#الم_زاد
قسط نمبر ۲۷
از قلم #مصطفٰی_چھیپاوہ۔۔ جہانگیر صدیقی، وہ احمد بھائی کی گودوں میں کھیل کر جوان ہوا تھا لیکن آج جو جہانگیر اُن کے مقابل کھڑا تھا وُہ اُس جہانگیر سےقطعی مختلف تھا جسے وہ جانتے تھے۔ اس کی حساسیت۔۔ دل کی نرمی، مزاج کا تحمل سب۔۔ سب کچھ جانے اس کی روح کے کس حصے میں جا سویا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وُہ جتنا اکھڑ بن جائے مگر اُس کی حقیقت فقط نرمی، فقط محبت، فقط عشق ہے لیکن آج وُہ سامنے کھڑے اُس شخص کو بلکل بھی نہیں پہچان پا رہے تھے۔۔
”میں نے تُمہیں آج تک کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا۔"
احمد بھائی نے بے چینی سے کمرے کے باہر ٹہلتے
جہانگیر سے بے یقینی سےکہا۔
"یہ بھی جہانگیر ہی ہے احمد بھائی بس کبھی سامنے نہیں آیا کوئی ایسا تھا ہی نہیں میری زندگی میں جس کے چلے جانے کا سوچنا بھی جان لیوا ہو۔“
اُن کے حیرت زدہ لہجے کے جواب میں وُہ رُک کر اُن کے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر بہت كرب سے بول رہا تھا۔
”مگر بیٹا تُم وُہ بچے ہو جو ایک زخمی کبوتر کو دیکھ کر خود بھی رو دیا کرتا تھا اور اُس کو تب تک اپنے ساتھ اپنے کمرے میں رکھا کرتا تھا جب تک وہ بلکل ٹھیک نہ ہوجائے۔“
”بچپن تھا احمد بھائی تب دُنیا کی سمجھ نہیں تھی اور ماں پاس تھی اُن کے جانے کے بعد سے ہی تو۔۔آپ سے بہتر یہ کون جان سکتا ہے۔“
وُہ رقت آمیز لہجے میں میں بولا۔
”تُم ابھی بھی اپنے اسی بچپن کو تلاش میں ہو جہانگیر کیا میں نہیں جانتا۔“ وُہ اُس کے مضبوط مگر کانپتے ہاتھوں کو اپنے نحیف ہاتھوں میں لیتے ہوئے بہت محبت سے بولے۔ اُن دونوں کے درمیان کبھی بھی مالک نوکر جیسا کوئی تعلق نہیں رہا تھا احمد بھائی کو جس طرح عارفین صدیقی نے اپنا بیٹا اور فریحہ نے اپنا بھائی بنایا ہوا تھا اُسی طرح اُنہوں نے بھی اُس کی حفاظت حفاظت ایک باپ، ایک سرپرست اور شفیق ماموں کی طرح تھی البتہ اُنہوں نے کبھی اُسے کسی بات کے لیے پریشرائز نہیں کیا تھا ہمیشہ اُسے اُس کی اسپیس دی تھی اور یہی اِن دونوں کے تعلق کی سب سے بڑی خوبصورتی تھی۔
”میں نے نہیں روک پایا خود کو کیسے روک پاتا اُس نے میری عیشل کو ہاتھ لگایا تھا اُسے کے بارے کس قدر بکواس کی تھی اگر آپ وہاں ہوتے تو آپ مُجھے غلط نہ کہہ رہے ہوتے۔“
جمشید کی بابت سوچتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں پھر سے خون اُترنے لگ تھا۔
”میں تُمہیں غلط نہیں کہہ رہا تُم اپنی جگہ بلکل ٹھیک ہو مگر بیٹا گولی پھر بھی نہیں چلانی چاہیے تھی۔
”میں خود سے جڑے رشتوں کے لیے کس حد تک پاگل ہوسکتا ہوں یہ بھی آپ جانتے ہیں۔“
”اسی لیے ڈرتا ہوں صرف اسی لیے۔“
وُہ متاسفانہ انداز میں کہتے ہوئے کمرے سے باہر آتی ڈاکٹر کی جانب متوجہ ہوگئے۔
”ڈاکٹر عیشل کیسی ہے؟۔“ اُس نے بے چینی سے پوچھا۔
”شی از ناٹ فائن.... وُہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، مسلسل ڈپریشن میں ہیں جو اُن کے اور بچے کے لیے بلکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔ مُجھے نہیں پتا کہ کیا وجہ ہے مگر اگر وُہ اسی طرح ڈپریشن اور ٹینشن کا شکار رہیں تو آئی ام سوری ٹو سے کُچھ بھی ہوسکتا ہے۔“
وُہ پروفیشنل انداز میں اُسے عیشل کی حالت اور آگے متوقع خطرے کے امکانات بتاکر چکی گئیں مگر جہانگیر کا ذہن بس دو لفظوں کے بیچ اُلجھ کر رہ گیا۔
”ڈیپریشن اور ٹینشن...“
”فکر مت کرو بیٹا عیشل بیٹی اور بچے دونوں کو کُچھ نہیں ہوگا اللہ سے اچھے کی اُمید رکھو۔“
