Episode 1

82 2 0
                                    

ابھی صبح کا اجالا مکمل طور پر نہیں پھیلا تھا مگر گاؤں والوں کی صبح تو پرندوں کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ شہر سے کچھ میلوں کے فاصلے پر واقع اس چھوٹے سے گاؤں میں بسنے والے لوگ شہر والوں کے برعکس سورج نکلنے کا انتظار نہیں کیا کرتے۔ سورج نکلنے سے پہلے ہی ان کے آدھے کام نمٹ چکے ہوتے ہیں۔
مگر یہاں کوئی ایسا بھی تھا جس کے رنگ ڈھنگ کچھ کچھ شہر والوں سے ملتے تھے۔
"مٹھو! ارے اٹھ بھی جا۔ تیرا بابا کب کا جا چکا ہے۔ کچھ دیر میں تیرا بلاوا آتا ہی ہوگا" اماں بشیراں نے تنور میں روٹیاں لگاتے ہوئے اسے آواز لگائی۔
دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ انہوں نے ایک نظر صحن میں چارپائی پر بےخبر سوئے مٹھو کو دیکھا پھر قریب ہی برآمدے میں گڑیا کے سنہرے بالوں کی چٹیا بناتی منی کو آواز دی۔
"اے منی! بھیا کو ہلا تو ذرا۔ ایسے تو میری آوازیں اس نے سننی ہیں نہیں" وہ اس سے بری طرح عاجز تھیں۔
"تم کو پتا تو ہے اماں! دوپہر سے پہلے بھیا نے نہیں اٹھنا ہے۔ کیوں خواہ مخواہ اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی تھکانا چاہتی ہو؟" اس نے اپنی جگہ سے ہلے بغیر جواب دیا۔
"جاتی ہے یا لگاؤں ایک؟" انہوں نے تلملا کر قریب پڑی چپل اٹھائی۔ منی فوراً ہی اٹھ کر بھاگی۔
"آئی بڑی!" وہ ہونہہ کر کے دوبارہ اپنے تنور کی سمت متوجہ ہو گئیں جس سے اٹھتا دھواں چمنی کے راستے باہر نکل رہا تھا۔
"بھیا اٹھ جاؤ اب۔ اماں کا موڈ بہت خراب ہے۔ کسی بھی پل فلائنگ چپل سے طبیعت صاف ہونے کے آثار ہیں" اس نے مٹھو کا پیر ہلایا مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بیہوشی کا انجیکشن لگا کر سویا ہو۔ اس میں ذرا بھی جنبش نہ ہوئی۔
"اماں! بھیا نہیں اٹھ رہا" اس نے وہیں کھڑے کھرے بشیراں کو آواز لگائی۔
ٹھیک اسی پل داخلی دروازہ جو ہلکے بھورے رنگ کی لکڑی کے پٹروں کو جوڑ کر بنایا گیا تھا، کھلا اور ابا اپنی دہاڑ سمیت اندر داخل ہوئے۔
"کون نہیں اٹھ رہا ہے؟" منی نے چونک کر ان کی سمت دیکھا۔ ساتھ ہی مٹھو بھی اٹھ بیٹھا۔
"کک…کون؟ کون نہیں اٹھ رہا؟" وہ پھرتی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"بتاؤ منی؟" ابا نے قریب آ کر منی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"وہ…وہ…مٹھو بھیا!" منی نے ہکلاتے ہوئے کنکھیوں سے اپنے ساتھ کھڑے مٹھو کو دیکھا جس کے چہرے سے نیند کے تمام آثار غائب ہو چکے تھے۔
کچن کی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھتی اماں بشیراں مسکرائیں۔
"کیا؟ میں؟ یہ تو کھلا الزام ہے ابا! میں تو کب کا جاگا ہوا ہوں۔ مویشیوں کو چارہ دیا، مرغیوں کو دانا ڈالا، کپڑے دھو کر اوپر ڈالے، صحن کی صفائی کی۔ آپ خود دیکھ لیں" اس کے دودھ جیسے سفید جھوٹ پر منی نے آنکھیں پھاڑیں۔
