یہ صبح کے گیارہ بجے کا وقت تھا ۔۔ جب اسکی آنکھ کھلی اور نظر سامنے رکھے صوفے پر پڑی تھی ۔۔ تین دن۔۔ آج تین دن ہوگئے تھے اور وہ حویلی سے غائب تھا ۔۔ اس نے اپنا موبائل اٹھا کر تین دن پرانا مسیج پڑھا ۔۔
’’ آخری قدم اٹھانے کا وقت آگیا ہے ۔۔ میرے اشارے کا انتظار کرو ‘‘ بس ۔۔ اور وہ غائب ۔۔
’’ اف ماسٹر ۔۔ تم نے میرا سکون تباہ کر دیا ہے ۔۔۔ ایسے بھی کوئی غائب ہوتا ہے کیا ؟ ‘‘ اسے اب چڑ ہونے لگی تھی۔۔
بیڈ سے اٹھ کر وہ ڈریسنگ روم کی جانب گئ ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔۔
’’ کم ان ‘‘
’’ کیا میں آسکتی ہوں ؟ ‘‘ دروازے سے زویا نے اندر جھانکا تھا ۔۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے ۔۔ وہ اندر آئی تھی ۔۔
’’ تم آچکی ہو آلریڈی ‘‘ اسے اب بھی زویا کے بدلے انداز پر حیرت ہورہی تھی ۔۔ اچانک ہی وہ اس کے لئے اتنی اچھی ہوگئ تھی ۔۔ اب ظاہر ہے ۔۔ اس کے پیچھے بھی کوئی بات ہی تھی ۔۔ مگر امل اب تک وہ بات جان نہیں پائی تھی ۔۔
’’ ہاں ۔۔ تم آج پھر لیٹ اٹھی ہو ۔۔ سب بریک فاسٹ کر چکے ہیں مگر ۔۔ میں تمہارا انتظار کر رہی تھی ۔۔ ‘‘
’’ میرا انتظار ؟ کیوں ؟ ‘‘
’’ بس میرا دل چاہ رہا تھا تمہارے ساتھ ناشتہ کرنے کا ۔۔ میں چاہتی ہوں کہ ہم دونوں اچھے دوست بن جائیں ‘‘ اسکا ہاتھ تھام کر کہا تھا ۔۔ واٹ آ کلیور گرل ۔۔ وہ بس سوچ کر رہ گئ تھی ۔۔
’’ آفکورس ۔۔ تم جاؤ میں شاور لے کر آئی ‘‘
’’ جلدی آنا ‘‘ اسے کہہ کر وہ کمرے سے جاچکی تھی جبکہ امل اپنا سر ہلاتی واش روم کی جانب بڑھی تھی ۔۔ دال میں کچھ کالا ضرور ہے امل ۔۔
کچھ دیر بعد وہ ڈایننگ ٹیبل پر زویا کے ساتھ بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی ۔۔
’’ ویسے ۔۔ نائل اور تم پہلی بار کہاں ملے ؟ ‘‘ بعد زویا نے کہا تھا ۔۔
’’ ملے نہیں تھے ۔۔ بس یہ سمجھو کہ میں کھینچ کر لے آئی اسے ‘‘ مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔ ذہن میں انکی پہلی مالاقات والی رات ظاہر ہوئی تھی ۔۔کیسے اس نے سارے کیمرے ہٹا کر اسے مجبور کر دیا تھا آنے پر ۔۔ اسی یاد کے ساتھ ہی اسکی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی ۔۔
’’ لگتا ہے بہت خوبصورت ملاقات تھی ‘‘ اسکی مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ خوبصورت نہیں ۔ مگر ۔۔ بہت دلچسپ بھی ‘‘ گہری مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کافی کا کپ اٹھایا تھا ۔۔ جبکہ زویا نے اپنی جھوٹی مسکراہٹ میں اپنا حسد چھپا دیا تھا ۔۔
جبکہ یہاں سے بہت دور ۔۔ مصطفی کے اس فلیٹ میں آؤں ۔۔ تو لاؤنچ کے صوفوں پر چار لوگ بیٹھے تھے ۔۔ مصطفی اور واجد ۔۔ ماسٹر ۔۔ اور ان تینوں کے سامنے ۔۔ فرہاد ۔۔ جس کے سر پاؤں اور بازو میں اب بھی پٹیاں لگی تھیں ۔۔
’’ تم سمجھ گئے کہ تم نے کیا کرنا ہے ؟ ‘‘ ماسٹر کے سوال پر سب کی نظریں فرہاد کی جانب اٹھی تھیں ۔۔
’’ سب سمجھ چکا ہوں ۔۔ آپکو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔ ‘‘ اسکا پر یقین انداز وہاں موجود ہر انسان کو مطمئن کر رہا تھا ۔۔
’’ ٹھیک ہے ۔۔ پھر ۔۔ تم جاسکتے ہو ‘‘ ماسٹر نے کھڑے ہوئے تھے اور اسی کے ساتھ وہ سب بھی ۔۔
