Episode 1

36 1 0
                                    

Episode1
do rahi anjane
دو  راہی  انجانے
زندگی کے ایک انجانے سفر پر، میں چلی ہوں
کچھ نئے لوگوں سے ملنے اور یادیں بنانے چلی ہوں
ایک خاص سا احساس اس بار میرے ساتھ ہے
کسی کی نظروں کے حصار میں ہونے کا خیال ہے
لگتا ہے سفر میں کوئی ملنے والا ہے
دو راہی انجانوں کا ساتھ جڑنے والاہے
موسم انتہائی خوشگوار تھا. ابررحمت نے خوب برس کر دھرتی کو سیراب کیا تھا. جس سے روئے زمین کی ہر شے نکھر چکی تھی. سیاہ تارکول سڑک پر بس اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔
درد جگر، سخت سزاواں عشق دیاں
اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو اللہ
ہائے پھلاں ورگی جندڑی عشق رُلا چھڈدا
سرِ بازار چاہوے عشق نچا چھڈدا
اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو اللہ ہو
بس ڈرائیور نے بلند آواز میں قوالی لگا رکھی تھی جس کے ہر بول کے ساتھ وہ مسرور ہوتا گلوکار کے بول دوہرا رہا تھا۔
بولنے والے کی آواز کا سوز تھا جس نے مسافروں کو بھی اپنے حصار میں لیا  ہوا تھا لیکن ان میں سے  تیسرے نمبر والی سیٹ پر بیٹھی ایک مسافر جو پرینٹِڈ کُرتے اور بلیو جینز میں ملبوس تھی. سر پر سٹائل سے لیا گیا حجاب,گورا رنگ گھنی پلکوں کے سائے میں چمکتی بھوری آنکھیں جو اس وقت کتاب پڑھنے میں مصروف تھیں. وہ دنیا جہان سے بے خبر دیکھائی دے رہی تھی۔اس کے ساتھ بیٹھی لڑکی نے دائیں جانب جھک کر کتاب کا نام پڑھا "راہِ یار تیری بارشیں " نام پڑھتے ہی وہ برا سا منہ بنا کر سیدھی ہوئی تبھی ڈرائیور نے زور سے بریک لگائی بس کے ٹائیر بری طرح چرچرائے مسافر اچھل کر آگے ہوئے بل کھاتے پہاڑوں میں خوفناک آواز گونجی۔درخت پر بیٹھے پرندے پھڑپھڑا کر اڑ گئےجیسے بس کی اچانک بریک نے ان کے آرام میں خلل ڈال دیا ہو، بلکل ویسے ہی جیسے بھوری آنکھوں والی کو اس کی دنیا سے بے آرام کیا گیا تھا۔بھوری آنکھیں بیزاری سے ڈرائیور کی طرف اُٹھیں جو بس سے اتر رہا تھا۔'ٹائیر پنکچر ہوگیا ہے ' کنڈیکٹر نے اندر آکر سب کو اطلاع دی.اس نے گہرا سانس لے کر ناول بند کیا اور شیشے سے باہر دیکھنے لگی۔ گہری ہوتی شام، آسمان پر چھائے بادل اس نے کھڑکی کھول کر چہرہ تھوڑا سا باہر نکال کر تازی ہوا کو محسوس کیا ایک طرف پہاڑ برف سے ڈھکے ہوئے تھے تو دوسری طرف کھائی اور گھنے جنگل بھی برف کی لپیٹ میں تھے ٹھنڈی اور تازہ ہوا کو محسوس کرتے ہی وہ کھل اٹھی ایسے مناظر اسے ہمیشہ قوت بخشتے تھے۔دو دن سے وہ مسلسل سفر میں تھی ابھی وہ حسین نظاروں سے لطف اندوز ہورہی تھی تبھی ساتھ بیٹھی لڑکی نے اس کا بازو ہلایا وہ اس کی جانب مُڑی "آپ اکیلی ہیں؟" لڑکی نے سوال کیا۔
"اتنے مسافروں کے ہوتے ہوئے میں اکیلی کیسے ہوسکتی ہوں۔"ہنستے ہوئے جواب دیا اس کی بات پر لڑکی کے لبوں کو بھی ہلکی سی مسکان نے چھوا۔
"میرا مطلب تھا آپ کے ساتھ اور کوئی نہیں ہے"
"نہیں اور کوئی نہیں ہے۔"
اور پھر باتونی لڑکی جسے سوال جواب کرنے کا شاید بہت شوق تھااس نے مزید پوچھا کہ"آپ کو تنہا سفر کرتے ہوئے خوف نہیں آتا؟"اس کے معصومانہ انداز پر وہ کھلکھلائی۔
"آپ بھی تو تنہا سفر کررہی ہو، کیا آپ کو خوف آرہا ہے؟
"نہیں میں اکیلی نہیں ہوں میرے امی اور ابو بھی ساتھ ہیں وہ پیچھے بیٹھے ہیں۔"
"اچھا"اس نے سر ہلایا
سوالوں کا رخ بدل کر کتاب کی طرف گیا جو اس کی گود میں پڑی تھی۔
"لگتا ہے آپ کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے، سارا راستہ آپ اردگرد سے بیگانہ بس اس کتاب میں ہی کھوئی ہوئی تھیں"۔
"نہیں مجھے کورس کی کتابیں بلکل نہیں پسند لیکن ہاں ناولز بہت پسند ہیں۔ "اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی
"اوہ اچھا۔۔۔۔آپ کا نام کیا ہے؟" اس چھوٹی لڑکی کو وہ اچھی لگی تھی
"وشمہ خان۔اور آپ کا؟"
"عائشہ "وہ مسکرائی ۔ابھی وہ باتیں کررہی تھیں تبھی کنڈیکٹر نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا "آپ سب یہاں سے پیدل بس سٹاپ تک چلے جائیں۔ ٹائیر بدلنے میں وقت لگے گا کچھ ہی دیر میں اندھیرا چھاجائے گا تو راستے بند ہوجائیں گے اس لیے جلدی جلدی سٹاپ تک پہنچ جائیں۔ "وہ کہہ کر اتر گیا وشمہ نے عائشہ کو دیکھا تبھی ایک خاتون ان کی طرف آئی
"چلو عائشہ!"
