"یار سوات والے کہاں سے ٹپک پڑے اچھا خاصہ ہم نے کراچی جانا تھا " رمشا نے پھر منہ بگاڑتے سوات والوں کو کوسنا شروع کردیا جب سے زری نے اسے بتایا تھا کہ وہ سوات جارہی ہے تب سے رمشا کا غصّے سے برا حال تھا
" میں کیا کروں میری مجبوری ہے اور ہم کچھ دنوں تک واپس شہر آجائیں گے تھوڑے دنوں کی بات ہے بس تم ٹینشن فری رہو ایسا بھی کوئی جدا نہیں ہورہے ہم رہنا تو میں نے کراچی میں ہی ہے " زرمینے نے مسکراہٹ دبائی
وہ دونوں فری تھیں تو سٹاف روم میں آگئیں زری کچھ رپورٹز بنا رہی تھی
"ظاہر ہے واپس تو تم نے آنا ہی ہے " رمشا مطمئن ہوئی
"کیا مطلب ہے واپس تو آنا ہے اگر میں نہ آؤں تو " زری نے مکروع مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی
"میری جان تمهارا دولہا راجہ تو تمھارے شہر میں ہی بسا ہے اس لئے لے دے کر وہی مرنا ہے تم نے" رمشا نے گہری مسکراہٹ سجاتے اس کی ناقض عقل پر افسوس کیا
" میرے سامنے اس فضول شخص کی بات نہ کیا کرو " زری نے بے زاری سے کہا
" کیوں نہ کروں مجھے پتا ہے جب تمہاری شادی ہوجائے گی تو تم اسی فضول شخص کے آگے پیچھے پاگل ہورہی ہو گی " رمشا نے اسے چڑایا
"شٹ اپ اوکے" زری ہتھے سے اکھڑ گئی تھی
بیٹا جی رہنے دو شٹ اپ کو ۔۔۔۔ جب تم اپنے گھر چلی جاؤ گی نہ اپنے شوہر کے ساتھ " رمشا نے بھرپور ایکٹنگ کرتے آنکھوں سے غائبانہ آنسو پوچھے ۔
زری ہاتھ سینے پر لپیٹے اسے گھور رہی تھی
"ہر پل میری یاد تمھیں تڑپائے گی میں جاگونگی نیند تمھیں نہ آئے گی" رمشا پھر سے بولی
"رمشا آہہ! کاش مجھے ایک قتل معاف ہوتا" زری نے خود پر بڑی مشکل سے کنٹرول کرا اور اپنی فائلز اٹھا کر پیر پٹختی نکل گئی
رمشا ہنس ہنس کر دوہری ہورہی تھی ہنستے ہنستے نمی گھل گئی
اس نے نمی صاف کری اور اٹھ کر کھڑکی کے پاس آگئی آسمان پر نظریں جمائے دل ہی دل میں وہ اپنی دوست کی خوشیوں کے لئے دعا گو تھی وہ اب زری کو خوش دیکھنا چاہتی تھی اس حوالے سے اس نے کچھ سوچ بھی رکھا تھا مگر فلحال وہ چپ ہی رہی
بعض دفع انسان کی خاموشی اسے لے ڈوبتی ہے اور رمشا اچھے سے جانتی تھی کے زرمینے بھی انہیں بےوقوفوں میں سے ہے تو اب اس نے خود یہ مسلہ حل کرنا تھا اپنا مگ ٹیبل پر رکھتی وہ سٹاف روم سے نکل گئی~~~~~||
ماضی :
آمنہ بیڈ کی پائنتی پر آکر بیٹھی دوپٹے کو اٹھا کر کھولا فون نیچے گرا اس نے ہاتھ میں فون اٹھایا گهريال پر ایک نظر ڈالی اور دوسری بجتے ہوئے فون پر جہاں عزام کالنگ لکھا آرہا تھا کچھ منظر پیچھے ہوئے
چند دن پہلے :"کدھر تھیں سارا دن ؟" عزام نے بیڈ پر لیٹتے فون کندھے اور کان کے بیچ دبا کر پوچھا
"کہیں نہیں بس پڑھ رہی تھی امپوڑٹنٹ ٹیسٹ ہے کل تم بتاؤ" وہ ابھی بھی بکس میں بلینکس ڈھونڈ رہی تھی
"تمهارے انتظار میں بیٹھا تھا" وہ ایک سائیڈ پر ہوکر لیٹا
"کیوں اور کوئی کام نہیں ہے نرے فارغ ہو" وہ ہنستے ہوئے بولی عزام بھی اس کے ہنسنے پر کچھ نا بولا
"کیا ہوا برا مان گئے کیا ؟" وہ ہنسی روک کر بولی "نہیں۔۔اور اتنا بھی فارغ نہیں ہوں میں بٹ ۔۔۔۔محبت وقت مانگتی ہے محترمہ "وہ سیدھے ہوتے تکیہ اپنے اپر رکھتا بولا
"ایکسكيوز می۔۔۔ مجھے تم سے کوئی محبت وحبت نہیں ہے اور پڑھائی محبت سے زیادہ وقت مانگتی ہے" وہ کلئیر کرتی بولی آواز تھوڑی اونچی ہوگئی "تم اتنا غصّہ کیوں کرتی ہو" عزام نے ٹھوری کے نیچے ہاتھ رکھتے کہا
"مجھے غصّہ کرنا پسند ہے" وہ منہ پر آتی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑستی مسکراہٹ دبا کر بولی
"عجیب پسند ہے تمہاری" عزام نے سر كهجاتے کہا یہ لڑکی سمجھ سے باہر تھی
"ہاں پھر تو تم بھی عجیب ہوئے" اس نے رجسٹر پر کچھ لکھتے بےنیازی سے کہا
"مطلب تمھیں میں پسند ہوں" وہ فورن سیدھا ہوا "نہیں کس نے کہا پاگل ہو کیا؟" وہ سٹپٹائ
"ابھی تم نے کہا ہے بلکل ابھی" وہ ایک دم پرجوش ہوگیا تھا
"نہیں نہیں کان خراب ہیں تمهارے" آمنہ نے روڈ ہوتے اس کی نفی کری
"امی آرہیں ہیں اللّه حافظ" اس نے کہتے ہی کال کٹ کردی وہ فون کو دیکھ کر مسکرایا اور پھر سائیڈ پر رکھتا لیٹ گیا
اس کی نظر ابراھیم پر پڑی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا
"کیا ہوا گھور کیوں رہے ہو" وہ آنکھیں چھوٹی کرکے بولا
"عشق نے نکما کر دیا غالب
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے "
ابراھیم نے ایک آنکھ ونک کرتے شعر پڑھا
عزام نے کشن اٹھا کر اسے مارا تھا پھر وہ دونوں ہی ہنسنے لگے
YOU ARE READING
محبت رزق کی صورت? از فریحہ خان
Fantasyیہ داستان ہے کسی کے خاک ہونے کی ۔ یہ داستان ہے اعتبار کرنے والوں کی ۔ یہ داستان ہے نفرت اور محبت کی۔ یہ ہے داستان زندگی سے لڑتے لڑتے برف بن جانے والوں کی آزمائش سے گزرنے والوں کی۔ یہ داستان ہے ان لوگوں کی جنہیں محبت رزق کی صورت حاصل ہوئی ۔۔۔۔۔✨