’’ ہمیں یہ سب بہت احتیاط سے کرنا ہوگا فرہاد ۔۔۔ اور اس سے بھی زیادہ ہوشیاری کی ضروت تمہیں ہے مصطفی ‘‘ ماسٹر نے دونوں کو ایک ساتھ مخاطب کیا تھا ۔۔
’’ میں کوئی گڑبڑ نہیں ہونے دونگا ماسٹر ۔۔ پھر چاہے اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے ‘‘ اٹل لہجہ تھا ۔۔
’’ تمہاری جان بہت قیمتی ہے بھائی ۔۔ اور میں تمہاری جان کو کوئی نقصان نہیں ہونے دونگا ‘‘ یہ واجد کے الفاظ تھے ۔۔ جس پر وہاں موجود ہر شخص مسکرایا تھا ۔۔
’’ تم نے بہت بہادری دکھائی ہے فرہاد ۔۔ مجھے امید ہے کہ آگے بھی تم مضبوط رہوگے ‘‘ ماسٹر نے اپنا ہاتھ فرہاد کی جانب بڑھایا تھا ۔۔ جس نے مصطفی اور واجد کے منہ کھول دیئے تھے ۔۔
’’ ماسٹر کو تو اس کے ہاتھ نہیں توڑنے چاہئے ؟ ‘‘ مصطفی نے واجد کے کان میں سرگوشی کی تھی ۔۔
’’ وہ ماسٹر ہیں ۔۔ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسکے ہاتھ توڑ دیئے تو شہزاد شاہ کے ہاتھوں میں ہتھکڑی کیسے لگے گی ‘‘ واجد نے دھیمی آواز میں کہا تھا ۔۔
’’ لیکن پریشان مت ہو ۔۔ شہزاد شاہ کو ہتھکڑی لگ جانے کے بعد وہ سب سے پہلا کام اسکا ہاتھ توڑنے کا ہی کریں گے‘‘ اور واجد کی بات پر مصطفی کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی تھی ۔۔ آخر چاہتا تو مصطفی بھی یہی تھا ۔۔
’’ میری جنگ میرے ضمیر سے ہے نائل شاہ ۔۔ اور اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لئے میں کچھ بھی کر گزروں گا ۔۔ بنا ڈرے ‘‘ اور اسی کے ساتھ فرہاد نے ماسٹر کا ہاتھ تھاما تھا ۔۔
’’ گڈ ‘‘ اسی کے ساتھ فرہاد وہاں سے جاچکا تھا جبکہ ماسٹر اب مصطفی کی جانب متوجہ ہوئے تھے ۔۔
’’ کسی بھی قسم کی کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہئے مصطفی ۔۔ وہ وہاں اکیلی ہے۔۔ اپنی جان کو اس نے صرف ہمارے کہنے پر خطرے میں ڈالا ہے ۔۔ ‘‘ ماسٹر نے اسے ایک اور بار سمجھانا ضروری سمجھا تھا ۔۔
’’ میں ایسی کوئی گڑبڑ نہیں ہونے دونگا جو اسکے لئے خطرہ بنے ‘‘ حتمی انداز میں کہا تھا ۔۔
’’ آمین ‘‘ اور اسی کے ساتھ مصطفی بھی وہاں سے جاچکا تھا ۔۔ جبکہ ماسٹر کا رخ اب واجد کی جانب تھا ۔۔
’’ رات تک نیوز لیک ہوجانی چاہئے ۔۔ اور اس کےبعد ۔۔ مصطفی کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے واجد ۔۔ مجھے اس پر بلکل بھی شک نہیں ہے ۔ وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنا کام مکمل کرے گا ۔۔ لیکن ۔۔ مجھے اسکی جان کی پرواہ ہے ۔۔ اور اس لئے ۔۔ تم اس کی حفاظت کروگے ‘‘
’’ آپ فکر مت کریں ماسٹر ۔۔ اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا ؟ ‘‘
’’ گڈ ۔۔ جاؤ تم بھی ‘‘ اور واجد کے جانے کے بعد ماسٹر نے ایک گہری سانس لی تھی ۔۔
’’ اٹس یور ٹرن ‘‘ جیب سے موبائل نکال کر امل کا نمبر ڈائل کیا تھا ۔۔
جبکہ دوسری جانب ۔۔ اپنے کمرے میں بیٹھی امل نے فوراً کال ریسیو کی تھی ۔۔ تین دن سے اسی کے انتظار میں تو تھی وہ ۔۔
’’ ہیلو ‘‘ بے چین سی امل کی آواز پر ماسٹر کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
’’ لگتا ہے میری کال کا بے چینی سے انتظار تھا کسی کو ؟ ‘‘
’’ خوش فہمی ہے تمہاری ماسٹر ‘‘ صاف انکار ہوا تھا ۔۔
’’ حقیقت سے اور کتنا نظریں چراؤگی امل ۔۔ کبھی نا کبھی تو سامنا کرنا ہی ہے تم نے ‘‘