"اوکے آپی اللہ حافظ ہم جارہے ہیں بہت اچھا لگا آپ سے مل کر آپ بہت پیاری ہیں." وہ چاہت بھرے انداز میں بولی
" مجھے بھی بہت اچھا لگا۔"اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
آہستہ آہستہ سب بس سے اترنے لگے وہ بھی اپنا بیگ اٹھا کر بس سے اتر آئی مسافر بہت کم تھے بس سے اترتے ہی اسے محسوس ہوا کہ سارے یہی کے رہائشی ہیں تبھی وہ پیدل ہی آگے بڑھ رہے تھے اس نے عائشہ کو اپنے پاس بلایا
"عائشہ آپ کا گھر ادھر ہی ہے؟"
"جی، ادھر پاس میں ہی ہے، ابو کہہ رہے ہیں پیدل ہی جائیں گے، آپ کا گھر کہاں ہے؟"
"میرا آگے ہے کافی۔ "
"آگے تو رات کو برف باری کی وجہ سے راستے بند کردیتے ہیں۔ آپ اپنے گھر والوں کو بلوالیں وہ آپ کو لے جائیں گے بس سٹاپ سے،اچھا آپی اللہ حافظ ابو بلا رہے ہیں۔ "عائشہ اس کو مشورے سے نوازتی اپنے والدین کی طرف بھاگ گئی.
وشمہ کے چہرے کا رنگ اُڑنے لگا اس نے تو یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ برف باری کے بعد زیارت سے آگے راستے بند ہوجاتے ہیں اس نے بیگ ایک بڑے سے پتھر پر رکھا بیگ زیادہ بڑا نہیں تھا اور نہ ہی بھاری۔ٹھنڈی ہوائیں اس کے جسم کو سن کررہی تھیں۔سردی کی شدت سے وہ کپکپانے لگی
جہاں بس خراب ہوئی تھی وہ جگہ قدرے سنسان تھی. ہرطرف اونچے پہاڑ، گھنے اور بلند و بالا درخت ہی درخت تھے. دور دور تک کسی دکان، ہوٹل وغیرہ کا نام و نشان تک نہیں تھا، جہاں  جا کر وہ بیٹھ سکتی. فضا میں سرد ہوا کے چلنے سے سردی کی شدت بڑھنے لگی تھی ۔اس نے بیگ سے لانگ کوٹ نکال کر پہن لیا ۔کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے وہ اردگرد پہاڑوں اور لمبے درختوں کو دیکھنے لگی اب اسے فکر ہورہی تھی سرپرائز کے چکر میں حویلی میں کسی کو اپنے آنے کی خبر نہیں دی تھی اور اب آگے راستوں کا بھی اسے کچھ علم نہیں  تھا۔
"لالہ کو فون کرتی ہوں۔"اس نے کال ملا کر فون کان سے لگایا لیکن بیل نہیں جارہی تھی اس نے کان سے فون ہٹا کر دیکھا سگنلز نہیں تھے۔
"اوہ! ڈیم اِٹ اب کیا کروں گی۔" وہ لندن میں اکیلی رہی تھی، اسے کبھی اکیلے رہنے سے ڈر نہیں لگا تھا لیکن اس وقت اس سنسنان، ویران جگہ پر اندر ہی اندر اسے خوف محسوس ہورہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ خود پر غصہ بھی آرہا تھاکہ کیا ضرورت تھی سرپرا ئز انٹری کرنے کی۔۔آخرکار تنگ آکر وشمہ ٹائر کے ساتھ نبردآزما ڈرائیورسے مخاطب ہوئی۔
"بھائی بات سنیں اور کتنا وقت لگے گا؟" ڈرائیور نے ہاتھ روک کر بے چینی سے ہاتھوں کو مسلتی لڑکی کو دیکھا۔
"ابھی تو وقت لگے گا،آپ پیدل چلی جائیں،سٹاپ آدھا گھنٹہ ہی دور ہے یہاں سے، رات ہوجائے گی تو مسئلہ ہوجائے گا کیونکہ آگے راستے بند ہوجائیں گے۔ بس یہی سے واپس پلٹ جائے گی۔"اس کا جواب سن کر وشمہ کی پریشانی مزید بڑھ گئی۔طرح طرح کے واہموں اور اندیشوں کے ساتھ وہ واپس مڑ گئی. عالم پریشانی میں وہ ایک دفعہ پھر موبائل پر نمبر ملانے لگی، مگر سگنلز آڑے آ رہے تھے۔
اندھیرا بڑھتا جارہا تھا  اسے چلتے قریباً آدھا گھنٹہ ہوگیا تھا لیکن اب تک بس سٹاپ کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔۔۔اب کے اسے رکنا پڑا کہ سامنے دو راہیں تھیں۔۔۔ اس نے رک کر اِدھر اُدھر کسی سائن بورڈ کی تلاش میں دیکھا..."اب کہاں جاؤں؟؟ رائٹ یا لیفٹ؟؟"اس نے خود سے سوال کیا پھر ایک سیکنڈ کچھ سوچ کر وہ بائیں جانب بڑھ گئی۔ساتھ ہی ایک بورڈ گرا ہوا تھا جس پر لکھا تھا کہ آگے خطرناک راستہ ہے جو جنگل کی طرف جاتا ہے لہذا اس جانب نا آئیں۔۔۔۔
