part (5)

8 0 0
                                    

محتشم کو اب ان نگاہوں سے الجھن ہونے لگی تھی جس کی تپش وہ ہر فجر اور عصر کے بعد خود پر محسوس کرتا تھا ۔۔وہ اب مسجد کے اندر ہی مطالعہ کیا کرتا اب وہ باہر نہیں بیٹھتا  اس کی روح پاکیزہ تھی
آج وہ مسجد میں بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا تبھی سلام کرنے کی آواز آئی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!!

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ .. وہ پیچھے پلٹا تو شہر یار صاحب تھے

وہ محتشم کو بہت پسند کرتے تھے اور بچپن سے اسے جانتے تھے ۔۔۔"آج ہمارے غریب کھانے پر دعوت ہے جناب کی" ۔۔وہ مسکراتے ہو ہے بولے ۔۔۔"بات یہ ہے کہ ہماری جو بیگم ہیں نا ان کو دین سے بڑا لگاؤ ہے وہ چاہتی ہیں کہ جو لوگ دین کی خدمت میں لگے ہیں  وہ ہمارے گھر آئیں گے تو گھر میں برکت ہوگی ۔۔
اور ہاں انکار نہیں سننا مجھے آج شام انتظار کروں گا"  اتنا بول کر وہ مسکراتے ہوئے نکل گئے
ان کی باتوں نے محتشم کو گہرے خیالوں میں ڈال دیا تھا ۔۔۔وہ سمجھ نہیں پارہا تھا آخر کون ہے وہ جس کی نگاہیں اسے شہر یار کی چھت اور کھڑکیوں سے گھورتی ہیں اور اسے اس وقت تک دیکھتی ہیں جب تک وہ اوجھل نہ ہوجائے ۔۔ وہ کشمش میں تھا ۔۔اس نے اللہ سے دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا ۔۔۔
مولی تو ہی تو دلوں کا حال جانتا ہے تو مجھے شیطان کے شر سے محفوظ رکھنا اے میرے پیارے رب مجھے اپنے امان میں رکھنا غلط قدم سے بچانا ۔۔آمین

____________________________________________________________________
دوپہر کا وقت تھا زینت نے تمام ملازموں کی حالت خراب کر رکھی تھی پورے گھر میں افراتفری مچی ہوئی تھی  ۔۔۔طرح طرح کے کھانے اور پینے کی چیزیں بنائی جارہی تھیں ۔۔۔شہر یار حیران تھا کیوں کہ اس نے زینت کو اس طرح کی تیاری کرتے ہوئے اس وقت بھی نہیں دیکھا تھا جب اس کے گھر شہر کے بڑے بڑے لوگ آئے تھے ۔۔چونکہ وہ جانتا تھا یہ سب وہ گھر میں خیروبرکت کے لیے کر رہی ہے تو مسکرا کر بس دیکھ رہا تھا

آخر شام کا وقت آگیا آج زینت نے اپنا سب سے قیمتی لباس پہنا تھا سرخ رنگ کا کمخاب کا جوڑا جس پر باریک زردوزی کی گئی تھی وہ بارات کی دلھن لگ رہی تھی۔۔وہ اپنےوسیع کمرے میں اس سنگاردانی جس پر باریک ترکی نقش نگاری کی گئی تھی بیٹھ کر   خود کو نہار رہی تھی۔۔۔۔
اس کا دل کہہ رہا  تھا ۔۔اس حسن کا حق دار وہی حسن والا ہے جس کو دیکھ کر میری کئی راتوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں ۔۔جس کے ایک دیدار کے لیے میں سارا دن چھت پر کڑی دھوپ میں کھڑی رہتی ہوں ۔۔۔
اچانک سے شہر یار کمرے میں داخل ہوا
اس کے دل کی دھڑکن ایسا لگا ٹھہر گئیں وہ اسے دیکھتا رہ گیا ۔۔اس کے قریب آیا اور اپنی شیروانی کی جیب سے پیسے نکال کر اسکا صدقہ اتارا اور اسے خود سے قریب کرنا چاہا کہ ۔۔"۔رکیے نا ابھی نہیں " زینت نے نزاکت سے کہا جس پر وہ مسکرا کر چلا گیا

وہ زینت کے حسن میں اتنا کھو گیا کہ اس نے غور نہیں کیا ۔۔کہ اتنا  تو سنورنا ضروری نہیں تھا۔۔۔

نماز عشاء کے بعد محتشم اور اس کے ساتھ چند ایک بچے شہریار کی کوٹھی پر آگئے ۔۔۔دروازہ کھلا تو دو ملازم گلاب کا پھول برسا رہے تھے محتشم کا ایسا استقبال کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ کبھی وہ اتنے شان دار گھر میں دعوت پر گیا تھا ۔۔۔اسے اتنی رنگینی نہیں پسند تھی ۔۔سب میز پر بیٹھے  محتشم کی کرسی کو پھولوں سے سجایا گیا تھا کھانے کی وہ تمام اشیا موجود تھیں جو شاید اس نے کبھی نہیں کھائی تھی ۔۔شہریار صاحب فخر سے بار بار اپنی کالر کو اٹھاتے اور محتشم کو کہتے یہ کھائیے یہ پیجیے ۔۔ کھانے کے بعد محتشم شہر یار کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھا اس کے لون میں اور سیاست کی باتیں بھی ہورہی تھیں ۔۔ کہ اندر سے آواز آئی "سنیے" ۔۔۔۔جس پر شہر یار پلٹا اور محتشم سے دو منٹ کہہ کر اندر کی طرف چلا گیا

گھر کے سارے ملازم جا چکے تھے۔بلکہ اس نے وقت سے پہلے بھیج دیا تھا  ۔۔اب وہ اکیلی چاے بنارہی تھی۔۔اس نے سر درد کا بہانا کرکے شہر یار کو بازار بھیج دیا تھا شہر یار کو اس کی زرا تکلیف برداشت نہیں ہوتی تھی وہ اتنی جلدی میں اپنی کار لے کر نکلا کہ اسے یاد نہ رہا کہ لون میں محتشم اس کا انتظار کررہا ہے۔۔
  

     

HALALA ....حلالہ ✔️☑️Where stories live. Discover now