Part : 1

34 2 0
                                    

"کوئی بھی انسان محبت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ نہ چھینی جا سکتی ہے نا ہی زبردستی حاصل کی جا سکتی ہے
یہ تو ایک جذبہ ہوتا ہے ۔
ایک دوسرے کے احساس کا،
وہ جذبہ جو دلوں میں بستا ہے۔
محبت رزق کی طرح ہوتی ہے ۔یہ ہر کسی کو ملتی ہے مگر اتنی جتنی نصیب میں ہو کسی کو زیادہ ، کسی کو کم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کو بہت مشقتوں کے بعد اور کسی کو بیٹھے بٹھاۓ
پس کوئی بھی محبت سے محروم نہیں ہوتا
اور اگر اس کی نا قدری کی جاۓ تو یہ چھین لی جاتی ہے "
~~~~~~~||

وہ دبے پاؤں بیڈ سے اتر کر کمرے کے دروازے تک پہنچی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اس نے لاک کھولا ذرا سی چرچراہٹ کے ساتھ دروازہ وا ہوگیا۔ وہ کمرے سے نکل کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی سیڑھیاں اتر گئی سامنے بنے کچن میں داخل ہوکر اس نے بہت پیار سے ڈائننگ ٹیبل سے کرسی گھسیٹی اور اسے سلیب کے پاس لگا کر اس پر چڑھ گئی بڑے آرام سے کبنٹ کھول کر بسکٹ اور چپس کا پیکٹ نکالا اور پھر کیبنٹ کو اتنے ہی پیار سے بند کردیا ۔
مگر ذرا سی آہٹ پر اٹھ جانے والا اس کا نو سالہ بھائی جو قد کاٹ سے رتی برابر بھی نو سال کا نہیں لگتا تھا اس بار بھی جاگ گیا تھا بہت خاموشی سے وہ اس کے پیچھے کچن تک آیا ۔
سامان لئے وہ نیچے اترنے کو پلٹی تو دروازے پر امڈتے سائے کو دیکھ کر اس کی ہوا نکل گئی مگر وہ ہاتھ میں موجود سامان کی وجہ سے بھاگ نہیں سکتی تھی۔ تو وہ دبی ہوئی آواز میں چیخی۔
مگر بے لوث ۔۔۔۔۔ پھر اس نے بہت ہمّت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی چیزیں سلیب پر رکھیں اور کرسی پر کھود کر نیچے اتری نیچے اتر کر اس نے بسکٹ کا پیکٹ اٹھانے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا تو گھی کی کھلی ہوئی بوٹل شریف صاحبہ جو کہ اس کے کیبنٹ کھولنے کی وجہ سے آگے ہوگئی تھی۔
لڑکیں اور اس کے بسکٹ اٹھانے کے لئے بڑھے ہوئے ہاتھ اور سفید چمکتے ہوئے ٹائلز والی فرش کو نہلا دیا۔
اسی وقت ارباز نے سوئچ اون کیا۔
جسے وہ کافی دیر سے ٹٹول رہا تھا۔ فوراً زری کو دروازے پر کھڑا بھوت یاد آیا اور وہ پلٹی تو دروازے پر کوئی اور نہیں بلکہ زری کے لئے ہمیشہ ڈراکولا ثابت ہونے والا اسکا بھائی کھڑا تھا۔ زری نے اپنے گھی میں گیلے ہوئے ہاتھ سے اپنے کندھے تک آتے ڈارک براؤن شیڈ بالوں کو کان کے پیچھے کرتے معصومیت سے کہا۔ "سوری بھائ"
مگر ارباز اور زری کو بخش دے؟
ناٹ پوسیبل
اس نے ایک نظر زری کو دیکھا اور پھر فرش پر چمکتے گھی کو اور سارے دانت باہر نکالے اور گلا پھر کر صدائیں لگانے لگا۔
"مامااااااااا جلدی آئیں زری نے آئل گرا دیا ہے“
”مدد نہیں کرنی تو مت کریں کم از کم مصیبت میں تو نا ڈالیں" زری نے غصّے سے گھورتے گھی کی بوٹل کو سیدھا کیا کرسی جگہ پر لگائی اور نیچے جھک کر اپنے ہاتھوں کا کٹورا بنا کر گھی سنگ میں ڈالنے لگی۔
"اچھا جی ۔۔۔۔۔۔ ماما اب آ بھی جائیں جلدی" زری نے پھر غصّے سے گھورا اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگئی۔ کام کرتے اس نے ایک بار پھر اسے کوسا جس کی وجہ سے عزام نے دو دن پہلے ہی سارے گھر کے ساؤنڈ پروف ڈورز نکلوائے تھے۔ کیونکہ زری اور اسکی لڑائی ہوئی تو زری کے سر پر چوٹ لگی اور نواب صاحب نے بتانے کی زحمت بھی نہ کی۔ رونا تو دور کی بات سونڈ پروف ڈورز سے چیخنے کی بھی آواز نہیں آتی تو بلآخر زری کے لئے یہ بہت برا دن ثابت ہونے والا تھا۔
"لو جی دیکھ لو کدھر سے لائی ہو اتنی عقل تف ہے تم پر " ارباز نے اپنے سر پر ہاتھ مارا۔
"ہاں شکر کریں میرے پاس تھوڑی بہت ہے اللّه نے آپ کو وہ بھی نہیں دی ۔۔۔۔۔۔ خود کو بہت عقلمند سمجھتے ہیں" زری نے غصّے سے آنکھیں دکھائی اور اپنے ہاتھ اپنے نائٹ سوٹ سے صاف کرتے کھڑی ہوئی ابھی وہ کچھ جواب دیتا کہ
