"ماضی"
”آج ہاشم انکل نہیں آئے تم سے ملنے ایک بار بھی۔“
آبان نے حیرت سے پوچھا کیونکہ جب سے وُہ یہاں آیا تھا کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرا تھا جس دن ہاشم روحیل سے ملنے نہ آیا ہو بھلے سے وُہ ایک منٹ ہی کیوں نہ ہو چاہے ہاشم جتنا بھی مصروف کیوں نہ ہو۔
”بابا اور ٹائگر دبئی گئے ہیں رات کو۔“
اُس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے کار کے ریمورٹ کنٹرولر کو روز زور سے دباتے ہی اطمینان سے کہا۔
”مطلب ہاشم انکل اور ٹائگر دونوں ہی نہیں ہیں گھر میں۔“ آبان نے ایک جھٹکے سے اپنے ہاتھ میں پکڑے ریمورٹ کنٹرولر کو پھینکتے ہوئے ڈر کر پوچھا۔
”وُہ کل تک آ جائیں گے بابا نے پرامس کیا ہے مُجھ سے اور تُم اتنا ڈر کیوں رہے ہو میں ہوں تمہارے پاس ٹائگر کے گارڈز ہے۔“
روحیل نے اُس کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے بہت محبت سے کہا مگر آبان کی حالت بلکل ویسی ہوگئی تھی جیسی پہلے دن تھی اُس نے بہت مشکل سے خود کو تین لوگوں کا عادی بنایا تھا جن کے بیچ وُہ خود کو محفوظ خیال کرتا تھا۔ (روحیل ، ہاشم اور اظہر الدین ).
”مگر ٹائگر نے کہا تھا اُس کے ہوتے ہوئے وُہ لوگ یہاں نہیں آسکیں گے وُہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا اور اب وُہ نہیں ہے۔“ وُہ روتے ہوئے بولا جبکہ آبان کا رویہ اور اِس قدر ڈر جانا روحیل کی سمجھ سے باہر تھا مگر وُہ اپنے دوست کو ہمت دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔
”آبان میں تو ہوں ناں تمہارے پاس بابا اور ٹائگر بھی آجائیں گے جلد ہی چھوڑو اسے ہم سوئمنگ کرتے ہیں تُم نے کہا تھا تُمہیں سوئمنگ سیکھنی ہے چلو۔“
روحیل نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے زبردستی کھڑا کیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔
کُچھ دیر بعد آبان بھی روحیل کے ساتھ پہلے کی طرح نارمل ہوگیا دونوں کافی دیر تک سوئمنگ پول میں کھیلتے رہے۔ پول ایریا میں وہی دونوں گارڈز کھڑے تھی اور اُن کی نظریں مسلسل آبان پر تھیں وُہ دونوں کافی دنوں سے اسی تاک میں تھے کہ آبان اُنہیں اکیلا مل جائے مگر روحیل ہمیشہ اُس کے ساتھ کسی سائے کی طرح ہوتا تھا اور یہی چیز اُن دونوں کو اب تک اپنے ناپاک عزائم سے روکے رکھے تھی مگر اُس دن ہاشم اور اظہر الدین کی غیر موجودگی سے ملی ہمت سے اُنہیں آخر کار وُہ موقع مل ہی گیا۔
”میں واش روم سے آرہا ہوں۔“ روحیل سے کہہ کر وُہ پول ایریا سے باہر نکل گیا اور اُس نے کُچھ سیکنڈز بعد اُن دونوں میں سے ایک غیر محسوس انداز میں وہاں سے نکل گیا۔
جب کافی دیر ہوگئی اور آبان واپس نہ آیا تو روحیل کا دھیان کھیل سے ہٹا اور وُہ اُسے ڈھونڈھنے کے لئے جانے لگا تو اتنے میں پہلا والا گارڈ واپس آگیا۔
”آپ کہاں جارہے ہیں روحیل۔“
”آبان کہاں ہے اُس نے کہا تھا کہ وُہ واش روم سے آرہا ہے مگر کافی دیر ہوگئی ہے۔“
روحیل نے پریشانی سے کہا۔
”وُہ تو کپڑے چینج کرکے سو بھی گئے۔“
پہلے والے گارڈ نے جھوٹ بولا۔
”اوکے پھر میں بھی چینج کرنے جارہا ہوں راستہ دو..“
روحیل نے دو ٹوک انداز میں کہا اور اُسے ایسا رویہ رکھنے کی تاکید اظہر الدین شہباز نے کی تھی سوائے ہاشم اور اُس کے کسی سے بھی بات چیت زیادہ نہیں خواہ وُہ کوئی بھی ہو۔