دس منٹ بعد اس کی ہمت جواب دے گئی گہرا ہوتا اندھیرا، سردی کی شدت،اس کا دل بھاری ہونے لگا وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی تھی۔
"ڈرائیور نے تو کہا تھا تھوڑا سا آگے ہی بس سٹینڈ ہے مجھے تو یہاں کوئی انسان بھی نظر نہیں آرہا۔ " جھنجھلاتی ہوئی وہ دوبارہ چلنے لگی کافی آگے جاکر وہ ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ گئی اور پھولی ہوئی سانس بحال کرنے لگی۔۔۔
ایک دم کسی پرندے کی خوف ناک آواز پر وہ ڈر کر اچھلی بے بسی سے آنسو گال پر بہہ نکلے
"اللہ میں ایسے نہیں مرنا چاہتی کسی کو میرے مرنے کی خبر نہیں ملے گی آغا جان، لالہ سب یہی سمجھے گے میں لندن میں ہوں، لندن والے سمجھے گے میں پاکستان میں ہوں اور میں،میں اس خوفناک جگہ  پر سَڑ رہی ہوں گی اللہ پلیز مجھے بچالیں میں اب کسی کے شوہر پر نظر نہیں رکھوں گی سالار، جہان، فارس (ناولز کے ہیرو)کسی پر نہیں بس مجھے یہاں سے نکال دیں۔"وہ سست قدموں سے چلنے لگی جب تھک جاتی تو کسی پتھر پر بیٹھ جاتی چارسو گہرا سناٹا تھا،لمبے لمبے درخت خوفناک منظر پیش کررہے تھے۔کتنے ہی آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گالوں پر بہنے لگے۔اس نے پتھر پر بیٹھتے ہی موبائل کی ٹارچ سامنے کی طرف کی کچا سا راستہ تھا اتنی دیر سے چلنے کی وجہ سے اس کے پاؤں اب دکھ رہے تھے۔ موبائل پر لو بیٹری کا سائن آیا تو بے اختیار اس کا دل زور سے دھڑکا ایک اس کا ہی تو آسرا تھا،وہ فلیش لائٹ سے آگے کا راستہ دیکھنے لگی تبھی موبائل بند ہوگیا وشمہ کا پورا وجود خوف سے کانپنے لگا اسے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا آنسوؤں میں تیزی آگئ
"اللہ!۔۔۔اللہ پلیز میری مدد کریں۔"اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپالیا،کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اسے قدموں کی آواز آئی وشمہ نے سر اٹھایا ہلکی سی روشنی اسے نظر آئی جو آہستہ آہستہ اس کے قریب آرہی تھی اس کے آنسوؤں میں تیزی آگئی۔وہ نم آنکھیں لیے کھڑی ہوئی اللہ نے اس کی سن لی تھی اور اس کے لیے فرشتہ بھیج دیا تھا ہاں وہ اسے فرشتہ ہی لگا چھ فٹ لمبا قد، شاید وہ جینز اور جیکٹ میں ملبوس تھا وشمہ کو صحیح سے نظر نہیں آیا اب وہ اس کے بلکل قریب آگیا تھا۔
★★★★★★★★★
وہ ایک سہانی شام تھی  وہ بیڈ پر لیٹا,
آنکھوں میں محبت کا جہاں سموے اپنی عزیز جان ہستی کی تصویر دیکھ رہا تھا۔ اس چہرے کو دیکھ کر ہی اس کی صبح اور شام ہوتی تھی اس کی دھڑکن اسی کے نام پر دھڑکتی تھی وہ کوئی اور نہیں بلکہ اس کی بچپن کی منگیتر اس کا عشق عالیہ تھی وہ اپنی عالی کو کچھ اور وقت دیکھنا چاہتا تھا لیکن کوئی کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آیا تو اس نے فوراً تصویر تکیے کے نیچے رکھ دی ۔
"کیا کررہے ہو شاہ؟ عمر نے اندر آتے ہی اسے دیکھ کر پوچھا،پھر چلتا ہوا اس کے پاس آکر بیٹھ گیا
"کچھ نہیں بس ابھی آکر لیٹا تھا تو بتا کیسے آنا ہوا؟"وہ اٹھ کر بیٹھا
"بس ایسے ہی۔ آغا جان آرہے تھے تو میں بھی ان کے ساتھ آگیا۔"
"ہاں تجھے تو بہانا چاہیے تھا نا پلوشہ سے ملنے کا۔"شاہ کی بات پر عمر خان نے سر جھٹکا "ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ "
"چل آ باہر چلتے ہیں۔ "وہ دونوں باہر جانے کے لیے اٹھ گئے