"کیوں بلا رہے ہو رات کے اس وقت مینرز نام ۔۔۔۔۔۔۔۔"آمنہ آنکھیں مسلتے ہوئے کچن میں داخل ہوئیں ان کی بات آگے کا منظر دیکھ کر ادھوری رہ گئی۔ ان کے پیچھے داخل ہوتے عزام نے پہلے زری کا ہاتھ دیکھا اور پھر فرش پر چمکتی ہوئی عجیب سی چیز۔۔۔۔
وہ فوراً سچویشن سمجھتے زری کی قریب آئے زری فورن عزام کے گلے لگ گئی "سوری بابا"
"سوری کی بچی ادھر آو ۔۔۔۔۔ کیا کیا یہ تم نے؟ ۔۔۔۔۔۔ کس نے کہا تھا کس نے کہا تھا یہ نکالنے کو" زری کو غصّے سے پکڑنے کی کوشش کی جسے عزام نے اپنے پیچھے کرلیا
"بچی ہے بچے ایسی ہی حرکتیں کرتے ہیں چھوڑدیں" عزام کے کہنے پر پہلے عزام کو گھورا
"اور گدھے تم کیا کر رہے تھے جب گرا رہی تھی یہ سب" وہ ایک دم سے ارباز کی طرف پلٹی جو زری کی دانٹ پر کھڑا مزے لے رہا تھا ایک دم سٹپٹا گیا یہ تو بلی اپنے سر پڑ گئی یہ صرف وہ سوچ ہی سکا بول تو سکتا نہیں تھا کیونکہ اپنی پیاری ماما کو وہ اچھے سے جانتا تھا جو اسے لال بندر بنانے میں سیکنڈ نہ لگاتیں
" آئنسٹائن کی اولاد نیوٹن کی چوھتی لاء بنا رہے ہو اب " آمنہ نے اسے آنکھیں دیکھائیں تو وہ اپنے نیک خیالات سے نکلا۔
"اس کا باپ آئنسٹائن ہوتا تو تم سے شادی نہیں کرتا" عزام نے لب دانتوں تلے دبا کر مسکراہٹ روکی آمنہ نے فورن اسے گھوری سے نوازا اور پاکستانی عورتوں کا نیشنل ڈائلاگ بولا " آپ کو تو میں بعد میں بتاتی ہوں " اور پھر اپنے اکلوتے اور جن جیسے سپوت کی طرف مڑی
"مہاراجہ صاحب جواب دینا پسند کرینگے "
"جی ماما جب تک میں آیا یہ محترمہ سب گرا چکی تھیں" وہ فورن لڑاکا عورتوں کی طرح بولا تو اس کے انداز پر عزام کو ہنسی آگئی۔
" ماما سوری پلز آئندہ نہیں کرونگی درد ہورہا ہے۔ چھوڑدیں "زری نے معصومیت سے آنکھیں پٹپتا کر کہا ۔
"ماما شی سے دس ایچ اینڈ ایوری ٹائم "ارباز نے لقمہ دینا ضروری سمجھا اب آمنہ پھر اس کی طرف مڑی۔
" تو میری جان ابھی کیوں کیا یہ آپ نے آئندہ نہیں کروگی نہ ؟" زری نے "جی" کہہ کر زور زور سے ہاں میں سر ہلایا۔
"جی کی بچی ابھی آپ کے ابّا جی صاف کرینگے یہ رات کے تین بج رہے ہیں" آمنہ نے اسے بازو سے پکڑتے قریب کیا اور جتانے والے انداز میں عزام کو گھورتے کہا۔ جبکہ پیچھے سے ابھی بھی عزام نے پکڑ رکھا تھا دفاعی صورت حال کے تحت ۔۔۔۔۔
"زری بولو میرے بابا کردینگے صاف آپ زیادہ ٹینشن نہ لیں " عزام نے بھی آمنہ کے ہی انداز میں جواب دیا۔
"ادھر آو میرے شیر بابا کی مدد کرو "عزام نے فورن ارباز کو بلایا۔
"بابا یار مجھے نیند آرہی ہے ویسے ہی صبح اسکول جانا ہے مجھے" ارباز نے بھی جان چھڑانی چاہی اور منہ بسورا اور دروازے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔
" اچھا جی میرا خیال ہے آپ کو وہ کار نہیں چاہیے اب" عزام نے ادھر ادھر دیکھا جیسے کسی چیز کی تلاش میں ہو۔
"ارے بابا میں تو مذاق کر رہا تھا۔ روز ہی تو سوتے ہیں کل چھٹی کرلیں گے اور اسے صاف کرنے کے لئے نہ بکٹ ,سرف اور ایک کپڑا چاہیے ہوگا ہے نہ ماما " وہ فوراً سیدھا ہوا۔ اس نے عزام کو بتاتے ہوئے آمنہ سے تصدیق چاہی۔
" جی" آمنہ نے تصدیق کرتے ڈائننگ ٹیبل سے چیئر نکالی اور مزے سے بیٹھ گئی۔ زری فورن آکر آمنہ کی گود میں بیٹھی۔ آمنہ نے اسے پیار کیا۔
ارباز جلدی سے واش روم سے سامان لے کر آیا تو دونوں باپ بیٹا اپنی لاڈلی کے کارنامے کو صاف کرنے میں جت گئے۔ آمنہ مسکرا کر ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
گیارہ سال میں سب کتنا بدل گیا تھا۔
مگر ابھی اور کچھ بدلنا باقی تھا ۔
کبھی کبھی مجبوریاں عزت نفس کو دبوچ لیتی ہیں۔ حالت سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ نے بھی کرلیا تھا ۔

 محبت رزق کی صورت? از فریحہ خانWhere stories live. Discover now