پرودگار ہماری مغفرت کرے

0 0 0
                                    

کچھ دن گزرے ہوں گے کہ زندگی گلزار تھی۔ صبح ﷲ کے کرم سے بیدار ہوتے۔ تیار ہوکر دو پہیوں والی گاڑی پر دھول مٹی پھانکتے دفتر پہنچتے۔ چائے کافی کے درمیانی وقفوں میں تھوڑا بہت کام بھی چلتا رہتا اور گھر واپسی پر کھانا تیار ملتا۔ رات میں پاکستانی ڈراموں پر سر دھنتے بیگم کی ساتھ وقت گزرتا۔ اور بلا آخر موبائل کے شیشے پر انگوٹھا گھستے گھستے نیند کی آغوش میں جھول جاتے۔ غرض یہ کہ ایک تسلسل تھا۔ لیکن جیسے کہ ہر عروج کو زوال ہے ویسے ہی قدرت کو کراچی کے باشندے کی زندگی میں یہ ربط قطعی نامنظور تھا۔

تو صاحبو یہ انہی دنوں کا ذکر ہے بلکہ یوں کہیے کہ اس ناہنجار اور نامعقول دن کا جس میں سورج تو نیزے پر سوار ہوا لیکن اجالا ہرگز نہ ہوسکا۔

جمعہ مبارک کا روز تھا۔ ویسے چند دن قبل ایک صاحب نے خبر دی کہ آج کل جمعہ کے ساتھ مبارک کا لاحقہ لگانے پر بھی ہلاکت کا سامنا ہے تو ایک وضاحت کردوں۔ وہ یہ کہ اس بابرکت دن کے ساتھ یہاں مبارک کا صیغہ نتھی کرنے کی وجہ شرعی نہیں۔ بلکہ یہ اہتمام ویک اینڈ سے پہلے ہونے والی اس خوشی سے منسوب ہے جس میں یہ شام چاند رات سے کم معلوم نہیں ہوتی۔ اس لیے میرے نوکری پیشہ مسلک میں ہفتہ اور اتوار کے ان شروعاتی لمحات کے ساتھ بےضرر دعائیہ کلمات کا اضافہ قطعی جائز ہے۔

خیر صاحب۔۔ حسب معمول ہم خشوع و خضوع سے نماز پڑھنے کے بہانے دفتر سے آدھی رخصت لے کر نکل چلے۔ بائیک پر ہچکولے کھاتے گھر کی قریبی مسجد پہنچے نماز پڑھی اور پھر سہ روزہ تبلیغی جماعت کے ترتیب پانے والے ترغیبی حلقے سے بچتے بچاتے باہر کو ہو لیے۔

یوں تو میں خاصا معقول آدمی ہوں لیکن ﷲ جانے کیوں جمعہ کی نماز سے گھر کی جانب جاتے ایک ایک کر کے سارے سدا بہار گانے یاد آجاتے ہیں۔ بس اسی دھن میں مگن "جب ہم ہوں گے ساٹھ سال کے" گنگناتے گھر میں گھس گئے۔

خلاف توقع آج حلال جانور کے گوشت سے بنی بریانی کی خوشبو نہیں آرہی تھی جو ہماری بیگم کا خاصہ ہے۔ بروز جمعہ پہلے وہ خدا کی رضا کا خیال کرتی ہیں اور پھر مجازی خدا کی۔ بریانی کی غیر حاظری پر ہمارا ماتھا تو ٹھنکا لیکن پھر دل کو سمجھایا کہ ہوسکتا ہے بیگم کی طبعیت ناساز ہو۔ نازنین کی بیماری کے خیال میں تڑپتے دل کو تھامے سوچ بچار کرتے کمرے تک چلے آئے۔

اندر داخل ہوئے تو کمرہ ایسے الٹا پڑا تھا جیسے گھر کے صرف اسی حصے میں بھونچال آیا ہو۔ ہماری اور بیگم کی مشترکہ الماری جس کا قریباً چار چوتھائی حصہ انھی کے قبضے میں ہے۔۔ بانہیں پھیلائے کھڑی تھی۔ نئے پرانے رنگین زنانہ کپڑے چاروں طرف بکھرے منہ چڑا رہے تھے۔ ہمارے اندیشے کے برعکس تندرست و توانا بیگم بےہودہ طرز کا گانا گنگناتی تھرک رہی تھیں۔ ساتھ ہی زور شور سے بناؤ سنگھار بھی جاری تھا۔

کمرے کی یہ حالت دیکھتے ہی میرے گناہ گار لبوں سے بےاختیار نکلا۔۔
غضب خدا کا بیگم۔۔ کیا حال کیا ہوا ہے کمرے کا؟ زلزلہ آیا تھا کیا یہاں؟

My Favourite WifeWhere stories live. Discover now