’’ حقیقت ہی تو دیکھ رہی ہو ماسٹر ۔۔ اور حقیقت ۔۔ شہزاد شاہ ہے ‘‘ سنجیدگی سے جواب آیا تھا ۔۔
’’ فکر مت کرو ۔۔ تمہاری یہ حقیقت کل انجام کو پہنچنے والی ہے ۔۔ اور ایک نئ حقیقت کا آغاز بے حد قریب ہے امل ‘‘ اور ماسٹر کے جواب نے اسے سب سمجھا دیا تھا ۔۔
’’ تو وقت آگیا ۔۔ ‘‘
’’ ہاں ۔۔ وقت آگیا ۔۔ اب جاؤ ۔۔ اور آج رات ایک اور میٹھا بناؤ ‘‘ اسی کے ساتھ کال کٹ ہوگئ تھی ۔۔ اور امل ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے باہر کی جانب بڑھی تھی ۔۔
اسے آج شام ایک اور میٹھا بنانا تھا ۔۔ شہزاد شاہ کے لئے ۔۔ ایک خاص میٹھا ۔۔
وہ اپنی سٹڈی میں بیٹھے مسلسل ایک نمبر ڈائل کر رہے تھے مگر جانے کیوں نمبر لگ ہی نہیں رہا تھا ۔۔ آج تین دن ہوگئے تھے ۔۔ اور فرہاد غائب تھا ۔۔ آخری بار ملنے والی اطلاع کے مطابق وہ بہت بری حالت میں ہسپتال لے جایا گیا تھا ۔۔ شاید اسکی بہن اسےلے کر گئ تھی ۔۔ دو گولیاں لگی تھیں اسے ۔۔ مگر کیسے ؟ یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہوسکا تھا ۔۔ اور پھر اچانک ۔۔ تین دن پہلے وہ ہسپتال سے غائب ہوگیا ۔۔ اور کہاں گیا ؟ یہ بھی اب تک معلوم نہیں ہوسکا تھا ۔۔ اور اوپر سے اسکانمبر بھی بند جارہا تھا۔۔
’’ فرہاد ۔۔ فرہاد ۔۔ کہاں ہو تم ؟ کہاں ہو ؟ ‘‘ موبائل کو میز پر پٹختے ہوئے کہا تھا ۔۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی تھی ۔۔
’’ کم ان ‘‘ کرسی پر سیدھے ہوتے ہوئےانہوں نے آنے والے کو اجازت دی تھی ۔۔ ایک آدمی بلیک پینٹ کوٹ پہنے اندر داخل ہوا اور سیدھا انکے سامنے آکر کھڑا ہوا۔۔
’’ کیا خبر ہے ؟ ‘‘ سنجیدگی سے پوچھا تھا ۔۔
’’ وہ اپنے فلیٹ آگئے ہیں ۔۔ اکیلے ہیں ۔۔ انکی بہن بھی انکے ساتھ نہیں ہے باس ‘‘ مشینی انداز میں جواب آیا تھا ۔۔
’’ اور اسکا موبائل کیوں بند ہے ؟ ‘‘
’’ ٹوٹ گیا ہے شاید ‘‘
’’ شاید !! ‘‘ وہ ایک دم دھاڑتے ہوئے کھڑے ہوئے تھے ۔۔
’’ کیا شاید کی کوئی گنجائش دی ہے میں نے تمہیں ؟ تین دین بعد تم یہ شاید لے کر میرے سامنے آئے ہو ؟ ‘‘ وہ فوراً ہی اس پر برسے تھے جبکہ وہ سر جھکائے کھڑا رہا تھا ۔۔
’’ سوری باس ۔۔ میں سب معلوم کرتا ہوں ‘‘
’’ کسی کام کے نہیں ہو تم لوگ ۔۔ دفع ہوجاؤ یہاں سے ‘‘ اور شہزاد شاہ کی اس دھاڑ پر وہ الٹے پاؤں باہر نکلا تھا جبکہ لاؤنچ کےایک کونے میں کھڑی امل کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
’’ انکا حال تو ٹریلر دیکھنے سے پہلے ہی خراب ہوگیا ۔۔ آگےکیا ہوگا تمہارا شہزاد شاہ ؟ ‘‘ معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہوئے وہ سٹڈی کی جانب بڑھی تھی ۔۔ جبکہ زویا جس کے کانوں میں اسکے الفاظ پہنچ چکے تھے اب اسکے پیچھے آئی تھی ۔۔
دروازے پر ہونے والی دوبارہ دستک نے شہزاد شاہ کو مزید غصہ دلا دیا ہے ۔۔
’’ کیا ہے ؟ ‘‘ چلاتے ہوئے وہ پلٹے تھے مگر سامنے کھڑی امل کو دیکھ کر انہیں خود کو قابو میں رکھنا پڑا تھا ۔۔
’’ تم ۔۔ آؤں ۔۔ بیٹھو ‘‘ ہونٹوں پر زبردستی کی مسکراہٹ سجاتے ہوئے انہوں نے اسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا ۔۔۔