"شاہ لالہ "وہ سیڑھیاں اتر رہا تھا جب پلوشہ نے اسے روکا دونوں پلٹے پلوشہ عمر کو دیکھ کر ایک دم سپٹا گئی اور اپنی چادر ٹھیک کی "لالہ یہ مورے کی دوائی لیتے آنا۔"شاہ نے اپنی پیاری سی بہن سے دوائی کا نسخہ پکڑا اور سیڑھیاں اتر گیا عمر نے دوسری نظر بھی پلوشہ پر نہیں ڈالی تھی وہ تب تک انہیں دیکھتی رہی جب تک وہ اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوگئے
"مجھے ایسا کیوں لگتا ہے جیسے عمر کو میں پسند نہیں ہوں، شاہ لالہ تو عالیہ بھابھی سے بہت محبت کرتے ہیں۔"وہ بجھے دل کے ساتھ واپس اپنے کمرے کی طرف چل دی۔
★★★★★★★★★
پوری حویلی روشنی سے نہائی ہوئی تھی مغرب کے بعد ہی  حویلی کو روشن کردیا جاتا تھا گارڈن ایریا کو  خاص روشن کیا جاتا تھا کیونکہ مغرب کے بعد سب عورتیں تازی ہوا کے لیے باہر آجاتی تھیں بی بی جان سر کو اچھی طرح ڈوپٹے سے ڈھانپے ہوئے شام کے اذکار پڑھنے میں مصروف تھیں۔ان کے سامنے امل منہ لٹکائے بیٹھی تھی بی بی جان نے پانی میں دم کیا پھر اس کی طرف بڑھایا جس کو اس نے بغیر چوں چراں کیے پی لیا اور آدھا بچا کر گلاس سامنے رکھی میز پر رکھ دیا
"یہ لیں گرما گرم پکوڑوں کے ساتھ چائے۔ "نوال نے ٹرے میز پر رکھی امل کی آنکھیں چمک اٹھیں اس نے نظریں اٹھا کر اپنی بہن کو دیکھا آسمانی رنگ کے سوٹ میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔
"جیتی رہو خوش رہو میری بچی۔ " بی بی جان نے اس کے سر پر پیار کیا وہ مسکرا کر امل کے ساتھ بیٹھ گئی
"کتنی اچھی ہو آپی آپ قسم سے میرا بڑا دل کر رہا تھا پکوڑے کھانے کا ۔"اس نے جھٹ سے ایک پکوڑا اٹھا کر منہ میں ڈالا
"مورے بھی آگئیں۔۔۔ "اس نے پیچھے دیکھ کر کہا امل نے بھی فوراً گردن موڑی
"مورے جلدی آئیں آپی نے بہت مزے کے پکوڑے بنائیں ہیں۔"
"واہ میری بیٹی خوش ہوگئی" زنیرا  بی بی  بیٹھتے ہوئے بولیں
"اس کو خوش کرنے کے لیے ہی تو پکوڑے بنائیں ہیں۔"
"لالہ بھی ہوتے تو کتنا مزا آتا۔میں خود اپنے ہاتھوں سے انکے لیے چائے بناتی۔" امل کی آواز میں پھر سے اداسی چھاگئی
"آجائے گا وہ،اداس نا ہو دعا کرو خیریت سے ہو۔۔۔۔میرا دل بڑا بے چین ہے۔" بی بی جان نے آسمان کی طرف دیکھا جہاں بادلوں کا بسیرا تھا
"ایک سال ہوگیا ہے بی بی جان لالہ کو دیکھے ہوئے۔ "وہ اداسی سے بولی
"بس اب تو وہ واپس آنے والا ہے۔"
"ہممم"
"اچھا تم منہ مت لٹکاؤ  چائے پیو۔ صبح لالہ کو فون کرلینا۔" نوال نے چائے کا کپ اسے پکڑایا جسے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ امل نے تھام لیا۔
★★★★★★★★★
اس نے موبائل کی ٹارچ وشمہ کی طرف موڑی روشنی سے وشمہ کی آنکھیں چندھیائی
"افف اسے پیچھے کرو۔"لڑکے نے موبائل دوسری طرف کیا پھر بولا
"چڑیل میرے سامنے سے ہٹو دیکھو میرے پاس کچھ نہیں ہے اور میرا خون بھی آپ نہیں پی سکتی کیونکہ وہ کڑوا ہے اس لیے ہٹو۔ "وہ وشمہ کو حیرت میں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا ابھی دو قدم ہی چلا تھا کہ دوبارہ پلٹا
"ایک احسان کردو چڑیل  مجھے یہاں سے نکلنے کا راستہ بتا دو۔"اس نے دوبارہ موبائل کی روشنی اس کے چہرے پر ڈالی تو وشمہ جیسے ہوش میں آئی
"شٹ اپ تم ہوگے جن کہاں سے میں تمہیں چڑیل نظر آرہی ہوں۔ "وہ تو تپ ہی گئی
"واؤ بولتی بھی ہو"
"اگر اب تم نے مجھے چڑیل بولا تو میں تمہارا سر پھاڑ دوں گی۔ "
"پاؤں دیکھاؤ اپنے" اس نے موبائل وشمہ کے پاوؤں کی طرف موڑا۔
"پاؤں تو ہیں۔ اچھا اچھا مان لیا کہ چڑیل نہیں ہو اب گھورو نہیں۔تو محترمہ آپ اس وقت  یہاں گھنے جنگل میں کیا کررہی ہیں؟"
"تم یہاں کیا کررہے ہو ؟" اس نے الٹا سوال کردیا
"میں ایڈوینچر کررہا ہوں۔"
"اس وقت۔۔۔ "
" مذاق تھا یہ۔۔۔۔میں گم ہوگیا ہوں."
