب یہ خوف نکال دو دِل سے، بس اب سوجاؤ تُمہیں آرام کی ضرورت ہے ایک نئی جنگ لڑنے کے لئے شاباش میرا بیٹا...“
اُسے اپنے اندر بہت سا سکون اُترتا محسوس ہورہا تھا اُس کا ذہن نیند کی وادیوں میں ڈوبنے لگا تھا وُہ وہی صوفے پر دراز ہوگیا.. احمد بھائی جب کافی لے کر آئے تب تک وُہ بہت پُر سکون گہری نیند میں ڈوب چکا تھا...
•••••••••••••••••