’’ میں نے کسٹرڈ بنایا ہے ۔۔ سوچا آپ کے لئے لے آؤں ‘‘ کسٹرڈ میز پر رکھ کر وہ ان کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھی۔۔
’’ اور آج یہ میٹھا تم نے کس خوشی میں بنایا ہے ؟ ‘‘
’’ کیونکہ آج بہت خوش ہوں میں ۔ آخر ۔۔ مجھے میرے ماں باپ کا قاتل جو مل گیا ‘‘ اور امل کے الفاظ پر شہزاد شاہ نے چونک کر اسے دیکھا ۔۔ کچھ تھا ۔۔ آج امل کے انداز میں کچھ نیا تھا ۔۔۔
’’ اچھا ۔۔۔ کیسے ۔۔ کون ہے وہ ؟ ‘‘ ماتھے پر پسینہ لئے پوچھا تھا جبکہ امل کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی ۔۔
’’ فرہاد نام ہے اسکا ۔۔ سنا ہے ۔۔ آپکا بہت قابلِ اعتماد شخص ہے وہ ۔۔ ‘‘ وہ ایک قدم اسکی جانب بڑھی تھی ۔۔ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ۔۔
’’ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ فرہاد ! وہ ایسا کیوں کرے گا ‘‘ وہ اس وقت حیرت کی انتہاہ پر تھے ۔۔ فرہاد کے بارے میں انہیں کیسے معلوم ہوا ؟ یہ سب کیسے ہوگیا تھا ؟
’’ یہ تو ہوچکا ہے شہزاد شاہ ۔۔ تم نے ٹھیک کہا ۔۔ فرہاد ایسا کیوں کرے گا ؟ لیکن میں جانتی ہوں کہ وہ ایسا کیوں کرے گا ۔۔‘‘ وہ ایک قدم اور آگے ہوئی تھی ۔۔ اب وہ اسکے بلکل مقابل تھی ۔۔
’’ وہ ایسا اپنے باس کے کہنے پر کریگا ۔۔ وہ ایسا تمہارے کہنے پر کرے گا شہزاد شاہ ۔۔ تم نے میرے ماں باپ کو قتل کرنے کے لئے اسے ہائر کیا ۔۔اور اس نے اپنی جاب مکمل کی ‘‘ اور امل کا ایک ایک لفظ شہزاد شاہ پر بجلی بن کر گر رہا تھا ۔۔
’’ یہ کیا بکواس کررہی ہو تم ؟ میں اپنے ہی بھائی کو قتل کرونگا ؟ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا ؟ ‘‘ وہ ایک بار پھر دھاڑے تھے ۔۔
’’ آواز نیچے شہزاد شاہ ۔۔ آواز نیچے رکھ کر بات کرو ورنہ سب سن لیں گے ۔۔ سب جان لینگے کے کس طرح تم نے میرے بابااورماما کو زندہ جلا ڈالا ۔۔ کس طرح تم نے مجھے مارنے کی آخری حد تک کوشش کی ۔۔ اور تمہیں کیا لگا ۔۔ میں کچھ نہیں جانتی ؟ میں سب جانتی ہوں شہزاد شاہ ۔۔ میرے بابا مرنے سے پہلے مجھے سب بتا گئے تھے ۔۔ تم نے ایک مہینے تک ان پر نظر رکھی ۔۔ اور موقع ملتے ہی تم نے گھر میں آگ لگوا دی ۔۔ تم تو سوچ رہے تھے کہ ہم تینوں مر جائینگے اور قصہ ختم ۔۔ مگر میں بچ گئ ۔۔ میں بچ گئ کیونکہ میں اس وقت گھر میں تھی ہی نہیں ۔۔ اور اس کے بعد بھی تمہیں چین نہیں آیا ۔۔ تم نے مجھے مروانےکے لئے فرہاد کو دوبارہ آرڈر کیا ۔۔ میں جہاں ملو ۔۔مجھے ختم کر دے ۔۔ مگر وقت کا کھیل دیکھو شہزاد شاہ ۔۔ میں تمہارے بیٹے سے ٹکرا گئی ۔اور وہ بیچارہ ۔۔ میری محبت میں گرفتار ہوگیا ۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے شہزاد شاہ ؟ ‘‘ اس نے ایک بار پھر سامنے کھڑے اس شخص کی آنکھوں میں جھانکا تھا ۔۔ جہاں خوف اور حیرت دونوں تھے ۔۔
’’ تمہارے بیٹے سے شادی کیوں کی میں نے ؟ ہاں ۔۔۔ صرف تم تک پہنچنے کے لئے ۔۔ سوچوں ذرا ۔۔۔ سوچوں شہزاد شاہ جب اسے سب معلوم ہوگا تو تمہارا کیا ہوگا ؟؟ کون بچائے گا تمہیں ؟ اب تو میرے پاس ثبوت بھی ہے ۔۔ فرہاد ۔۔ وہ میرے پاس ہے شہزاد شاہ ۔۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ تمہارے بیٹے کو تمہاری حقیقت معلوم ہوجائے ‘‘ کہتے ساتھ ایک مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی تھی۔۔