"میں بھی" وہ اداسی سے بولی۔
"اب کیا کریں؟ "
"وہی جو پہلے کررہے تھے یہاں سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈتے ہیں۔"اس نے وشمہ کو آگے چلنے کا اشارہ کیا۔
"کیا میں آجاؤ ساتھ؟"
"جی محترمہ آجائیں ڈرے نہیں میں جن نہیں ہوں شاید آپ کی مدد کر کے مجھے ثواب ہی مل جائے۔"وشمہ نے اسے گھورا
"لاؤ اپنا بیگ مجھے دے دو۔" اس نے وشمہ کے ہاتھ سے بیگ لے لیا
"تھینک یو "
★★★★★★★★★
رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔سب اپنے اپنے گھروں میں بند ہوگئے تھے۔ ایسے میں وہ شال کندھوں کے گرد لپیٹے گارڈن میں رکھے جھولے پر بیٹھی تھی کالے گھنے بال کیچر میں قید تھے نظریں چاند پر مرکوز کیے وہ گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی کوئی بھی اسے دیکھتا تو نازک پری ہی سمجھتا تھا وہ تھی ہی ایسی نازک سی گورا رنگ، کالی آنکھیں آغا خان حویلی کی بڑی بہو میرب ارحم۔ سب اس کی قسمت پے عش عش کرتے تھے کیونکہ ایک شہزادی کو ایک شہزادے کی قسمت میں لکھا گیا تھا۔آغا خان کا بڑا پوتا ارحم خان پورا گاؤں جس کو  دعائیں دیتے نہیں تھکتا تھا بقول اس کے میرب اس کے لیے خدا کی طرف سے عطا کردہ انعام تھی میرب اس کا عشق تھی اس کا جنون تھی۔
"کیا میں ارحم کے بغیر رہ پاؤں گی۔۔۔جب ان کو سچ پتا چلے گا تب کیا ہوگا۔"اس کی آنکھیں نم ہوگئیں ہوا سے چہرے پر آتی لٹوں کو اس نے کان کے پیچھے کیا۔
"بھابھی!" آواز پر اس نے فوراً لمبا سانس لے کر گردن بائیں جانب موڑی "جی "
"ٹھنڈ میں کیوں بیٹھی ہیں کیا لالہ ابھی نہیں آئے؟" وہ چلتا ہوا اس کے پاس آگیا
"کمرے میں بیٹھی بور ہورہی تھی اس لیے باہر آگئی۔۔۔۔ نہیں ابھی تک تو نہیں آئے"۔
"رمشا سو گئی کیا؟"اس نے بہن کا پوچھا ۔
"جی  "
"اچھا چلیں میں لالہ کو فون کرتا ہوں۔" اس نے فون جیب سے نکالا ہی تھا تبھی دروازہ کھلا اور ایک سفید گاڑی اندر آئی
"لو آگئے." سفید شلوار قمیض میں ملبوس وہ گاڑی سے اتر کر ان کی طرف ہی آگیا
"لالہ آج اتنا وقت لگادیا آنے میں، میری بھابھی کا ہی خیال کرلیا کریں ٹھنڈ میں بیٹھ کر آپ کا انتظار کررہیں تھی۔"
"یار آج آفس کے بعد زمینوں کی طرف چلا گیا تھا آغا جان نے وہاں کے مسئلوں کو دیکھنے کے لیے کہا تھا."
"اچھا چلیں آرام کریں۔ میں چلا سونے۔" وہ اندر چلا گیا تو ارحم میرب کی طرف پلٹا ۔ آہستہ سے اس کے  دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے جو ٹھنڈے ہورہے تھے.
"پاگل لڑکی ٹھنڈ میں کیوں بیٹھی تھی بیمار پڑ گئی تو۔"
"نہیں ہوتی بیمار۔چلیں اندر میں چائے بناتی ہوں۔کھانا صحیح سے کھایا نا آپ نے ؟"وہ اس کا ہاتھ تھامے اندر کی جانب بڑھ گئی
پندرہ منٹ بعد وہ کمرے میں آئی تو ارحم  کپڑے بدل کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے لیٹا تھا اس نے آہستہ سے کپ سائڈ میز پر رکھا اور خود اس کے پاوؤں کی طرف بیٹھ کر اسکی ٹانگیں دبانے لگی نرم لمس کو محسوس کرتے ہی ارحم نے آنکھیں کھولیں اور فوراً سیدھا ہوا.
