#الم_زاد
قسط نمبر ۲۳
از قلم #مصطفٰی_چھیپا
"ماضی"
ساری رات کی بھاگ دوڑ کے بعد وُہ کُچھ دیر کو درخت کی آڑ لے کر کھڑا ہوگیا اور اپنا سانس بحال کرنے لگا۔ اردگرد نظریں دوڑائیں تو احساس ہوا کہ وہ بھاگتے بھاگتے بہت دور آ نکلا تھا۔ وُہ اِس وقت ایک کچی آبادی کی سڑک پر بیابانِ گرد کھڑا تھا۔ تھوڑی دیر بعد آگے چلنا چاہا مگر اُس کی ہمت جواب دے گئی پیر مزید ایک اور قدم چلنے سے انکاری تھے سو وُہ وہی زمین پر لیٹ گیا حالانکہ زمین بہت گندی اور پتھریلی تھی مگر اُس کے تھکن سے چور بدن کو تو وہ بھی نرم گدے سی محسوس ہوئی۔۔
نجانے کتنی ہی دیر وُہ یونہی بے سُدھ لیٹا رہا مگر جوں ہی سورج نے مشرق سے سر نکالا تو اندھیرا آہستہ آہستہ چھٹنے لگا اور کُچھ ہی دیر میں ہر طرف روشنی پھیل چُکی تھی۔ آبان کے اندر اتنی بھی ہمت نہ تھی کہ وہ آنکھوں کو چبھتی سورج کی روشنی سے بچنے کے واسطے ہاتھ کا پردہ اپنے دیدوں پر چڑھا لیتا کیڑے مکوڑوں نے جب اُس کے جسم کو کاٹنا شروع کیا تب بھی وُہ اپنی جگہ سے انچ بھر بھی ہلے لیٹا رہا نجانے وُہ تھکن اور حساسیت کی کونسی معراج کو پہنچا ہوا تھا کہ زبان تک ہلانے کی ہمت نہ تھی مگر جسم اور روح کو پہنچنے والی تکلیف اُسے بلبلا اُٹھنے پر اُکسائے دے رہی تھی۔
پھر نجانے کتنی ہی دیر گزر گئی مگر اُسے ہوش نہ تھا وُہ نیم بیہوشی کی حالت میں کتنے ہی گھنٹے وہاں لیٹا رہا یہاں تک کہ سورج سر کو آ پہنچا گرمی کی شدت سے زمین دہک رہی تھی اور یہ پہلا موقع تھا جب اُس نے اُٹھنے کی ایک ناکام کوشش کی تھی مگر اُسے یوں محسوس ہوا جیسے اُس کی ریڑھ کی ہڈی موجود ہی نہ ہو۔
"پانی۔" اُس کی زبان سوکھ کر کانٹا رہی تھی اور رہی سہی کسر اُس کے وجود اور پڑتی تپتی دھوپ نے پوری کردی۔
"دھیان سے وُہ لوگ یہیں کہیں موجود ہوں گے کسی بھی طرف سے گولی آسکتی ہے۔"
سرگوشی کرتی آواز اور کہی جانے والی بات جوں ہی آبان کے کانوں سے ٹکرائی تو آنِ واحد میں اُس کی ساری حساسیت بیدار ہوئی اور وہ اپنی تمام تر ہمت متجمع کرکے اُٹھ بیٹھا اور چاروں اطراف نظریں دوڑا کر بولنے والے کو تلاش کرنا چاہا مگر اُسے دور دور تک کوئی ذی روح نہ دکھائی دی وُہ بری طرح ڈر چکا تھا آوازیں پھر آنے لگیں تھیں مگر بظاھر سامنے کوئی نہیں تھا۔۔
چند سیکنڈز ہی مزید گزرے تھے کے گولیوں کی زور دار آواز نے اُس کے اوسان مزید خطا کردیے اب سامنے جھاڑیوں کے پیچھے سے وقفے وقفے سے گولی چلاتے لوگ بھی دکھائی دے رہے تھے اور سامنے کی گولیوں کی جواب میں اُس کے پیچھے کی جھاڑیوں میں چھپے لوگ بھی بھرپور جوابی کاروائی کر رہے تھے۔ اُن لوگ نے آنکھوں کے سوائے پورے چہرے کو ڈھکا ہوا تھا۔