’’ تم ۔۔۔ ‘‘ اور شہزاد شاہ ایک بھوکے شیر کی طرح اسکی جانب بڑھا اور اسکا گلہ دبا کر تیزی سے اسے دیوار کے ساتھ لگایا تھا ۔۔
’’ تم کسی کو کچھ نہیں بتاؤگی ۔۔۔ اگر تم نے اپنی زبان کھولی ۔۔ تو میں تمہیں قتل کردونگا ۔۔ مار دونگا میں تمہیں امل ‘‘ اپنی لال سرخ آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہہ رہے تھے ۔۔ جبکہ امل کے ہونٹوں سے مسکراہٹ اب بھی کم نہیں ہوئی تھی ۔۔
’’ مار دو مجھے شہزاد شاہ ۔۔ کیونکہ اگر میں زندہ رہی ۔۔ تو خاموش نہیں رہونگی ۔۔ لیکن سوچنے والی بات پتہ ہے کیا ہے ۔۔ میری گردن پر تمہارے ہاتھوں کے نشان میرے لئے ایک اور ثبوت کا کام کریں گے ‘‘ اور امل کی بات پر جیسے شہزاد شاہ کو کرنٹ لگا ہو ۔۔ وہ فوراً اس سے دور ہوا تھا ۔۔ یہ وہ کیا کر رہا تھا ؟ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے قتل نہیں کرسکتا تھا ۔۔ ایسا کرنے سے وہ پکڑا جاسکتا تھا ۔۔ اسے کچھ اور کرنا تھا ۔۔ کچھ اور سوچنا تھا ۔۔
’’ بائی دا وے ۔۔۔ ‘‘ اس نے دیکھا امل میز پر رکھے ٹی۔وی ریموٹ کی جانب بڑھی تھی۔۔
’’ لگتا ہے تم نے اس وقت ہی بریگنگ نیوز نہیں دیکھی ‘‘ کہتے ساتھ اس نے ٹی۔وی آن کیا تھا ۔۔ اور سامنے کے منظر نے شہزاد شاہ کے پیروں تلے زمین کھینچ لی تھی ۔۔
’’ تو ناظرین آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں اس گھر میں تقریباً ایک سال پہلے آگ لگی تھی اور پولیس کی ریپورٹ کے مطابق گھر میں اس وقت کوئی فرد نہیں تھا ۔۔ لیکن آج پولیس کو دو انسانوں کی جلی ہوئی لاشیں جنہیں گھر کے لان میں دفن کیا گیا تھا ملی ہیں ۔۔ باڈیز کے جل جانے اور اتنے مہینے گزر جانے کی وجہ سے انکی نشاندہی نہیں ہوسکی مگر اب تک کی اطلاع کے مطابق یہ ایک مرد اور ایک عورت ہے ۔۔ ہم آپ کو پھر سے بتاتے چلیں ناظرین جیسا کے آپ اپنی سکرین پر دیکھ سکتے ہیں کہ اس گھر کے لان سے پولیس کو ۔۔۔۔ ‘‘ نیوز اینکر آگے بھی کہہ رہا تھا ۔۔ سکرین پر گھر کا لان اور وہاں سے نکالی گئیں باڈیز دھندھلی دکھائی جارہی تھیں ۔۔ امل کی آنکھوں سے آنسو ایک بار پھر رواں تھے ۔۔ جبکہ شہزاد شاہ اپنی جگہ سکتے میں آگیا تھا ۔۔ وہ ایک پل کے لئے بھی سکرین سے نظر نہیں ہٹا پارہا تھا ۔۔
’’ اس ایک رات میں تم نے میرے ماں باپ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا شہزاد شاہ ‘‘ امل کی بھیگی ہوئی آواز شہزاد شاہ کو اسکے سکتے سے باہر لائی تھی ۔۔ نظروں کا رخ اب امل کی جانب مڑا تھا ۔۔ جو اپنے آنسو صاف کر کے ایک بار پھر پوری بہادری کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی تھی ۔۔
’’ آج میں تمہیں ایک رات دیتی ہوں ۔۔ بس یہ ایک رات ۔۔ یہ ایک رات ہے تمہارے پاس شہزاد شاہ ۔۔ اور کل کا سورج تمہیں جلا کر راکھ کر دے گا ۔۔ بس یہ ایک رات ‘‘ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس نے ایک آخری بات کہی تھی۔۔ جبکہ شہزاد شاہ بس اسے دیکھتا رہ گیا تھا ۔۔
زویا نے دیکھا۔۔ امل سٹڈی سے باہر نکل کر اوپر اپنے کمرے کی جانب گئ تھی۔۔ آنکھوں میں آنسو لئے ۔۔
’’ مان گئ امل ۔۔ بہت بہادر ہو تم ‘‘ کہہ کر وہ کچن کی جانب آئی تھی ۔۔ جہاں اس نے امل کے لئے ایک کپ کافی تیار کرنا تھا ۔۔ اپنے ہاتھوں سے ۔۔۔
