امام صاحب کے جانے کے بعد بھی سریا بیگم گیٹ کو پکڑے اسی جگہ کھڑی سوچوں میں گم تھیں کہ بالائی خانے سے آواز آئی
"امی جان ہمارے استاذ صاحب آئے تھے کیا" یہ 10 سالہ محتشم کی آواز تھیسریا بیگم نے پلٹ کر جواب دیا "ہاں میرے لال یہ تمہارے استاذ صاحب ہی تھے زرا نیچے آو "
محتشم بہت ذہین اور حساس بچہ تھا وہ اپنی والدہ کی ہر پریشانی کو اچھے سے سمجھتا تھا اور ان کو کبھی پریشان بھی نہیں کرتا تھا وہ جو دیتیں وہ ادب سے کھا لیتا جو پہناتیں پہن لیتا ۔اس کے پاس کوئی کھلونا نہیں تھا بس چند اردو کی بچوں کی کہانیوں کی کتابیں تھیں جن کو کئی بار پڑھ چکا تھا۔اسے بچپن سے کھیل کود سے کوئی لگاؤ نہیں تھا اور بچو سے بالکل الگ تھا ۔صورت میں بھی اور سیرت میں بھی۔۔۔
امی کی ایک آواز پر وہ سیڑھیوں سے تیزی کے ساتھ نیچے آیا تھا "جی امی جان کچھ کہہ رہیں تھیں "
"ہاں میرے شہزادے مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے " سریا بیگم نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئےاپنے گود میں بٹھا کر کہا
" تمہارے استاذ صاحب کہہ رہے تھے کہ وہ تمہیں اپنے ساتھ دہلی لے جانا چاہتے ہیں اچھی تعلیم کے لیے"۔اس کے ماتھے کو چوم کر کہا
محتشم ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگیا اس گلابی آنکھیں بھر آئیں ایک جھٹکے میں وہ سریا بیگم سے چمٹ گیا اور بس رویا نہیں۔ (وہ بہت حساس بچہ تھا اس نے بہت کچھ محسوس کر لیا تھا اتنی سی عمر میں )
"میرے لال میں راضی ہوں میں چاہتی ہوں تم جاؤ " انھوں نے اسے بازوؤں میں بالکل چمٹا کر کہا۔۔
(سریا بیگم اندر سے بہت ڈری ہوئی بھی تھیں اپنے بچے کو اتنی دور اتنے بڑے شہر میں بھیج رہی تھیں مگر ان کو اپنے رب پر پورا اعتماد تھا )
آخر محتشم کو الوداع کہنے کا دن آگیا
امام صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ کرایہ کی گاڑی لے کر صبح 8 بجے سریا بیگم کے مکان کے گیٹ پر تشریف لے آئے ۔۔۔سریا بیگم بس رو نہیں رہی تھیں ان کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا وہ اس لال کو اپنے سے جدا کرنے جارہی تھیں جس کے لیے انھوں نے اپنی آدھی جوانی وقف کردی تھی
انھوں نے جلدی سے اس کا جھولا اٹھایا جس میں 3 جوڑ کپڑے اور کھانے پینے کا تھوڑا سامان تھا محتشم تیار ہوکر نیچے آیا اس کی گلابی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں وہ ایسا ہی تھا ماں کے سامنے کبھی نہیں روتا تھا
گیٹ سے باہر نکلتے وقت اس نے ماں کے دونوں قدم چومیں اور ہاتھوں کو آنکھوں سے لگا یا اتنے سریا بیگم نے اسے کھینچ کر سینے لگا لیا۔۔مگر روئی نہیں ۔۔
باہر سے امام صاحب کی آواز آئی" بیٹا محتشم جلدی کرو ٹرین کا وقت قریب ہے "اس نے جھٹ سے جھولا اٹھایا اور بغیر پیچھے دیکھے خدا حافظ امی جان کہہ کر گیٹ کے باہر نکل گیا ۔۔پھر ۔۔ امام صاحب سے سلام کر کے گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔۔۔
سریا بیگم کے اندر طاقت نہیں بچی تھی کہ وہ آگے بڑھ سکیں وہ وہیں گیٹ پر بیٹھ کر زار وقطار رونے لگیں آج ان کو اپنے شوہر کی بڑی یاد آئی اگر وہ ہوتے تو ان کا شہزادہ کبھی ان سے دور نا جاتا ۔۔وہ رو رہی تھیں اور ساتھ کہہ رہی تھیں" اللہ میرے بچے کی حفاظت کرنا مولی میں نے تجھ پربھروسہ کر کے اپنے لال کو خود سےدور کیا ہے۔ "
ESTÁS LEYENDO
HALALA ....حلالہ ✔️☑️
Paranormalالسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ یہ کہانی اس بات کو بیان کرتی ہے کہ حلالہ عورت پر ظلم نہیں بلکہ مرد پر ظلم ہے اصل معنوں میں ۔۔۔