احمد بھائی نے اُس کے چہرے پر پھیلے فکروں اور اندیشوں کے جال دیکھتے ہوئے تسلی دی انداز میں کہا۔
”اُس کا کیا ہوا مرگیا یا بچ گیا۔“
اُس نے غائب دماغی کی حالت میں جمشید کی بابت پوچھا ورنہ اُس کا ذہن تو ڈاکٹر کی باتوں میں اُلجھا ہوا تھا۔
”زندہ ہے تُم اُس کی ٹینشن نہ لو وُہ سب میں سنبھال لوں گا اُس کے گھر والے پولیس میں جانے کی ہمت کریں گے نہیں اور اگر ایسی کوئی حماقت کی بھی تب بھی یہ اُن پر ہی بھاری پڑے گا۔“
”ٹھیک ہے آپ عبداللہ کو دیکھ لیجئے گا سو رہا ہے یا نہیں۔“ وُہ سپاٹ انداز میں کہتا کندھے جھکائے سست قدم اٹھاتا روم میں چل گیا۔
عیشل سکون آور دوائی کے زیر اثر سو رہی تھی وُہ پژمردگی سے چلتا ہوا اُس کے سرہانے آکر کھڑا ہوگیا اور بغور اُس کے چہرے کو ندامت سے تکنے لگا اُسے عیشل اُس سمے بھی پُر سکون نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ کتنی ہی دیر وُہ اُسے یونہی دیکھتا رہا پھر تاسف سے اپنا سر جھٹکتا چینج کرنے چلا گیا اور چینج کرنے کے بعد وُہ لائٹ بند کرکے اُس کے برابر میں آکر لیٹ گیا۔ مگر نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی، ڈیمر کی مدھم روشنی میں وُہ چھت کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا۔ اُس کے سماعتوں میں بس دو لفظوں کی شدید چیخ و پکار تھی۔۔ "ڈیپریشن اور ٹینشن"۔
”اگر میں اب ہماری شادی سے لے کر گزرے اب تک کے ان تمام دنوں کا حساب لگاؤں تو واقعی مُجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے تمہیں کوئی حقیقی خوشی دی ہے۔“
وُہ اپنی نظریں چھت پر ہی مرکوز کیے ہوئے بولا۔
”میں تُم پر چیختا ہوں، بلاوجہ غُصہ بھی کیا ہے مگر خدا کی قسم میں تُمہیں یہ احساس دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا جن احساسات نے میرا بچپن، لڑکپن اور میری جوانی سب کچھ برباد کردیا۔“
بولتے بولتے اُس کے گلے میں آنسوؤں کا گولا اٹکنے لگا تھا۔
”ذہنی اذیت اور فکریں میں نے انہیں بہت جھیلا ہے بہت سہا ہے میں کیسے یہ تمہیں دے سکتا ہوں ”عیشل" تُمہیں... ناممکن!۔“
وُہ خود ہی سے سوال پوچھ کر خود ہی جواب دے رہا تھا۔
”میں نے جب تُم سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تھا تب خود سے عہد کیا تھا کہ اپنے ماضی کی دھول تک تُم تک نہیں پہنچے دوں گا مگر اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور میں خود غرض یہ بھول بیٹھا تھا کہ میں سر تک اِس میں دھنسا ہوا ہوں تو تُمہیں اپنی زندگی میں لا کر میں اپنے ہاتھوں اِس دلدل میں کھینچ رہا ہوں۔“
آنکھوں سے سیل اشک رواں تھا اُس کی ھچکیاں بندھنے لگی تھی۔ اب کی بار اُس نے عیشل کی ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے اُس کی جانب رُخ کرلیا اور تھوڑی اونچا ہوکر لیٹ ہوگیا۔
”میں تمہیں پاگلوں کی طرح چاہتا ہوں عیشل تُم میری زندگی كا واحد محور ہو بہت بہت محبت کرتا ہوں میں تُم سے مگر کبھی تمہارے سامنے نہیں بول سکوں گا.. کبھی نہیں۔“ جہانگیر نے اُس کی بند پلکوں کو نرمی سے اپنی لبوں سے چھوتے ہوئے کہا۔
”میں اپنی ذات کا، اپنے ماضی کا قیدی تمہارے ساتھ اس عمر قید سے رہائی کا روزن تلاشنا چاہتا تھا مگر مجھے ڈر ہے کہ میں خود کو آزاد کرنے کرنے کی سعی میں تمہیں تمہاری ہی محبت کا طوق پہنا کر جکڑ نہ لوں۔“
نرمی سے اُسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے وُہ کتنے ہی اندیشوں میں گھرا ہوا تھا کہ اپنی آواز بھی اُسے بے حد خود غرض سنائی دے رہی تھی۔