اب اگر سٹڈی کی جانب آؤ تو وہی شخص دوبارہ سٹڈی کے اندر آیا تھا ۔۔ اور میز کا سارا سامان زمین پر گرا دیکھ کر وہ تھوڑا گھبرا گیا تھا ۔۔
’’ باس ۔۔‘‘ اپنا سر جھکاتے ہوئے اس نے شہزاد شاہ کو مخاطب کیا تھا جو کھڑکی کی جانب رخ کئے کھڑا تھا ۔۔
’’ صبح کا سورج نکلنے سے پہلے مجھے فرہاد کی موت چاہئے ۔۔ تمہارے پاس صرف چند گھنٹے ہیں ‘‘ اور جہاں شہزاد شاہ کے آرڈر پر وہ حیران ہوا تھا وہی ان کی آواز کی سنجیدگی سے وہ یہ بھی جان گیا تھا کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے ۔۔
’’ کام ہوجائے گا باس ‘‘ وہ کہہ کر وہاں سے جاچکا تھا ۔۔جبکہ شہزاد شاہ اپنی جگہ کھڑا اب آگے کے بارے میں سوچنے میں مگن تھا ۔۔
تین دن ہوگئے تھے اسےفرہاد سے ملے ہوئے ۔۔ جانے وہ اچانک کہاں غائب ہوگیا تھا ۔۔ اور پھر آج احمد نے بتایا کہ وہ واپس اپنے فلیٹ آگیا ہے ۔۔ مگر وہ اس سے صبح ملنے کا کہہ رہا تھا ۔۔ ابھی وہ آرام کرنا چاہتا تھا ۔۔ ٹھیک ہے اگر وہ آرام کرنا چاہتا ہے تو ۔۔ مگر جو چیز اسے پریشان کر رہی تھی وہ یہ کہ آخر وہ اتنے دن کہاں غائب تھا ؟ موبائل پر ہونے والی بیل اسے سوچوں کی دنیا سے باہر لائی تھی۔۔
’’ بولو ؟ ‘‘ کال رسیو کرتے ساتھ اس نے کہا تھا ۔۔
’’ تم نے آج کی نیوز دیکھی ؟ ‘‘ کچن شیلف پر بیٹھی زویا نے کہا تھا ۔۔
’’ نہیں ۔۔۔ کیوں ؟ ‘‘ مایا کچھ الجھی تھی ۔۔
’’ دیکھو ذرا ‘‘ زویا کی بات پر مایا نے بیڈ سے ریموٹ اٹھا کر ٹی۔وی آن کیا تھا ۔۔ اور سامنے کے منظر نے اس پر بجلیاں گرادی تھیں ۔۔ یہ کیا تھا ؟ یہ کیا ہورہا تھا ؟
’’ یہ ۔۔ یہ کیسے ہوا ؟ ‘‘ وہ بس اتناہی کہہ پائی تھی ۔۔ ٹی ۔وی پر ٹکیں اسکی نظریں حیران تھیں۔۔
’’ تمہارے بھائی کا دیا ہوا سرپرائیز ہے یہ ۔۔ اور تایا اس وقت بہت پریشان ہیں ‘‘
’’ آئی کانٹ بیلیو دِس ۔۔ وہ ایسا کیسے کرسکتا ہے ؟ ‘‘ مایا کو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا ۔۔
’’ دیکھو ڈئیر ایسا تو اب وہ کرچکا ہے ۔۔ اور سچ پوچھوں تو ہم دونوں کے حق میں بہت اچھا ہوا ہے یہ ۔۔ ‘‘
’’ وہ کیسے ؟ ‘‘ وہ اسکی بات سمجھی نہیں تھی ۔۔
’’ تایا نے امل کو قتل کرنے کی دھمکی دی ہے ۔۔اور اس وقت اگر امل قتل ہوجاتی ہے ۔۔ تو بتاؤ ذرا۔۔ قاتل کون ہوا ؟ ‘‘ ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ زویا نے کہا تھا ۔۔
’’ شہزاد شاہ ‘‘ مایا اب اسکی بات سمجھ چکی تھی ۔۔
’’ تو وقت آگیا ہے ڈاکٹر مایا ۔۔ اپنے پلین پر امل کرنے کا ‘‘ اسی کے ساتھ زویا نے کال کٹ کر دی تھی ۔۔ جبکہ دوسری جانب موجود مایا کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ آئی تھی۔۔
’’ وقت آگیا امل ۔۔ وقت آگیا ‘‘ خود سے کہتے اس نے ٹی۔وی آف کیا تھا ۔۔۔
اس اندھیری رات میں جہاں فرہاد اپنے فلیٹ کے کمرے میں سورہا تھا ۔۔۔ وہی باہر ایک شخص بلیک پینٹ کوٹ پہنے اپنی ماسٹر کی سے اس کے فلیٹ میں دبے پاؤں میں داخل ہوا تھا ۔۔۔
دوسری جانب آؤ تو کافی کے کپ سے بھاپ اڑتی دکھائی دے رہی تھی ۔۔ جبکہ پاس کھڑی زویا نے اس بھاپ نکلتی کاپی کے کپ میں ایک چھوٹی سی شیشی میں موجود کوئی دوائی ڈالی تھی ۔۔ بھاپ اب بھی نکل رہی تھی ۔۔ کپ کو ہتھیلی سے پکڑ کر اس نے اپنے چہرے کے سامنے کیا تھا ۔۔