"یہ کیا کررہی۔۔۔ "میرب نے اس کی بات کاٹ دی
"چپ کر کے لیٹے رہیں جب پتا ہے  آپکی ایک نہیں چلے گی تو ضد بھی نہیں کرنی." میرب کے غصے سے کہنے پر وہ مسکرایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بیٹھایا
"آپ تھگ گئے ہیں نا آج؟ " اس نے ارحم کی آنکھوں میں دیکھا
"تھکا ہوا تھا لیکن اپنی میرب کو دیکھتے ہی ساری تھکن اتر گئی۔اب یہ مزے دار چائے پیوں گا تو ایک دم فریش ہوجاؤ گا۔ " اس نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا
"اچھا آپ چائے پیے میں ٹانگیں دبا دیتی ہوں۔ "
"نہیں "
"پلیزز تھوڑی دیر دباؤں گی پلیزز میری بات نہیں مانے گے اپنی میرب کی بات نہیں مانے گے۔۔۔۔پلیززز۔" اور بسس یہیں ارحم خان ہار جاتا تھا۔
★★★★★★★★★
آغا خان اور وقاص علی خان جگری یار تھے اپنے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے انہوں نے بچپن میں ہی اپنے بچوں کا رشتہ آپس میں طے کردیا تھا اور اب وہ دن بھی طے پاگیا تھا جب ان کے گھروں میں بہت جلد شادی کی رونقیں لگنے والی تھی ۔
سب کھانے کے میز پر بیٹھے تھے تبھی آغا جان نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا
"میں نے اور وقاص نے شادی کی تاریخ پکی کردی ہے اس لیے عالیہ بچے اپنی بی جان کے ساتھ مل کر تیاری شروع کرو اور عمر تم بھی بہو کی خریداری کے لیے ساتھ جاؤ گے میں باہر کے کام دیکھ لوں گا۔ "
"جی ٹھیک ہے آغا جان۔" عالیہ نے مسکرا کر سر جھکایا دیا
"آغا جان مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔"عمر خان ہمت کر کے بولے سب ان کی طرف متوجہ ہوگئے
"ہاں بولو'
"آپ ابھی صرف عالیہ کی شادی کروادیں مجھے ابھی نہیں کرنی۔"
"یہ کیا کہہ رہے ہو عمر۔"
"آغا جان میں کچھ عرصے کے لیے باہر جانا چاہتا ہوں آپ یہ بات جانتے ہیں اس لیے میں ابھی شادی نہیں کرسکتا۔"
"عمر میں وقاص کو کیا بولوں گا تم پلوشہ کا بھی تو سوچو۔"
"میں اسی کا سوچ رہا ہوں اس کے لیے یہی بہتر ہے آغا جان آپ میری بات کو سمجھیں مجھے بزنس کے لیے ابھی باہر جانا ہے۔"
"میں وقاص سے  بات کروں گا۔"آغا جان کچھ سوچتے ہوئے بولے
★★★★★★★★★
وہ دونوں تقریباً آدھے گھنٹے سے چل رہے تھے" افف کتنا گھنا اور ڈراؤنا جنگل ہے."وشمہ نے جھرجھری لی
"ہاں لیکن گھنا تک ٹھیک ہے ڈراؤنا آپ سے تو کم ہی لگ رہا ہے۔"
"دیکھو مجھ سے الجھو مت۔"
"اچھا اگر الجھوں تو کیا کرلو گی اپنے اس بھیانک چہرے کو اور بھیانک کرلو گی اپنی اصلی شکل مطلب چڑیل کی شکل میں آجاؤگی اپنے پیر الٹے کرلوگی کیا کر کیا لوگی ؟"وہ اسے تنگ کرتے ہوئے بولا کیونکہ وہ وشمہ کے آنسو دیکھ چکا تھا اور اس کی آواز سے بھی پتا چل رہا تھا کہ وہ ڈری ہوئی ہے اس لیے وہ اسے تنگ کررہا تھا
"دیکھو مسٹر اکیلی سمجھ کر مجھ سے بدتمیزی نہ کرو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔"
"اوہہہہ میں تو بھول ہی گیا ویسے آپ کا نام کیا ہے"
"میں اور تمہیں اپنا نام کیوں  بتاؤں "۔
"دیکھو لڑکی کم چڑیل۔"وشمہ نے ایک دم مُڑ کر اسے غصے سے دیکھا
"اچھا نا آرام سے اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ اگر  کہیں  پیچھے رہ جاؤ تو  آواز تو لگا سکوں۔"وشمہ نے کچھ دیر سوچا پھر اپنا نام بتایا
"وشمہ نام ہے میرا۔"
"صحیح ہی ہے۔"
"اففف تم اتنے عجیب کیوں ہو۔"
اچھا سوال ہے لیکن ایک بات کا دکھ ہے بس۔"
"دکھ فار واٹ۔"
"مطلب اب مجھ سے عجوبوں کی سردار عجیب ہونے کا پوچھ رہی ہے اب میں کیا جواب دوں بتاؤ۔"
"تم سے بات کرنا ہی فضول ہے۔"وہ پیر پٹختی آگے چلنے لگی
"او ہیلو میڈم ایک دنیا مجھ سے بات کرنے کو ترستی ہے میرا وقت بہت قیمتی ہے  کیپ دیٹ اِن یؤر مائنڈ اوکے۔"
"ہاہاہا ہاں صحیح کہا تمہارا وقت قیمتی تو ہوگا۔"
"آپ کو کیسے پتہ۔"
"اب دیکھو نا سونے کے بعد اور اٹھنے سے پہلے کا تمہارا ٹائم قیمتی ہی ہوتا ہے نا۔ اور اسی میں لوگ تم سے ملنے کو ترستے ہوں گے۔"وہ اسکی بات پر من ہی من میں مسکرایا
"ویسے بات سنو۔۔۔۔"وہ درخت کا سہارا لے کر آگے بڑھا کیونکہ راستہ بہت خراب تھا
