part(4)

10 0 0
                                    

آج وہ اپنی ماں کی گود میں نیم کے سائے تلے لیٹا تھا سریا بیگم اپنے حسین اور شریف لال پر بلیہاری جارہی تھیں ان کی آنکھیں اسے دیکھ کر کئی بار بھر آئیں تھیں وہ اس کے بالوں کو سہلاتیں اور وقفے وقفے پر اس کے ماتھے کو کبھی رخسار کو کبھی ہاتھوں کو بوسہ دیتیں۔۔
امی جان !!! اس نے ماں کے ان ہاتھوں پر بوسہ دیتے ہوئے کہاجس پر اب چھریاں آ چکی تھیں جس پر برسوں کی محنت کے نشان مہک رہے تھے۔۔۔
"ہاں میرے لال"
"آج جب میں آیا لوگ مجھے گھور کیوں رہے تھے" 
سریا بیگم نے  ماتھا سکوڑ کرکہا "اللہ میرے لال کو نظر بد سے محفوظ رکھے "

___ دراصل محتشم کا شباب پوری آب وتاب میں تھا ۔وہ جہاں سے گزرتا لوگ اسے ٹھر کر دیکھنے لگتے

سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے جی دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کی سیاہ چشمگیں قیامت ہے
سو اُس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی
سُنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی
جو سادہ دل ہیں اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

____________________________________________
وہ اسی محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنے گیا جس میں اسنے قرآن پاک پڑھنا سیکھا تھا جس میں اسے استاذ صاحب ملے تھے۔۔مگر اب مسجد بدل چکی تھی اب اس میں پنکھے اور لائٹ کا انتظام تھا اب اس میں فرش لگا دیا گیا تھا حالانکہ ہر انتظام تھا مگر نمازی اب اتنے نہیں جتنے پہلے ہوتے تھے

پہلے مسجدیں تھیں کچّی تو
پکّے تھے نمازی
آج مسجدیں ہیں پکی تو
کچے ہیں نمازی

اس کو ہر کوئی دیکھتے ہی  پہچان لیتا تھا اس کا کوئی مثل جو نہیں ملتا تھا۔
مسجد میں اس نے نماز ادا کی تو پتہ چلا جو شخص امامت کر رہا ہے وہ غلط آیتیں پڑھ رہا ہے اور عمر میں بھی چھوٹا ہے
نماز کے بعد لوگوں نے بتایا امام صاحب جو تھے یہاں پہلے وہ بیمار ہوگئے تو یہاں سے چلے گئے جب سے کوئی معتبر امام مل  نہیں رہا ہے ۔۔
محتشم نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا " کیا جب تک کوئی معتبر امام نہ مل جائے نماز میں پڑھا سکتا ہوں " لوگ خوش ہوگئے سب نے ہاں میں سر ہلایا ۔۔

اب وہ نماز پڑھاتا تھا اور نماز فجر اور عصر کے بعد لوگوں کو بہار شریعت کا درس بھی دیا کرتا تھا لوگوں کو ضروری مسائل بتاتا ۔۔سب بہت خوش تھے  محتشم سے

گاؤں کے اکثر لوگ اب نماز کے لیے آنے لگے تھے ۔۔اور بچے بیمار ہوتے تو بھی مکتب کے لیے آتے تھے وہ اتنا شرین کلام تھا۔۔۔۔۔۔ دوپہر میں اب وہ بچوں کو اپنےگھر کے صحن میں ٹیوشن  بھی دیتا تھا ۔۔

آج جمعہ کادن تھا وہ سفید کرتا پاجامہ اور امامہ باندھ کر مسجد کے صحن میں بیٹھا کچھ دینی کتابوں کا مطالعہ کر رہا تھا ۔۔۔تبھی مسجد کے سامنے بنی ہوئی شہر یار صاحب کی عالی شان کوٹھی کی بالکنی سے اس نے خود پر کسی کی نظروں کی گرمی محسوس کی حالانکہ کہ یہ پہلی بار نہیں تھا اس کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا تھا ۔۔ہمیشہ کی طرح اس نے نظر انداز کر دیا۔اس کی آنکھوں میں نظافت تھی۔۔

____________________________________________________________________
مسجد کے سامنے کی کوٹھی جناب شہریار صاحب کی تھی یہ وہی شخص ہیں جنھوں نے مسجد کی تعمیر کروائی تھی۔ابھی ان کی عمر زیادہ نہیں تھی لگ بھگ 30 یا 32 سال کے ہونگے اللہ نے کافی کم عمر میں اتنا نوازہ تھا ۔۔ان کے عالی شان گھر میں وہ اور ان کی نئی نویلی دلہن زینت رہتے تھے اور 5 ملازم ۔ان کے سرسے باپ کا سایہ بہت بچپن میں اٹھ گیا تھا اور ماں کو گزرے ہوئے  ابھی ایک سال  ہی ہوئے تھے 6 ماہ قبل انھوں نے شادی کی تھی زینت سے ۔زینت کےحسن کا چرچہ محلے بھر میں تھا گول چہرہ کھڑی ناک گوری رنگت درمیانہ قد لچیلا جسم ۔۔شہر یار اپنا سب کچھ اس کی ایک پایل کی جھنکار کر پر قربان کر دیتا اتنی محبت کرتا تھا وہ جو چاہتی حاضر کر دیتا تھا عمر میں وہ اس سے زیادہ جھوٹی نہیں تھی 26 سال کی تھی اس کی پرورش شہر میں ہوئی تھی بڑے ناز انداز تھے اس کے ۔۔۔

HALALA ....حلالہ ✔️☑️Où les histoires vivent. Découvrez maintenant