"ابا سے بات کی تھی تم نے؟" وہ خود بھی اٹھ بیٹھا تھا۔
اس کے سوال پر وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہیں پھر منی کو کچن میں جانے کا اشارہ کیا۔
موقعے کی نذاکت کو سمجھتے ہوئے وہ بنا کوئی اعتراض کیے اندر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد انہوں نے دوبارہ مٹھو کی سمت رخ موڑا۔
"کی تھی مگر..." انہوں نے ایک پل کو ٹھہر کر ایک نظر اس کا چہرہ دیکھا۔
"مگر وہ راضی نہیں ہے" ایک گہرا سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے انہوں نے بات مکمل کی۔
"کیا؟ مگر کیوں؟" اس کا بےچین دل کچھ اور بےچین ہو اٹھا۔
"کہتا ہے وہ امیر زادی ہمارے اس جھونپڑے میں نہیں رہ سکے گی۔ اس کے گھر والے بھی شاید اس شادی کے لیے راضی نہ ہوں۔ میں بھی یہی سوچتی اگر اس سے مل نہ چکی ہوتی پر تیرا بابا نہیں مان رہا۔ میں نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی پر وہ کچھ سننے کو تیار ہی نہیں ہے" اماں بشیراں کے لہجے میں اداسی در آئی تھی۔
ان کی بات سن کر وہ کچھ نہ بولا۔ کہتا بھی تو کیا؟ سچ ہی تو کہا تھا ابا نے۔ وہی سچ جو کریم اسے بارہا دکھانے کی کوشش کرتا رہا تھا۔
اس کی طویل خاموشی پر بشیراں نے نہایت آہستگی سے اس کا مضبوط ہاتھ تھام لیا۔
"پسند کرنے لگا ہے اسے؟" انہوں نے نرمی سے استفسار کیا اور جواب ان کے ہاتھ کی پشت پر گرنے والے آنسو نے دیا تھا۔ انہیں لگا جیسے ان کا کلیجہ کسی نے مٹھی
میں جکڑ لیا ہو۔ وہ تڑپ ہی تو اٹھیں۔
"مٹھو! تو۔۔۔۔تو رو رہا ہے؟" ان کی خود کی آواز بھی بھرا سی گئی۔
اور یہ تو ہونا ہی تھا۔ اتنے برسوں میں ہر طرح کے حالات کا بہادری سے مقابلہ کرنے والے مٹھو کا یہ حال دیکھنا اس کی محبت کرنے والی ماں کے لیے آسان نہ تھا۔
مٹھو نے بے دردی سے اپنی آنکھیں رگڑیں جو اس کی سن بی نہیں رہی تھیں۔ بس بہے جا رہی تھیں جیسے آج گزرے ہر تکلیف دہ لمحے کا درد بہا دیں گی۔
"دیکھ میں تیرے بابا کو ایک دفعہ پھر سمجھاؤں گی۔ وہ مان جائے گا۔ تو پریشان نہ ہو میرے لعل!" انہوں نے محبت سے اس کی چوڑی پیشانی پر بکھرے بال سمیٹے۔
وہ ماں سے نظریں چراتا اثبات میں سر ہلاتے ہوئے خاموشی سے دوبارہ آنکھوں پہ بازو رکھ کر لیٹ گیا۔ گلے میں اٹکنے والے آنسوؤں کے گولے نے اسے کچھ کہنے ہی نہ دیا تھا۔ دل کا درد وہ لفظوں میں بیان کر بھی نہیں سکتا تھا۔
اماں بشیراں نے فکرمندی سے اس کی بند پلکوں کو دیکھا اور اس کی خوشیوں کے لیے دعا کرنے لگیں۔
******
ساری رات اس نے یونہی آنکھوں میں کاٹ دی تھی۔ ایک ایک لمحہ جیسے اس پر عذاب ہو گیا تھا۔ جب سے اس نے یہ بات سنی تھی دل کا سارا سکون غارت ہو گیا تھا۔ اس کے بھائی لاکھ اس کے اپنے سہی مگر وہ جانتی تھی اپنی زندگی کا یہ اہم فیصلہ وہ اسے لینے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔ وہ ہمت کر کے انہیں منع کر سکتی تھی مگر اس کے انکار کو محض اتنی ہی اہمیت دی جاتی جتنی کسی چھوٹے بچے کی اسکول نہ جانے کی ضد کو دی جاتی ہے۔
اور اگر وہ اس بات کو سنجیدگی سے لے بھی لیتے تو ایک الگ قیامت برپا ہو جاتی۔
وہ ابھی انہیں مٹھو کے بارے میں بھی نہیں بتا سکتی تھی۔ نہ جانے وہ کیا کر بیٹھتے۔
اس نے ایک دفعہ پھر اٹھ کر دروازے کی جھری سے باہر جھانکا۔
نیچے لاؤنج کی لائٹس بجھائی جا چکی تھیں۔ اس کے کمرے کا راستہ لاؤنج کی سیڑھیوں سے ہوکر آتا تھا۔ اس کے کمرے کے قریب ہی شہباز اور ارباز بھائی کے کمرے تھے۔ وہ کمرے سے دبے قدموں باہر چلی آئی۔
دونوں بھائیوں کے کمروں کے دروازے بند تھے۔ وہ ہاتھ میں فون دبائے چھت پر جاتی سیڑھیوں کے قریب چلی آئی۔
آج پہلی بار دل اس طرح زوروں سے دھڑک رہا تھا۔
اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کہ کسی کمرے کے دروازے کا ہینڈل گھومنے کی آواز آئی۔ شہباز یا ارباز بھائی میں سے کوئی باہر آ رہا تھا۔
کوئی اور وقت ہوتا تو وہ سن سی کھڑی رہ جاتی مگر اس وقت دماغ نے بروقت کام کیا تھا اور وہ پھرتی سے پلٹ کر سیڑھیوں کے قریب موجود کچن کے دروازے میں آکھڑی ہوئی اور موبائل کو فوراً ٹراؤزر کی جیب میں ڈال لیا۔
"مینا! تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟" ان کا لہجہ ہمیشہ کی طرح سخت تھا۔
"پانی!" اس نے تھوک نگل کر حلق تر کیا اور بمشکل ایک لفظ ادا کر پائی۔
ارباز کی بھنویں سکڑیں۔
"فریج تو تمہارے کمرے میں بھی ہے؟" اس کی آنکھوں میں شک کی پرچھائیاں صاف دیکھی جا سکتی تھیں۔
"اس میں پانی ختم ہو گیا تھا" اس کی پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہوئیں۔
وہ کچھ دیر گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیتا رہا۔ پھر جیسے آیا تھا ویسے ہی واپس پلٹ گیا۔
اس کے کمرے کا دروازہ بند ہوتے ہی عینا کا کب کا رکا ہوا سانس بحال ہوا۔ اب تو واقعی پیاس لگنے لگی تھی۔ فریج سے بوتل نکال کر پانی پیا پھر کچن کا دروازہ بند کر کے ایک دفعہ پھر پلٹ کر اپنے تنہا ہونے کی تسلی کی اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی چلی گئی۔
YOU ARE READING
Safed Dhuan
Romanceسفید دھواں از ماہم انصاری کیا آپ نے کبھی خود کو سفید دھویں سے گھرا پایا ہے؟ سفید دھواں، جس کے پھیلنے پر سب کچھ سامنے ہو کر بھی واضح نہیں ہوتا۔ سفید دھواں جو آپ کو کہتا ہے کہ آپ کی آنکھیں اب بھی کام کر رہی ہیں مگر نظریں، وہ شاید ناکارہ ہو چکی ہیں۔ سف...