”مگر آپ تو ابھی کھیل رہے تھے۔”
ابھی یہ بحث چل ہی رہی تھی کہ اتنے میں سب گارڈز میں اظہر الدین شہباز اور ہاشم کی غیر متوقع آمد پر ہلچل مچ گئی اور دونوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑنے لگی وُہ دونوں فوراً راستے سے ہٹ گئے۔
ٹائگر اور اپنے بابا کی واپسی کا سن کر روحیل بھاگتے ہوئے وہاں سے باہر نکل کر ہال میں آگیا جہاں وُہ دونوں صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے وُہ بھاگتے ہوئے ہاشم کی طرف بڑھا تو اُس نے فوراً کھڑے ہوکر اُسے گود میں اُٹھا لیا اور اپنے ساتھ ہی صوفے پر لے کر بیٹھ گیا۔
”اِس وقت قمیض اُتارے جھرم جھر کپڑوں میں ٹارزن کیوں بنے ہوئے ہو ۔“ اظہر الدین نے شرارت سے پوچھا۔
”وُہ میں آبان کو سوئمنگ سکھا رہا تھا۔“
”کیا کیا تو نے اُس لڑکے کے ساتھ۔“
”ابھی تک کُچھ نہیں کیا بہت بے قابو لڑکا ہے کسی بھی طرح اُسے پار لگانا ہوگا ورنہ اگر اُس نے باس کے آگے کُچھ اُگل دیا تو کتے کو موت مریں گے دونوں۔“
”اُسے مار دیں تو باس کو کیا بولیں گے کہاں گیا وُہ ؟“
وُہ دونوں وہی پول کی طرف کھڑے بحث کر رہے تھے۔
”کُچھ بھی کرلیں گے تب مگر ابھی فی الحال باہر چل ورنہ باس کو شک ہوسکتا ہے۔“
”ہاں ٹھیک ہے۔“
وُہ دونوں ہال میں آکر اظہر الدین اور ہاشم کو سلام کرکے ایک کونے میں کھڑے ہوگئے۔
”آبان کہاں ہے۔” اظہر الدین نے روحیل سے پوچھا جس پر اُن دونوں کے چہرے لٹھے کی مانند سفید پڑ گئے۔
”ہاں میں بھی اُسی کے پاس جا رہا تھا مگر اِس نے بولا کے وُہ کپڑے بدل کر سوگیا حالانکہ مُجھے وُہ واش روم کا بول کر گیا تھا.“ روحیل نے آبان کے پیچھے جانے والے گارڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو اظہر الدین شہباز نے بغور اُس کی جانب دیکھا وُہ فوراً ہی بھانپ گیا کُچھ گڑبڑ ہے اِس لئے فوراً سے روحیل کو آبان کو اٹھا کر نیچے لانے کا کہا۔۔
”کیا ہوگیا ہے باس اچانک سے ؟“ ہاشم کو اظہر الدین کے لمحے میں بدلے رویے کی وجہ سمجھ نہ آئی۔۔۔
”ٹائگر آبی کمرے میں نہیں ہے۔“ روحیل نے اوپری منزل سے آواز لگائی ہے تھی اظہر الدین لمحے میں اُن دونوں پر پستول تانے کھڑا تھا ہاشم نے آنکھ کے اشارے سے باقی گارڈز کو بھی قریب بلا لیا۔
”میں صرف ایک بار پوچھوں گا اور مُجھے جواب چاہیے۔“ وُہ غضبناک لہجے میں اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا۔
”باس ہم نے کُچھ نہیں کیا۔“
وُہ دونوں شدید ڈرے ہوئے لہجے میں لڑکھڑاتی زبان کےساتھ بولے۔
”موت تو تُم دونوں کی طے ہے بس جو جتنا جلدی منہ کھول دے گا اُس کی موت اتنی آسان ہوگی۔“
اظہر الدین نے دونوں کو گریبان سے پکڑتے ہوئے اپنے سامنے کرتے ہوئے کہا۔
”باس میں نے کُچھ نہیں کیا جو بھی کیا ہے اِس نے کیا اسی کی نیت خراب تھی شروع دن سے اُس لڑکے پر یہ ہی اُس کے پیچھے گیا تھا اِس نے ہی اُسے پتا نہیں کہاں چھپا کر رکھا ہوا ہے۔“
”کیا مطلب ہے نیت خراب تھی کہاں ہے آبان۔“
اُس گارڈ کی بات سن کر ہاشم کا دماغ بھک سے اُڑ گیا اُس نے اپنی پستول کو کہنے والے کی تھوڑی کے نیچے رکھتے ہوئے گرجدار آواز میں کہا۔
”تُم پیچھے ہٹو ہاشم یہ دونوں آج میرے ہاتھوں نہیں بچیں گے۔“