"کیوں منی؟" ابا نے بھی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"نہیں ابا! یہ سب تو میں نے...." مٹھو نے اس کی بات پوری نہیں ہونے دی۔
"توبہ ہے منی! کس قدر جھوٹ بولتی ہو۔ اس فراٹے سے جھوٹ بولنے والے جب سچ بولتے ہیں نہ تو ان کا سچ بھی جھوٹ بن جاتا ہے۔ کتنی دفعہ سمجھایا ہے" اس نے افسوس سے سر ہلایا۔
"مٹھو ٹھیک کہہ رہا ہے بیٹا! اب جاؤ پانی لے کر آؤ" ابا نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے منی کو اشارہ کیا۔ وہ پیر پٹختی کچن کی سمت چل دی۔
"مال تیار ہے۔ کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا مگر صاحب زادے کا کچھ پتا ہی نہیں" ابا نے کاندھے پر موجود انگوچھا جھٹکتے ہوئے افسوس سے سر ہلایا۔
"میں بس نکل ہی رہا تھا" اس نے سٹپٹا کر بات بنائی اور چارپائی کے ساتھ رکھی چپلیں پیروں میں اڑسیں۔
"اچھی بات ہے۔ شام تک واپس آ جانا۔ بکری کے چکر میں رات گئے تک شہر میں مت رہنا۔ ناشتہ تو کر چکے ہوگے؟" انہوں نے منی کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے کر منہ سے لگاتے ہوئے اس کہا۔ ان کی بات پر منی نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھا۔
"اب کیسے بچوگے بیٹا؟" اس کی نظروں میں لکھی بات پڑھ کر وہ تلملا ہی تو گیا مگر کیا کرتا؟ آگے کنواں تھا اور پیچھے کھائی۔
"جی ابا! میں چلتا ہوں اب" اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتے وہ باہر کی سمت چل پڑا۔
"اس کا تو کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا ہوگا" وہ اندر ہی اندر تلملا رہا تھا۔
****
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شہر میں بسنے والوں کی صبح آدھا دن چڑھنے کے بعد ہوتی ہے ان لوگوں کو عینا سے ملنے کی ضرورت ہے۔ ان تمام لوگوں کی سوچ غلط ثابت کرنے کے لیے وہ اعلی مثال تھی۔
"بس بھی کرو مینا! میں تھک گئی ہوں یار" جاگنگ ٹریک پر اس کے ساتھ بھاگتی ثمن نے پھولی سانسوں کے درمیان کہا۔
"اتنی جلدی تھک گئی؟ بس اتنا stamina ہے؟" اس نے ہنوز بھاگتے ہوئے پسینے سے شرابور ثمن کو دیکھا۔
پسینہ تو خیر اسے بھی آیا ہوا تھا مگر اس کا سیاہ ٹریک سوٹ اسے ظاہر نہ ہونے دیتا تھا۔
"ہاں! بس اتنا ہی stamina ہے" ثمن نے ہار مانتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور جھک کر گھٹنوں پر ہتھیلیاں ٹکائے گہرے سانسیں لینے لگی۔ عینا نے بھی اپنے قدم روک لیے۔
"ویسے تمہیں مجھ سے کیا دشمنی ہے؟" ثمن نے سیدھی کھڑے ہوتے ہوئے اس سے پوچھا۔
عینا قریب موجود بینچ پر بیٹھ گئی اور پانی کی بوتل اس کی سمت بڑھائی۔
"صدیوں پرانی دشمنی ہے تم کیا جانو؟" اس نے مسکراتے ہوئے ایک آنکھ دبائی۔
"ہم سے دشمنی مت مول لیں جناب! جان لے لیں گے" ثمن نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔
