Part: 4

11 0 0
                                    

زری ماضی سے حال میں لوٹی تھی
زری نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ۔۔۔۔۔
اس کی کافی ٹھنڈی ہوگئی تھی اس دن کی طرح

ہر گزرتا دن اپنے اندر عذابوں کو سموئے تھا
"موت کا ڈر زندگی کی امنگ پر حاوی ہورہا تھا"
اور وہ زندگی کے اس موڑ پر ایک بار پھر بے بس تھی

کیا بہت ضروری ہے ؟
خواب پوش آنکھوں میں،
آنسوؤں کا بھر جانا ؟
حسرتوں سے ساحل پر ،
تتلیوں کا مر جانا ؟
حبس کی ہواؤں میں ،
خوشبوں کا ڈر جانا ؟
دل کے گرم صحرا میں ،
حشر ہی برپا ہونا ؟
درد لا دوا ہونا ؟
کیا بہت ضروری ہے ؟

~~~~~||

" موت کا ڈر زندگی کی امنگ پر حاوی ہورہا تھا "
کس کی موت کا ڈر ؟
"اپنے سے جڑے رشتوں کی موت کا ڈر انسان کے اندر زندگی جینے کی صلاحیت ختم کردیتا ہے "
انسان کو زندہ لاش بنا دیتا ہے ۔۔
زندہ لاش کا مطلب جانتے ہو ؟

محسن میرے ہاتھ کی لکیروں میں یہ عیب چھپا ہے
میں جس شخص کو چھو لوں وہ میرا نہیں رہتا

~~~~~||

آج وہ صبح جلدی اٹھ گیا تھا ابراھیم کے اٹھنے سے بھی پہلے ۔۔
وہ جو ابراھیم کے جگز بھر بھر کر پانی ڈالنے پر بھی نہیں اٹھتا تھا وہ ابراھیم سے پہلے اٹھ گیا ۔
تشویشناک بات تھی ۔۔۔
ابراھیم کی آنکھ کمرے میں ہوتی کھٹ پٹ سے کھلی تو اس نے عزام کو حیرت سے دیکھا
"کدھر میاں ؟" وہ آنکھ مسلتا بولا
" تیری بھابھی کو پٹانے جارہا ہوں " عزام نے آنکھ ونک کی
" تو کافی بےغیرت نہیں ہو گیا " ابراھیم نے اس کے الفاظ پر طنز کیا
" صحیح کہہ رہا ہے پر ابھی بھی تجھ سے کم ہوں " وہ مزے سے بولتا بال بنانے لگا ابراھیم نے مسکراہٹ دباتے کمفرٹر صحیح کری پھر گلا کھنگارا
" یہ بھی ممکن ہے کسی روز نہ پہچانوں اسے
وہ جو ہر بار بھیس بدل لیتا ہے
بارہا مجھ سے کہا تھا میرے یاروں نے وصی
عشق وہ دریا ہے جو بچوں کو نگل لیتا ہے "
شعر پڑھتے وہ كمفرٹر میں گھسا
"نصیحت سن لے میری کام آئے گی پھر نہ کہنا بتایا بھی نہیں تھا" اس نے ہانک لگائی
"شب شب بول شب شب" عزام والٹ جیب میں ڈالتا مسکرا کر بولا
"اے تو ہندو ہوگیا" ابراھیم نے تڑپ کر کمفرٹر سے منہ نکالا
"لکھ دی لعنت کبھی تو اچھی بات منہ سے نکال لیا کر" وہ لعنت دکھاتا کمرے سے چلا گیا (یہ بات وہ پہلے ہی پتا کر چکا تھا کہ وہ کہاں پڑھتی ہے) ابراھیم کی آنکھیں صدمے سے پھیلیں ہوئی تھیں "اور کی حال چال این؟" وہ آنکھیں گھماتا کمرے میں لگی ایک نامور فٹ بالر کی تصویر سے بولا اسے فٹ بال پسند تھی
"شکر کسی نے دیکھا نہیں" ابراھیم شکر ادا کرتا کمفرٹر میں گھسا