"کہو۔" وشمہ بھی اس کے پیچھے ہی تھی
" بچپن سے ایسی ہی ہو یا جنگل میں آکر ایسی ہوئی ہو؟"
"کیا مطلب۔"
"مطلب بچپن میں اگر مضبوط کرلیا ہوتا نا تو گرتا نہیں۔"
"کیا مضبوط اور کیا نہیں گرتا۔"وہ الجھی
"وہی دماغ کا پیچ لوگوں کا ڈھیلا ہوتا ہے آپ کا ڈھیلا تو تھا یہاں آکر لگتا ہے گر ہی گیا ہے۔"
"وِل یو پلیز شٹ اپ ایک تو خوفناک جنگل اوپر سے اس کی بک بک اوہ گاڈ ہیلپ می۔"
"ہاہا گاڈ ڈو ناٹ ہیلپ انکائنڈ(unkind) پیپل"۔
"آہہہہ اللہ پلیز اسکا منہ بند کروائیں۔"
"کیوں میرے پیچھے پڑی ہو لڑکی یہ مانا میں نے کہ ہینڈسم ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں  اکیلا دیکھ کر ایڈوانٹیج لو۔"آج تو اس کے انداز ہی نرالے تھے زندگی میں پہلی بار وہ ایسے کسی سے فرینک ہوا تھا
"اوہ جسٹ شٹ اپ۔ نام کیا بتایا تھا تم نے؟ "
"ہاہاہا میں نے تو بتایا ہی نہیں۔ میری نقل اتارے بغیر بھی کہہ سکتی تھی کہ اپنا نام بتائیے خیر نا چیز کو دیان خان کہتے ہیں۔"
"ہنہہہہ ساؤنڈز لائک ڈائن۔"
"ارے اتنا اچھا نام تو ہے مجھے بھی آپ کا نام عجیب لگا لیکن میں نے تو ایسا نہیں کہا۔ اوہ اچھا سمجھا آپ نے جل کر یہ کہا۔"
"میں کیوں جلوں گی تمہارے نام سے۔"وشمہ نے سر جھٹکا
"بس بس اب میں اپنے نام کی کیا تعریف کروں۔"وہ اسکو چھیڑ کر محفوظ ہورہا تھا ورنہ اسے اس طرح باتیں کرتے  کوئی دیکھ لیتا تو غش کھا کر گر جاتا کہ دیان خان اور اتنی باتیں۔
فضول بات کرنا اسے پسند نا تھا لیکن آج وہ اس لڑکی کو زچ کرنے کے لئے بولتا ہی جارہا تھا
"آپ نے وہ مووی دیکھی ہے۔"اس نے بیگ اوپر کیا
"اس سچویشن میں تمہیں مووی یاد آرہی ہے میرا تو چلو گر گیا ہوگا تمہارا تو تھا ہی نہیں ۔"وہ مسکرایا اور دانتوں تلے اپنا نچلا ہونٹ دبا کر اسکو دیکھا جو جھنجھلا کر اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔
"ویسے اگر برا نا مانو تو ایک بات کہوں۔"
"اتنی دیر سے جو یہ نان اسٹاپ بولے جارہے ہو مجھ سے اجازت لیکر ہی تو بول رہے ہو ۔"وشمہ نے چِڑ کر کہا
"آپ کو ہنسی نہیں آتی کیا۔"
(اب وہ اسکو کیا بتاتی وہ اس سے زیادہ باتونی اور ہنس مکھ  ہے۔ لیکن اس وقت وہ ٹینس ہے جسکی وجہ سے اسے کچھ اچھا نہیں لگ رہا)"   فضول ہنسنے کی عادت نہیں ہے مجھے۔"
"جوکس پر بھی ہنسی نہیں آتی کیا؟"
"انسان ہوں اور جوکس ہنسنے کے لئے ہوتے ہیں۔"وہ بولتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی دیان نے یک دم اس کا بازو پکڑا کیونکہ پتھر سے وشمہ کا پاؤں پھِسل گیا تھا اس کی چیخ نکلتے نکلتے رکی
"دھیان سے چلو۔"
"یہاں سے تو میلوں دور بھی مجھے کسی انسان کی رہائش نہیں لگتی ہم کہاں جائیں گے۔" وہ روہانسی ہوگئ
"صحیح کہہ رہی ہو۔جنگل آگے زیادہ گھنا لگ رہا ہے ہمیں ابھی یہی رک جانا چاہیے۔"دیان سنجیدگی سے بولا
دیان نے موبائل کی روشنی سے اردگرد دیکھا چارو طرف لمبے گھنے درخت تھے ابھی وہ دیکھ ہی رہا تھا کہ اس کا موبائل بند ہوگیا وشمہ ایک دم گھبرا گئی
"دیان!" اس نے کانپتی آواز میں اسے پکارا
"ڈرو نہیں ادھر ہی ہوں موبائل ہے کیا؟ "وہ اس کے پاس آیا
"بیٹری لو  ہے۔ "
"بس اب ادھر ہی رکنا ہوگا۔"
"تمہارے پاس کوئی ٹارچ وغیرہ نہیں ہے کیا؟" وشمہ نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا
"نہیں۔"
"کسی کام کے انسان نہیں ہو تم۔"
"ایک منٹ یہ الزام مجھ پر کیوں۔"
"کیوں کا کیا مطلب ہے تمہارے پاس ٹارچ لائٹ تک نہیں ہے"۔
"واہ میڈم وشمہ۔۔۔۔۔۔ کہہ تو ایسے رہی ہو جیسے میں یہاں پوری تیاری سے آیا تھا یا یوں کہو کہ مجھے الہام ہوا تھا کہ جنگل میں پھنس جاؤں گا۔"
"اففف پھر بھی بندہ ٹارچ تو رکھتا ہے نا ساتھ ۔"
"اچھا تو آپ نے کیوں نہیں رکھی اب میں کہوں کہ  آپ کسی کام کی نہیں ہیں۔"
"دیکھو۔۔۔۔۔ ابھی لڑنا فضول ہے مل کر کوئی حل نکل سکتا ہے کیا ؟"
"تو  میں بھی یہی کہہ رہا تھا کہ مل کر کچھ سوچتے ہیں۔"
"لیکن کیا؟؟؟"