’’ اس ظالم دنیا سے تمہاری نجات مبارک ہو امل ‘‘ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے وہ امل کے کمرے کی جانب آئی تھی۔۔
وہ شخص اب دبے پاؤں فرہاد کے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا ۔۔ کمرے کے قریب پہنچ کر اس نے اپنے کوٹ کے دائیں جانب ہاتھ لگا کر محسوس کیا ۔۔ اندر کوئی سخت چیز تھی ۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے نکالا ۔۔ وہ ایک بلیک کلر کی چمکتی ہوئی گن تھی ۔۔۔
اس نے امل کے کمرے کا دروازہ ناک کیا ۔۔ مگر اندر سے کوئی جواب نہ پاکر وہ اندر داخل ہوئی تھی ۔۔
اس نے دیکھا ۔۔ وہ کھڑکی سے باہر آسمان کی جانب کسی گہری سوچ میں گم تھی ۔۔
’’ کافی ؟ ‘‘ امل کی پاس پہنچ کر اس نے کافی کا کپ اسکی جانب بڑھایا تھا ۔۔
’’ تھینکس ‘‘ کپ تھامتے ہوئے امل نے کہا اور دوبارہ باہر کی جانب متوجہ ہوگئ تھی ۔۔
’’ تم کچھ پریشان لگ رہی تھی ۔۔ میں سے سوچا شاید تمہیں میری ضرورت ہو ‘‘
’’ مجھے صرف تنہائی کی ضرورت ہے زویا ۔۔ پلیز ‘‘ اسکی جانب دیکھے بنا اس نے کہا تھا ۔۔
’’ اوک ۔۔ مگر کافی ضرور پی لینا ۔۔ تمہارے مائینڈ کو فریش کرنے میں مدد دے گی یہ ‘‘ مسکرا کر کہتی ہوئی وہ دوبارہ کمرے کے دروازے کی جانب بڑھی تھی ۔۔ مگر باہر نکلنے سے پہلے ۔۔ اس نے پلٹ کر دیکھا ۔۔ امل نے کافی کا پہلا گھونٹ لے لیا تھا ۔۔۔
اس شخص نے اب فرہاد کے کمرے کا دروازہ کھولا تھا ۔۔ جو اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔ درمیان میں رکھے بیڈ پر فرہاد سورہا تھا ۔۔شاید یہ اس کی دی ہوئی دوائی کا اثر تھا ورنہ فرہاد تو ایک آہٹ سے ہی اٹھ جاتا تھا ۔۔ وہ شخص اب دبے قدموں سے بیڈ کی جانب بڑھا ۔۔ اس کے قریب آتے ہی اس نے ایک گہری سانس لے کر گن کا رخ فرہاد کے سر کی جانب کیا ۔۔۔
امل نے کافی کا خالی کپ میز پر رکھا ۔۔ نیوز میں اپنا گھر اور اپنے ماما بابا کی باڈیز دیکھنے کے بعد وہ خود کو سنبھال نہیں پارہی تھی ۔۔ دل جیسے درد سے کراہ رہا تھا ۔۔ وہ تڑپ رہی تھی ۔۔ اس نے کپ میز میں رکھ کر اب اپنا رخ سٹڈی کی جانب کیا تھا ۔۔ وہ اس وقت خود کو مصروف کرنا چاہتی تھی ۔۔ مگر ۔۔ اچانک ہی ۔۔ اسے رکنا پڑا تھا ۔۔ جانے کیا ہورہا تھا؟
اس شخص نے گن کے ٹریگر پر اپنی انگلی رکھی تھی ۔۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ اسے دبا پاتا ۔۔۔ کمرے میں تیزی سے آتے مصطفی نے اس کا بازو پکڑ کر گمایا تھا۔۔ وہ اب اس کے ہاتھ سے گن لینے کی کوشش کررہا تھا ۔۔ مگر اسکی گرفت مضبوط تھی ۔۔۔ اس نے اپنے دوسرے ہاتھ سے مصطفی کے پیٹ پر مکا مارا تھا ۔۔ اور اس جھٹکے سے وہ فوراً نیچے گرا تھا ۔۔ جبکہ اس شخص نے گن کا رخ ایک بار پھر فرہاد کی جانب کیا تھا ۔۔
امل نے محسوس کیا ۔۔اسکا جسم کانپ رہا ہے ۔۔ ایسے جیسے کوئی کرنٹ اس میں دوڑ رہا ہو ۔۔ اچانک ہی ۔۔ اسے اپنے گلے میں درد کی ٹیس محسوس ہوئی ۔۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی ۔۔ مگر شاید اسکی آواز بھی کہیں گم ہوگئ تھی ۔۔ درد بڑھ رہا تھا ،۔۔ وہ اب سر کی جانب راستہ بنا رہا تھا ۔۔ اسے محسوس ہوا ۔۔ آس پاس کا ماحول دھندلا رہا ہو ۔۔ اسے محسوس ہوا جیسے ٹانگوں سے جان نکل گئ ہو ۔۔ وہ اچانک ہی ۔۔ منہ کے بل نیچے گری تھی ۔۔۔