"فالحال تو آپ اپنی جان کی فکر کریں" اس نے ابھی تک گہری سانسیں لیتی ثمن کو دیکھا۔
وہ سرخ و سفید رنگت اور گھنگریالے بالوں والی دبلی پتلی لڑکی تھی۔
"وہی تو کہہ رہی ہوں یار! مجھ سے یہ ہر روز صبح صبح اٹھ کر جاگنگ نہیں کی جاتی" وہ بھی اس کے قریب گرنے کے سے انداز میں بینچ پر بیٹھتے ہوئے مسکینیت سے بولی۔
"شفٹ کر لو" عینا کا انداز مبہم تھا۔
"کیا؟" ثمن نے ناسمجھی سے اس کا چہرہ دیکھا جو سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔ ہاں مگر اس کے چہرے پر سجی ہیزل آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔
"اگر ہر روز یہ ظلم نہیں سہا جا رہا تو شفٹ کر جاؤ کیونکہ جب تک تمہارا بنگلہ میرے گھر کے سامنے رہے گا میں یونہی تمہیں ستاتی رہوں گی" وہ چڑھانے والے انداز میں بولی تو ثمن نے برا سا منہ بنایا۔
"لگتا ہے یہی کرنا پڑے گا" اس کے جلے کٹے انداز پر عینا زور سے ہنس پڑی۔ اس کے ہنسنے پر اس کے پھولے پھولے گال مزید ابھر اٹھے۔
"تم کہیں بھی چلی جاؤ ثمن بی بی! میں تمہارا سایہ بن کر ہمیشہ تمہارے پیچھے موجود رہوں گی" اس نے ثمن کو مزید چڑھایا۔
"میں چڑیل ہوں۔ میرا سایہ نہیں ہے" ثمن سنجیدگی سے جواب دیتے دیتے آخر میں خود بھی ہنس پڑی۔
"زندگی میں پہلی دفعہ کوئی بات ٹھیک کہی ہے تم نے" وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"ملے دوست جس کو تیرے جیسا
اسے دشمنوں کی ضرورت ہی کیا ہے" ثمن گنگناتے ہوئے اس کے پیچھے چل دی۔
"چل بیٹا! تجھے بتاتی ہوں اصل دشمنی کیا ہوتی ہے" اس نے ثمن کو مصنوعی دھمکی سے نوازتے ہوئے اپنے جوتوں کو دیکھا جن کی سیاہ لیس پھر سے کھل چکی تھیں۔
"اپنا ٹیلنٹ بعد میں دکھانا پہلے واپسی کی راہ پکڑو ورنہ تمہارے بھائیوں نے سارے شہر میں طوفان مچا دینا ہے" اس نے کلائی پر بندھی سفید چین والی گھڑی پر ایک نظر ڈالی جو صبح کے سات بجا رہی تھی۔
"ہاں بس ایک منٹ!" جھک کر جوتوں کی لیس کستی عینا نے ایک نظر پشت پہ موجود ثمن کو دیکھا جو اس کے رکنے پر خود بھی ٹھہر چکی تھی۔ ایک خوبصورت مسکراہٹ اس کے ہونٹوں کو چھو گئی۔
****
"کیا ہوا ہے؟ چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں؟" کریم جو کافی دیر سے اس کی سستی نوٹ کر رہا تھا مزید برداشت نہ کر سکا تو آخر پوچھ ہی لیا۔
"کیا کہوں یار! آج کل وقت خراب چل رہا ہے" اس نے بے دلی سے ارد گرد نظر آتے رش کو دیکھا۔
"بات کیا ہے؟ کہیں دل ول تو نہیں لگا لیا؟" کریم کی بات پر وہ بے اختیار ہنس پڑا۔
"ہم غریب تو پہلے ہی مر رہے ہیں۔ دل لگا لیا تو اس عمل کی رفتار میں مزید تیزی آ جائے گی" اس نے بظاہر مسکرا کر کہا تھا مگر کریم نے اس کے لہجے کی تلخی بہت اچھی طرح محسوس کی تھی۔

Safed DhuanWhere stories live. Discover now