Part:5

12 0 0
                                    

حال :
وہ دونوں همقدم وسیع و عریض عمارت کی سیڑهياں چڑھ رہی تھی
ان سے آگے ایک لڑکی انہیں گائیڈ کر رہی تھی گولڈن كلرڈ کرلی بال کھلے کمر پر ڈال رکھے تھے
جن کی لینتھ بہت کم تھی
چھوٹی سی پنك ٹی شرٹ اور بلیک پلازو پہن رکھا تھا ۔ ہسپتال کی طرف سے آج انہیں شیلٹر ہوم کا وزٹ کرنا تھا
سو وہ صبح دس بجے سیدھا وہاں آئ تھیں عمارت سے باہر ہر طرف سفید سطح بچھی ہوئی تھی جن کی نیچے هريالی چھپ سی گئی تھی برف باری رک چکی تھی بادلوں کے پیچھے سے سورج اپنی ایک جھلک دكهانے کو مچل رہا تھا
"کتنا چلا رہی ہے یہ میری تو ٹانگیں ٹوٹنے کے در پر ہیں " رمشا بے زار سی بولی
"چپ ہوجایا کرو کبھی تو آخری بار چپ کب بیٹھیں تھی؟" زری خود چل چل کر تنگ آگئی تھی
"وایئوا میں ہی بیٹھی ہوگی ۔۔۔سوری لیٹ آنے کے لئے معذرت خوا ہوں" ابان نے بیچ میں بولنا ضروری سمجھا
اس کی آواز پر ان دونوں نے پلٹ کر گھورا وہ بلیک پینٹ کوٹ پہنا الٹے ہاتھ پر رولیكس باندھے، بالوں کو کھڑا کرکے ہیئر سپرے کر رکھا تھا وہ پر کشش تھا بلکے رمشا سے تو زیادہ ہی خوبصورت تھا
ابان چھ ماہ سے ان کے ہوسپٹل میں ہی جاب کر رہا تھا زری سے اس کی اچھی سلام دعا بھی تھی اور یہی وجہ تھی کے وہ رمشا کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا وہ اسپیشلائیزیشن کے لئے مانچسٹر آیا تھا رہتا وہ کینیڈا میں تھا
"مائنڈ یور بزنز " رمشا نے واپس سیدھے ہوتے ٹرخ کر کہا
"میرا کوئی بزنز ہے ہی نہیں تنخوا دار آدمی ہوں" ابان نے قہقہ مارا
"ہنہ اپنی شادی کا سوٹ پہن کر کیوں آگئے ؟۔۔۔۔اوہ اچھا تمہاری تو شادی ہی نہیں ہوئی" رمشا سیخ پا ہوتی اسے تپانے کے غرض سے بولی
"نہیں تمہاری شادی کے لئے خریدہ تھا مگر آثار نظر نہیں آئے تو سوچا پہن لوں تم جیسی بدزبان لڑکی کو کون اپنا بیٹا دیگا بڑا ہی کوئی دل گرده والا کام ہے " ابان نے بھی بغیر لحاظ حصاب بے باق کیا "کینیڈئین مرغا ہنہ " رمشا نے اسے نیا لقب دیا جو وہ سن ناسکا تھا "come this way " گھنگریالے بالوں والی لڑکی آخر کار رک ہی گئی تھی وہ دروازہ دھکیلتی ان کے لئے راستہ چھوڑ گئی وہ اس کے پیچھے آئے اندر کا منظر دیکھ کر ابان کی آنکھیں چمک گئیں البتہ وہ دونوں حیرانی سے سامنے دیکھ رہی تھیں بہت بڑی چکور میز کے ارد گرد کرسیاں لگی تھیں جس پر مرے دھرے بھی ستر اسی بچے بیٹھے تھے
وہ سب سیلف تھے،
معزوری کے باوجود ۔۔۔!!
کھلکھلا رہے تھے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے زری رک گئی تھی وہاں ایک بڑی لڑکی بھی تھی چودہ پندرا سال کی بال کندھے سے نیچے تک تھے سیدھے سلکی گرین ٹی شرٹ جس پر آئ لو بکس لکھا تھا ذہن کے پردے پر ایک لڑکی کا عکس ابھرا جس کے چہرے کے نقوش واضح نہ تھے اسے یاد آیا ایسا بک مارک کسی اور کے پاس بھی اس نے دیکھا تھا اور پھر نظریں پیروں تک گئی