وہ ایک بار پھر سے ٹریگر دبانے لگا تھا مگر مصطفی نے تیزی سے آکر اسکا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ گن اس کے ہاتھ سے لینے کی کوشش کی تھی ۔۔ گرفت اب بھی مضبوط تھی ۔۔ مگر دونوں میں سے کوئی بھی اسے چھوڑنے کو تیار نہیں تھا ۔۔ اس شخص نے اس بار اپنے بازو کا کونا مصطفی کے منہ پر مارا تھا ۔۔ وہ تڑپ کر پیچھے ہوا ۔۔ اس کے ہونٹوں سے اب خون نکل رہا تھا ۔۔
’’ بہت شوق ہے اسے بچانے کا ۔۔۔ اب اس کے ساتھ مرو تم ‘‘ اب اس شخص نے اپنی گن کا رخ مصطفی کی جانب کیا تھا ۔۔ جبکہ مصطفی نے ایک بار پھر اسے تھاما تھا ۔۔ دونوں اپنی پوری جان لگا رہے تھا ۔۔ گن کا رخ اب مصطفی کے پیٹ پر تھا ۔۔۔
منہ کے بل گرنے سے اسکے سر پر چھوٹ لگی تھی۔۔ مگر درد یہ چوٹ نہیں بلکہ گلے میں اٹھتی ہوئی ٹیس دے رہی تھی ۔۔ اسکا پورا جسم اب بھی کانپ رہا تھا ۔۔ آنکھیں سرخ ہورئی تھیں ۔۔۔ وہ چیخنا چاہتی تھی ۔۔ مگر آواز کوسوں دور تھی ۔۔۔ اسے محسوس ہوا ۔۔ اسکے وجود سے جان آہستہ آہستہ نکل رہی ہو ۔۔ اسے محسوس ہوا ۔۔ کوئی دروازہ کھول کر اسکی جانب بھاگتا ہوا آیا ۔۔
گن کا رخ مصطفی کے پیٹ پر تھا مگر اس سے پہلے ۔۔ کہ مصطفی اسے موڑ پاتا ۔۔ ٹریگر دبایا گیا تھا ۔۔۔ بس ایک پل کی بات تھی ۔۔ اور سب رک گیا تھا ۔۔ فائر کی آواز نے جہاں فرہاد کو اس نشے سے باہر لایا ۔۔ وہیں مصطفی اپنی جگہ رک گیا تھا ۔۔ ایسے جیسے جسم ساکت ہوگیا ہو ۔۔
’’ مصطفی ۔۔۔ مصطفی ‘‘ اسے کہیں سے واجد کی آواز سنائی دی تھی ۔۔ مگر وہ بس دیکھ رہا تھا ۔۔ اپنے سامنے کھڑی موت کو ۔۔۔
’’ امل ۔۔ امل ۔۔۔ یہ کیا ہوا امل ۔۔۔ تم اتنی لاپرواہ کیسے ہوسکتی ہو ؟ ‘‘ وہ اس دھندھلاتے منظر میں کسی کو خود پر جھکتے محسوس کر رہی تھی ۔۔ اپنے کال تھپتھپاتے محسوس کر رہی تھی ۔۔ وہ اسے دیکھ نہیں پارہی تھی ۔۔ مگر یہ آواز ۔۔ یہ آواز وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھی ۔۔
’’ آنکھیں مت بند کرنا ۔۔ امل ۔۔ خدا کے لئے ۔۔ اپنی آنکھیں کھولو ۔۔ ایسا نہیں کر سکتی تم میرے ساتھ ۔۔ تم مجھے نہیں چھوڑ سکتی ۔۔۔ خدا کے لئے امل۔۔۔ آنکھیں کھولو ‘‘ وہ اسکی بات ماننا چاہتی تھی ۔۔ مگر اسکی پلکیں بہت بھاری ہورہی تھیں ۔۔ اتنی ۔۔ کہ وہ یہ بوجھ برداشت نہیں کر پارہی تھی ۔۔ وہ اس سے کچھ کہنا چاہتی تھی مگر اسکی آواز کہیں گم ہوگئ تھی ۔۔اور اسکی جان بھی ۔۔
’’ پلیز امل ۔۔ پلیز ۔۔ میرے ساتھ ایسا مت کرو امل ۔۔پلیز ‘‘ وہ اس سے التجا کر رہا تھا ۔۔ وہ تڑپ رہا تھا ۔۔ مگر اس تڑپ کو سننے والا کوئی نہیں بچا تھا ۔۔ امل کی گردن جھول گئ تھی ۔۔ جسم سے جان نکل گئ تھی ۔۔ اس کے ہاتھ زمین پر گر چکے تھے ۔ وہ بے جان ہوگئ تھی ۔۔۔
’’ امل ۔۔۔۔۔۔۔!!! ‘‘ اور نائل شاہ کی دلخراش چیخ نے اس حویلی کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیئے تھے ۔۔۔
YOU ARE READING
Koi Sath Hu
Romanceوہ بھاگ رہی تھی ۔۔ تیزی سے ۔۔ ہر درد کی پرواہ کئے بغیر ۔۔۔ آنسوؤں کو بہاتے ہوئے ۔۔ قدموں کی آوازیں اسے اپنی پشت سے محسوس ہورہی تھیں ۔۔ '' پکڑوں اسے ۔۔ جلدی '' کسی کی آواز اسکے کانوں تک پہنچی تھی ۔۔ اس نے اب اپنی رفتار تیز کی ۔۔ اسے نہیں معلوم...