قسط نمبر ۶

82 11 8
                                    

#الم_زاد
قسط نمبر ۶
از قلم #مصطفٰی_چھیپا

چند ہی گھنٹوں میں اُس کی سارہ اور مریم  سے کافی اچھی بات چیت ہوگئی تھی دونوں کافی ملنسار تھیں مگر جس چیز نے اُسے سب سے زیادہ متاثر کیا تھا وُہ تھی اُن دونوں کی خود اعتمادی اور سلجھی ہوئی طبیعت یہاں آنے سے پہلے وُہ کافی خدشات کا شکار تھی مگر اب وہ بھی جاتے رہے..
"تُمہیں کُچھ سامان لینا تھا ناں تو چلیں.."
سارہ نے متانت سے پوچھا..
”لینا تو ہے مگر عبداللہ سورہا ہے اُسے کیسے چھوڑ جاؤں..“
”اِس کی فکر مت کرو میں دیکھ لوں گی اِسے ویسے بھی بچہ سو ہی رہا جب تک واپس بھی آجاؤ گی تُم..“
مریم نے فوراً اُس کی مشکل آسان کی۔
”تھینک یو یار..“ عیشل نے متشکرانہ لہجے میں کہا..
                            ________________

”مُجھے تو لگا تھا شام ہوگئی ہے گرمی بھی کم ہوگئی ہوگی مگر نہیں باہر تو ابھی بھی حبس ہے پورا لگتا ہے بارش ہوگی ہوا بھی نہیں چل رہی...“
سارہ رومال سے ماتھے پر نمودار ہوئے پسینے کے قطرے پونچھتے ہوئے بولی..
”دو دن پہلے تک تو کافی خنکی سی ہوگئی تھی۔“
عیشل حیرانی سے بولی۔
”کراچی کا یہی حال ہے صحیح والی سردی نومبر کے آخر یا دسمبر کے اوائل دنوں میں پڑتی ہے خیر ویسے تُمہیں لینا کیا ہے ؟ تاکہ اُسی طرف چلیں پہلے.."
"عبداللہ اور اپنے لیے کُچھ کپڑے لینے ہیں، اور عبداللہ کے لیے اسنیکس اور اپنا پینٹنگ کا کُچھ سامان.."
عیشل نے متانت سے بتایا۔
”تُم پینٹنگ بھی کرتی ہو..؟“
اُس نے اشتیاق میں پوچھا۔۔
”میری شروع سے ہی لٹریچر اور پینٹنگ میں بہت دلچسپی رہی ہے اور جب تو امی اور ابو زندہ تھے اُنہوں نے مُجھے باقاعدہ پینٹنگ کلاسز دلوائی تھیں تو اِسی وجہ سے اچھی خاصی آتی ہے..“
عیشل کے لہجے میں یاسیت در آئی..
”بہت یاد آتی ہوگی ناں امی ابو کی..“ سارہ نے برجستہ پوچھا..
”میں اُنہیں کبھی بھولی ہی نہیں تو یاد کرنے کا سوال ہی نہیں اُٹھتا یہ اُن کی دعائیں ہی ہیں کہ آج میں اِس طرح خود اعتمادی کے ساتھ مشکلوں کا سامنا کرنے کے قابل ہوئی ہوں..“
وُہ محبت سے بولی..
”تُم بہت خوش قسمت ہو عیشل کم از کم تُم نے اپنے والدین کو دیکھا ہوا ہے اُن کے ساتھ وقت گزارا ہے ورنہ اِس دُنیا میں کُچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں یہ تک نہیں معلوم کہ اُن کے ماں باپ کون ہیں۔ ہوش سنبھالا تو یتیم خانے میں پایا خود کو سنبھالا تو ہاسٹل میں آگئے گھر کسے کہتے ہیں، ماں باپ کی محبت کیا ہوتی ہے یہ پتا ہی نہیں...“
سارہ نے آنکھوں میں نمی لیے اور ہونٹوں پر زخم خوردہ مسکراہٹ سجائے کہا..
”اپنی جگہ تُم بلکل ٹھیک ہو مگر ایک لمبا عرصہ ماں باپ کے سائے گزار کر یوں اچانک کڑی دھوپ میں آکھڑا ہونا یہ دُکھ بھی تو بڑا عمیق ہے اِس کا کوئی مداوا نہیں..“
وُہ رنج سے بولی...
”لو باتوں ہی باتوں میں ہم مارکیٹ بھی آگئے چلو پہلے کپڑے وغیرہ لے لیتے ہیں کیونکہ آرٹ شاپ سب سے آخر میں ہے..“
سارہ نے دانستہ موضوع بدلا اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر اندرونی مارکیٹ کی طرف بڑھ گئی...

الم زادWhere stories live. Discover now