شوز
وائٹ شوز ۔۔۔۔
زری کہیں پیچھے کھو گئی
بہت پیچھے
ماضی :
" آئ لو شوز میرا بس چلے تو پوری دنیا کے شوز خریدوں اور گھر میں ہی ایکزیبیشن لگاؤں " وہ لیسیز باندھ کر بولی
"وہاٹ جوتوں کی ؟ " زری نے عجیب نظروں سے دیکھا" ہاں تو جوتوں کی بھی ہوتی ہوگی" وہ ہنس کر بولی ۔۔۔۔۔۔
حال :
اس بچی سے چمچ پکڑا نہیں جارہا تھا چمچ چھوٹ کر نیچے گرا چہرہ مرجھایا وہ سرجھکا گئی آنکھوں میں نمی دوڑنے لگی اچانک اس نے سر اٹھایا دوسرے بچے نے اپنا چمچ اسکے آگے رکھ دیا تھا اب وہ دوسری لڑکی اس سے کچھ کہہ رہی تھی وہ لڑکی کھلکھلا کر ہنسی
زری کے دل نے ایک بیٹ مس کی
کسی کا قہقہ سماعت سے ٹکرایا "آپی آئ لو یو " کوئی اس کے کان میں سرگوشی کر گیا
" مجھے پکڑیں۔۔۔" کوئی بھاگ رہا تھا
"یار میں چھوٹی بہن ہوں چھوٹی بہن سے کون کام کرواتا ہے" کوئی ٹیوی دیکھتے غصّے سے بول رہا تھا
" آپی ٹرے تم ہی اٹھالو" کوئی ہاتھ میں ٹرے تھما رہا تھا اور وہ تھامنے سے انکاری تھی
" یار بھوک لگ رہی ہے کچن تک چلو بہن ہوگی" کوئی منت کر رہا تھا
"مجھے اجازت دلواؤ میں کچھ نہیں جانتی " کوئی اب اس پر حکم چلا رہا تھا
اور زری
ہاں اس کی سانسیں رک رہی تھی
ضبط کی شدت سے آنکھیں انگارہ ہورہی تھیں
منظر دھندھلائے تھے
اب سامنے کوئی نہیں تھا
وہ وہیں ہال کے بیچوں بیچ کھڑی تھی
وہ لڑکی کچھ کہہ رہی تھی
رمشا نے ناجانے کیوں نوٹ نہیں کیا یا وہ کچھ کہنا ہی نہیں چاہتی تھی
"یار یہ چڑیا کا گھونسلا کہاں جارہا ہے اب" رمشا نے اسے ہلایا
"ہاں ؟" وہ سپاٹ سی بولی
"ہمیں ٹیلی پیتھی نہیں آتی" ابان نے بولنا ضروری سمجھا
"تمھیں تو ڈاکٹری بھی نہیں آتی" رمشا نے ناک سے مکھی اڑائ
"ویسے میں یہ سوچ رہی تھی کہ یہ بچے اتنے خوش ہیں نا ۔۔۔۔کاش ہم بھی اتنے خوش رہ پاتے" رمشا نے دو بچوں کی طرف دیکھتے حسرت سے کہا
"بے خبری خوشیوں کا مترادف ہے " ابان نے سنجیدگی سے کہا
اس کے لہجے پر رمشا نے چونک کر اسے دیکھا مگر تاثرات وہاں موجود نہ تھے
" واقفیت عذاب ہے ۔۔۔جان لینا جان لے لینے کا سبب بن جاتا ہے " زری کے کہنے پر رمشا نے اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی
مگر وہ رخ دوسری طرف کر گئی ابان کو بھی اندازہ ہوچکا تھا کہ کچھ پروبلم ضرور ہے
وہ لڑکی واپس آئ اور زری کو اشارہ کیا سائیڈ پر ایک ٹیبل تھی وہ انہیں اپنا سامان سیٹ کرنے کو کہہ رہی تھی زری نے اپنے ہاتھ میں پکڑا بریف كیس ٹیبل پر رکھا اور سامان نکالنے لگی اب انہیں ان سب بچوں کا میڈیکل لینا تھا ابان اور رمشا بھی اسکی ہیلپ کرنے لگے بچے کھانا کھا چکے تھے اور باری باری آرھے تھے یہاں آنے کے لئے زری خوش تھی مگر اب اس خوشی کی ایک جھلک بھی اس کے چہرے پر نمایاں نہ تھی

 محبت رزق کی صورت? از فریحہ خانWhere stories live. Discover now