اظہر الدین شہباز نے اُسے پیچھے کرتے ہوئے کہا اور اگلے ہی لمحے ہال میں دو فائر کی آواز گونجی جو اُن دونوں۔ کو ٹانگوں کا نشانہ لے کر چلائی گئی تھی۔
”کہاں ہے لڑکا۔“ اظہر الدین شہباز نے پیروں میں گرے اُن دونوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے پوچھا۔
”ٹائگر آبی مل گیا۔“ روحیل جو آبان کو پورے گھر میں دیوانہ وار ڈھونڈھ رہا تھا آخر کار اُسے اسٹور روم میں بند شدید ڈرا سہما مل گیا۔“
”باس معاف کردیں بہت بڑی غلطی ہوگئی ، شیطان آگیا تھا ہم پر باس پلیز۔“ آبان کے ملنے کا سنتے ہی دونوں گڑگڑانے لگے جبکہ اظہر الدین شہباز کی توجہ فی الحال اُن دونوں سے ہٹ کر روحیل کے بازو کو بری طرح بھینچ کر پکڑی سیڑھیاں اُترتے آبان کی جانب ہوچکی تھی۔
آبان آخری سیڑھی پر قدم رکھتے کے ساتھ ہی بھاگتے ہوئے اظہر الدین شہباز کے پیروں سے جا لپٹا اور زار زار رونے لگا یہاں تک کہ اُس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
”چُپ بلکل چُپ مرد روتے نہیں ہیں ایک آواز نہ آئے مُجھے۔“ وُہ آبان کو خود سے الگ کرتے ہوئے سخت لہجے میں بولا۔
”کُچھ کیا انہوں نے تمہارے ساتھ؟“ اظہر الدین نے دو ٹوک پوچھا اور آبان نے نفی میں سر ہلا دیا اُس سمے خود کو ہمیشہ کی طرح مضبوط اور سخت کرتے اظہر الدین کی آنکھوں میں جو خوشی اور شکر کی چمک تھی وُہ ہاشم سے نہ چھپ سکی۔
”رونا بند کر اور یہ پکڑ اور خالی کردے ان حرام زادوں پر۔“ اظہر الدین شہباز نے پستول اُس کے ہاتھوں میں پکڑاتے ہوئے کہا۔
”پر باس ۔“ ہاشم نے کُچھ کہنا چاہا مگر اظہر الدین شہباز نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔
”سنا نہیں میں نے کیا کہا پکڑ اسے اور داغ اُن کے جسموں پر۔“ وُہ آبان کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کرتے ہوئے اٹل لہجے میں بولا۔
”باس اِنہیں میرے حوالے کردیں خدا کی قسم چیل کوے نوچ کر کھائیں گے اِنہیں مگر یہ لڑکا ابھی بہت چھوٹا ہے اس کے لیے۔“ ہاشم نے پہلی بار منع کیے جانے کے باوجود بولا تھا۔
”ایک بار یہ غلطی کرچکا ہوں ہاشم اِس بار نہیں آج اگر ہمیں آنے میں ذرا سی بھی دیر ہوتی تو کیا ہوتا؟اظہر الدین شہباز کی زیرِ حفاظت ایسی حرکت ہوئی ہے یہ دوبارہ ہوسکتی ہے اِس لیے ہمیں اسے اپنی حفاظت خود کرنا سکھانا ہوگا، جس کی شروعات ان دونوں سے ہوگی ۔“ وُہ اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا۔
”باس معاف کردیں آئندہ نہیں ہوگا بہت بڑی غلطی ہوگئی۔“
”آبان میں نے کہا گولی چلا۔“
اظہر الدین نے اُس کے کانپتے ہاتھوں میں پستول کو صحیح طرح پکڑاتے ہوئے اپنے مضبوط ہاتھوں کی گرفت سخت کردی اور مسلسل اُس کے کان میں بلند آواز میں کہنے لگا۔
”نہیں، نہیں.“ آبان بری طرح ڈرا ہوا تھا اُس نے اپنی آنکھیں بھینچ کر بند کی ہوئی تھیں۔
”چلاؤ آبی۔“ اب کی بار روحیل نے اظہر الدین کا ساتھ جس پر ہاشم نے حیرت سے اُسے دیکھا کیونکہ روحیل ایک انتہائی نرم دل اور حساس لڑکا تھا۔
”آبان شوٹ۔“ اظہر الدین بری طرح گرج کر بولا۔
اگلے ہی پل پورا اظہر ولا گولی کے پانچ فائر سے گونج اٹھا آبان کو نہیں پتا تھا کہ کیسے مگر ہاتھ پکڑے ایک گولی چلائی جانے کے بعد باقی کی چار گولیاں اُس نے اپنے ساتھ بیتی ہر زیادتی کو یاد کرتے ہوئے بری طرح چیختے ہوئے چلائی تھی۔