part : 9

4 0 0
                                    

کتاب زیست کا ۔۔۔۔۔ ایک اور باب ختم ہوا
شباب ختم ہوا ۔۔۔۔ ایک عذاب ختم ہوا

~~~~~~||

تقریباً چھے بجے کا وقت تھا جب اسے درخنے چائے کے لئے بلانے آئی
وہ نا چائے پیتی تھی نہ اسے کوئی انٹرسٹ تھا مگر آمنہ زبردستی اسے وہاں لیکر آئیں
زرمینے انتہا کی بے زار سی وہاں بیٹھی تھی
اس کے ایک طرف ماہم اور پلوشے بیٹھے تھے اور دوسری طرف صرف دو خالی کرسیاں پڑیں تھیں شاید وہ کسی کی جگہ تھی
وہ دونوں کسی کی شادی کو ڈسکس کر رہے تھے
اسے لوگوں سے گھلنے میں وقت لگتا تھا
پلوشے اسے ہر بات میں شامل کر رہی تھی وہ بھی جواباً مسکرا دیتی
پھر ماہم اس سے کچھ کہنے لگی
مگر اس کا دیہان کہیں اور ہی تھا
دروازہ کھلنے اور ہارن کی آواز پر اس نے پلٹ کر دیکھا
وہ رومان کی گاڑی تھی
زرمینے نے واپس ماہم کی طرف دیکھا
ماہم اور پلوشے دونوں نے ہی اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تھا
"رومان پھوپھو " پلوشے کی خوشی سے چیخ نکلی تھی
زرمینے نے ایک گہرا سانس لیا
اور آنکھیں بند کرکے کھولیں
"تم جانتی ہو پھوپھو کو ؟" ماہم نے ہچکچا کر اس سے پوچھا
" ہاں " زری زبردستی مسکرائی تھی

رومان اور صائم کے قریب آنے پر پلوشے اور حارث ایک ساتھ اپنی جگہ سے اٹھے تھے
پلوشے رومان کے گلے لگی تھی
آمنہ کے اشارہ کرنے پر زری بھی اٹھ کر ماہم کے ساتھ گئی
رومان ایک پل کو اسے وہاں دیکھ کر چونکیں تھیں
اس کی آنکھوں میں دنیا جہان کی بے زاری تھی
وہ پلوشے کے ہٹتے ہی رومان کے گلے لگی
"یہاں کیا کر رہی ہو ؟" رومان نے اس کا بجھا بجھا چہرہ ٹھوری سے پکڑتے غور سے دیکھ کر کہا
"امی نے بلوايا ہے ادھر ۔۔۔۔۔ وہ بھی گن پائنٹ پر " اس نے منہ کے زاویے بگاڑے
"تم تو کہتی تھیں مر جاؤنگی ۔۔۔۔ سوات نہیں جاؤنگی" رومان نے مسکراہٹ دباتے اسے اس کا کہا یاد دلایا

رومان اپنی شادی کے بعد شہر میں ہی رہتی تھیں عزام نے اسے سب بتا رکھا تھا عزام نے ڈیتھ سے پہلے زرمینے کا نکاح صائم سے کردیا تھا
عزام کے بعد بھی وہ آمنہ سے کونٹیکٹ میں تھیں
ارباز کی ڈیتھ کے بعد وہ کافی دفع آمنہ کو اس حوالے سے سمجھا چکی تھیں مگر نہ تو آمنہ مانتی تھی اور نہ ہی زری

"مجبوری بھی کسی چیز کا نام ہے پھوپھو" اس نے آنکھیں گهمائیں
رومان کا قہقہ بے ساختہ تھا رومان اس کا ہاتھ پکڑ کر پلوشے کے پاس آکر بیٹھ گئیں
اسفند خان سے ہاتھ ملاتے صائم کی نظر اس پر پڑی تھی اس نے حیرت سے زری کو دیکھا
زری کی بھی نظر اس پر پڑی اور پھر وہ مسکرایا تھا
زری نے سپاٹ تاثرات کے ساتھ نظریں پھیر لیں
صائم نے ایک پل کو رکتے تعجب سے اسے دیکھا
اور پھر اسے کچھ یاد آیا وہ معمہ سمجھتے زمان کی طرف بڑھ گیا
وہ سب سے ملنے کے بعد اس کے برابر میں خالی چیئر پر آکر بیٹھ گیا
"زری ؟" اس نے سامنے دیکھتے زری کو آہستہ آواز میں پکارا
" ہوں ؟ " زری اپنے ہاتھوں میں پہنی رنگ کی طرف متوجہ تھی
"تم یہاں کیسے ؟" صائم نے سامنے دیکھتے اس سے پوچھا
" مجبوری میں " اس نے سرد آہ بھرتے کہا
"ناراض ہو؟" صائم نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے سرگوشی کی
"فرق پڑتا ہے ؟" زری سپاٹ لہجے میں بولی
"بلکل!" صائم نے اس کے لہجے پر سرد نظروں سے اسے دیکھا
" میں کیوں ناراض ہونگی ۔۔۔ " وہ کندھے اچکا گئی
" مجھے لگا " صائم نے سمجھتے سر ہلایا
" غلط لگا " زری نے ملامت سے اسے دیکھا
کتنی جلدی یقین کرلیا تھا نہ اس نے ۔۔۔۔
وہ مزید بد گمان ہوئی
"اچھا ۔۔۔۔۔ ویسے میں نے تمھیں یہاں ایکسپیکٹ نہیں کیا تھا " صائم نے مسکراتے کہا
" تم نے تو مجھے اپنی لائف میں بھی ایکسپیکٹ نہیں کیا تھا " زری نے دھیمے لہجے میں کہا
اس کے دل میں درد کی ٹیس سی اٹھی تھی
" کچھ کہا ؟ " صائم نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا
" نہیں " وہ شکوہ کناہ نگاہوں سے اسے دیکھتی نفی میں سر ہلا گئی
صائم ازلان کی جانب متوجہ ہوگیا
اور اس سے مزید بیٹھا نہ گیا سو وہ اٹھ کر اندر اپنے کمرے میں چلی گئی

 محبت رزق کی صورت? از فریحہ خانDonde viven las historias. Descúbrelo ahora