"ابھی تو کچھ نہیں ہوسکتا صبح ہی کچھ کریں گے۔" وہ نا چاہتے ہوئے بھی چپ ہوگئی کیوںکہ اس جنگل میں ان دونوں کو ہی ایک دوسرے کا آسرا تھا۔دیان نے دونوں بیگ نیچے رکھے پھر اپنے بیگ سے ایک شال نکالی اور نیچے بچھا کر درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا وشمہ منہ کھولے اسے دیکھے گئی چاند اپنی چاندنی بکھیر رہا تھا ۔
"پوری رات کیا اب کھڑی رہو گی بیٹھ جاؤ۔" وہ تھوڑا سا دوسری طرف ہوگیا
"آگ جلا لو. "
"کہہ تو ایسی رہی ہو جیسے میں جنگل کا رہائشی ہوں  فوراً سے پتھر گھس کر آگ جلا لوں گا۔"دیان جل کر بولا
"ارے ہاں پتھر کو گھسنے سے آگ جلائی جاسکتی ہے۔"وہ چہک کر بولی
" تو جلاؤ نا منع کس نے کیا ہے۔"
"تم جلاؤ میں لڑکی ہوں میں کیسے جلا سکتی ہوں۔"
"اچھا اب لڑکی  ہو۔"
'دیکھو پلیز بات کو سمجھو موبائل آف ہوچکے ہیں کچھ کرو"۔
"اچھا صبر کرو کچھ کرتا ہوں۔ "وہ وشمہ کی روہانسی آواز سن کر کھڑا ہوا۔ آس پاس سے لکڑیاں اور پتے جمع کیے پھر جیب سے لائٹر نکال کر آگ جلادی۔ وہ وشمہ کی طرف مُڑا دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اب وہ ایک دوسرے کو  دیکھ سکتے تھے دیان وشمہ کو دیکھتے ہی ٹھٹکا اس کی شکل اسے جانی پہچانی لگی
"تم جھوٹے انسان پہلے کہہ نہیں سکتے تھے کہ لائٹر ہے تمہارے پاس۔"
"آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں کہ آپ نے پتھروں کو گھس گھس کے آگ جلانے کی کوشش کرلی۔" وہ غصے سے سامنے جاکر بیٹھ گئی اور آگ کو دیکھنے لگی دیان بھی اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا دونوں کے درمیان خاموشی تھی سرد ہوتی رات میں آگ ان کے لیے کارآمد ثابت ہورہی تھی۔ سردی کی شدت میں کچھ کمی محسوس ہوئی تو دیان نے اپنے بیگ کی سائڈ جیب میں ہاتھ ڈالا
"کچھ کھاؤ گی؟"وشمہ نے اس کی طرف گردن موڑی وہ بسکٹ نکال رہا تھا  بسکٹ دیکھ کر وشمہ کی بھوک چمک اٹھی لیکن اس سے لیتے ہوئے وہ ہچکچائی دیان اس کی جھجھک سمجھ گیا۔ تین  بسکٹ نکال کر باقی پیکٹ اس کو دے دیا
"تھینک یو۔" وشمہ نے آہستہ سے پیکٹ پکڑلیا
"ایک بات پوچھوں وشمہ؟" کچھ دیر بعد وہ دوبارہ اس سے ہم کلام ہوا اب کی بار وہ سنجیدہ تھا وشمہ نے اسے دیکھا صاف رنگت،رعب دار شخصیت، دیکھنے میں تو وہ سنجیدہ ہی لگتا تھا۔ دل ہی دل میں وشمہ اس کی تعریف کررہی تھی بلاشبہ وہ بہت خوبصورت تھا۔
"وشمہ" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا تو وہ چونکی "جی"
"یہاں کیسے آئی ۔ وہ بھی اکیلی "
"میں تو اپنے گھر جارہی تھی دراصل میں لندن میں  تھی  آٹھ مہینے  پہلے ہی گئی تھی سمسٹر مکمل ہوگیا تو واپس گھر آ گئی  سرپرا ئز کے چکر میں کسی کو بتایا بھی نہیں ورنہ لالہ خود لینے آجاتے ، راستے میں بس خراب ہوگئی،ڈرائیور نے کہا پیدل سٹاپ تک چلی جائیں اور میں یہاں پہنچ گئی۔"
"گھر کہاں ہے؟"
"نیل جھیل کے پاس اور تم  یہاں کیسے آئے"
"میں بزنس کے لیے باہر گیا ہوا تھا کل ہی واپس آیا ہوں.اسلام آباد سے دوست کی گاڑی لے کر حویلی جارہا تھا  ایک سال میں یہاں کے تو راستے ہی  بدل گئے ہیں۔اچانک گاڑی کا ٹائیر پینچر ہوگیا  اور میں گھومتے گھومتے  آپ کے سامنے ہوں۔“
"گھر کتنا دور ہے؟"وشمہ نے پوچھا۔
"آپ کے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے  وادیِ جھیل میں ہی ہے“۔
"اچھا " دیان اسے دیکھتا رہا اس کے دل میں سوال اٹھ رہے تھے جو وہ وشمہ سے پوچھنا چاہ رہا تھا
"کیا ہوا کچھ پوچھنا ہے؟" اس کی نظریں خود پر محسوس کرکے وہ بولی۔
"ہاں آپ کے والد کا کیا نام ہے؟ "وشمہ چونکی اس کے چہرے کا رنگ اڑا
"کیوں کیا ہوا؟ " وہ بمشکل بولی
"نہیں کچھ نہیں  ایسے ہی پوچھ رہا تھا ،سوجائیں۔" وہ اپنا بیگ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا
"نہیں مجھے نیند نہیں آرہی۔"
"اچھا چلو پھر نگرانی کرو میں تو سو رہا ہوں۔"اور وشمہ اس کو دل ہی دل میں گالیاں دیتی کب سوئی اسے پتہ بھی نہیں چلا۔
★★★★★★★★★
review zror dijiay ga
writer Rafia Aziz

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Jul 13, 2023 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

دو راہی انجنانے Where stories live. Discover now