part( 1)

12 0 0
                                    

سریا بیگم کے شوہر جہاں زیب صاحب کا بائک ایکسیڈنٹ سے سریا بیگم کی بھری جوانی میں ہی انتقال ہوگیا تھاوراثت میں انھوں نے اپنی بیوی اور 2سال کے ننھے اور خوبصورت بچے کے لیے لکھنو سے قریب سفییدہ آباد میں بس ایک بگہ زمین چھوڑی تھی۔ محتشم نام تھا بچے کا وہ اپنے والد کی ہی طرح بہت ذہین اور ساتھ ہی بہت حسین تھا اس کا حسن ایسا تھا کہ کوئی نگاہ ایسی نہیں تھی جو اسے پلٹ کر نہ دیکھے۔۔عدت کے دنوں میں تو سریا بیگم کے سارے رشتے دار حال احوال پوچھا کرتے تھے لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا۔ان پر حالات سخت ہوتے جارہے تھے سارے رشتے داروں نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ دوسرا نکاح کرلیں کب تک بھلا کوئی ان کا اور ان کے یتیم بچے کا خرچہ برداشت کرے گا۔ وہ بہت مشکل سے نکاح کے لیے راضی بھی ہوئیں تو جو بھی نکاح کا پیغام بھیجتا وہ محتشم کو قبول کرنے لے لیے تیار نہ ہوتا۔آخر انھوں نے ایک پختہ فیصلہ کیا اکیلے اس طویل اور مشکل زندگی کو گزارنے کا صرف اپنے بچے کے لیے ۔۔۔۔

سریا بیگم کا گاؤں کے کنارے پر ہی چھوٹا سا مکان تھا جس کی تعمیر محتشم کے والد صاحب کے انتقال سے دوماہ قبل ہی مکمل ہوئی تھی انھوں نے بڑی محبت اور محنت سے اپنی خوبصورت بیوی اور پیارے سے بچے کے لیے اس مکان کو کھڑا کیا تھا ۔خیر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۔
اس میں ایک خوبصورت صحن اور اندر کی جانب چھوٹا سا آنگن اور دو کمرے اور ایک چھوٹا باورچی خانہ تھا اور اوپر بالا خانہ تھا
صحن میں نیم کا درخت لگا تھا جس کے نیچے چارپائی بچھی رہتی تھی گھر چہار دیواریوں سے مکمل گھرا ہوا تھا۔جہاں زیب صاحب دین دار شخص تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی بیوی پر کسی غیر محرم کی نظر پڑے۔
آج آٹھ سال بعد اسی صحن میں سریا بیگم اپنے اسی پرانے پاکیزہ انداز میں چارپائی پر بیٹھ کر محلے کی عورتوں کا کپڑا سلتی ہیں جس سے ان کا اور محتشم کا خرچہ آسانی سے چل جاتا ہے مگر اب خرچہ بڑھنے کو تھا محتشم کو اسکول میں داخلہ دلوانا تھا ۔اب تک وہ محلے کی مسجد کے امام صاحب کے پاس قرآن پاک پڑھ رہا تھا امام صاحب جانتے تھے بچہ یتیم ہے اس لیے انھوں نے کبھی کوئی فیس محتشم سے نہیں لی۔مگر دین کے ساتھ دنیوی پڑھائی بھی ضروری تھی جس کو سریا بیگم خوب سمجھتی تھیں ۔بہت کو شش کے باوجود وہ اتنے پیسے ہی جمع کر پائیں تھیں جس سے محتشم کی ایک ماہ کی فیس صرف دی جا سکتی تھی۔گاوں میں کوئی اسکول نہیں تھا شہر سے گاؤں میں اسکولی بس آیا کرتے تھے مگر بس کا کرایہ الگ سے دینا تھا۔
وہ صحن میں پریشان بیٹھی تھیں کہ باہر سے مردانہ آواز آئی"السلام ورحمتہ اللہ وبرکات!جی میں محلے کی مسجد کا امام ہوں میرا نام وقار قادری ہے مجھے محتشم کے تعلق سے ان کی والدہ سے بات کرنی ہے،"

پہلے سریا بیگم زرا سوچنے لگیں پھر دروازہ بغیر کھولے اپنے چہرے کو ڈوپٹے سے ڈھانپتے ہوئے جواب دیا " وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔۔جی جناب میں ہی ہوں محتشم کی والدہ کہیے کیا بات ہے "
باہر سے آواز آئی جی بہن میں اللہ کے لیے آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں ۔محتشم کی تعلیم کے تعلق سےآپ بہت پریشان ہیں سنا ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے اپنے ساتھ دہلی لے جانا چاہتا ہوں۔ دراصل مجھے وہاں ایک مسجد میں امامت کے لیے مدعو کیا گیا ہے بیوی بچوں کے ساتھ میرا ایک بیٹا ہے جو محتشم سے بڑی محبت کرتا ہے اسے بھائی جیسا چاہتا ہے میری اہلیہ بھی یہی چاہتی ہیں
بہن !میں آپ پر زور نہیں ڈال رہا ہوں آخری فیصلہ آپ کا ہی ہوگا ۔

HALALA ....حلالہ ✔️☑️Where stories live. Discover now