پورے راستے محتشم بالکل خاموش رہا وہ اپنے آپ کو بہت تنہا محسوس کر رہا تھا ۔۔آخر سفر کی الجھنوں کے بعد امام صاحب ان کی اہلیہ ان کی دو بچیاں اور ایک بیٹا جس کا نام سہیل تھا جو لگ بھگ محتشم کا ہم عمر تھایہ سب اور محتشم دہلی کے نظام الدین اسٹیشن پر اترے جہاں پہلے سے ایک قاری صاحب ان سب کے استقبال کے لیے کھڑے تھے ۔۔۔
امام صاحب کی تنخواہ متوسط تھی لیکن ان کا دل بہت بڑا تھا وہ اللہ کی رضا کے لیے ایک یتیم بچے کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتے تھے ان کی اہلیہ بھی بڑی نیک خاتون تھیں انھیں بھی محتشم بڑا پسند تھا۔امام صاحب کو مسجد کی طرف سے ایک گھر ملا تھا جو مسجد سے بالکل ملا ہوا تھا جس میں دو کمرے ایک صحن اور باورچی خانہ تھا ایک کمرے میں امام صاحب اور ان کی دونوں پیاری بچیاں فاطمہ اور بتول رہتیں تھیں اور دوسرے میں سہیل اور محتشم رہتے تھے ۔ان دونوں کا داخلہ امام صاحب کے ایک دوست نے دہلی کے گورنمنٹ اسکول میں کرادیا تھا ۔
جس میں تعلیم اچھی تھی لیکن جس طرح آج کے دور میں دہلی کی گورنمنٹ اسکول کی تعلیم ہےایسی نہیں تھی مگر گاؤں سے لاکھ گنا بہتر تھی محتشم بہت محنت سے پڑھتا اور پہلے نمبر سے پاس ہوتابہت کم وقت میں وہ اساتذہ کا پسندیدہ بچہ بن گیا تھا۔۔ابھی زمانے نے اتنی ترقی نہیں کی تھی ابھی اسمارٹ فون کا دور نہیں آیا تھا کہ بندہ اپنوں سے ویڈیوں کال کر کے دل بہلا لے یہ خط و کتابت کا دور تھا ۔۔محتشم اپنی والدہ کو ہر ایک ماہ خط لکھتا وہاں سے بھی جواب آتا ۔۔۔یہ سلسلہ چلتا رہا
اور وقت گزرتا گیا ۔۔۔۔۔۔
اب nokia کا چھوٹا سا فون مارکیٹ میں لانچ ہوچکا تھا مگر ہر کوئی اسے نہیں خرید سکتا تھا ہر کسی کی اتنی استطاعت نہیں تھی ۔۔
ان 12 سالوں میں وہ اپنے گاؤں ایک بھی مرتبہ نہیں گیا تھا ۔۔وہ جانے کی بات بھی کرتا مگر سریا بیگم سختی سے منع کر دیتی ۔۔انھیں ڈر تھا کہ انکے بیٹے کا دل کہیں پڑھائی سے بہک نا جائے ۔۔۔
اب وہ کالج میں تھا ذہانت کی وجہ سے اسے کئی ایک اسکالر شب بھی مل چکا تھا۔۔وہ تھا تو کالج کا اسٹوڈنٹ مگر بظاہر مولوی نظر آتا تھا ۔۔کرتا پاجامہ ہلکی ہلکی داڑھی جس پر اس نے کبھی استرہ نہیں لگوایا تھا ۔۔گوری رنگت کھڑی ناک بالکل اس کے والد کی طرح۔۔
جسامت بھی اس کے والد کی طرح تھی نہ موٹا نا بالکل دبلا اس کی آنکھیں اگر کوئی غور سے دیکھتا تو دوبارہ ضرور دیکھتا گھنی پلکیں گلابی آنکھیں اور گلابی ہونٹ ۔۔ساتھ ہی مضبوط بازو ۔۔۔وہ قرآن پاک کو اس کے تمام قواعد اور خوش آواز میں بچپن سے ہی پڑھتا تھا ۔۔امام صاحب کی جب کبھی طبیعت خراب ہوتی یا وہ کہیں باہرچلے جاتے تو ان کی جگہ پر امامت بھی کر دیا کرتا ۔۔۔۔
آخر وہ دن بھی آگیا تعلیمی دور ختم ہوا b.Ed کی ڈگری اس کے ہاتھ میں تھی سہیل اور اس نے ایک ہی شعبہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔۔بہت جلد دونوں کی نوکری بھی لگنے والی تھی۔سہیل گورنمنٹ جاب کرنا چاہتا تھا ۔جبکہ محتشم کاکچھ خاص ارادہ نہیں تھا وہ قوم کی خدمت کرنا چاہتا تھا غریب بچوں کو مفت تعلیم دینا چاہتا تھا ۔۔پھر بھی سہیل کے بہت اسرار کرنے پر اس نے بھی فارم بھر دیا تھا ۔۔
محتشم اپنے کمرے میں بیٹھا کچھ کتابیں پڑھ رہا تھا تبھی امام صاحب نے دروازے پر دستک دی۔۔۔
بیٹے!!! "کیا میں اندر آسکتا ہوں " امام صاحب نے دونوں ہاتھ پیچھے باندھتے ہوئے کہا
"جججج جی کیوں نہیں استاذ صاحب " وہ چھٹ سے اپنی کرسی سے کھڑا ہوا تھاامام صاحب مسکراتے ہوئے بولے میاں بڑے ہو گئے ہو ۔۔ آپ ۔۔اب تو بے تکلفی سے بات کر لیا کرو ہم سے ۔۔۔وہ پلنگ پر بیٹھتے ہوئے بولے ۔۔ محتشم!!! انھوں نے اپنا چشمہ ہاتھوں سے صاف کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
"جی استاذ صاحب" وہ کھڑا ہی تھا ان کی ہر بات پر جی کہتا
میں سوچ رہا ہوں اب اپنے گاؤں چلے جاؤ اپنی والدہ کے پاس جیسے ہی کوئی بہتر نوکری ملے گی ان کو ساتھ لے کر چلے آنا
۔۔
جاؤ بیٹا اپنے آبائی وطن میں بھی تھوڑا سا وقت گزارو۔۔
محتشم بھی در حقیقت جانا ہی چاہتا تھا۔ وہ ہلکا سا مسکرایا اور ہاں میں سر کو ہلایا ۔۔
____________________________________________________________________
امام صاحب بہت نیک انسان تھے ان کے دل میں محتشم کو لے کر بڑی ہمدردی اور محبت ہمیشہ سے تھی۔۔۔اب محتشم سے اس ہمدردی اور محبت کا صلہ چاہتے تھے ۔۔وہ اس طرح کہ اپنی بڑی بیٹی کے ساتھ اس کا نکاح کرنا چاہتے تھے ۔۔اور ان کا چاہنا غلط بھی نہیں تھا ۔۔۔آخر انھوں نے کیا نہیں دیا تھا محتشم کو۔ آج محتشم جس مقام پر تھا انھیں کی بدولت تھا ۔۔
YOU ARE READING
HALALA ....حلالہ ✔️☑️
Paranormalالسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ یہ کہانی اس بات کو بیان کرتی ہے کہ حلالہ عورت پر ظلم نہیں بلکہ مرد پر ظلم ہے اصل معنوں میں ۔۔۔