خود غرضی انسان کو لے ڈوبتی ہے وہ نہ گھر کا رہتا ہے نا گھاٹ کا ۔۔۔۔۔

حصول محبت کو جس کی بازی جان لگا دی
نگاہ محبت بھی اس شخص کی حاصل نہ ہوسکی

(از خود قلم )

~~~~~||

"یو نو وہاٹ اگر میں لڑکا ہوتی تو چار شادیاں کرتی" پلوشے کتاب بند کرتے بولی
وہ دونوں بیٹھے پڑھ رہے تھے حارث کتاب ہاتھ میں اٹھائے آرام سے صوفے پر بیٹھا تھا
اس کے سامنے ٹیبل تھی حارث کی اپوزیٹ سائیڈ پر وہ بیٹھی تھی
گھٹنے سے تھوڑی نیچے تک آتی پرنٹد بلو کرتی کے ساتھ بلیک تراؤزر پہنے سفید ڈوپتا سر پر ٹکائے وہ پیاری لگ رہی تھی خوبصورت تو وہ ویسے ہی تھی "چار شادیاں ؟" اس کی بات پر وہ چلا ہی تو اٹھا تھا
"ہاں نہ ایکسپرنس ہوتا الگ الگ لوگوں کے ساتھ رہنے کا ۔۔۔۔۔ان کو جاننے کا" وہ اس کی عقل پر ماتم کرتی بولی
"پھر تو مجھے بھی چار شادیاں کرنی چاہیے" وہ سمجھ کر سر ہلاتے بولا
"منہ نہ نوچ لوں میں تمہارا" پلوشے غرائ
"تمہارے یہ نیک خیالات نا تمہارے ابا حضور تک پہنچنے چاہیے" حارث نے مسکراہٹ چھپائ
"شادی والے یا منہ نوچنے کے ؟" پلوشے کو سمجھ نا آئ
"دونوں" وہ کندھے اچکا گیا
"تم مجھے دھمکی دے رہے ہو؟" وہ آنکھیں سکیڑ کر بولی
"میری اتنی ہمت" وہ نفی میں سر ہلاتا چہرہ جھکا گیا
پلوشے نے مسکراتے کتاب کھول لی
"کبھی کبھی میں سوچتا ہوں" حارث آگے کو ہوتا بولا
"تم سوچتے بھی ہو؟" پلوشے نے مسکراہٹ دباتے اس کی بات کاٹی
"تم سیریس نہیں ہو سکتی ؟" اس نے آئ برو اچکاتے پوچھا
"آئ ایم سیریس"( چار شادی کرنے میں ) وہ سنجیدگی سے بولی
دوسری بات اس نے دل میں ہی سوچی تھی کیا پتا وہ ابا کے گوش گزار کردے ۔۔۔
"کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ ہمارے گھر کا ماحول ۔۔۔۔۔۔ اچھا خاصہ سٹرکٹ ہے نہ۔۔۔ اس پر تمهارا یہ حال ہے" وہ اس کی شادی والی بات پر چوٹ کرتے بولا باقاعدہ ہاتھوں سے اس کا حال بتایا گیا
وہ واقعی حیران تھا یہ لڑکی پوری وبال جان تھی "عرض کیا ہے" پلوشے نے دو سیكنڈ کو سوچ کر گلا کھنگارا
حارث نے افسوس سے سر جھٹکا اس سے بات کرنا ہی فضول تھا
"ابا سخت مزاج تھے ہم من موجی
اتنا بگڑے جتنی سختی ہوتی تھی
اب تو دل میں ایک بندے کی جگہ نہیں
پہلے دل میں بڑی سی کوٹھی ہوتی تھی " ایک ہاتھ چہرے کے نیچے رکھتے آنکھیں پٹپٹا کر آخری مصرعے قدرے افسوس سے پڑھے گئے تھے

 محبت رزق کی صورت? از فریحہ خانOnde histórias criam vida. Descubra agora