کئی دن خاموشی سے گزر گئے۔ اس دن کے واقعے کے بعد سے اماں اور منی دونوں ہی اس سے ناراض تھیں۔ خود وہ بھی اندر کہیں شرمندگی محسوس کر رہا تھا مگر کہا کچھ نہیں تھا۔اس دن کے بعد سے مینا کی کالز بھی آنی بند ہو گئی تھیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اس بلا سے پیچھا چھوٹنے پر سکون محسوس کرتا مگر جانے کیا تھا جو اسے بےچین کیے ہوئے تھا۔
"یار آج ایک ہفتہ ہو گیا اس کی کوئی کال ہی نہیں آئی" لاتعداد سوچوں سے تنگ آ کر وہ بول پڑا۔
"تو کیا تو اس کی کال کا انتظار کر رہا ہے؟" برتن صاف کرتے کریم کے ہاتھ ٹھہر گئے۔
"پتا نہیں۔ شاید" حالانکہ جواب مبہم تھا مگر تھا تو غیر متوقع ہی۔ کریم اچھل ہی تو پڑا۔
"کیا بات کر رہا ہے یار؟ تیرا دماغ تو ٹھیک ہے؟" وہ کام چھوڑ کر اس کے قریب چلا آیا۔
"مجھے تو میرے دماغ و دل دونوں ہی ٹھیک نہیں لگ رہے۔ عجیب بات ہے نا کہ جب وہ فون کرتی تھی تب مجھے اتنا غصہ آتا تھا۔ اس کی باتوں سے اس قدر چڑ ہوتی تھی۔ اب وہ فون نہیں کر رہی ہے تو فون کی ہر گھنٹی پہ لگتا ہے کہ اس کا ہی فون ہے۔ ان دنوں زندگی جتنی خالی خالی محسوس ہو رہی ہے پہلے تو کبھی نہیں ہوئی۔ کیا ہو رہا ہے مجھے؟" اس نے تفصیل سے کریم کو اپنی کیفیت سے آگاہ کرتے ہوئے آخر میں سوال کیا۔
وہ اپنے دل سے تنگ آ چکا تھا۔
"میری مان تو اس لڑکی سے دور ہی رہ۔ زندگی سکون سے گزرے گی" اس نے اپنے دوست کو مخلصانہ مشورہ دیا۔
"میں سوچ رہا تھا کیوں نا اسے خود ہی فون کر لیا جائے؟ شاید میں اس لیے پریشان ہوں کیونکہ میں نے اس کا دل دکھایا ہے تو اس سے بات کر کے معافی مانگ لوں گا" اس نے جیسے کریم کی بات سنی ہی نہیں تھی۔
"ہوش کے ناخن لے میرے یار! اب اس قصے کو ختم ہی رہنے دے" کریم نے دوبارہ اسے سمجھانا چاہا مگر وہ اس کی نصیحتوں پر کان دھرے بغیر ہی باہر نکل گیا۔
******
"یار مجھے کال کر لینے دو نا! کب سے اس کی خوبصورت آواز نہیں سنی ہے" وہ بےچینی سے ادھر ادھر ٹہلتی اس کی منتیں کیے جا رہی تھی جبکہ ثمن آرام و سکون سے گھاس پر بیٹھی پاپ کارن سے انصاف کر رہی تھی۔
(فون کی گھنٹی کی تیز آواز سے وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور تیزی سے تکیہ کے نیچے دبا فون اٹھا کر آنکھوں کے سامنے کیا۔ نیند کا خمار ابھی اترا نہیں تھا تو آنکھوں کے سامنے دھند سی چھا رہی تھی۔ اس نے تیز تیز آنکھیں رگڑ کر اسکرین کو دیکھا۔
"کریم کالنگ"
بدمزا ہو کر اس نے دوبارہ فون تکیہ کے قریب پٹخ دیا اور خود بھی لیٹ گیا۔
تنور میں روٹیاں لگاتی اماں بشیراں نے بغور یہ منظر ملاحضہ کیا تھا۔
"یہ فون کی ایک آواز پر کیسے جاگ گیا؟")
YOU ARE READING
Safed Dhuan
Romanceسفید دھواں از ماہم انصاری کیا آپ نے کبھی خود کو سفید دھویں سے گھرا پایا ہے؟ سفید دھواں، جس کے پھیلنے پر سب کچھ سامنے ہو کر بھی واضح نہیں ہوتا۔ سفید دھواں جو آپ کو کہتا ہے کہ آپ کی آنکھیں اب بھی کام کر رہی ہیں مگر نظریں، وہ شاید ناکارہ ہو چکی ہیں۔ سف...