#Aqeedat_by_HinaButt
#1st_Episodeمجھے ابھی بھی اُمید تھی کہ میں پار لگ جاؤں گی۔ مجھے ابھی بھی ایک آسرا تھا۔ مجھے ابھی بھی صرف روشنی دکھائی دیتی تھی۔ میری آنکھیں جانتی ہی نہیں تھیں کہ اندھیرا کیا ہوتا ہے۔ میں نے کبھی گر کر دیکھا ہی نہیں تھا۔ کبھی مجھے بدگمانی کے سمندر میں پھینکا ہی نہیں گیا تھا۔ پھر میں کیسے مایوس ہو سکتی تھی۔ مجھ پہ تو ہمیشہ کرم ہی کرم ہوا تھا۔ پھر اب کیسے میں یہ آس چھوڑ دیتی کہ میں بچ نہیں پاؤں گی۔ مجھے یقین کی دولت ہی تو ملی تھی اِس جہان میں، جو میرا سب سے قیمتی اثاثہ تھا۔
______________________________________
اُس ویران سڑک پہ چلتے ہوئے مجھ پہ کوئی خوف طاری نہ ہوا تھا کیونکہ مجھے ہمیشہ اپنے قریب صرف اللہ کی مدد کا حصار محسوس ہوتا تھا۔ ابھی بھی میں اسی یقین کی چادر اوڑھے چلتی جا رہی تھی جب اچانک مجھے سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پہ ایک شخص نظر آیا۔ میرے قدم خود بخود اُس جانب بڑھنے لگے۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ بہت ئکلیف میں ہے۔ وہ رو رہا تھا اور اُس کے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا۔ نہیں بلکہ اُس کے جسم سے بہت سی جگہوں سے خون رس رہا تھا۔ اُس کی گود میں ایک بہت پیارا سا بچہ تھا جو رو رو کر ہلکان ہو رہا تھا۔ اُس شخص کی ہچکیوں میں بہت درد تھا۔ میں نے کبھی ایسی خوفناک مدھم آواز نہیں سنی تھی۔ اُسے سانس لینے میں بھی مشکل پیش آر ہی تھی۔ وہ اپنی پریشانی و تکلیف میں ہوش سے اس قدر بیگانہ تھا کہ اُسے میرے اپنے پاس آ کر بیٹھنے کا بھی پتہ نہیں چلا۔ وہ خود گرنے والے انداز میں فٹ پاتھ پر پڑا تھا۔ میں نے اُسے مخاطب کیا۔
"بھائی صاحب کیا ہوا ہے آپ کو؟ آپ ٹھیک نہیں ہیں۔ آپ کو ہوسپٹل جانا چاہیے۔ یہ بچہ۔۔۔"
وہ جو میرے مخاطب کرنے سے میری جانب دیکھ رہا تھا، میرے الفاظ کاٹتے ہوئے بولا
"آپ۔۔۔ آپ۔۔۔اسے۔۔۔آپ اسے رکھ لیں۔ یہ۔۔۔یہ۔۔۔یہ کیسے۔۔۔کیسے جیے گا۔۔۔آپ۔۔آپ لے لیں۔"
وہ بس اتنا ہی بول سکا۔ وہ آہستہ آہستہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو رہا تھا۔ غنودگی اُس کے حواسوں پہ چھا رہی تھی۔ اُس کی ہچکیاں ہنوز برقرار تھیں اور پھر وہ کچھ ہی دیر میں مکمل طور پہ اپنے حواس کھو بیٹھا تھا۔ بچہ اُسکے بازوؤں میں سے گرنے لگا تھا جب میں نے اُسے تھاما
"آپ ٹھیک ہیں؟ سنیے۔ دیکھیے میں ایمبولنس بلا لیتی ہوں۔"
جواب ندارد۔ میں نے آگے بڑھ کر اُس کی نبض چیک کی۔اُسے بہت بار ہلایا۔ آواز دی۔ کوئی فائدہ نہ ہوا۔ وہ مر چکا تھا۔ مجھے بہت خوف آنے لگا تھا۔ میں نے کبھی کسی کو اتنے کرب میں مرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اُس شخص کا خون بچے کے کپڑوں پہ بھی جا بجا لگا ہوا تھا۔ بچہ فقط چند دن کا معلوم ہوتا تھا۔ اُس ننھی جان کو اپنے ہاتھوں میں لیے میں حیران و پریشان تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں۔ میں نے آدھا گھنٹہ اُسی حالت میں بیٹھے گزار دیا۔ پھر اچانک میں اُٹھی اور اُس بچے کو گود میں لیے اپنے گھر کی جانب چل دی۔______________________________________
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں
ہم نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں
YOU ARE READING
"عقیدت" از "حناء بٹ"
General Fiction"عقیدت ہی موحد کو موحد بناتی ہے۔ عقیدت کے بغیر موحد کچھ نہیں۔ اِس دنیا میں کوئی بھی عقیدت کے بغیر موحد نہیں بن سکتا۔" - عقیدت از حناء بٹ